فرقہ واریت سے نجات مگر کیسے۔۔۔۔۔۔۔
اجتماعی زوال اور بربادی کا انتہائی اورآخری کنارا آن پہنچا ہے.
اجتماعی زوال اور بربادی کا انتہائی اور آخری کنارا آن پہنچا ہے جس کی واضح اور الم ناک نشانی یہ ہے کہ قومی و ملی وحدت خواب و خیال اور قصّۂ پارینہ بن چکی ہے۔
ضعیف العمر افراد کو قدرے متحد اور پرسکون سماج کی حسین و حسرت آمیز یادیں خون کے آنسو رلاتی ہیں تو نئی نسل کے لیے امن و اتحاد بے معنی لفظوں سے زیادہ وقعت و اہمیت نہیں رکھتے۔
یہ سب بے سبب نہیں بل کہ وجہ صاف اور نمایاں ہے کہ پچھلی چند دہائیوں سے ہم مسلسل اعلانیہ و غیر اعلانیہ حالت جنگ میں ہیں۔ یہ جنگ اگر بیرونی اور مسلط کردہ بھی ہو تب بھی ہمارے طرز فکر و عمل میں '' آبیل مجھے مار'' کے عنصر سے انکار ممکن نہیں۔ اسی خودکش پالیسی نے بہ حیثیت قوم و ملت ہمیں اندر سے کھوکھلا اور پارہ پارہ کردیا ہے۔ تقسیم کی دیواریں اس قدر بلند اور نفرت کی خلیج اتنی گہری ہوچکی جنہیں گرانا اور پاٹنا ایک تاریخی چیلنج بن کر ہمارے سامنے آن کھڑا ہے۔ رنگ، نسل، زبان، ثقافت اور علاقائی و جغرافیائی تقسیم سے زیادہ خطرناک اور مہلک مذہبی فرقہ واریت و انتہا پسندی ہے۔
حالاں کہ تاریخ انسانی کے تمام ادوار میں ہمیشہ دین و مذہب کی اساس، نظریہ، عنوان اور ہدف وحدت انسانی اور تکریم آدمیت کا نظام و قیام رہا ہے۔ انسانیت کے مابین تقسیم، تفریق، تمیز، انتشار اور نفرت و انتقام ہمیشہ سے ابلیسی، طاغوتی، نمرودی، فرعونی اور ابوجہلی قوتوں کا تشخص اور تعارف ہے اور یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اگر آگ سلگتی بھی ہو تو مزید تیل دکھانے سے بڑھتی اور شعلے بھڑکاتی ہے، جب کہ پانی اور مٹی ڈالنے سے سرد ہوکر بجھ جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب نمرود نے آگ جلائی تو قدرت نے ابراہیم خلیل اﷲ ؑ کی سلامتی و بقا کے لیے آگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم دیا تو پھر کیوں آج ہم منشائے فطرت کے خلاف مذہب و عقیدت کے نام پر نفرت و انتقام اور تکفیر و دشنام سے کام لیتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالنے کا سامان کرتے ہیں۔۔۔۔ ؟
قرآن حکیم ہمیں تنبیہ کرتا ہے کہ ''اے اہل بصیرت عبرت حاصل کرو''
دین اسلام ایک آفاقی، فطری، ہمہ گیر، عالم گیر اور سائنٹیفک ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو سطحی افکار اور روایتی تنگ نظریوں سے ماورا ایک اعلیٰ ترین نصب العین اور مقصد حیات عطا کرتا ہے، جس کے نتائج اس دنیا میں اخوت و مساوات، رواداری و بردباری، عدل و انصاف، امن و آشتی اور انسان دوستی کی صورت میں اور اگلی دنیا میں رضائے الٰہی کے انعام و اکرام کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں۔
اسلام نے تو روز اول سے ہی ''دین میں عقیدہ و عبادت کے باب میں کوئی جبر نہیں'' کے آفاقی و ادبی اصول کو لازم ٹھہرایا اور اگر پھر بھی یک طرفہ طور پر فریق مخالف ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ انتہا پسندی سے باز نہ آئے تو ''تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین'' کے لازوال جملے سے قرآن نے اپنے ماننے والوں کو تشدد و انتہا پسندی کے نزدیک جانے سے یک سر روک دیا۔ ہر ایک مذہب، دین اور نظام کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہی حق اور سچ ہے جب کہ اس کے مقابل دیگر مذاہب و نظریات اور عقائد و افکار جھوٹ اور بطلان کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن دین اسلام کی انفرادیت و آفاقیت کے کیا کہنے کہ جس کے دعویٰ اور صداقت کی اساس دوسروں کی کلی نفی اور انکار کے بجائے اس تاریخی حقیقت پر ہے کہ اسلام سے پہلے کے مذاہب قومی سطح کے تھے اور اسلام بہ حیثیت ایک آفاقی و عالم گیر دین کے اپنے سے ماقبل مذاہب کی جملہ صداقتوں پر استوار اور ان کی تکمیل کرنے والا ہے۔
خود نبی اکرمؐ نے بعثت انبیا و رسلؑ کے سلسلے کو ایک عمارت سے مثال دیتے ہوئے اپنی ذات مقدسہ کو اس اینٹ کی مانند قرار دیا جو اس عمارت کی آخری اکائی اور اسے مکمل کرنے والی ہے۔ اور کیا قرآن حکیم میں خاتم النبیینؐ پر ایمان لانے سے قبل تمام انبیا و رسل ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ و حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے اور ان کی تصدیق کو واجب نہیں ٹھہرایا گیا اور کیا خود قرآن، تورات و انجیل کا مصدق نہیں ہے۔
دوسروں کے جہنمی اور اپنے جنتی ہونے کے شب و روز اعلانات اور نعرہ زنی کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اسی طرز فکر اور خوش فہمیوں کی شدید مذمت کی ہے ''اور یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی چیز (حق) پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی کسی چیز (حق) پر نہیں اور حالاں کہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا پھر بھی عقل نہیں رکھتے۔'' (القرآن)
قرآن حکیم کا تجزیہ صد فی صد حق ہے اس لیے کہ ہم قرآن پڑھتے ضرور ہیں مگر حسن نیت اور اصلاح اقوال کی غرض سے اس میں غور و فکر نہیں کرتے۔
''کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں'' (القرآن)
اسلام سے پہلے کی اقوام جن غیر ضروری اور فروعی تنازعات کے باعث تفرقے کا شکار ہوکر قعر مذلت میں گرچکی تھیں قرآن نے جا بہ جا ان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ہمیں جو لائحہ عمل عطا کیا ہے وہ تمام جھگڑوں کا شافی و کافی علاج ہونے کے ساتھ ایک اساسی و راہ نما اصول بھی ہے۔
''اور تم انہیں گالی نہ دو جنہیں وہ اﷲ کے سوا پکارتے ہیں تاکہ وہ ناسمجھی و بے شعوری سے تمہاری سچے خدا کو گالی نہ دے بیٹھیں'' (القرآن)
گویا حق و باطل کی حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں دیگر مذاہب کے بانیان، پیشواؤں اور مقلدین کے ساتھ احترام و رواداری کے برتاؤ کا حکم دیا گیا چہ جائے کہ ہم تکفیر و تشنیع کے لٹھ لے کر دوسروں کے پیچھے بھاگنے ہی میں زندگی کی ساری قیمتی متاع ضایع کر بیٹھیں۔
عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ''اﷲ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بل کہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے بے شک گندگی کبھی گندگی کو نہیں مٹا سکتی۔'' (مسند احمد)
مذکورہ فرمان نبویؐ قرآن حکیم میں موجود ایک آفاقی صداقت اور خدائی قانون کی جامع تشریح ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''بے شک حسنات (نیکیاں) سیئات (برائیوں) کو مٹا ڈالتی ہیں۔'' (القرآن)۔
حضورؐ کا اسوۂ حسنہ گواہ ہے کہ آپؐ نے اسلام کے مخالفین کو اساسیات و مشترکات کی طرف دعوت دی نہ کہ متفرق و مختلف امور پر زور ڈالا۔ ''آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے'' (القرآن)
آج ہم نہ صرف دیگر مذاہب سے فکری و عملی طور پر برسرپیکار ہیں بل کہ خود توحید و رسالتؐ پر مبنی ایک کلمہ کے اقرار کے باوجود مذہبی و مسلکی اور گروہی خانہ جنگیوں کا شکار ہیں۔
اگر تمام مذاہب و مسالک بہ قبول ابوالکلام آزاد اپنے اصل اور بنیاد کی طرف لوٹ جائیں تو باہمی رقابت اور دوریاں قربت و محبت میں ڈھل سکتی ہیں۔ اس لیے کہ اسلام کے قرون اول اور اکابرین کے افکار میں انتہا درجہ کی وسعت و اعتدال موجود ہے جس پر ہماری ہزار سالہ مذہبی رواداری کی بے شمار شہادتیں ہمیں جھنجھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔
امام شاہ ولی اﷲ ؒ نے اہل سنت سے مراد اہل قبلہ قرار دیے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ نے اہل قبلہ کی تکفیر کو حرام اور ناجائز ٹھہرایا ہے۔ خود ماضی قریب میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں تمام مسالک کے اکابر علما کے درمیان باہمی محبت و احترام کوئی خفیہ دستاویز نہیں رہی۔ جب کہ بین المذاہب رواداری بھی اسی کتاب کا ایک سنہری باب ہے۔ اگر نیرنگیاں اور تنوعات عالم موجود کا حسن ہیں تو اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر کثرت میں وحدت پیدا کرنا بھی وہ حکمت ہے جو مومن کی گم شدہ میراث ہے۔
''اور تم سب اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور باہم فرقہ بندی نہ کرو'' (القرآن)
آج ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشت گردی اور تکفیر سازی کی جو آگ شعلہ زن سبھی کچھ خاکستر کررہی ہے اس کا بنیادی سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم شعوری و لا شعوری طور پر جڑوں کو چھوڑ کر شاخوں میں الجھے ہیں جب کہ بہ قول برصغیر کے عظیم مفکر و فلاسفر امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ ''ہم ان اختلافات کے چھوٹے چھوٹے تنگ راستوں پر نہیں چلیں گے بل کہ تحقیق کی شاہ راہ اختیار کریں گے جس پر اسلام کے مرکزی لوگ چلتے رہے ہیں اورجڑوں کو چھوڑ کر شاخوں میں ہاتھ نہیں الجھائیں گے''
(بہ حوالہ، شرح حجّۃ البالغہ)
ضعیف العمر افراد کو قدرے متحد اور پرسکون سماج کی حسین و حسرت آمیز یادیں خون کے آنسو رلاتی ہیں تو نئی نسل کے لیے امن و اتحاد بے معنی لفظوں سے زیادہ وقعت و اہمیت نہیں رکھتے۔
یہ سب بے سبب نہیں بل کہ وجہ صاف اور نمایاں ہے کہ پچھلی چند دہائیوں سے ہم مسلسل اعلانیہ و غیر اعلانیہ حالت جنگ میں ہیں۔ یہ جنگ اگر بیرونی اور مسلط کردہ بھی ہو تب بھی ہمارے طرز فکر و عمل میں '' آبیل مجھے مار'' کے عنصر سے انکار ممکن نہیں۔ اسی خودکش پالیسی نے بہ حیثیت قوم و ملت ہمیں اندر سے کھوکھلا اور پارہ پارہ کردیا ہے۔ تقسیم کی دیواریں اس قدر بلند اور نفرت کی خلیج اتنی گہری ہوچکی جنہیں گرانا اور پاٹنا ایک تاریخی چیلنج بن کر ہمارے سامنے آن کھڑا ہے۔ رنگ، نسل، زبان، ثقافت اور علاقائی و جغرافیائی تقسیم سے زیادہ خطرناک اور مہلک مذہبی فرقہ واریت و انتہا پسندی ہے۔
حالاں کہ تاریخ انسانی کے تمام ادوار میں ہمیشہ دین و مذہب کی اساس، نظریہ، عنوان اور ہدف وحدت انسانی اور تکریم آدمیت کا نظام و قیام رہا ہے۔ انسانیت کے مابین تقسیم، تفریق، تمیز، انتشار اور نفرت و انتقام ہمیشہ سے ابلیسی، طاغوتی، نمرودی، فرعونی اور ابوجہلی قوتوں کا تشخص اور تعارف ہے اور یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اگر آگ سلگتی بھی ہو تو مزید تیل دکھانے سے بڑھتی اور شعلے بھڑکاتی ہے، جب کہ پانی اور مٹی ڈالنے سے سرد ہوکر بجھ جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب نمرود نے آگ جلائی تو قدرت نے ابراہیم خلیل اﷲ ؑ کی سلامتی و بقا کے لیے آگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم دیا تو پھر کیوں آج ہم منشائے فطرت کے خلاف مذہب و عقیدت کے نام پر نفرت و انتقام اور تکفیر و دشنام سے کام لیتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالنے کا سامان کرتے ہیں۔۔۔۔ ؟
قرآن حکیم ہمیں تنبیہ کرتا ہے کہ ''اے اہل بصیرت عبرت حاصل کرو''
دین اسلام ایک آفاقی، فطری، ہمہ گیر، عالم گیر اور سائنٹیفک ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو سطحی افکار اور روایتی تنگ نظریوں سے ماورا ایک اعلیٰ ترین نصب العین اور مقصد حیات عطا کرتا ہے، جس کے نتائج اس دنیا میں اخوت و مساوات، رواداری و بردباری، عدل و انصاف، امن و آشتی اور انسان دوستی کی صورت میں اور اگلی دنیا میں رضائے الٰہی کے انعام و اکرام کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں۔
اسلام نے تو روز اول سے ہی ''دین میں عقیدہ و عبادت کے باب میں کوئی جبر نہیں'' کے آفاقی و ادبی اصول کو لازم ٹھہرایا اور اگر پھر بھی یک طرفہ طور پر فریق مخالف ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ انتہا پسندی سے باز نہ آئے تو ''تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین'' کے لازوال جملے سے قرآن نے اپنے ماننے والوں کو تشدد و انتہا پسندی کے نزدیک جانے سے یک سر روک دیا۔ ہر ایک مذہب، دین اور نظام کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہی حق اور سچ ہے جب کہ اس کے مقابل دیگر مذاہب و نظریات اور عقائد و افکار جھوٹ اور بطلان کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن دین اسلام کی انفرادیت و آفاقیت کے کیا کہنے کہ جس کے دعویٰ اور صداقت کی اساس دوسروں کی کلی نفی اور انکار کے بجائے اس تاریخی حقیقت پر ہے کہ اسلام سے پہلے کے مذاہب قومی سطح کے تھے اور اسلام بہ حیثیت ایک آفاقی و عالم گیر دین کے اپنے سے ماقبل مذاہب کی جملہ صداقتوں پر استوار اور ان کی تکمیل کرنے والا ہے۔
خود نبی اکرمؐ نے بعثت انبیا و رسلؑ کے سلسلے کو ایک عمارت سے مثال دیتے ہوئے اپنی ذات مقدسہ کو اس اینٹ کی مانند قرار دیا جو اس عمارت کی آخری اکائی اور اسے مکمل کرنے والی ہے۔ اور کیا قرآن حکیم میں خاتم النبیینؐ پر ایمان لانے سے قبل تمام انبیا و رسل ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ و حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے اور ان کی تصدیق کو واجب نہیں ٹھہرایا گیا اور کیا خود قرآن، تورات و انجیل کا مصدق نہیں ہے۔
دوسروں کے جہنمی اور اپنے جنتی ہونے کے شب و روز اعلانات اور نعرہ زنی کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اسی طرز فکر اور خوش فہمیوں کی شدید مذمت کی ہے ''اور یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی چیز (حق) پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی کسی چیز (حق) پر نہیں اور حالاں کہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا پھر بھی عقل نہیں رکھتے۔'' (القرآن)
قرآن حکیم کا تجزیہ صد فی صد حق ہے اس لیے کہ ہم قرآن پڑھتے ضرور ہیں مگر حسن نیت اور اصلاح اقوال کی غرض سے اس میں غور و فکر نہیں کرتے۔
''کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں'' (القرآن)
اسلام سے پہلے کی اقوام جن غیر ضروری اور فروعی تنازعات کے باعث تفرقے کا شکار ہوکر قعر مذلت میں گرچکی تھیں قرآن نے جا بہ جا ان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ہمیں جو لائحہ عمل عطا کیا ہے وہ تمام جھگڑوں کا شافی و کافی علاج ہونے کے ساتھ ایک اساسی و راہ نما اصول بھی ہے۔
''اور تم انہیں گالی نہ دو جنہیں وہ اﷲ کے سوا پکارتے ہیں تاکہ وہ ناسمجھی و بے شعوری سے تمہاری سچے خدا کو گالی نہ دے بیٹھیں'' (القرآن)
گویا حق و باطل کی حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں دیگر مذاہب کے بانیان، پیشواؤں اور مقلدین کے ساتھ احترام و رواداری کے برتاؤ کا حکم دیا گیا چہ جائے کہ ہم تکفیر و تشنیع کے لٹھ لے کر دوسروں کے پیچھے بھاگنے ہی میں زندگی کی ساری قیمتی متاع ضایع کر بیٹھیں۔
عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ''اﷲ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بل کہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے بے شک گندگی کبھی گندگی کو نہیں مٹا سکتی۔'' (مسند احمد)
مذکورہ فرمان نبویؐ قرآن حکیم میں موجود ایک آفاقی صداقت اور خدائی قانون کی جامع تشریح ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''بے شک حسنات (نیکیاں) سیئات (برائیوں) کو مٹا ڈالتی ہیں۔'' (القرآن)۔
حضورؐ کا اسوۂ حسنہ گواہ ہے کہ آپؐ نے اسلام کے مخالفین کو اساسیات و مشترکات کی طرف دعوت دی نہ کہ متفرق و مختلف امور پر زور ڈالا۔ ''آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے'' (القرآن)
آج ہم نہ صرف دیگر مذاہب سے فکری و عملی طور پر برسرپیکار ہیں بل کہ خود توحید و رسالتؐ پر مبنی ایک کلمہ کے اقرار کے باوجود مذہبی و مسلکی اور گروہی خانہ جنگیوں کا شکار ہیں۔
اگر تمام مذاہب و مسالک بہ قبول ابوالکلام آزاد اپنے اصل اور بنیاد کی طرف لوٹ جائیں تو باہمی رقابت اور دوریاں قربت و محبت میں ڈھل سکتی ہیں۔ اس لیے کہ اسلام کے قرون اول اور اکابرین کے افکار میں انتہا درجہ کی وسعت و اعتدال موجود ہے جس پر ہماری ہزار سالہ مذہبی رواداری کی بے شمار شہادتیں ہمیں جھنجھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔
امام شاہ ولی اﷲ ؒ نے اہل سنت سے مراد اہل قبلہ قرار دیے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ نے اہل قبلہ کی تکفیر کو حرام اور ناجائز ٹھہرایا ہے۔ خود ماضی قریب میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں تمام مسالک کے اکابر علما کے درمیان باہمی محبت و احترام کوئی خفیہ دستاویز نہیں رہی۔ جب کہ بین المذاہب رواداری بھی اسی کتاب کا ایک سنہری باب ہے۔ اگر نیرنگیاں اور تنوعات عالم موجود کا حسن ہیں تو اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر کثرت میں وحدت پیدا کرنا بھی وہ حکمت ہے جو مومن کی گم شدہ میراث ہے۔
''اور تم سب اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور باہم فرقہ بندی نہ کرو'' (القرآن)
آج ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشت گردی اور تکفیر سازی کی جو آگ شعلہ زن سبھی کچھ خاکستر کررہی ہے اس کا بنیادی سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم شعوری و لا شعوری طور پر جڑوں کو چھوڑ کر شاخوں میں الجھے ہیں جب کہ بہ قول برصغیر کے عظیم مفکر و فلاسفر امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ ''ہم ان اختلافات کے چھوٹے چھوٹے تنگ راستوں پر نہیں چلیں گے بل کہ تحقیق کی شاہ راہ اختیار کریں گے جس پر اسلام کے مرکزی لوگ چلتے رہے ہیں اورجڑوں کو چھوڑ کر شاخوں میں ہاتھ نہیں الجھائیں گے''
(بہ حوالہ، شرح حجّۃ البالغہ)