دکھی انسانیت کے ہمدرد عبدالستار ایدھی
ایدھی کی تکریم میں تو لکھے جانے والے الفاظ بھی قطاربا قطار ادب سے کھڑے نظر آتے ہیں
لاہور:
دنیا کی وسعتوں میں کھو گئے ہو تم
مٹی کے نرم بستر پر سو گئے ہو تم
وہ حُسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
ڈھونڈیں کہاں پردیس جوگئے ہو تم
ایدھی کی تکریم میں تو لکھے جانے والے الفاظ بھی قطاربا قطار ادب سے کھڑے نظر آتے ہیں، ہمارے پاس تواتنا مواد بھی نہیں جتنی ان کی اس قوم کے لیے بپھرے ہوئے سمندرکی طرح خدمات تھیں۔ گجراتی زبان میں پانچ جماعت تعلیم حاصل کرنے والے ایدھی تو خدمت اور محبت کے شہ سوار تھے وہ چاہت کے ایوانوں کے شہزادے تھے، انھیں کسی بھی لفظی سندکی ضرورت نہیں، ان کی محنت اور انسانیت کے کام کو دیکھتے ہوئے دل صداقت کے ہاتھ گواہی دیتا ہے کہ وہ غنچہ دل کی شگفتہ شخصیت تھے، انھوں نے ہر شہر اور ہر قصبے میں ایدھی سینٹر قائم کر کے آہوں اورکراہوں کواپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ وہ قریہ قریہ خاص طور پر مفلس اور لاچاروں کے لیے خوشحالی کے جلوے بکھیرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمدردی اور غمگساری کا مجسمہ تھے، ویسے بھی اﷲ کی مخلوق کی خدمت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو ہمارے خالق کو بہت پسند ہے۔
1991ء میں مجھے روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹرطاہر نجمی نے ان کی طویل خدمات کے پیش نظر ایک انٹرویوکے لیے کہا تھا اس زمانے میں، میں طاہر نجمی کے ساتھ ایک مقامی روزنامے سے منسلک تھا۔ ایدھی بڑے رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ انٹرویو چھپنے کے بعد انھوں نے مجھے کہا کہ طاہر صاحب کو میرا شکریہ کہہ دینا کہ انھوں نے میری خدمت کی حوصلہ افزائی کی اﷲ انھیں سلامت رکھے۔
راقم کی والدہ کو 1992ء میں کینسر ہوا تو ایدھی صاحب نے میرا بڑا ساتھ دیا۔ گھر سے جناح اسپتال اور جناح اسپتال سے گھر تک مجھے ایمبولینس فراہم کی میں ان کا یہ احسان ساری عمر نہیں بھول سکتا۔ ایدھی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام ہے۔ نیکی، خلوص، چاہت، خوبصورت لہجہ، قربانی، ایثار، انسانیت ان سب کو ہم اگر ضرب دے لیں تو جواب صرف ایدھی کی صورت میں نکلے گا۔ وہ غریبوں اور مفلسوں کے لیے ایک مرہم کا درجہ رکھتے تھے، وہ آج ہمارے درمیان نہیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ منور رہیں گے۔ 2013ء میں ان سے ایک طویل نشست ہوئی، ان سے بہت ساری باتیں ہوئیں، دوران گفتگوکھانے کا وقت ہو گیا، انھوں نے بڑے خلوص سے مجھے کھانے کے لیے کہا۔ میں انکار نہ کر سکا اور پھرکھانا لگ گیا، ہم ایک کمرے میں کھانے کی میز پرآ گئے، مونگ کی پتلی دال اور روٹی ہمارے ساتھ انھوں نے تناول فرمائی۔ سادہ پانی جس میں برف نہیں تھی وہ میز پر موجود تھا۔
قارئین گرامی آپ یقین کریں کہ ان لوازمات میں جو خلوص تھا وہ میں نے کبھی اپنی صحافتی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس موقعے پر انھوں نے فیصل ایدھی، محترمہ بلقیس صاحبہ اور کبریٰ (صاحبزادی) کا تذکرہ بڑی محبت سے کرتے ہوئے کہاکہ میرے بعد ان لوگوں نے عوام کی خدمات کا پرچم اٹھانا ہے۔ ایدھی سینٹر میں کام کرنے والے انھیں پیار سے بابا کہتے تھے۔ انھوں نے معاشرے کوبدل دیا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ میں پشاورگیا اور بھیک مانگی کہ اپنے ہم وطنوں کے لیے میرا ساتھ دو، وہاں کے لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیے اور اس وقت میں حیرت میں پڑ گیا جب میری بیٹیوں نے مجھے عطیے کے طور پر اپنے زیورات پیش کر دیے، انھوں نے بتایاکہ عورت کی عظمت بہت مقدس ہوتی ہے، میں نے اپنی بیٹی کبریٰ ایدھی کو خواتین کے لیے فلاحی کاموں کی تعلیم اور تربیت دی ہے۔ فیصل ایدھی میرا ہونہار بیٹا ہے اس سے مجھے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
میں نے 1951ء میں ایک چھوٹی ڈسپنسری کھولی تھی آج وہ عوام کے تعاون سے ایدھی سینٹر کی شکل اختیارکرگئی ہے۔ آپ کی کامیابی کا راز کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایاکہ میں نے ساری زندگی کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق کو اپنے سامنے کھڑا نہیں ہونے دیا اور شاید بیٹا یہی وجہ ہے کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن میں 3500 سو افراد اور ہزاروں رضاکار 24 گھنٹے لوگوں کی سہولتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے ساتھ طارق روڈ سینٹر (ایدھی سینٹر) جانے کا اتفاق ہوا،آفس سے باہر نکلے اورایمبولینس میں بیٹھ گئے،مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ ہمارے امرا کی طرح آرام دہ لینڈکروزرکیوں نہیں استعمال کرتے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ اگر چاہتے تو لینڈکروزر بھی اپنے لیے رکھ سکتے ہیں مسکراتے ہوئے کہاکہ یہ بڑے لوگ جب مرتے ہیں توکیا بلٹ پروف لینڈ کروزر میں قبرستان جاتے ہیں۔ اﷲ ان کے حال پر رحم کرے شاید رب کریم کو ان کی یہ ادا پسند آگئی کہ ان کی میت میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے بڑی خلوص سے شرکت کی۔
جناب ایدھی نے بتایاتھا کہ قائد اعظم ایک مرتبہ بانٹوا کے مسلمانوں سے خطاب کے لیے آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کچھ رقم قائد اعظم کو پیش کی اور اس کے بعد میں نے سوچ لیا کہ یہ دھان پان سا شخص مسلمانوں کے لیے کسی فولاد سے کم نہیں اور پھر میرے والد اور میں نے ارادہ کرلیا کہ ہمیں پاکستان جانا ہے۔ انھوں نے بتایا سہراب گوٹھ سینٹر پر ہمیں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا میں نے ایک نیکدل پولیس افسر سے درخواست کی کہ آپ اس مسئلے کو حل کریں ہماری ایمبولینس کو آنے جانے میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے صرف آدھے گھنٹے میں اس مسئلے کو حل کروا دیا۔ ایدھی صاحب بڑے دل کے انسان تھے۔ خواجہ غریب نوازکے حوالے سے انھوں نے بتایاکہ حاجی عبدالرؤف بھی غریبوں کی خدمات کرتے ہیں وہ بھی نادار مفلسوں اور غریبوں کے لیے خواجہ غریب نواز کی توسط سے دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیں جو نیکی کے کام کرتے ہیں میں ان کی قدرکرتاہوں، نیکی ایدھی کرے یا کوئی اور کرے نیکی تو اﷲ کی راہ میں خدمت کا نشان ہے جو شخص بھی تعصب سے بالاتر ہوکر کام کرے میری نگاہ میں وہ اچھا انسان ہے اور لائق تحسین ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ ان کا تعلق بھی میمن کمیونٹی سے ہے۔ میں کمیونٹی پر یقین نہیں رکھتا میرا یقین ہے کہ آپ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیں یہی ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے۔ ایدھی صاحب نے کہا کہ جب تک آپ صراط مستقیم پر ہیں آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عزم و حوصلہ جب ہی پیدا ہوتا ہے جب آپ نیکی کے راستے پر سفر کر رہے ہوں۔
راقم ان سے تفصیلی ملاقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں سے نالاں تھے۔ کتنے عظیم تھے ایدھی کہ ان کے انتقال اور تدفین کے روز ایدھی فاؤنڈیشن کے تمام دفاتر کھلے رہے اور چھٹی کا اعلان نہ کیا گیا۔
عبدالستارایدھی کا جنازہ تواٹھ گیا وہ ہاتھ جوہر وقت ہمدردی کے چراغ جلاتے تھے بجھ گئے لیکن ایدھی فاؤنڈیشن کا پودا آج بھی غریبوں، مفلسوں، لاچاروں کو پھل دے رہا ہے ۔ اﷲ پاک ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ (آمین)
دنیا کی وسعتوں میں کھو گئے ہو تم
مٹی کے نرم بستر پر سو گئے ہو تم
وہ حُسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
ڈھونڈیں کہاں پردیس جوگئے ہو تم
ایدھی کی تکریم میں تو لکھے جانے والے الفاظ بھی قطاربا قطار ادب سے کھڑے نظر آتے ہیں، ہمارے پاس تواتنا مواد بھی نہیں جتنی ان کی اس قوم کے لیے بپھرے ہوئے سمندرکی طرح خدمات تھیں۔ گجراتی زبان میں پانچ جماعت تعلیم حاصل کرنے والے ایدھی تو خدمت اور محبت کے شہ سوار تھے وہ چاہت کے ایوانوں کے شہزادے تھے، انھیں کسی بھی لفظی سندکی ضرورت نہیں، ان کی محنت اور انسانیت کے کام کو دیکھتے ہوئے دل صداقت کے ہاتھ گواہی دیتا ہے کہ وہ غنچہ دل کی شگفتہ شخصیت تھے، انھوں نے ہر شہر اور ہر قصبے میں ایدھی سینٹر قائم کر کے آہوں اورکراہوں کواپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ وہ قریہ قریہ خاص طور پر مفلس اور لاچاروں کے لیے خوشحالی کے جلوے بکھیرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمدردی اور غمگساری کا مجسمہ تھے، ویسے بھی اﷲ کی مخلوق کی خدمت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو ہمارے خالق کو بہت پسند ہے۔
1991ء میں مجھے روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹرطاہر نجمی نے ان کی طویل خدمات کے پیش نظر ایک انٹرویوکے لیے کہا تھا اس زمانے میں، میں طاہر نجمی کے ساتھ ایک مقامی روزنامے سے منسلک تھا۔ ایدھی بڑے رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ انٹرویو چھپنے کے بعد انھوں نے مجھے کہا کہ طاہر صاحب کو میرا شکریہ کہہ دینا کہ انھوں نے میری خدمت کی حوصلہ افزائی کی اﷲ انھیں سلامت رکھے۔
راقم کی والدہ کو 1992ء میں کینسر ہوا تو ایدھی صاحب نے میرا بڑا ساتھ دیا۔ گھر سے جناح اسپتال اور جناح اسپتال سے گھر تک مجھے ایمبولینس فراہم کی میں ان کا یہ احسان ساری عمر نہیں بھول سکتا۔ ایدھی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام ہے۔ نیکی، خلوص، چاہت، خوبصورت لہجہ، قربانی، ایثار، انسانیت ان سب کو ہم اگر ضرب دے لیں تو جواب صرف ایدھی کی صورت میں نکلے گا۔ وہ غریبوں اور مفلسوں کے لیے ایک مرہم کا درجہ رکھتے تھے، وہ آج ہمارے درمیان نہیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ منور رہیں گے۔ 2013ء میں ان سے ایک طویل نشست ہوئی، ان سے بہت ساری باتیں ہوئیں، دوران گفتگوکھانے کا وقت ہو گیا، انھوں نے بڑے خلوص سے مجھے کھانے کے لیے کہا۔ میں انکار نہ کر سکا اور پھرکھانا لگ گیا، ہم ایک کمرے میں کھانے کی میز پرآ گئے، مونگ کی پتلی دال اور روٹی ہمارے ساتھ انھوں نے تناول فرمائی۔ سادہ پانی جس میں برف نہیں تھی وہ میز پر موجود تھا۔
قارئین گرامی آپ یقین کریں کہ ان لوازمات میں جو خلوص تھا وہ میں نے کبھی اپنی صحافتی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس موقعے پر انھوں نے فیصل ایدھی، محترمہ بلقیس صاحبہ اور کبریٰ (صاحبزادی) کا تذکرہ بڑی محبت سے کرتے ہوئے کہاکہ میرے بعد ان لوگوں نے عوام کی خدمات کا پرچم اٹھانا ہے۔ ایدھی سینٹر میں کام کرنے والے انھیں پیار سے بابا کہتے تھے۔ انھوں نے معاشرے کوبدل دیا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ میں پشاورگیا اور بھیک مانگی کہ اپنے ہم وطنوں کے لیے میرا ساتھ دو، وہاں کے لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیے اور اس وقت میں حیرت میں پڑ گیا جب میری بیٹیوں نے مجھے عطیے کے طور پر اپنے زیورات پیش کر دیے، انھوں نے بتایاکہ عورت کی عظمت بہت مقدس ہوتی ہے، میں نے اپنی بیٹی کبریٰ ایدھی کو خواتین کے لیے فلاحی کاموں کی تعلیم اور تربیت دی ہے۔ فیصل ایدھی میرا ہونہار بیٹا ہے اس سے مجھے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
میں نے 1951ء میں ایک چھوٹی ڈسپنسری کھولی تھی آج وہ عوام کے تعاون سے ایدھی سینٹر کی شکل اختیارکرگئی ہے۔ آپ کی کامیابی کا راز کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایاکہ میں نے ساری زندگی کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق کو اپنے سامنے کھڑا نہیں ہونے دیا اور شاید بیٹا یہی وجہ ہے کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن میں 3500 سو افراد اور ہزاروں رضاکار 24 گھنٹے لوگوں کی سہولتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے ساتھ طارق روڈ سینٹر (ایدھی سینٹر) جانے کا اتفاق ہوا،آفس سے باہر نکلے اورایمبولینس میں بیٹھ گئے،مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ ہمارے امرا کی طرح آرام دہ لینڈکروزرکیوں نہیں استعمال کرتے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ اگر چاہتے تو لینڈکروزر بھی اپنے لیے رکھ سکتے ہیں مسکراتے ہوئے کہاکہ یہ بڑے لوگ جب مرتے ہیں توکیا بلٹ پروف لینڈ کروزر میں قبرستان جاتے ہیں۔ اﷲ ان کے حال پر رحم کرے شاید رب کریم کو ان کی یہ ادا پسند آگئی کہ ان کی میت میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے بڑی خلوص سے شرکت کی۔
جناب ایدھی نے بتایاتھا کہ قائد اعظم ایک مرتبہ بانٹوا کے مسلمانوں سے خطاب کے لیے آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کچھ رقم قائد اعظم کو پیش کی اور اس کے بعد میں نے سوچ لیا کہ یہ دھان پان سا شخص مسلمانوں کے لیے کسی فولاد سے کم نہیں اور پھر میرے والد اور میں نے ارادہ کرلیا کہ ہمیں پاکستان جانا ہے۔ انھوں نے بتایا سہراب گوٹھ سینٹر پر ہمیں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا میں نے ایک نیکدل پولیس افسر سے درخواست کی کہ آپ اس مسئلے کو حل کریں ہماری ایمبولینس کو آنے جانے میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے صرف آدھے گھنٹے میں اس مسئلے کو حل کروا دیا۔ ایدھی صاحب بڑے دل کے انسان تھے۔ خواجہ غریب نوازکے حوالے سے انھوں نے بتایاکہ حاجی عبدالرؤف بھی غریبوں کی خدمات کرتے ہیں وہ بھی نادار مفلسوں اور غریبوں کے لیے خواجہ غریب نواز کی توسط سے دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیں جو نیکی کے کام کرتے ہیں میں ان کی قدرکرتاہوں، نیکی ایدھی کرے یا کوئی اور کرے نیکی تو اﷲ کی راہ میں خدمت کا نشان ہے جو شخص بھی تعصب سے بالاتر ہوکر کام کرے میری نگاہ میں وہ اچھا انسان ہے اور لائق تحسین ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ ان کا تعلق بھی میمن کمیونٹی سے ہے۔ میں کمیونٹی پر یقین نہیں رکھتا میرا یقین ہے کہ آپ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیں یہی ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے۔ ایدھی صاحب نے کہا کہ جب تک آپ صراط مستقیم پر ہیں آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عزم و حوصلہ جب ہی پیدا ہوتا ہے جب آپ نیکی کے راستے پر سفر کر رہے ہوں۔
راقم ان سے تفصیلی ملاقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں سے نالاں تھے۔ کتنے عظیم تھے ایدھی کہ ان کے انتقال اور تدفین کے روز ایدھی فاؤنڈیشن کے تمام دفاتر کھلے رہے اور چھٹی کا اعلان نہ کیا گیا۔
عبدالستارایدھی کا جنازہ تواٹھ گیا وہ ہاتھ جوہر وقت ہمدردی کے چراغ جلاتے تھے بجھ گئے لیکن ایدھی فاؤنڈیشن کا پودا آج بھی غریبوں، مفلسوں، لاچاروں کو پھل دے رہا ہے ۔ اﷲ پاک ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ (آمین)