پاکستان 24 برس سے کوئی تمغہ سینے پرنہیں سجا سکا

کروڑوں کی آبادی والے ملک کے 7 کھلاڑی وائلڈ کارڈ کے ذریعے حصہ لیں گے، میڈلز جیتنے کا امکان نہ ہونے کے برابر


Mian Asghar Saleemi August 05, 2016
کروڑوں کی آبادی والے ملک کے 7 کھلاڑی وائلڈ کارڈ کے ذریعے حصہ لیں گے، میڈلز جیتنے کا امکان نہ ہونے کے برابر: فوٹو :فائل

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کھیلوں کے کروڑوں، اربوں شائقین کا انتظار اب ختم ہونے والا ہے،اولمپکس گیمز کا آغاز جمعے کو برازیل میں ہورہا ہے، 21 اگست تک جاری رہنے والے ایونٹ میں امریکا، چین، انگلینڈ سمیت دنیا بھرکے متعدد ممالک کے کھلاڑی ایک بار پھر میڈلز کی دوڑ میں شامل ہوکرملک وقوم کا نام روشن کرنے کے لیے پُرامید ہیں،پاکستانی شائقین کے ذہنوں میں ابھی سے یہ خدشات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ 2 دہائیوں سے میڈلز سے محروم قومی کھلاڑیوںکوکیا ایک بار پھر خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑے گا۔

کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ 20 کروڑ کی آبادی پر مشتمل دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی اس بار اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی نہیں کر سکا، پاکستان نے پہلی بار1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی تو مجموعی ایتھلیٹس کی تعداد 39 تھی،1952 کے ہیلینسکی اولمپکس میں یہ تعداد بڑھ کر 44 تک پہنچ گئی،1956کے میلبورن اولمپکس میں تو ریکارڈ 62کھلاڑیوںنے شرکت کی،بعد ازاں کھیلوں کی تنظیموں کے عہدیداروں کی اجارہ داری اور میرٹ پر کھلاڑیوں کا انتخاب نہ ہونے سے یہ تعداد کم ہوتے ہوتے 2درجن سے بھی کم رہ گئی، بیجنگ اولمپکس2008 اور لندن اولمپکس2012 میں تو محض 21، 21 ایتھلیٹس ہی شریک ہو سکے۔

اب ملکی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم ایتھلیٹس ریو اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کر سکیں گے، ورلڈ لیگ میں شرمناک شکستوں کے بعد قومی ہاکی ٹیم کو بھی تاریخ میں پہلی بار اولمپکس کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا، اس صورتحال کے بعد صرف 7 کھلاڑیوں کو وائلڈ کارڈ کے ذریعے اولمپکس کا حصہ بننے کے لیے پروانہ جاری کیا گیا، حیران کن طور پر 7کھلاڑیوں کے ساتھ 10آفیشلز بھی پاکستانی دستے کا حصہ ہیں۔ ایتھلیٹکس مقابلوں میں محبوب علی 400 میٹر میں ملک کی نمائندگی کریں گے جبکہ نجمہ پروین 400 میٹر کے خواتین مقابلوں کے دوران ایکشن میں دکھائی دیں گی، جوڈو کے مقابلوں میں شاہ حسین شاہ 100 کلوگرام میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے، شوٹنگ میں غلام مصطفی بشیر مردوں کے 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل میں حریف کھلاڑیوں کا مقابلہ کریں گے جبکہ منہل سہیل کا خواتین کے 10 میٹر ایئر رائفل میں صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔ سوئمنگ میں حارث بانڈے مردوں کے400 میٹر فری اسٹائل میں ایکشن میں دکھائی دیں گے جبکہ لیانا سوان خواتین کے 50 میٹر فری اسٹائل میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گی۔

اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان اب تک مجموعی طور پر 10 میڈلز ہی جیت سکا، ان میں 3 گولڈ، 3 سلور اور 4 برانزمیڈلز شامل ہیں، پاکستان نے آخری بار کانسی کا تمغہ 1992کے بارسلونا اولمپکس میں ہاکی کی بدولت جیتا تھا، 24 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان اولمپکس میں کوئی بھی تمغہ اپنے سینے پر نہیں سجا سکا ہے، اٹلانٹا (1996)، سڈنی (2000)، ایتھنز(2004) ، بیجنگ (2008) اور لندن اولمپکس2012 میں قومی دستے کو خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔ پاکستان نے آخری بار کامن ویلتھ گیمز کی شکل میں کھیلوں کے بڑے مقابلوں میں حصہ لیا، ماضی میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے 2 دھڑوں میں سرد جنگ کی وجہ سے قومی ہاکی ٹیم میگا ایونٹ میں شرکت ہی نہ کرسکی، گو کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی کھلاڑی 4 میڈلز حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن مجموعی پرفارمنس کا جائزہ لیا جائے تو قومی ایتھلیٹس کی کارکردگی کا گراف اوپر جانے کی بجائے نیچے ہی رہا۔

ملکی بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر ہر کوئی شارٹ کٹ کے چکر میں ہے اور دوسروں کو زیر کر کے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں قدم جمانے کا خواہشمند ہے۔ کھیلوں کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیںکہ عالمی سطح پر پاکستان کھلاڑی میڈلز لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، انھیں تو بس دلچسپی صرف اور صرف اس بات میں رہتی ہے کہ کھیلوں کی آڑ میں ان کے غیر ملکی دوروں میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، کھلاڑیوں کے بجائے اپنی ذات کو ترجیح دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے ہونے والے مقابلے میں ہمارے پلیئرز جس طرح جاتے ہیں اسی طرح خالی ہاتھ واپس لوٹتے ہیں۔

اولمپکس دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ ہوتا ہے، قومیں 4 سال تک اس مقابلے کی تیاریاںکرتی ہیں اور جب ان کے کھلاڑی سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے لے کر واپس لوٹتے ہیں تو پوری قوم ان کا استقبال کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے دوسرے شعبوں کی طرح پاکستان کھیلوں میں بھی بری طرح پستی میں جارہا ہے، غور کرنے کی بات ہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے لیکن 1992 سے لے کر اب تک ہم اولمپک مقابلوں میں ایک بھی میڈل حاصل نہیں کر سکے، امریکا اولمپکس مقابلوں کی تاریخ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ 2399 میڈلز حاصل کر چکا ہے، سوویت یونین 1010 تمغوں کے ساتھ دوسری پوزیشن پر ہے، برطانیہ780، فرانس671، جرمنی573، اٹلی549، چین473، ہنگری476 اور جاپان398 تمغوں کے ساتھ نمایاں ہے۔

مان لیا کہ یہ بڑے ملک ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا لیکن آپ تیسری دنیا کے ممالک کی صورتحال بھی ملاحظہ کر لیں، یوگوسلاویہ نے 83، بھارت 26 ،ازبکستان نے 20 اورزمبابوے نے 8 میڈلز حاصل کیے ہیں، لندن اولمپک 2012 میں205 ممالک کے 10960 ایتھلیٹس شریک ہوئے، ان میں پاکستان کے کھلاڑی بھی شامل ہوئے لیکن ہمارا نام بدترین ٹیموں میں آیا مگر کسی شخصیت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی حتیٰ کہ افغانستان بھی 2008 بیجنگ اولمپکس کے بعد لندن اولمپکس2012 میں بھی کانسی کا میڈل حاصل کرنے میں کامیاب رہا اسی طرح غربت کے مارے ممالک گیبون، گوئٹے مالا سمیت افریقہ کے متعدد ممالک میڈلز کی دوڑمیں اپنا نام درج کروانے میںکامیاب رہے۔

آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو ملکی کھیلوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں تو جواب صاف اور سیدھا سادھا یہ ہے کہ ہمیشہ سے ملک بھر کی کھیلوں کی فیڈریشنز پر ایسے افراد کا قبضہ رہا جن کا سرے سے اسپورٹس سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ ان عہدیداروں کو کھیلوں میں کم باہر کے دوروں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض شخصیات ایسی بھی ہیں جو ایک سے زیادہ کھیلوں کی تنظیموں کی سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھیں ہیں،وہ اسپورٹس کو ترقی دینے کے نام پر لاکھوں اور کروڑوں روپے کے گھپلوں میں ملوث نظر آتی ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح جب تک اولمپکس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے گراس روٹ لیول سے کھلاڑیوں کو تیار کرنے پر توجہ نہ دی جائے گی کھیلوں کا قبلہ درست نہیں ہو سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں