ٹرمپ اور مودی
ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت میں سب سے پسندیدہ شخصیت نریندر مودی ہیں ادھر مودی بھی ٹرمپ پر جان چھڑک رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت میں سب سے پسندیدہ شخصیت نریندر مودی ہیں ادھر مودی بھی ٹرمپ پر جان چھڑک رہے ہیں۔ دراصل دونوں میں دوستی کی وجہ ایک جیسے نظریات ہیں۔ دونوں ہی پوری دنیا میں انسانیت کے دشمن کے طور پر شہرت رکھتے ہیں پھر دونوں مسلمان اور پاکستان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن مودی نے ٹرمپ کی طرح اپنی عصبیت کو صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رکھا بلکہ گجرات میں وزیراعلیٰ کی حیثیت میں عملی طور مظاہرہ بھی کیا۔ ان کے حکم پر ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا حاملہ عورتوں تک کو نہیں بخشا گیا ان کے پیٹ چاک کیے گئے اور پھر چھریوں بھالوں اور ڈنڈوں سے ہلاک کر دیا گیا۔
اس جرم پر پوری دنیا میں ان پر لعنت ملامت کی گئی۔ کئی ممالک نے ان کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی لگا دی تھی، امریکا بھی ان ہی ممالک میں شامل تھا۔ خود بھارت میں کانگریس پارٹی نے مودی کو وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹانے اور ان پر تاحیات سیاست پر حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت کی بے جی پی حکومت بھی ہل کر رہ گئی تھی اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے مودی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر مودی کے استاد ایل کے ایڈوانی اپنے شاگرد کو بچانے کے لیے میدان میں کود گئے اور واجپائی کو مودی کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے روک دیا۔
ایڈوانی 2013ء کے الیکشن کے لیے بی جے پی کے حقیقی امیدوار تھے مگر مودی نے ایڈوانی کے خلاف وہ چال چلی کہ آر ایس ایس کی مرکزی قیادت نے ایڈوانی کے بجائے انھیں وزیر اعظم کا امیدوار نامزدکر دیا۔ ایڈوانی اپنے شاگرد کی نمک حرامی پر بہت پریشان تھے پھر انھوں نے بھی اپنے شاگرد کے خلاف پورا زور لگایا مگر ان کی ایک نہ چلی۔ آر ایس ایس کی قیادت نے ایڈوانی کو وزیر اعظم کی امیدواری سے ہٹانے کی وجہ ان کے پاکستان کے دورے میں قائد اعظم محمدعلی جناح کو سیکولر رہنما قرار دینا بتایا تھا۔ مودی نے آر ایس ایس کی شے پر اپنے استاد کو وزارت عظمیٰ سے ہی دست بردار نہیں کرایا بلکہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انھیں عضو معطل بنا کر رکھ دیا، آج ایڈوانی بھارتی سیاست سے باہر ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایڈوانی کو بابری مسجد کو گرانے کی قدرت کی جانب سے سزا دی گئی ہے۔
مودی کی ایک اور طوطا چشمی کی مثال ان کی اپنی بیوی سے لاتعلقی ہے۔ مودی کی شادی ایک شریف زادی سے ہوئی تھی۔ مودی نے ایک سال بھی اپنی بیوی کے ساتھ نہیں گزارا اور وہ اسے چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پھر کبھی مڑ کراس کی طرف نہیں دیکھا وہ بے چاری آج بھی تن تنہا زندگی بسر کر رہی ہے اور اپنی ٹیچری کی قلیل پنشن میں گزارا کر رہی ہے۔ مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد اس کے لیے کوئی وظیفہ تک مقرر نہیں کیا۔ مودی کی اس شادی کا کھوج لگانے کا کریڈٹ بھی بھارتی میڈیا کو جاتا ہے ورنہ مودی تو شروع سے ہی خود کوکنوارا ظاہرکرتے رہے تھے مگر جب وزارت عظمیٰ کے امیدوارکی حیثیت سے انتخابی کاغذات کو پرکرنے کا وقت آیا تو اس وقت تک میڈیا ان کی بیوی کی خبر بھارتی عوام کو دے چکا تھا چنانچہ انھیں ان کاغذات میں خود کو شادی شدہ ظاہرکرنا پڑا مگر لکھا کہ ان کی بیوی روٹھ کر تیرتھ کے لیے ہر دوار چلی گئی ہیں جو سراسر جھوٹ تھا۔
مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ناقص کارکردگی کے علاوہ ان کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں نہ تو وہ آج تک اپنا میٹرک کا سرٹیفکیٹ میڈیا کو دکھا سکے اور نہ ہی بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ کجریوال نے الیکشن کمیشن سے ان کی تعلیم کے سلسلے میں غلط بیانی کرنے پر انھیں نااہل قرار دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ گوکہ وہ بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے مگر آج وہ بھارت کے ایک ناکام وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں۔ جب سے انھوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے دنیا کے سیر سپاٹوں کے مالی بوجھ اورکھوکھلے بھاشنوں کے سوا بھارتی عوام کو کچھ نہیں دیا ہے۔ بھارتی معیشت تنزلی کا شکار ہے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے مودی پھر بھی بھارت کو ایک مضبوط معیشت کا ملک قرار دیتے نہیں تھکتے جب کہ بھارت کی فی کس آمدنی پاکستان سے بھی کم ہے۔
مودی نے اپنے انتخابی وعدوں میں سے اب تک ایک بھی پورا نہیں کیا ہے ان کی تمام تر توجہ پاکستان کو کمزور کرنے اور کشمیر پر بھارتی قبضے کو مضبوط کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ وہ ان معاملات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ بھارت کے اندرونی حالات پر توجہ دینے کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ ان کی مصلحت آمیز خاموشی سے فائدہ اٹھاکر بی جے پی، شیوسینا اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ گائے کے گوشت کو مسلمانوں کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
کہنے کو بھارت ایک سیکولرملک ہے مگر اس وقت ایک دہشت گرد مذہبی ریاست کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مسلمان فلمی اداکاروں کے خلاف بھی مہم جاری ہے انھیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے اور بھارت چھوڑنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس وقت بھارت میں دلتوں نے مودی کی ہندوتوا کے خلاف بغاوت شروع کر رکھی ہے۔ وہ گائے کے گوشت کو صدیوں سے کھاتے چلے آ رہے ہیں۔
ان کے نزدیک گائے ایک جانور ہے دیوتا نہیں چنانچہ گائے کا گوشت ان کے لیے مقدس نہیں صرف کھانے کی چیز ہے۔ گزشتہ دنوں کچھ دلت نوجوانوں کو ایک مردہ گائے کا چمڑا اتارنے کی پاداش میں ہندو غنڈوں نے انھیں مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔ دلت اس تشدد کے خلاف پورے بھارت میں احتجاج کر رہے ہیں وہ انتقاماً درجنوں مردہ گایوں کو بی جے پی کے دفاتر کے سامنے سڑکوں پر ڈھیر کر رہے ہیں اور ان کی ہندو مذہبی طریقے سے کریہ کرم کے لیے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوہت کو مدعوکر رہے ہیں اس سے ان کی بہت بے عزتی ہو رہی ہے۔ دلتوں نے ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام یا بودھ دھرم قبول کرنے کی بھی دھمکی دے دی ہے جس سے نہ صرف بھارت کی جڑیں ہل گئی ہیں بلکہ مودی کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ جہاں تک مودی حکومت کے مستقبل کا تعلق ہے وہ بھی غیر یقینی لگ رہا ہے۔
جنوبی ریاستوں میں ہونیوالے حالیہ انتخابات میں ان کی پارٹی قطعی ناکام رہی ہے۔ وہ بہار اور بنگال میں پہلے ہی الیکشن ہار چکے ہیں اب پنجاب اور اتر پردیش میں سرخرو ہونے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر وہاں علاقائی پارٹیوں کے علاوہ عام آدمی پارٹی ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اگر وہ ان دونوں ریاستوں میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر ان کی حکومت کا مستقبل سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف مودی بلکہ ٹرمپ کو بھی اپنے متعصبانہ انتہا پسندانہ اور انسانیت دشمن نظریات کو ترک کردینا چاہیے ورنہ مودی کی حکومت ناکام ہوسکتی ہے اور ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہونے سے محروم رہ سکتے ہیں۔