کہانی کچھ اور ہے
قندیل بلوچ کا قتل ہمارے معاشرے کے لیے بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے
قندیل بلوچ کا قتل ہمارے معاشرے کے لیے بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے۔ کیا غیرت کے نام پر قتل جائزہے؟ بات غیرت و حمیت کی ہو تو شاید ہضم ہو لیکن کہتے ہیں ناں کہ خون خود بول ہی دیتا ہے اور بالآخر حسد، جلن اور رقابت کھل کر سامنے آتے ہیں۔
منگلا کے قریب گاؤں میں برطانوی شہریت رکھنے والی خاتون سامعہ شاہد کا قتل یا خودکشی۔ سوال اٹھتے رہے، غیرت یا جلن، حسد اور رقابت مری کے قریب گاؤں میں پنجاب میں، کراچی میں اور پورے پاکستان میں۔ آپ گزشتہ چند مہینوں کے اخبارات لے کر بیٹھ جائیں اور اعداد و شمار خود ہی حاصل کر لیں کہ غیرت کے نام پر کتنے قتل ہوئے۔
''ہمارے معاشرے میں آج کل کیا ہو رہا ہے کہ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں، یہاں ڈیفنس میں قریبی ریسٹورانٹ اور اسی طرح کی چھوٹی بڑی دکانیں جا کر دیکھیں کہ ہر عمرکی لڑکی یعنی بارہ برس سے لے کر پچیس برس تک کی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھی نظر آ جائے گی۔ بڑی عمر کی خواتین بھی نظر آئیں گی مثلاً ایسی خواتین جو اپنے بچوں کے ساتھ تفریحاً ہوٹلنگ کرتی ہیں لیکن ان میں بھی آپ کھنگالیے تو بڑی عمر کی خواتین اور چھوٹی عمر کے لڑکے یعنی ایک طوفان بدتمیزی ہے جسے آپ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا نام دے کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن اس کے درپیش کیا قباحتیں ہیں اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
پنجاب میں یہ صورتحال دوسری طرح سے ہے بڑے بڑے فنکشنز میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے جوان لڑکیاں کھڑی کی جاتی ہیں۔ گیارہویں جماعت سے لے کر آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ کتنی سال کی لڑکی چاہیے۔ یہ ایک عذاب بن چکا ہے جو ہم جیسے بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ٹینشن ہے لیکن یقین جانیے کہ بہت سے بزرگ بڑے شوق سے فرمائش داغتے ہیں، ڈانس پارٹی وغیرہ عام بات ہے۔ سوال اٹھا کیا اس کی وجہ یہ بھی تو نہیں کہ لڑکیاں اپنی خواہشات اور پیسے کے حصول کے لیے ایسے فنکشنز اٹینڈ کرتی ہیں؟ یہ ایک دوسرا رخ ہے، لیکن جو میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگوں کو بزنس کے لیے اٹریکٹ کرنے کے لیے بھی اس قسم کی مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ مالک اگر خود باریش بھی ہے تو اس کے منیجرز کہتے ہیں کہ جناب یہ ڈیمانڈ ہے آنے والے لوگ اس طرح چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط انداز ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہم کیا کر سکتے ہیں کہ ہم ایسے فنکشز سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک بڑے معروف تاجر نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا تھا وہ ان حالات میں اپنے پوتوں اور نواسوں کے مستقبل سے خوف زدہ تھے کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایک اسکول سسٹم کے چلانے والے ایک اہم رکن نے کیا تھا۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمارے یہاں کوچنگ سینٹرز کے نام پر طلبا و طالبات ایک نئے رجحان پر چل پڑے ہیں۔ ایک تو اس بہانے بہت سے رکاوٹیں خود بخود ہٹ جاتی ہیں ۔کم عقل، ناپختہ ذہن زندگی کے شور شرابے اور رنگینیوں میں گم ہونے کے لیے پیسے کے حصول کے لیے غلط راہوں پہ چل پڑتے ہیں۔ یہ راہیں غلط نتائج کے ساتھ اخبارات کی شہ سرخیاں بن جاتی ہیں۔ ان ناپختہ ذہنوں کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ ان کے گھر سے بہت دور اگر وہ کسی غلط انداز سے پیسے کما لیتی ہیں تو کسی کوکیا پتہ چلے گا لیکن پھر یہ انداز ان کی عادات میں شامل ہوکر معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور اور دیگر جگہ گھومنے کا پروگرام بنا، جلوپارک کی خاصی تعریفیں سنی تھیں۔ سخت گرمیاں اور صبح گیارہ بجے سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا کہ کراچی والے اس شدید موسم سے بے حال، بچے چڑچڑا رہے اور اسی بد حالی میں دو نوجوان جوڑے اپنی باتوں میں مگن یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی فلم کا کوئی سین چل رہا ہے۔ اس قدر بے باکی اور واہیات قسم کی اس حقیقی شوٹنگ کو دیکھ کر ڈیرے اٹھا لینے کا ارادہ کیا۔ لڑکیاں کسی تعلیمی ادارے کی طالبات لگ رہی تھیں جب کہ نوجوان شکل سے ہی لفنگے محسوس ہو رہے تھے لیکن کہتے ہیں ناں کہ اس ناپختہ عمر میں تو جھاڑی کا دوپٹہ بھی بڑا دلفریب لگتا ہے، یقیناً وہ لڑکیاں اپنے گھروں سے کسی سہیلی سے ملنے، نوٹس لینے یا اسی طرح کے بہانے بنا کر نکلی ہوں گی پھر ہمارا پنجاب کا کلچر بھی جتنا خوبصورت اور دلفریب ہے وہی اس میں غیرت اور شرافت کی آمیزش بھی شامل ہے صرف یہی نہیں دوسرے تمام کلچرز میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
قندیل بلوچ کے کیس میں بات خاصی سنگین نوعیت کی تھی لیکن اور دوسرے کیسز میں مثلاً سامعہ شاہد نے ایسا کیا جرم کر دیا تھا کہ ایک پڑھے لکھے کلچر سے نکل کر آنے والی لڑکی نے طلاق لینے کے بعد دوسرا نکاح کر لیا تھا ، کیا برا تھا کہ اسے اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دی جاتی اسی طرح کے تمام مقدمات کی تفصیلات اٹھاکر دیکھ لیں اپنی اغراض و مقاصد اپنی حسد، جلن، رقابت اور بدلہ لینے کی آگ پیچھے دہکتی نظر آتی ہے۔
سوال دو طرح کے ہیں۔ ایک جو اپنے مقاصد اور خواہشات کے پیچھے فضول طرح کے کاروبار میں ملوث ہو جاتی ہیں دوسرے وہ جو اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مشکل اور اذیت ناک ماحول میں کام کرتی ہیں۔ ہم اور آپ ان تمام حالات و واقعات کے ذمے دار ہیں، اس کے ساتھ ہمارا رنگین سنگین میڈیا بھی معصوم آنکھوں میں نجانے کتنے سنہرے سپنے سجا دیتا ہے کہ ایک عام سے گھرانے کی فوزیہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے اٹھ کر قندیل بلوچ بن جاتی ہے، ہمارا کاروبار جو مادیت پرستی کے بازار میں اتنا اتر چکا ہے جہاں ہم اپنی بچیوں کو سجا بنا کر اٹریکشن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی درآمد شدہ ڈرامے جنھیں دیکھ دیکھ کر ہر نوعمر لڑکی اپنے آپ کو ہیروئن سمجھ کر اپنے سامنے ہر قسم کے لچے لفنگے لڑکے کو اپنا ہیرو سمجھ بیٹھتی ہے۔
عزت کے نام پر قتل کرنے والوں میں ہم سب شامل ہیں، اپنے اپنے کاندھوں پر ذمے داری کے بوجھ سے عہدہ برآں ہونے والے ہم عزت دار سوسائٹی کے علمبردار ہر دوسرے تیسرے دن ایک بچی ایک لڑکی ایک خاتون کو عزت کے نام پر قتل ہونے کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایسا کیوں ہوا۔ جناب یہ کھیل عزت کا نہیں ہے، اگر ایسا ہی ہوتا تو یہ ریسٹورانٹ، پارک اور آڈیٹوریم پارلرز تفریحی مقامات ایسے نجانے کتنے فلمی اداکاراؤں اور ڈراموں کی فن کاروں کی تقلید کرتے نوجوان جوڑوں سے نہ بھرے ہوتے ہم سب دیکھتے ہیں لیکن چپ رہتے ہیں، جب چپ ہی رہنا ہوتا ہے تو پھر خون کیوں بہایا جاتا ہے، جب قندیل نے پہلی بار ماڈلنگ کی تھی پہلی بار اپنے گھر سے فرار ہوئی تھی پہلی بار ماڈرن انداز میں ابھر کر سامنے آئی تھی تب ہی عزت داروں نے اسے قتل کیوں نہ کیا، چپ کیوں رہے، کہانی بس اتنی سی نہ تھی نہ ہے، یہ تو حسد، انتقام، رقابت کی کہانی ہے، چاہے قندیل ہو، زینت ہو، سامعہ ہو یا کوئی اور۔