مشترکہ عبادات

اس کے علاوہ بھی فرانس کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ عبادت کا اہتمام کیا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

فرانس میں ایک دہشت گرد تنظیم کے ہاتھوں قتل ہونے والے 85 سالہ پادری فادر جیکس ہیمل کے قتل کے بعد فرانس بھر میں مسلمانوں نے گرجا گھروں میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ عبادات میں شرکت کی، اس اقدام کا مقصد مذہبی یکجہتی ملکی اتحاد اور مقتول پادری کے غم میں برابر کی شراکت داری بتایا جا رہا ہے۔ گزشتہ اتوار کو 100 سے زیادہ مسلمانوں نے فارمن قصبے کے قریب واقع اس روشن چرچ میں جاکر تقریباً دو ہزار کیتھولک عیسائیوں کے ساتھ مشترکہ عبادت کی، اسی چرچ میں مذہبی انتہا پسندوں نے 85 سالہ ضعیف پادری کا گلا کاٹ کر اسے قتل کیا تھا۔

اس کے علاوہ بھی فرانس کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ عبادت کا اہتمام کیا۔ اسی طرح اٹلی میں اسلامک کنفیڈریشن نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل جلیل بوبکر نے سینٹ جینیا روچیپل کے منبر سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دیا۔ اٹلی کے مختلف شہروں میں عیسائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مسلمان بڑی تعداد میں گرجا گھروں میں جا رہے ہیں اور عیسائیوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان میں رہنے والے عیسائیوں نے عید کے موقعے پر مساجد میں جاکر مسلمانوں کے ساتھ مذہبی یکجہتی کے مظاہرے کیے تھے۔

آج جب میں نے ایکسپریس میں فرانس اوراٹلی میں مسلمانوں کی طرف سے اظہار یکجہتی کے لیے مشترکہ عبادات میں شرکت کی خبر پڑھی تو احساس ہوا کہ دنیا اب مذہبی نفرتوں تعصبات کے دلدل سے نکل کر مذہبی رواداری، مذہبی یکجہتی کے ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہے جس کے نتیجے میں انسان ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے اور ان دیواروں کو گرا دیں گے جنھیں انسانوں نے ہی مختلف مذاہب کے درمیان صدیوں سے کھڑی کر رکھی تھیں۔

اس خبر کو پڑھنے کے بعد فطری طور پر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کیا عیسائیوں کی عبادت میں مسلمانوں کی شرکت سے ان کے مذہب ان کے عقائد میں کوئی فرق پڑا؟ اس کا جواب تھا نہیں۔ بالکل نہیں بلکہ اس قسم کے اقدامات سے صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی اجنبیت اور لاتعلقی دور ہوسکتی ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان قربت اور اعتماد کی فضا پیدا ہوسکتی ہے۔


مذہبی انتہا پسندوں نے دنیا بھر میں مذہب کے نام پر قتل وغارت کا جو بہیمانہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مختلف ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں میں خوف وہراس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ہے، ہوسکتا ہے فرانس اور اٹلی میں عیسائیوں کے ساتھ مشترکہ عبادت کے پیچھے بھی یہی خوف کارفرما ہو لیکن اگر مشترکہ عبادت کے ذریعے مذہبی یکجہتی کا یہ کلچر فروغ پاتا ہے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والا دورمذہبی نفرتوں کا نہیں بلکہ مذہبی رواداری، محبت اور اعتماد کا دور ہوگا۔

مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرکے اور بھاری جانی نقصان کے ساتھ جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ ان سے مذہبی نفرتوں، مذہبی تعصبات میں اضافہ توہو رہا ہے مذہبی بھائی چارے میں کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔ فرانس اوراٹلی کے مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ عبادت کی جو روایت ڈالی ہے یہ روایت جنگوں کے برخلاف ایک ایسا مثبت قدم ہے جس کے مثبت نتائج کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مفاہمت اور رواداری کی اس جنگ میں نہ لاکھوں افراد پر مشتمل فوج کی ضرورت ہے نہ کھربوں ڈالرکے اسلحے کی کیونکہ محبت اور رواداری کے جذبات کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لیکن یہ جذبات کھربوں ڈالر سے زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔

ہماری دنیا یعنی یہ کرہ ارض اس وسیع پھیلی ہوئی کائنات میں ایک معمولی ذرے سے بھی کم حیثیت رکھتی ہے، ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں نظام شمسی اور ہماری دنیا یعنی کرہ ارض جیسے کھربوں سیارے کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان سیاروں میں بھی زندگی ہوگی، مخلوق ہوگی ہوسکتا ہے دوسری دنیاؤں کی مخلوق کرہ ارض پر بسنے والی مخلوق سے مختلف ہو لیکن ذہن میں یہ سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دنیاؤں کے باسی بھی مذہب، رنگ، نسل، زبان قوم ملک کے حوالے سے اسی طرح تقسیم ہوں گے۔ اسی طرح ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں گے جس طرح کرہ ارض کا انسان ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے، کیا ان سیاروں پر بھی اسلحے کے ایسے ہی ان گنت کارخانے ہوں گے جیسے ہماری دنیا میں ہیں، کیا دوسری دنیاؤں میں بھی ایسی ہی جنگیں لڑی جاتی ہوں گی جیسی ہماری دنیا میں لڑی جا رہی ہیں؟

یہ ایسے سوال ہیں جو حساس انسانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں، ان سوالوں کے مثبت جواب فرانس اوراٹلی میں رہنے والے مسلمانوں نے اپنے عمل سے دے دیے ہیں اور ثابت کردیا ہے کہ دنیا کو جنت بنانے کے لیے دنیا کو پرامن بنانے کے لیے صرف محبت اور بھائی چارہ ہی ہی واحد نسخہ ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتا ہے۔ دنیا کے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ مذہبی انتہا پسندوں دہشت گردوں کا نہ کوئی وطن ہوتا ہے نہ دین دھرم، ان کو روکنے ان کا مقابلہ کرنے کا مثبت اور موثر طریقہ وہی ہے جس کا مظاہرہ فرانس اور اٹلی کے مسلمانوں نے کیا ہے۔ یہ سلسلہ ساری دنیا کے ہر ملک تک دراز ہونا چاہیے اسی میں انسانوں کی مکتی ہے انسانوں کی فلاح ہے۔
Load Next Story