نیا علاج معالجہ
ہمارے ہاں ہندوستان میں یونانی طب رائج ہے اور اس طب میں ایسے ایسے طبیب پیدا کیے جن کے کارناموں پر حیرت ہوتی ہے
لاہور:
میں ابھی ابھی اپنے پڑوسی اسپتال سے آ رہا ہوں جہاں کی تجربہ گاہ والوں نے میرے خون کا کچھ حصہ پھر اپنے پاس رکھ لیا ہے، وہ اس سے پہلے بھی میرے خون کو اپنی تجربہ گاہ کے لیے لے چکے ہیں اور میرے استحصال کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب بھی میں کسی تکلیف کے علاج کے لیے اس ہستپال میں جاتا ہوں تو ڈاکٹر حضرات میرے خون کا کچھ حصہ بھی میرے ناتواں جسم سے کھینچ لیتے ہیں جو ان کی لیبارٹری میں جمع ہو جاتا ہے اور جس کے تجزیے کی بنیاد پر ڈاکٹر میرا علاج شروع کر دیتے ہیں۔
جب لیبارٹری والے سرنج وغیرہ لے کر میرے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ ابھی میں نے چند دن پہلے خون دیا ہے وہ آپ کے پاس ہو گا لیکن ان کا ایک تکنیکی جواب ہوتا ہے کہ انسانی خون بدلتا رہتا ہے اس پر زیادہ دن اعتبار نہیںکیا جا سکتا اس لیے تازہ ترین خون کی ضرورت ہے۔
یہاں سے میں نے انسان کی بے اعتباری کا اندازہ لگایا کہ لوگ بدلتے کیوں ہیں، یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے بلکہ ان کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار ہی ایسی ہوتی ہے کہ جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ دن رات بدلتی ہے جو ان کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے اس لیے اگر کوئی آپ سے بے وفائی کرے تو آپ اس سے ناراض نہ ہوں، ہو سکتا ہے اس کے پیچھے اس کے خون کی گردش ہو جو کسی غلط راستے پر چل رہی ہو۔ میں نہ ڈاکٹر نہ سائنس دان بس خبروں سے یہ خیال پیدا ہوا جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے لیکن ذہن کی لیبارٹری یہی کہتی ہے کہ خون بدلتا ہے اور اس کے ساتھ خون والا بھی لیکن یہ بات تجربے میں غلط ثابت ہوتی ہے، کچھ لوگ جو قابل اعتماد ہوتے ہیں وہ قابل اعتماد ہی رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعتبار اور اعتماد پر یہ دنیا چل رہی ہے اور غلط کار اور بے اعتبار انسانوں کو قابو میں رکھتی ہے تا کہ کاروبار حیات رواں دواں رہے۔
میں نے ابھی ابھی کہا ہے کہ میں ایک اسپتال سے آ رہا ہوں جہاں انسانوں کا علاج ڈاکٹر کرتے ہیں۔ ہمارا پرانا طریقہ قدیم طب کا تھا جسے یونانی طب بھی کہا جاتا تھا۔ یہ طب یونانیوں نے انسانی علاج کے لیے ایجاد کی تھی جو ان کے نام سے رائج ہو گئی۔ ہمارے بعض طبیب حضرات اسے اسلامی طب کہتے ہیں جو بہرحال حقیقت کے خلاف ہے اگر انسانی علاج کی کسی قوم نے کوئی خدمت کی ہے تووہ ایک انسانی ورثہ ہے کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان طبیب ہوں یا کسی دوسرے قوم کے طبیب یہ سب انسانوں کی خدمت کے لیے تھے۔
ہمارے ہاں ہندوستان میں یونانی طب رائج ہے اور اس طب میں ایسے ایسے طبیب پیدا کیے جن کے کارناموں پر حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً حکیم اجمل خان کو لیجیے جو ایک طبیب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا زمانہ برطانوی سامراج کا زمانہ تھا ۔ ایک لڑکی کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ اس وقت کے ڈاکٹروں نے اس لڑکی کے آپریشن کا مشورہ دیا۔ حکیم اجمل خان سے بھی رابطہ کیا گیا جنہوں نے حالات کا بغور مطالعہ کر کے فیصلہ دیا کہ اس لڑکی کی ٹینس کھیلتے ہوئے پیٹ کی ناڑ ہل گئی ہے اور دوسری ناڑ پر چڑھ گئی ہے اس لیے یہ کچھ کھیلنا شروع کر دے اور عین ممکن ہے یہ ناڑ خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے۔ حکیم صاحب نے کھیل کا ایک خاص طریقہ بھی بتلایا اور دو ایک روز بعد یہ برطانوی لڑکی درست ہو گئی اور پھر سے کھیلنے لگ گئی۔
یہ مسلمان طبیب کوئی فیس نہیں لیتے تھے بلکہ علاج مفت کرتے تھے۔ ایک معمول تھا کہ دلی کے شہری اپنے مریض لے کر گھروں کے باہر بیٹھ جاتے تھے۔ حکیم اجمل خان ہر روز شام کے وقت شہر کی سیر کو نکلتے تھے وہ اپنی اس سیر کے دوران مریضوں کو بھی دیکھتے جاتے اور حکیم اجمل خان کا علاج تو اکسیر ہوتا تھا۔ یہ ان مریضوں کے لیے تھا جن کو ان کے وارث حکیم صاحب کے مطب پر نہیں لا سکتے تھے۔ چونکہ طب ذریعہ آمدنی نہیں تھا آج کے بے انتہائی مہنگے ڈاکٹری علاج کو جو آج بھی کسی کے بس میں نہیں تب تو لوگ غریب تھے اور بمشکل عام سا علاج کرا سکتے تھے۔ لیکن مسلمان طبیبوں نے اس کا ایک علاج نکالا کہ طب کا پیشہ عوام کے لیے مفت کر دیا بلکہ مشہور ہے کہ مستحق مریضوں کو دوائیں بھی مفت دے دیتے تھے۔
طب کا شعبہ مسلمانوں کا پرانا شعبہ تھا جس میں انسانی خدمت کے سوا کچھ نہ تھا اور مسلمان معالجوں نے اسے عوام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اسپتال بھی بنوائے یہاں وقت کے اہم طبیب عام مریضوں کو مفت دیکھتے تھے اور ان اسپتالوں کے قریب کچھ دوا خانے بھی قائم کیے گئے جن میں صاحب حیثیت مسلمان عوام کے لیے مفت ادویات رکھوا دیتے تھے۔ جیسا کہ ہمیں اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے بہت سے نئے فنون کو انسانی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا جس میں طب کا فن سرفہرست تھا کیونکہ انسانوں کی خدمت کے لیے اس زمانے میں اس سے بڑا کوئی طریقہ نہ تھا۔
علم طب کے مدرسے عام تھے جہاں ظاہر ہے کہ کسی طالب علم سے کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی اور ان طلبہ کو عوام کی خدمت کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ طب کے اس شعبے سے بڑے نامور طبیب نکلے جنہوں نے 'ابن الہشیم' کی طرح انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں تحقیق کی۔ آنکھوں کی ساخت کے بارے میں آج بھی ابن الہشیم ایک سند ہے جس نے انسانوں کو بتایا کہ وہ دیکھتے کیسے ہیں۔
ان کی تحقیق پر آنکھوں کی طب کی بنیاد رکھی گئی۔ ایسے کئی دوسرے شعبے بھی ہیں جہاں مسلمانوں نے زندگی کا رخ ہی بدل دیا اور آج کی سائنس نہ جانے کتنے شعبوں میں اسلامی سائنس دانوں کی تحقیق کی محتاج ہے۔
میں ابھی ابھی اپنے پڑوسی اسپتال سے آ رہا ہوں جہاں کی تجربہ گاہ والوں نے میرے خون کا کچھ حصہ پھر اپنے پاس رکھ لیا ہے، وہ اس سے پہلے بھی میرے خون کو اپنی تجربہ گاہ کے لیے لے چکے ہیں اور میرے استحصال کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب بھی میں کسی تکلیف کے علاج کے لیے اس ہستپال میں جاتا ہوں تو ڈاکٹر حضرات میرے خون کا کچھ حصہ بھی میرے ناتواں جسم سے کھینچ لیتے ہیں جو ان کی لیبارٹری میں جمع ہو جاتا ہے اور جس کے تجزیے کی بنیاد پر ڈاکٹر میرا علاج شروع کر دیتے ہیں۔
جب لیبارٹری والے سرنج وغیرہ لے کر میرے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ ابھی میں نے چند دن پہلے خون دیا ہے وہ آپ کے پاس ہو گا لیکن ان کا ایک تکنیکی جواب ہوتا ہے کہ انسانی خون بدلتا رہتا ہے اس پر زیادہ دن اعتبار نہیںکیا جا سکتا اس لیے تازہ ترین خون کی ضرورت ہے۔
یہاں سے میں نے انسان کی بے اعتباری کا اندازہ لگایا کہ لوگ بدلتے کیوں ہیں، یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے بلکہ ان کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار ہی ایسی ہوتی ہے کہ جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ دن رات بدلتی ہے جو ان کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے اس لیے اگر کوئی آپ سے بے وفائی کرے تو آپ اس سے ناراض نہ ہوں، ہو سکتا ہے اس کے پیچھے اس کے خون کی گردش ہو جو کسی غلط راستے پر چل رہی ہو۔ میں نہ ڈاکٹر نہ سائنس دان بس خبروں سے یہ خیال پیدا ہوا جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے لیکن ذہن کی لیبارٹری یہی کہتی ہے کہ خون بدلتا ہے اور اس کے ساتھ خون والا بھی لیکن یہ بات تجربے میں غلط ثابت ہوتی ہے، کچھ لوگ جو قابل اعتماد ہوتے ہیں وہ قابل اعتماد ہی رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعتبار اور اعتماد پر یہ دنیا چل رہی ہے اور غلط کار اور بے اعتبار انسانوں کو قابو میں رکھتی ہے تا کہ کاروبار حیات رواں دواں رہے۔
میں نے ابھی ابھی کہا ہے کہ میں ایک اسپتال سے آ رہا ہوں جہاں انسانوں کا علاج ڈاکٹر کرتے ہیں۔ ہمارا پرانا طریقہ قدیم طب کا تھا جسے یونانی طب بھی کہا جاتا تھا۔ یہ طب یونانیوں نے انسانی علاج کے لیے ایجاد کی تھی جو ان کے نام سے رائج ہو گئی۔ ہمارے بعض طبیب حضرات اسے اسلامی طب کہتے ہیں جو بہرحال حقیقت کے خلاف ہے اگر انسانی علاج کی کسی قوم نے کوئی خدمت کی ہے تووہ ایک انسانی ورثہ ہے کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان طبیب ہوں یا کسی دوسرے قوم کے طبیب یہ سب انسانوں کی خدمت کے لیے تھے۔
ہمارے ہاں ہندوستان میں یونانی طب رائج ہے اور اس طب میں ایسے ایسے طبیب پیدا کیے جن کے کارناموں پر حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً حکیم اجمل خان کو لیجیے جو ایک طبیب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا زمانہ برطانوی سامراج کا زمانہ تھا ۔ ایک لڑکی کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ اس وقت کے ڈاکٹروں نے اس لڑکی کے آپریشن کا مشورہ دیا۔ حکیم اجمل خان سے بھی رابطہ کیا گیا جنہوں نے حالات کا بغور مطالعہ کر کے فیصلہ دیا کہ اس لڑکی کی ٹینس کھیلتے ہوئے پیٹ کی ناڑ ہل گئی ہے اور دوسری ناڑ پر چڑھ گئی ہے اس لیے یہ کچھ کھیلنا شروع کر دے اور عین ممکن ہے یہ ناڑ خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے۔ حکیم صاحب نے کھیل کا ایک خاص طریقہ بھی بتلایا اور دو ایک روز بعد یہ برطانوی لڑکی درست ہو گئی اور پھر سے کھیلنے لگ گئی۔
یہ مسلمان طبیب کوئی فیس نہیں لیتے تھے بلکہ علاج مفت کرتے تھے۔ ایک معمول تھا کہ دلی کے شہری اپنے مریض لے کر گھروں کے باہر بیٹھ جاتے تھے۔ حکیم اجمل خان ہر روز شام کے وقت شہر کی سیر کو نکلتے تھے وہ اپنی اس سیر کے دوران مریضوں کو بھی دیکھتے جاتے اور حکیم اجمل خان کا علاج تو اکسیر ہوتا تھا۔ یہ ان مریضوں کے لیے تھا جن کو ان کے وارث حکیم صاحب کے مطب پر نہیں لا سکتے تھے۔ چونکہ طب ذریعہ آمدنی نہیں تھا آج کے بے انتہائی مہنگے ڈاکٹری علاج کو جو آج بھی کسی کے بس میں نہیں تب تو لوگ غریب تھے اور بمشکل عام سا علاج کرا سکتے تھے۔ لیکن مسلمان طبیبوں نے اس کا ایک علاج نکالا کہ طب کا پیشہ عوام کے لیے مفت کر دیا بلکہ مشہور ہے کہ مستحق مریضوں کو دوائیں بھی مفت دے دیتے تھے۔
طب کا شعبہ مسلمانوں کا پرانا شعبہ تھا جس میں انسانی خدمت کے سوا کچھ نہ تھا اور مسلمان معالجوں نے اسے عوام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اسپتال بھی بنوائے یہاں وقت کے اہم طبیب عام مریضوں کو مفت دیکھتے تھے اور ان اسپتالوں کے قریب کچھ دوا خانے بھی قائم کیے گئے جن میں صاحب حیثیت مسلمان عوام کے لیے مفت ادویات رکھوا دیتے تھے۔ جیسا کہ ہمیں اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے بہت سے نئے فنون کو انسانی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا جس میں طب کا فن سرفہرست تھا کیونکہ انسانوں کی خدمت کے لیے اس زمانے میں اس سے بڑا کوئی طریقہ نہ تھا۔
علم طب کے مدرسے عام تھے جہاں ظاہر ہے کہ کسی طالب علم سے کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی اور ان طلبہ کو عوام کی خدمت کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ طب کے اس شعبے سے بڑے نامور طبیب نکلے جنہوں نے 'ابن الہشیم' کی طرح انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں تحقیق کی۔ آنکھوں کی ساخت کے بارے میں آج بھی ابن الہشیم ایک سند ہے جس نے انسانوں کو بتایا کہ وہ دیکھتے کیسے ہیں۔
ان کی تحقیق پر آنکھوں کی طب کی بنیاد رکھی گئی۔ ایسے کئی دوسرے شعبے بھی ہیں جہاں مسلمانوں نے زندگی کا رخ ہی بدل دیا اور آج کی سائنس نہ جانے کتنے شعبوں میں اسلامی سائنس دانوں کی تحقیق کی محتاج ہے۔