افغانستان میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی ہیلی کاپٹرکےعملے کی بازیابی کیلئے کوششیں تیز
افغان صدر اشرف غنی نے عملے کی بازیابی کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ISLAMABAD:
افغانستان کے صوبے لوگر میں گزشتہ روز کریش لینڈنگ کرنے والے پاکستانی ہیلی کاپٹر کے عملے کی بازیابی کے لیے سیاسی وعسکری سطح پر کوششیں جاری ہیں جب کہ افغان صدراشرف غنی اورافغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نکلسن نے اس حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت پنجاب کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر معمول کی مرمت کے لیے افغانستان کے راستے ازبکستان جا رہا تھا کہ جمعرات کی صبح صوبہ لوگر کے ضلع عذرا میں کریش لیڈنگ کی جس کے بعد اطلاعات تھیں کہ طالبان کی طرف سے ہیلی کاپٹر تباہ کر کےعملے کو یرغمال بنالیا گیا ہے تاہم اس وقت افغان طالبان کے ترجمان نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہےکہ ہیلی کاپٹر کے واقعہ پر آرمی چیف نے افغان صدراشرف غنی اور افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نکلسن سے رابطہ کیا اور عملے کی بازیابی کے لئے تعاون کی درخواست کی جس پر جنرل نکلسن اوراشرف غنی نے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی ۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: عملے کی بازیابی کیلئے تمام وسائل استعمال کئے جارہے ہیں، وزیراعظم
نمائندہ ایکسپریس نیوز کے مطابق ہیلی کاپٹر مرمت کے لیے جا رہا تھا، اس نے شیڈول کے مطابق پشاور سے ٹیک آف کیا اور اس نے براستہ افغانستان ازبکستان جانا تھا جہاں اس کی منزل بخارہ تھی، ہیلی کاپٹر نے افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے کرم ایجنسی کے قریب فنی خرابی یا کسی دوسری وجہ کے باعث افغان علاقے لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کی۔ نمائندہ نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں کرنل (ر) صفدر، لیفٹیننٹ کرنل (ر) شفیق، میجر (ر) صفدر، فلائٹ انجینئر کرنل (ر) ناصر کیبن کریو ناصر اور داؤد جب کہ روسی نیوی گیٹر سرگئی سیویسٹیانوف بھی سوار تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ہیلی کاپٹر معاملہ؛ آرمی چیف کا امریکی جنرل کو فون
دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے لیے افغان فضائی حدود کی اجازت لی گئی تھی جب کہ عملے کی بازیابی کے معاملے پر افغان حکومت سے رابطے میں ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: آرمی چیف کی افغان صدرسےعملے کی بازیابی پرمدد کی درخواست
افغانستان کے مشرقی صوبے لوگر کو باب جہاد بھی کہا جاتا ہے جس کی آبادی تقریبا چار لاکھ ہے اور یہاں 60 فیصد آبادی پشتون ہے، لوگر صوبے کا آخری گورنرارسلا جمال تھا جسے طالبان نے 2013 میں قتل کردیا تھا اس وقت سے یہاں پرافغان حکومت کا کوئی گورنر نہیں ہے، 2014 میں افغان طالبان نے لوگر صوبے پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا جسے بعد میں نیٹو افواج نے چھڑایا تھا۔
افغانستان کے صوبے لوگر میں گزشتہ روز کریش لینڈنگ کرنے والے پاکستانی ہیلی کاپٹر کے عملے کی بازیابی کے لیے سیاسی وعسکری سطح پر کوششیں جاری ہیں جب کہ افغان صدراشرف غنی اورافغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نکلسن نے اس حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت پنجاب کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر معمول کی مرمت کے لیے افغانستان کے راستے ازبکستان جا رہا تھا کہ جمعرات کی صبح صوبہ لوگر کے ضلع عذرا میں کریش لیڈنگ کی جس کے بعد اطلاعات تھیں کہ طالبان کی طرف سے ہیلی کاپٹر تباہ کر کےعملے کو یرغمال بنالیا گیا ہے تاہم اس وقت افغان طالبان کے ترجمان نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہےکہ ہیلی کاپٹر کے واقعہ پر آرمی چیف نے افغان صدراشرف غنی اور افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نکلسن سے رابطہ کیا اور عملے کی بازیابی کے لئے تعاون کی درخواست کی جس پر جنرل نکلسن اوراشرف غنی نے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی ۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: عملے کی بازیابی کیلئے تمام وسائل استعمال کئے جارہے ہیں، وزیراعظم
نمائندہ ایکسپریس نیوز کے مطابق ہیلی کاپٹر مرمت کے لیے جا رہا تھا، اس نے شیڈول کے مطابق پشاور سے ٹیک آف کیا اور اس نے براستہ افغانستان ازبکستان جانا تھا جہاں اس کی منزل بخارہ تھی، ہیلی کاپٹر نے افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے کرم ایجنسی کے قریب فنی خرابی یا کسی دوسری وجہ کے باعث افغان علاقے لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کی۔ نمائندہ نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں کرنل (ر) صفدر، لیفٹیننٹ کرنل (ر) شفیق، میجر (ر) صفدر، فلائٹ انجینئر کرنل (ر) ناصر کیبن کریو ناصر اور داؤد جب کہ روسی نیوی گیٹر سرگئی سیویسٹیانوف بھی سوار تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ہیلی کاپٹر معاملہ؛ آرمی چیف کا امریکی جنرل کو فون
دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے لیے افغان فضائی حدود کی اجازت لی گئی تھی جب کہ عملے کی بازیابی کے معاملے پر افغان حکومت سے رابطے میں ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: آرمی چیف کی افغان صدرسےعملے کی بازیابی پرمدد کی درخواست
افغانستان کے مشرقی صوبے لوگر کو باب جہاد بھی کہا جاتا ہے جس کی آبادی تقریبا چار لاکھ ہے اور یہاں 60 فیصد آبادی پشتون ہے، لوگر صوبے کا آخری گورنرارسلا جمال تھا جسے طالبان نے 2013 میں قتل کردیا تھا اس وقت سے یہاں پرافغان حکومت کا کوئی گورنر نہیں ہے، 2014 میں افغان طالبان نے لوگر صوبے پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا جسے بعد میں نیٹو افواج نے چھڑایا تھا۔