پیپلز پارٹیلمحہ فکریہ
پیپلزپارٹی 30 نومبر1967کو گلبرگ لاہور میں واقع ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر وجود میں آئی
جو لوگ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں، یہ بات ان کے علم میں ہے کہ 68 برسوں کے دوران وطن عزیز میں سیاسی عمل جس نشیب و فراز سے گذرا ہے،اس کے کئی اسباب ہیں۔ کچھ اغیار کی ستم ظریفیاں اور کچھ اپنی کوتاہیاں سیاسی عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بنی ہیں۔ سیاسی عمل میں نوکر شاہی کی مداخلت کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس سلسلے نے ادارہ جاتی شکل 1954میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعد اختیار کی، لیکن نوکرشاہی کو مداخلت کا موقع خود سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی اور سیاسی عدم بلوغت کے باعث ملا۔
اس تناظر میں 1970ء کی دہائی میں جنم لینے اوردو برسوں میں مقبولیت کے آسمانوں کو چھونے والی پیپلزپارٹی ایک اسٹڈی ماڈل ہے۔ پیپلزپارٹی، جس کے دامن میں مخلص و باوفا کارکنوں کا جم غفیر رہا ہے۔ سیاسی دانشوروں کی ایک بہت بڑی تعداد کی طویل عرصے تک فکری وابستگی رہی جس نے عوامی قبولیت کے نئے باب رقم کیے۔ گیارہ برس تک جنرل ضیا کی آمریت کے بدترین ظلم وستم کو برداشت کرتے ہوئے اپنے وجود اور مقبولیت کو برقرار رکھا۔ آج جس فکری، نظریاتی اور عملی ابتری کا شکار ہے۔ اس کا مطالعہ، پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز اور سیاسی جماعتوں کی کوتاہیوں کو سمجھنے کا باعث بن سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی 30 نومبر1967کو گلبرگ لاہور میں واقع ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر وجود میں آئی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ملک پر ایوبی آمریت کے مہیب سائے چھائے ہوئے تھے۔ ملک میں دائیں بازو کی جماعتیں فعال تھیں، لیکن ان کا عوام میں زیادہ ربط و ضبط نہیں تھا۔ بائیں بازو کی صرف دو جماعتیں یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں دھڑے کسی قدر فعال تھے، مگر ان کا حلقہ اثرخاصا محدود تھا۔
عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں عوامی قبولیت رکھتی تھی، لیکن اس زمانے کے ایک سروے کے مطابق اس کی قبولیت صرف34فیصد تھی۔ مسلم لیگ کے تمام دھڑے Right to Centreفکری رجحان کے حامل تھے۔ اس صورتحال میں Left to Centre فکری رجحان کی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو اربن معاشرے کی ضروریات کے ساتھ دیہی معاشرت کے مسائل کا بھی ادراک رکھتی ہو، جو روشن خیال ہو اور معاشرے کے تمام طبقات اور کمیونٹیز کے لیے قابل قبول ہو۔
پیپلزپارٹی کا منشور اور ابتدائی مسودہ سابق سفارتکار جے اے رحیم نے تیارکیا تھا۔ اس میں ڈاکٹرمبشرحسن، معراج محمدخان، حنیف رامے، ملک معراج خالد اورامان اللہ خان جیسے رہنما اگر اربن مڈل کلاس کی نمایندگی کررہے تھے، تو غلام مصطفیٰ کھر،حق نوازگنڈا پور، میر رسول بخش ٹالپرجیسی شخصیات دیہی معاشرت کی نمایندگی کررہی تھیں۔ شیخ محمد رشید کسانوں اور مزارعین کے رہنما کے طور پراس جماعت میں شریک تھے۔کراچی سے پشاور تک اہل دانش کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ مطالعے کی غرض سے ہم پیپلز پارٹی کی پچاس پر محیط سیاسی زندگی کو چھ ادوارمیں تقسیم کرسکتے ہیں۔
پہلا دور1967میں اس کے قیام سے شروع ہوکر1970کے عام انتخابات تک رہا۔ یہ دور اس جماعت کی روشن خیالی، ترقی پسندی اورعوام دوستی کی علامت تھا جس میں اس نے نوجوانوں کی بڑی تعداد کے علاوہ مختلف کمیونٹیز کو اپنی جانب راغب کیا۔ دوسرا دورعام انتخابات کے بعد شروع ہوا اور 20دسمبر1971میں اس کے اقتدار میں آنے تک جاری رہا۔ ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں کو پہلا جھٹکا 9 دسمبر1970کو اس وقت لگا، جب مغربی پاکستان میں فقید المثال کامیابی کے بعد بھٹو مرحوم نے ایک غیرملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان میں کمیونزم کا راستہ روک دیا۔
ساتھ ہی اس کی قیادت نے ترقی پسندی اور روشن خیالی کے راستے سے کھسکنا شروع کیا اور اقتدار کے حصول کی خواہش میں عوامی لیگ کی سیاسی حیثیت کو قبول کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ کی فوجی آمریت کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا یہ رویہ مایوس کن تھا۔ یہیں سے بانیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ کچھ لوگ اسی وقت پارٹی قیادت سے الگ ہوگئے یا ہونے پر مجبور کردیے گئے، جن میں احمد رضا قصوری، مختار رانا وغیرہ شامل تھے، جب کہ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشرحسن اور معراج محمد خان نے پارٹی کی طرف سے جنرل یحییٰ کی حمایت کی اندر رہتے ہوئے مخالفت کی۔
تیسرا دور20دسمبر1971کو اقتدار میں آنے سے5 جولائی1977کو مارشل لا کے نفاذ تک جاری رہا۔ یہ دور اگر ایک طرف شکست خوردہ قوم کا اعتماد بحال کرنے ، 93ہزار جنگی قیدیوں اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی جیسے اقدامات ،اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد اور ان گنت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے عبارت ہے، وہیں سیاسی انتقام کی نئی تاریخ بھی اسی دور میں رقم ہوئی۔ مختار رانا ، ممتاز تارڑ اور جے اے رحیم کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی شایدکسی فوجی آمر سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔ معراج محمد خان مستعفیٰ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے بقیہ پورے دور میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے ۔ ان کی آنکھ کی بینائی پولیس تشدد کے باعث ضایع ہوئی۔ کراچی میں محنت کشوں پر گولی چلائی گئی۔ بلوچستان میں شہنشاہ ایران کی خواہش پر فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور نیشنل عوامی پارٹی سمیت ترقی پسند سوچ کی حامل تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ۔ ولی خان، غوث بخش بزنجو سمیت کئی قدآور سیاسی شخصیات کو پابند سلاسل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کا چوتھا دور5جولائی1977سے 1988کے عام انتخابات تک محیط ہے۔یہ دور پیپلز پارٹی پرگوکہ جور و ستم کی انتہا کا دور تھا۔ اس کے بانی قائد کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ کارکنوں کو جیلوں میں بھرا گیا، انھیں سرعام کوڑے مارے گئے، لیکن اس لحاظ سے یہ دور پارٹی کے لیے طمانیت کا باعث بھی تھا کہ اس کے پرجوش کارکنوں نے ہر ظلم برداشت کرتے ہوئے پارٹی کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ اسے ایک نئی زندگی بھی دی۔ پانچواں دور1988کے عام انتخابات سے شروع ہوکر دسمبر2007 میں محترمہ کی شہادت تک جاری رہا۔ بی بی شہید کی سیاسی بصیرت، محنت اور اہلیت اپنی جگہ قابل صد ستائش سہی، مگر اس دور میں جس طرح قربانی دینے والے کارکنوں کو دانستہ نظر انداز کرتے ہوئے فیوڈلز اور مراعات یافتہ طبقہ کے لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں پارٹی پر جاگیرداروں اور Status quo کی قوتوں کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔ اس صورتحال نے مخلص اور باوفا کارکنوں کو شدید مایوسی کا شکارکردیا۔
چھٹا اور آخری دور بی بی مرحومہ کی شہادت کے بعد سے شروع ہو کر آج تک جاری ہے۔ یہ دور پارٹی کی ناکامی کا دور ہے۔ وہ جماعت جو کبھی وفاق کی زنجیر کہلاتی تھی، آج سکڑکر دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جو لوگ اس کے سیاہ وسپید پر حاوی ہیں، ان کی سوچ، طرزعمل اور فیصلوں کے باعث پارٹی کے ابتدائی دورکا چہرہ مکمل طور پر مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اگر اندرون سندھ کوئی ایسی جماعت ابھر کرسامنے آجاتی ہے، جو واضح نظریات کے ساتھ سندھی عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتی ہو، توآیندہ الیکشن میں اس کا اندرون سندھ بھی صفایا ہوتا نظرآرہا ہے۔
پاکستان کے وہ شہری جو روشن خیالی پر مبنی وسیع البنیاد معاشرتی تشکیلات پر یقین رکھتے ہیں جنہوں نے70ء کے عشرے میں پیپلزپارٹی کو فقیدالمثال قبولیت بخشی، وہ آج بھی ایک ایسی ہی سیاسی تشکیلات کے متمنی ہیں جو نظریاتی شدت پسندی کے بجائے فکری طورپر آزاد خیالی ہو۔فرقہ وارانہ اور نسلی ولسانی تنگ نظری کے بجائے وسیع البنیاد تصورات کی حامل ہو اور سب سے بڑھ کر معاشرے کے ہر طبقے اورکمیونٹی کے لیے قابل قبول ہو۔ پیپلزپارٹی کے سنجیدہ اورمخلص رہنما اورکارکن اگر سرجوڑکربیٹھیں اور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اورکمزوریوں کا کھل کر جائزہ لے کر اپنی حکمت عملیوں کو تبدیل کرلیں، توکوئی وجہ نہیں کہ پیپلزپارٹی ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہ کرلے۔کیونکہ اس وقت کوئی ایسی جماعت نہیں جودرج بالا تصورات پر پورا اترتی ہو۔ لہٰذا اب یہ پارٹی قیادت پرمنحصر ہے کہ وہ دوسرا جنم لے کراپنے ماضی کو تابندگی بخشنے کو ترجیح دیتی ہے یا تاریخ کے اوراق میں دفن ہوکر قصہ پارینہ بننا چاہتی ہے۔
اس تناظر میں 1970ء کی دہائی میں جنم لینے اوردو برسوں میں مقبولیت کے آسمانوں کو چھونے والی پیپلزپارٹی ایک اسٹڈی ماڈل ہے۔ پیپلزپارٹی، جس کے دامن میں مخلص و باوفا کارکنوں کا جم غفیر رہا ہے۔ سیاسی دانشوروں کی ایک بہت بڑی تعداد کی طویل عرصے تک فکری وابستگی رہی جس نے عوامی قبولیت کے نئے باب رقم کیے۔ گیارہ برس تک جنرل ضیا کی آمریت کے بدترین ظلم وستم کو برداشت کرتے ہوئے اپنے وجود اور مقبولیت کو برقرار رکھا۔ آج جس فکری، نظریاتی اور عملی ابتری کا شکار ہے۔ اس کا مطالعہ، پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز اور سیاسی جماعتوں کی کوتاہیوں کو سمجھنے کا باعث بن سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی 30 نومبر1967کو گلبرگ لاہور میں واقع ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر وجود میں آئی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ملک پر ایوبی آمریت کے مہیب سائے چھائے ہوئے تھے۔ ملک میں دائیں بازو کی جماعتیں فعال تھیں، لیکن ان کا عوام میں زیادہ ربط و ضبط نہیں تھا۔ بائیں بازو کی صرف دو جماعتیں یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں دھڑے کسی قدر فعال تھے، مگر ان کا حلقہ اثرخاصا محدود تھا۔
عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں عوامی قبولیت رکھتی تھی، لیکن اس زمانے کے ایک سروے کے مطابق اس کی قبولیت صرف34فیصد تھی۔ مسلم لیگ کے تمام دھڑے Right to Centreفکری رجحان کے حامل تھے۔ اس صورتحال میں Left to Centre فکری رجحان کی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو اربن معاشرے کی ضروریات کے ساتھ دیہی معاشرت کے مسائل کا بھی ادراک رکھتی ہو، جو روشن خیال ہو اور معاشرے کے تمام طبقات اور کمیونٹیز کے لیے قابل قبول ہو۔
پیپلزپارٹی کا منشور اور ابتدائی مسودہ سابق سفارتکار جے اے رحیم نے تیارکیا تھا۔ اس میں ڈاکٹرمبشرحسن، معراج محمدخان، حنیف رامے، ملک معراج خالد اورامان اللہ خان جیسے رہنما اگر اربن مڈل کلاس کی نمایندگی کررہے تھے، تو غلام مصطفیٰ کھر،حق نوازگنڈا پور، میر رسول بخش ٹالپرجیسی شخصیات دیہی معاشرت کی نمایندگی کررہی تھیں۔ شیخ محمد رشید کسانوں اور مزارعین کے رہنما کے طور پراس جماعت میں شریک تھے۔کراچی سے پشاور تک اہل دانش کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ مطالعے کی غرض سے ہم پیپلز پارٹی کی پچاس پر محیط سیاسی زندگی کو چھ ادوارمیں تقسیم کرسکتے ہیں۔
پہلا دور1967میں اس کے قیام سے شروع ہوکر1970کے عام انتخابات تک رہا۔ یہ دور اس جماعت کی روشن خیالی، ترقی پسندی اورعوام دوستی کی علامت تھا جس میں اس نے نوجوانوں کی بڑی تعداد کے علاوہ مختلف کمیونٹیز کو اپنی جانب راغب کیا۔ دوسرا دورعام انتخابات کے بعد شروع ہوا اور 20دسمبر1971میں اس کے اقتدار میں آنے تک جاری رہا۔ ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں کو پہلا جھٹکا 9 دسمبر1970کو اس وقت لگا، جب مغربی پاکستان میں فقید المثال کامیابی کے بعد بھٹو مرحوم نے ایک غیرملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان میں کمیونزم کا راستہ روک دیا۔
ساتھ ہی اس کی قیادت نے ترقی پسندی اور روشن خیالی کے راستے سے کھسکنا شروع کیا اور اقتدار کے حصول کی خواہش میں عوامی لیگ کی سیاسی حیثیت کو قبول کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ کی فوجی آمریت کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا یہ رویہ مایوس کن تھا۔ یہیں سے بانیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ کچھ لوگ اسی وقت پارٹی قیادت سے الگ ہوگئے یا ہونے پر مجبور کردیے گئے، جن میں احمد رضا قصوری، مختار رانا وغیرہ شامل تھے، جب کہ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشرحسن اور معراج محمد خان نے پارٹی کی طرف سے جنرل یحییٰ کی حمایت کی اندر رہتے ہوئے مخالفت کی۔
تیسرا دور20دسمبر1971کو اقتدار میں آنے سے5 جولائی1977کو مارشل لا کے نفاذ تک جاری رہا۔ یہ دور اگر ایک طرف شکست خوردہ قوم کا اعتماد بحال کرنے ، 93ہزار جنگی قیدیوں اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی جیسے اقدامات ،اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد اور ان گنت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے عبارت ہے، وہیں سیاسی انتقام کی نئی تاریخ بھی اسی دور میں رقم ہوئی۔ مختار رانا ، ممتاز تارڑ اور جے اے رحیم کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی شایدکسی فوجی آمر سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔ معراج محمد خان مستعفیٰ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے بقیہ پورے دور میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے ۔ ان کی آنکھ کی بینائی پولیس تشدد کے باعث ضایع ہوئی۔ کراچی میں محنت کشوں پر گولی چلائی گئی۔ بلوچستان میں شہنشاہ ایران کی خواہش پر فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور نیشنل عوامی پارٹی سمیت ترقی پسند سوچ کی حامل تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ۔ ولی خان، غوث بخش بزنجو سمیت کئی قدآور سیاسی شخصیات کو پابند سلاسل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کا چوتھا دور5جولائی1977سے 1988کے عام انتخابات تک محیط ہے۔یہ دور پیپلز پارٹی پرگوکہ جور و ستم کی انتہا کا دور تھا۔ اس کے بانی قائد کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ کارکنوں کو جیلوں میں بھرا گیا، انھیں سرعام کوڑے مارے گئے، لیکن اس لحاظ سے یہ دور پارٹی کے لیے طمانیت کا باعث بھی تھا کہ اس کے پرجوش کارکنوں نے ہر ظلم برداشت کرتے ہوئے پارٹی کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ اسے ایک نئی زندگی بھی دی۔ پانچواں دور1988کے عام انتخابات سے شروع ہوکر دسمبر2007 میں محترمہ کی شہادت تک جاری رہا۔ بی بی شہید کی سیاسی بصیرت، محنت اور اہلیت اپنی جگہ قابل صد ستائش سہی، مگر اس دور میں جس طرح قربانی دینے والے کارکنوں کو دانستہ نظر انداز کرتے ہوئے فیوڈلز اور مراعات یافتہ طبقہ کے لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں پارٹی پر جاگیرداروں اور Status quo کی قوتوں کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔ اس صورتحال نے مخلص اور باوفا کارکنوں کو شدید مایوسی کا شکارکردیا۔
چھٹا اور آخری دور بی بی مرحومہ کی شہادت کے بعد سے شروع ہو کر آج تک جاری ہے۔ یہ دور پارٹی کی ناکامی کا دور ہے۔ وہ جماعت جو کبھی وفاق کی زنجیر کہلاتی تھی، آج سکڑکر دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جو لوگ اس کے سیاہ وسپید پر حاوی ہیں، ان کی سوچ، طرزعمل اور فیصلوں کے باعث پارٹی کے ابتدائی دورکا چہرہ مکمل طور پر مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اگر اندرون سندھ کوئی ایسی جماعت ابھر کرسامنے آجاتی ہے، جو واضح نظریات کے ساتھ سندھی عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتی ہو، توآیندہ الیکشن میں اس کا اندرون سندھ بھی صفایا ہوتا نظرآرہا ہے۔
پاکستان کے وہ شہری جو روشن خیالی پر مبنی وسیع البنیاد معاشرتی تشکیلات پر یقین رکھتے ہیں جنہوں نے70ء کے عشرے میں پیپلزپارٹی کو فقیدالمثال قبولیت بخشی، وہ آج بھی ایک ایسی ہی سیاسی تشکیلات کے متمنی ہیں جو نظریاتی شدت پسندی کے بجائے فکری طورپر آزاد خیالی ہو۔فرقہ وارانہ اور نسلی ولسانی تنگ نظری کے بجائے وسیع البنیاد تصورات کی حامل ہو اور سب سے بڑھ کر معاشرے کے ہر طبقے اورکمیونٹی کے لیے قابل قبول ہو۔ پیپلزپارٹی کے سنجیدہ اورمخلص رہنما اورکارکن اگر سرجوڑکربیٹھیں اور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اورکمزوریوں کا کھل کر جائزہ لے کر اپنی حکمت عملیوں کو تبدیل کرلیں، توکوئی وجہ نہیں کہ پیپلزپارٹی ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہ کرلے۔کیونکہ اس وقت کوئی ایسی جماعت نہیں جودرج بالا تصورات پر پورا اترتی ہو۔ لہٰذا اب یہ پارٹی قیادت پرمنحصر ہے کہ وہ دوسرا جنم لے کراپنے ماضی کو تابندگی بخشنے کو ترجیح دیتی ہے یا تاریخ کے اوراق میں دفن ہوکر قصہ پارینہ بننا چاہتی ہے۔