فاطمہ جناح کراچی کی عظیم بیٹی
ہماری نوجوان نسل ان کے نام سے آگاہ ہے لیکن یہ نہیں جانتی کہ ان کی ہماری سیاست میں کیا اہمیت ہے۔
31 جولائی گزر گئی اور ہم میں سے بہت کم لوگوں کو وہ بچی یاد آئی جو کراچی کے نیو نہام روڈ پر بنی ہوئی ایک عمارت میں 1893ء کو پیدا ہوئی تھی۔ یہ بچی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا، جسے ہم فاطمہ جناح کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ بانی پاکستان کی چھوٹی بہن، جس نے اپنی زندگی کی تمام خوشیاں اپنے بڑے بھائی کی زندگی کی دیکھ ریکھ اور اس کے سیاسی کیریئر کے لیے قربان کردی۔
ہماری نوجوان نسل ان کے نام سے آگاہ ہے لیکن یہ نہیں جانتی کہ ان کی ہماری سیاست میں کیا اہمیت ہے۔ وہ ہماری ان عورتوں میں تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کی ابتدا میں جدید تعلیم حاصل کی۔ خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود محمد علی جناح نے اپنی بہن کو پہلے باندرہ کانونٹ اور پھر سینٹ پیٹرک اسکول، کھنڈالا میں داخل کرادیا۔ 1913ء میں انھوں نے سینئر کیمبرج کیا۔ انھیں ڈینٹسٹری پسند تھی، چنانچہ ان کے بھائی محمد علی جناح نے 1919ء میں انھیں بمبئی سے کلکتہ بھیج دیا، جہاں انھوں نے ہوسٹل میں رہ کر دندان سازی کی تعلیم حاصل کی۔ 1922ء میں وہ دندان ساز بن کر واپس بمبئی آئیں تو عبدالرحٰمن اسٹریٹ پر اپنا کلینک قائم کیا اور شہر کی جانی مانی میونسپل ڈسپنسری دھوبی تلاؤ میں غریبوں کے لیے مفت علاج شروع کیا۔
آہستہ آہستہ جناح صاحب کی سیاسی سرگرمیاں بڑھتی گئیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب فاطمہ جناح کو کسی مناسب شخص کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرنا چاہیے تھی لیکن انھوں نے تمام ذاتی خواہشات کو تج کر جناح صاحب کی تحریک پاکستان سے وابستگی اختیار کری۔ یہ وابستگی اتنی گہری تھی جس کا اعتراف جناح صاحب نے اپنے قریبی لوگوں کے سامنے یوں کیا کہ ''مسلم لیگ کیا ہے؟ صرف میں، میری بہن اور میرا ٹائپسٹ''۔
وہ ایک صاف گو اور راست باز انسان تھیں۔ بانی پاکستان کی رخصت کے بعد پاکستان میں جس انداز کی سیاست ہورہی تھی، وہ محترمہ فاطمہ جناح کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ یہ بات ببانگ دہل کہتی تھیں کہ پاکستان اس لیے نہیں وجود میں آیا تھا کہ غریب، غریب تر ہوجائیں اور امیر، امیر تر۔ انھوں نے سیاست سے حتی الامکان دامن بچایا لیکن ایوب خان کی آمریت ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔
یہی وجہ تھی کہ جب متحدہ اپوزیشن نے انھیں ایوب خان کے مدمقابل صدارتی امیدوار بنانا چاہا تو بہت ردو قدح کے بعد وہ اس کے لیے راضی ہوئیں۔ عوام کے لیے اس سے بڑی خوش خبری کوئی اور نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ 6 برس سے ایک بدعنوان اور نااہل آمر کو بھگت رہے تھے، ان کے لیے یہ نادر موقع تھا کہ وہ اس عورت کو کامیاب کریں جس کی عمر 64 برس تھی، جس کی بے داغ زندگی کی ان کے سامنے تھی اور جو ان کے قائد کی ہم را زو دمساز بہن تھی۔ یہ جنرل ایوب کے لیے ایک اتنا بڑا دھماکا تھا جس نے انھیں اور ان کے حواریوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جس قدر گری ہوئی مہم چلائی گئی، اس کا آج شاید بہت سے لوگوں کو اندازہ بھی نہ ہو۔ ان کے خلاف علمائے سو نے فتوے دیے کہ کسی مسلم سماج میں عورت کی سربراہی حرام ہے۔ ان کی عمر اور کمزور صحت کو بھی نشانے پر رکھا گیا۔
وہ جب صدارتی مہم کے لیے نکلیں تو کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اپنی عمر اور کمزور صحت کے ساتھ وہ ملک کے مختلف شہروں کے طوفانی دورے کریں گی۔ اس مہم کے دوران انھیں 'مادر ملت' کا خطاب دیا گیا اور لاکھوں لوگوں نے مختلف شہروں میں ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے زہریلے گولوں کو برداشت کیا۔ وہ مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں گئیں جہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اکتوبر 1964ء میں وہ پلٹن میدان پہنچیں تو عوام کا سمندر تھا جو ان کے حق میں نعرے لگا رہا تھا۔ انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
''مجھے خوشی ہے کہ بالآخر ہمارے مخالفین کو اس کا احساس ہوگیا ہے کہ یہ انتخابات دو افراد کے درمیان نہیں بلکہ دو نظاموں کے درمیان لڑے جارہے ہیں۔ ایک طرف آمریت کا راستہ ہے تو دوسری طرف آزادی اور انسانی عظمت کی راہ ہے۔ اگر آپ پہلی راہ اختیار کرتے ہیں تو آپ کی تقدیر ایک آدمی کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے جب کہ دوسری راہ اختیار کرنے سے آپ اپنی قسمت کے خود مالک بن جاتے ہیں۔ اب یہ آپ پہ ہے کہ ان دونوں میں سے کونسی راہ منتخب کرتے ہیں''۔
وہ کھلنا پہنچیں تو انھوں نے کہا: عوام کی ذہانت کی اس سے بڑھ کر کوئی اور توہین نہیں ہوسکتی کہ ان کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ جاہل، ناقابلِ اعتماد اور خود اپنے ہی معاملات چلانے کے لائق نہیں ہیں اور پھر اس بے بنیاد رائے کی بناء پہ جمہوریت کے بجائے کوئی اور نظام وضع اور نافذ کیا جائے۔ عوام آج یہ بتانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے معاملے میں کسی قسم کی کوئی پابندی برداشت نہیں کریں گے اور جمہوریت کی کوئی بھی ملاوٹ شدہ شکل ان کے لیے کسی قیمت پہ قابلِ قبول نہیں ہوگی''۔
وہ جس تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھیں، لاکھوں کے جلسوں سے خطاب کررہی تھیں، ان کے مخالفین کے لیے یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ مشرقی پاکستان میں آنے والے سیلاب ہر برس جو تباہ کاری پھیلاتے تھے، جس طرح انسان اور ڈھور ڈنگر بپھرے ہوئے دریاؤں کی لہروں پر تنکے کی طرح بہتے چلے جاتے تھے، اس کی انھوں نے خبریں پڑھی تھیں، تصویریں اور فلمیں دیکھی تھیں اور ان پر اشک بار ہوئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ کیا مشرقی اور کیا مغربی پاکستان دونوں کے عوام بھیڑیوں کے آگے ڈال دیے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ تحریک پاکستان چلائی تھی، یہ جانتی تھیں کہ لوگوں نے جوق در جوق اگر ان کے بھائی کے جلسوں میں شرکت کی تھی اور پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا تو اس کا مقصد سماجی انصاف اور جمہوری اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا تھا لیکن پاکستان میں یہ تمام اصول غاصبوں نے غصب کرلیے تھے۔
اپنے پیروں تلے روند دیے تھے۔ ان کی مجبوری تھی کہ وہ صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کے مدمقابل ہوں لیکن وہ یہ سمجھتی تھیں کہ پاکستان صدارتی نظام کے لیے موزوں نہیں، وہ پارلیمانی نظام کی حامی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: ''طاقت کے زور پر حکومت کرنے کا زمانہ اب گزر چکا۔ بدقسمتی سے اکتوبر 1958ء کے واقعات نے جمہوری ممالک میں پاکستان کو جس قدر بے عزت کر دیا ہے اس کی وجہ سے آج جب کسی جمہوری ملک کے عوام سے ہمارا سامنا ہوتا ہے تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔''
وہ 'مادر ملت' تھیں، انھوں نے اپنی تمام ترجسمانی اور ذہنی قوت اکٹھا کرکے ایک آمر کے خلاف جمہوری جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان ، کراچی اور چند دوسرے شہروں سے وہ جیت گئیں لیکن دوسرے شہروں سے انھیں دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا۔ وہ بظاہر ہار گئیں لیکن عوام کے دلوں سے آمر اور آمریت کا خوف نکل گیا۔ مشرقی پاکستان نے اسے اپنی توہین قرار دیا کہ ان کی منختب کردہ 'مادر ملت' کو دھونس اور دھاندلی سے شکست دی گئی اور اس توہین کو انھوں نے اپنے دل میں رکھ لیا۔ آج ہی نہیں بہت پہلے سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ 64کے صدارتی انتخابات میں مادر ملت اگر جیت جاتیں تو مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا۔
31جولائی گزر گئی، ہم نے رسمی طور پر انھیں یاد کیا اور بس۔ جی چاہتا ہے کہ کراچی میں پیدا ہونے والی اس عورت کی دادو تحسین کریں جس کی زندگی کا مقصد پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور عوام کو سماجی انصاف سے ہم کنار کرنا تھا۔ کراچی کی نیو نہام روڈ پر پیدا ہونے والی فاطمہ جناح ہمارے لیے باعثِ عزت و اعزاز ہیں جنہوں نے آخری سانس تک جمہوریت کی جنگ لڑی۔