کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں

کشمیریوں کی نوجوان نسل آزادی کی تڑپ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہے، ان کی آنکھیں گولیوں سے چھلنی ہیں

کشمیریوں کی نوجوان نسل آزادی کی تڑپ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہے، ان کی آنکھیں گولیوں سے چھلنی ہیں : فوٹو:فائل

وزیراعظم نوازشریف نے پاکستانی سفراء پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا کو یہ بات باور کرائیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں، مسئلہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے، مسئلہ کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اہل کشمیر کی خواہشات کے مطابق حل چاہتے ہیں، اپنی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دینگے اور یہ پاکستان کا واضح ریاستی موقف ہے، پاکستان میں دہشتگردی کے مراکز کا خاتمہ کیا جاچکا ہے، ہم امن کے متلاشی ہیں البتہ دوستانہ تعلقات کی کوششوں کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ اہم پالیسی بیان بدھ کو اہم ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کے دوران انھوں نے دیا ۔

وزیراعظم کا کشمیر کاز سے متعلق اظہار خیال خطے کی بدلتی صورتحال کے نئے تناظر، زمینی حقائق اور کشمیر میں بھارت کے خلاف پیداشدہ تحریک آزادی سمیت مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کے لیے پاکستان کی بنیادی پالیسی کا مظہر ہے۔ یہ پیغام عالمی برادری کے لیے بھی ہے کیونکہ اس عالمی فورم کی ہر قرارداد ٹھکرا کر بھارت نے کشمیر کو اپنی چانکیائی سیاست کا ناسور بنا دیا ہے۔ بھارتی رہنما چدم برم اعتراف کرچکے کہ کانگریس 50 برسوں میں وادی کشمیر کے عوام کے دل جیت نہیں سکی، بھارت نے وعدہ وفا نہیں کیا، بعض رہنما وادی کشمیر میں ریفرنڈم کی تجویز دے چکے ہیں، ممتاز دانشور اور تجزیہ کار پریم شنکرجھا سہ نکاتی حل پیش کرچکے ہیں ۔

جس میں انھوں نے بھارتی سرکار سے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز یک طرفہ جنگ بندی کریں، پولیس ہسٹری شیٹ کالعدم قرار دی جائے، کٹھ پتلی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو کشمیریوں کو دیے گئے زخموں کے ازالے کے لیے مدد مہیا کی جائے ، کشمیر میں پولیس کو اختیار دیا جائے، کوئی مہلک ہتھیار بدامنی کے خاتمہ کے لیے استعمال نہ ہو۔ اقوام متحدہ میں کشمیری عوام سے کیے گئے وعدہ کو پورا کے لیے دنیا کے سامنے کشمیر مسئلہ کا منصفانہ حل سامنے لائے اور کشمیری نوجوان تحریک آزادی کے جس جذبہ کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اس سے بھارت سمیت دنیا کے سربراہوں کو چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے اہم فریق ہیں، بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کر کے وادی کشمیر کو قتل گاہ بنا دیا ، پوری وادی کشمیری حریت پسندوں کے خون سے لالہ زار ہوچکی ہے۔ لیکن کشمیری عوام اپنے خون سے آزادی کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ بھارتی سیکولرازم اور نام نہاد جمہوریت پر اہل کشمیر پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم واجب الادا قرض ہیں جسے جبر واستبداد پر کمر بستہ بھارتی حکومت چکائے بغیر تاریخ کی عدالت سے بری نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم نواز شریف نے سفراء کو یاد دلایا کہ آج کشمیر میں آزادی کی نئی لہر ہے، بھارت سے آزادی کی تمنا کشمیریوں کی تیسری نسل کے لہو میں جس شدت سے دوڑ رہی ہے اس کا مظاہرہ دنیا 8 جولائی کے بعد سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔


کشمیریوں کی نوجوان نسل آزادی کی تڑپ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہے، ان کی آنکھیں گولیوں سے چھلنی ہیں لیکن آزادی کی روشنی ان کی رہنمائی کر رہی ہے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر کو متنازعہ مانا ہے، اقوامِ متحدہ نے بھی اسے پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ قراردیا ہے جس میں کشمیری بنیادی فریق ہیں، کشمیر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ بھی ہے، آج دنیا میں انسانی حقوق کو کسی ملک کا داخلی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے، ان دو بنیادوں پر آپ نے کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔

ہم کسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہم باہمی مفاد، ایک دوسرے کی خود مختاری وسالمیت کے احترام اور عدم مداخلت پر یقین رکھتے ہیں۔وفاقی حکومت کے اس واشگاف پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے اور ملکی قیادتوں کو کشمیر سمیت خطے کے حالات سے روشناس کرنے کی اہم ذمے داری سفراء برادری پر عائد ہوتی ہے، پاکستان کے سفیروں کو بدلتے عالمی حالات کا گہرا ادراک ہے ، انھیں ملکی سلامتی ، داخلی و خارجی صورتحال، پڑوسی ممالک سے پاکستان کے تعلقات کے حوالہ سے ملکی خارجہ پالیسی کے لیے ٹھوس سفارشات اور تجاویز دینی چاہئیں، تاہم ملک ایک با اختیار وزیر خارجہ سے محروم ہے ، اس جانب بھی حکومت توجہ دے، موقر سفراء کمیونٹی ایک مکمل وزیر خارجہ کی رہنمائی میں زیادہ آزادی سے وزیراعظم کا پیغام عام کرسکتی ہے، مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے بلاشبہ اس خلا کو پر کرنے کی ہمہ جہتی کوششیں کی ہیں اور اس بار گراں کو شایان شان طریقے سے نبھایا ہے تاہم ملکی خارجہ پالیسی سے دنیا کو آگاہ کرنے کی مزید ضرورت ہے۔

نواز شریف کی یہ بات صائب ہے کہ پاک چین دوستی کثیرالجہتی شراکت داری میں تبدیل ہوچکی ہے۔ انھوں نے سی پیک منصوبوں پر چینی حکومت اور عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان میں امن کو ضروری قراردیا۔ سفراء پر زور دیا کہ پاکستان کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ اور سبز پاسپورٹ کی عزت و وقار بنانا آپ کا خصوصی مشن ہونا چاہیے۔اب گیند سفراء کی ٹیم کے کورٹ میں ہے اور قوم جلد نتائج کی منتظر ہے۔
Load Next Story