بھارت کا بھیانک چہرہ ریپ کی ویڈیوز50 سے 150 روپے میں فروخت

عصمت دری کرنے والے افراد ویڈیو بناکر اسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں، پولیس حکام


ویب ڈیسک August 04, 2016
عصمت دری کرنے والے افراد ویڈیو بناکر اسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں، پولیس حکام، فوٹو؛ فائل

بھارت کے کئی علاقوں میں خواتین سے زیادتی اور عصمت دری کی سی ڈیز 50 سے 150 روپے میں فروخت کی جارہی ہیں اور اس طرح یہ ویڈیوز تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں۔

بھارت میں زیادتی کے واقعہ کی ایک ایسی ہی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں گنے کے کھیت میں ایک لڑکی کو دیکھا جاسکتا ہے جو اپنے کپکپاتے ہاتھ جوڑ کر بہت سے درندوں سے معافی مانگتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی پھٹی آنکھوں سے رحم طلب کرتی ہے لیکن مجرموں میں سے ایک آگے بڑھ کر اس پر جھپٹتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اترپردیش میں موبائل اور ویڈیو کی دکانوں پر ایسی ویڈیو کی بھرمار ہے اور سیکڑوں، غالباً ہزاروں ویڈیوز روزانہ فروخت ہوتی ہیں۔ اگر ویڈیو کلپ کچھ خاص ہو تو 30 سیکنڈز سے لے کر 5 منٹ تک کی ویڈیو 50 سے 150 روپے میں فروخت ہورہی ہے جو چوری چھپے فروخت کی جارہی ہیں۔

صرف با اعتماد حوالے والے افراد کو دیکھ کر ہی دُکاندار اس طرح کی ویڈیوز کو فروخت کررہے ہیں اور یہ بھیانک دھندہ پھل پھول رہا ہے۔ آگرہ کے مقامی بازار کے ایک دُکاندار نے بتایا کہ ویڈیو براہ راست آپ کے فون یا یوایس بی ڈرائیو میں منتقل کردی جاتی ہے، یہ ویڈیوز انفرادی یا گروپ کی جانب سے فیس بک یا ٹمبلر وغیرہ سے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور خود ریپ میں ملوث افراد بھی بنائی گئی ویڈیوز مختلف سائٹس پر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔

آگرہ بازار کے ایک اور دکاندار نے بتایا کہ تھوڑے وقت میں ویڈیو وائرل ہوکر دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ بھارت میں عصمت دری کرنے والے افراد ویڈیو بناکر اسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ ریپ کی شکار لڑکی پولیس سے رابطہ نہ کرسکے۔ اس طرح یہ مجرم خود کو بچانے کے لیے ویڈیو بناتے ہیں۔

آگرہ پولیس حکام کے مطابق شہر کے کئی علاقوں میں فحش ویڈیوز کے لیے چھاپے مارے گئے ہیں لیکن اس روش کو مکمل طور پر روکنا محال ہے۔ اس کے علاوہ میرٹھ اور بریلی کے علاقوں میں فحش فلموں کی فروخت جاری ہے اور اسی طرح 21 سال کی ایک لڑکی نے اپنی ویڈیوز کو آن لائن دیکھ کر خودکشی کرلی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں