طرزِ کلام…بدکلام گزشتہ سے پیوستہ

پراچہ صاحبان نے بھیرہ میں ایسا ایس ایچ او لگوایا ہوا ہے جو مجھے دیکھتے ہی گالیاں دینا شروع کردیتا ہے


[email protected]

راقم کھلی کچہریوں میں عوام کو انصاف کی اہمیت سے روشناس کراتے ہوئے بتاتا کہ کائناتوں کے خالق اورمالک نے انصاف کا کیا معیار مقرر کیا ہے۔معیار یہ ہے کہ" ہر صورت میں انصاف کرو، چاہے تمہیں فیصلہ اپنے والدین یا اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ کرنا پڑے"۔ پھر اﷲتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے اِعدلو وَ ھُواَقربُ لِتِّقویٰ۔(انصاف کرو کہ انصاف ہی تقوٰی کے قریب ہے) اﷲکا قرب اسے حاصل ہوگاجس میں تقویٰ ہوگا اور انصاف تقویٰ کے قریب پہنچا دیتا ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کے لیے انصاف کرنا ہوگا۔

انصاف کو یقینی بنانے کے لیے گواہی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے متعلق بھی اﷲتعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ لا تَکتَمُو الشَّھادَۃ مَن یَّکتمُو الشَّھادۃ فَاَثِمُُ' قَلبہ، (شہادت مت چھپاؤ جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ آلود ہے)اس قرآنی آیت کی روشنی میں حاضرین کوبتایا جاتا کہ سچی شہادت دینایعنی متعلّقہ سرکاری حکّام تک اصل حقائق پہنچانا ہر شخص کا قانونی ہی نہیں دینی فریضہ بھی ہے۔ خالق و مالک نے متعلقہ حکاّم تک حقائق نہ پہنچانے اور انھیں چھپانے کو گناہ قرار دیا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مختلف وجوہ کی بناء پر لوگ گواہی یا شہادت دینے سے گریز کرتے ہیں لہٰذا عوام کو گواہی پر تیار کرنے کے لیے احکامِ الٰہی سے زیادہ اور کوئی چیز موثّر ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس بات پر بار بار زور دینے سے اچھے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور گواہی دینے کے معاملے میں لوگوں کا خوف اور جھجک دور ہونے لگی۔

ایک روز علی الصّبح جب میں دفتر جانے کی تیاری کررہا تھا کہ اردلی نے چٹ لاکر دی جس پر لکھا تھا 'ڈاکٹرمحمد اعجاز بھرتھ' میں نے اردلی سے کہا ملاقاتی کو ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ۔ تھوڑی دیر بعد میں ڈرائینگ روم میں پہنچا توایک جوان اور خوبرو شخص میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے ہاتھ ملانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ میرے گلے لگ کر رونے لگا۔ میں نے تسلّی دیتے ہوئے پوچھا "ڈاکٹر صاحب بات کیا ہے؟" کہنے لگا "میں صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہوں، میرا مقابلہ حکومتی پارٹی کے بااثر پراچہ خاندان سے ہے جنہوں نے میرا جینا حرام کر رکھّا ہے۔

پراچہ صاحبان نے بھیرہ میں ایسا ایس ایچ او لگوایا ہوا ہے جو مجھے دیکھتے ہی گالیاں دینا شروع کردیتا ہے، میرے خلاف آئے روزجھوٹے مقدمے بناتا ہے اورمجھے لوگوں کے سامنے بے عزّت کرتا رہتا ہے"۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہSHO" کی تعیناتی یا تبادلے کا اختیار تو ایس ایس پی کے پاس ہوتا ہے مگر آپ کے خلاف اب کوئی جھوٹا کیس درج نہیں ہوگا اور آپکو انصاف ملے گا" دفتر پہنچتے ہی میں نے SHOبھیرہ کو طلب کیا۔کچھ دیر بعد ایک بھاری بھرکم مدقوق چہرے والے باوردی شخض نے کمرے میں داخل ہوکر سیلیوٹ کیا تو معلوم ہوایہ SHOبھیرہ ہے۔

میں نے اس سے پوچھا "ڈاکٹر اعجاز بھرتھ نے کونسا جرم کیا ہے جو تم اس کے خلاف جھوٹے مقدمے بنارہے ہو؟" کہنے لگا "جُناب یہ ڈاکٹر بہت بڑا دھشت گرد ہے جُناب" (پرانے تھانیدار فقرے کے آغاز اور اختتام پر جُناب کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جناب بھی وہ جسمیں جیم کے اوپر پیش ہو۔ کئی نوکری باز قسم کے پی ایس پی افسروں نے بھی تھانیدارانہ اندازِ تکلّم اپنالیا ہے)میں نے بھیرہ کی اہم شخصیات کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا "صرف پراچہ صاحبان خاندانی لوگ ہیں باقی سب جرائم پیشہ ہیںجُناب " میں نے پوچھا "معروف عالمِ دین پیر کرم شاہ صاحب بھی تو وہیں کے رہنے والے ہیں"، کہنے لگا "وہ بھی بڑا تخریب کار ہے جُناب" ۔ اب مجھ سے برداشت نہ ہوا میں نے کہا" اوئے بدبخت اتنی بڑی دینی شخصیّت اور صالح انسان کے لیے ایسی گھٹیازبان استعمال کررہے ہو "Get out from my office you stupid man! میں نے اسے دفتر سے نکال دیا مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ صرف ایک سیاسی دھڑے کا پالتو اور پروردہ ہے، اس سے انصاف اور غیر جانبداری کی توقّع نہیں کی جا سکتی ۔

میں نے ایس ایس پی صاحب کو لکھ دیا کہ اسے فوراً یہاں سے ٹرانسفر کیا جائے۔ پراچہ صاحب حکومت کے بااثر وزیر بھی تھے اور ایس ایس پی سے ان کی دوستی بھی تھی اس لیے اس کی ٹرانسفر فوری طور پر نہ ہوسکی مگرجب تک وہ اس تھانے میںرہا میں نے اس پر پابندی لگادی کہ ہر کیس درج کرنے سے پہلے وہ مجھے حقائق سے آگاہ کرے گا میں خود تصدیق کرونگا توپھرایف آئی آر درج ہوگی۔ چند روز بعد ڈاکٹر بھرتھ مجھے ملنے آیا تو میں نے ٹشو پیپر آگے بڑھاتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آج اس کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے، ہنس کر کہنے لگا "میں شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ اب میرے ساتھ پولیس کی طرف سے زیادتی نہیں ہورہی"۔

دفتر میں ایک روز شوگر مل کا مینیجر(جنرل مینیجرنہیں، وہ بڑے شریف النفس انسان تھے) ملنے آیا، میں نے چائے پلانے کے بعد کام پوچھا تو اس نے ایک جرم میں ملوّت شخص کی سفارش کی کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ میں نے اس کی سفارش سختی سے رد کردی اور یہ بھی بتایا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بڑی سختی سے نمٹا جائیگا، منیجر مایوس ہوکر دفتر سے چلا گیا۔ اس کے جانے کے فوراً بعد میں نے ریسٹ ہاؤس میںاپنے اردلی کو فون کیا کہ بیگ باندھ لو اب میں شوگر ملز کے ریسٹ ہاؤس میں نہیں رہونگا۔ پرائیویٹ مِل کے ریسٹ ہاؤس میں رہنا مجھے ویسے بھی بڑا معیوب لگتاتھا اور ایک ایک دن میرے لیے بوجھ تھا۔ چنانچہ میں نے واپڈا کے ایکسیئن چوہدری منیر صاحب سے بات کی اور اسی رات واپڈا کے ریسٹ ہاؤس میں شفٹ ہوگیا۔

میراروٹین اسطرح کا تھا کہ مغرب کے وقت میںدفتر سے نکلتا ریسٹ ہاؤس پہنچ کر دوڑتا ہوا ٹینس کورٹ جاتا، تھوڑی دیر ٹینس کھیلتا اس کے بعد نہا نے اورکھانا کھانے کے بعد باہر نکل جاتاکبھی کوئی موقعۂ واردات دیکھتا، کبھی کسی کیس کے فریقین کا موقّف سنتا، کبھی سنسان راستوں پر پٹرولنگ کرتا اور کبھی کسی پولیس اسٹیشن کا اچانک معائنہ کرتا اور حوالات میں بند افراد سے پوچھ گچھ کرتا اور اگر کسی کو ناجائز پکڑ کرتھانے میں بند کیا ہوتا تو اسے اسی وقت قید سے رہائی دلاتا اور بند کرنے والے پولیس افسر کے خلاف کاروائی کرتا۔ ایک رات میں تھانہ مڈھ رانجھا میں اچانک معائنے کے لیے پہنچ گیااور مقامی ایم پی اے (جو مویشی چور اور رسہ گیر ہونے کی شہرت رکھتا تھا) کی ہسٹری شیٹ منگو ا کر پڑھنے لگا ۔

تھانوں میں جرائم پیشہ عناصر کی ہسٹری شیٹس تیار کی جاتی ہیں جن میں ان کے بارے میں تمام معلومات درج کی جاتی ہیں۔ ہسٹری شیٹ میں مختلف کالم ہوتے ہیں جن میں اس کے متعلق ہر قسم کی معلومات درج کی جاتی ہیں کہ یہ شخص کونسی زبان بولتا ہے کیسا لباس پہنتا ہے اس کے دوست کون کونسے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ زبان، لباس اور دوستوں کے کالم کے بعد اگلے کالم کا عنوان تھا طرزِ کلام جسکے جواب میں لکھّاتھا بدکلام۔ یعنی طرزِ کلام ...بدکلام (آج اُس ایم پی اے کی یہ خاصیّت لکھتے ہوئے بے اختیار موجودہ دور کے کچھ سیاسی راہنما بھی یاد آرہے ہیں) ۔ کسی قابل اور محنتی ایس ایچ او نے اس کا خاکہ بڑی خوبصورتی سے کھینچتے ہوئے تحریر کیا تھاکہ "اگر ان صاحب کو سُلطانُ السّاَرقین( King of Thives) کہا جائے تو غلط نہ ہوگا"۔ اب محنتی اور قابل تھانیدار ناپَید ہوچکے ہیں اور اگر ہیں بھی تو علاقے کی بااثرشخصیات کے متعّلق غیرجانبدارانہ رائے تحریر نہیں کرتے۔

دفتر میں بیٹھے ہوئے ایک روز فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو آپریٹر نے کہا وزیرِ داخلہ صاحب بات کریں گے، تھوڑی دیر بعد وزیرِ داخلہ لائن پر آگئے اور قتل کے ایک زیرِ تفتیش کیس کے بارے میں ملزمان کی سفارش کرنے لگے، میں نے گزارش کی "سر!تفتیش سو فیصد میرٹ پر ہوگی"... میں نے محسوس کیاکہ' میرٹ' کا لفظ وزیرِ صاحب کی طبیعت پر گراں گزرا ہے جس سے ان کا پارہ اور آواز دونوں بلند ہوگئے۔ وز یر صاحب تحکمانہ لہجے میں اصرار کرتے رہے کہ ملزمان کو بے گناہ قرار دیکر چھوڑ دیا جائے۔کائناتوں کے خالق و مالک نے نوجوان اے ایس پی کو استقامت بخشی اور ایک جونیئر پولیس افسر نے ملک کے طاقتور وزیرِداخلہ کو واضح طور پر بتادیا کہ "سر! وہی ہوگا جو قانون اور انصاف کا تقاضا ہے" اﷲ اور رسولؐ کے بعد پولیس افسر کی کرسی کے اوپر لٹکی ہوئی بابائے قوم کی تصویر بھی ایسے موقعوں پر راہنمائی کرتی رہی ہے۔

کیس کی تفتیش وزیرموصوف کی خواہش پر نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق مکمّل کی گئی۔ نوجوان افسروں کے لیے میرا یہ پیغام ہے کہ ربّ ِکائنات تمام حکمرانوں سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑا حکمران ہے اُس پر بھروسہ رکھیں نوکری بچانے کی خاطر کبھی بے ضمیری اور بے اصولی کے مرتکب نہ ہوں، اﷲتعالیٰ خودآپ کی حفاظت کریں گے۔ اگر آپ رزقِ حلال کھاتے ہیں اور اچھی Intentionsیعنی نیک نیّتی سے کام کرتے ہیں تو کوئی بڑے سے بڑا طاقتور شخص بھی آپکا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں