صوبے کے اعلیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ

اتنے محاذوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان کو کامیاب آدمی قرار دینے میں کسی کو کیا تامل ہو سکتا ہے


August 05, 2016
[email protected]

ہمارے اپنے پر تو اتنے چھوٹے چھوٹے کمزور ہیں کہ اونچے مقامات پر اڑان بھرنے میں طرح طرح کے اندیشے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

اور پھر ہم حضرت انشاء کے پیروکار بھی ہیں لوگ بھلے ہی کچھ بھی کہیں کچھ بھی سنیں ہم چپ رہنے اور ہنس دینے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں، سیدھے سادے الفاظ میں یوں کہئے کہ پشتون ہونے کے باوجود ہمیں بہادری کا کوئی دعویٰ نہیں ہے ورنہ یہ جو اپنے صوبہ خیر پخیر میں اونچی اٹریا پر کھچڑی پک رہی ہے اور جس میں بقول بھٹو مرحوم کے ''دو آلو'' بھی ہیں اسے ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے تھے اور ابن انشاء بنے رہے

کل چودہویں کی رات تھی ''گاتا رہا ابا ترا''
کچھ نے کہا یہ ''سانڈ'' ہے کچھ نے کہا ''بکرا'' تیرا

لیکن اب جب کہ ایک مقامی اخبار نے اس کھچڑی کی ہانڈی کو بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے تو چلیے ہم بھی تھوڑی کھچڑی چکھ چکھا لیں، سب سے پہلے تو اس کھچڑی کا وہ پورا نمونہ دیکھ لیں جو اخبار میں چھپا ہے، لکھا ہے ''اپنے صوبے کے ''افسران اعلیٰ'' کے افسر اعلیٰ کتنے کام'' کے آدمی ہیں یہ تو ہمیں معلوم نہیں ہے البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کتنے ''کامیاب'' ہیں، ان کی ''کامیابیوں'' کی طویل داستان سن کر آپ بھی مان لیں گے کہ موصوف کتنے ''دبنگ'' ہیں، انھی حضرات نے ایک طرف حکمران جماعت کے وزراء کو ''کنٹرول'' میں کیا ہوا ہے اور بڑی ''کامیابی'' ان کا حکم ماننے کے بجائے اپنا ''لوہا'' منواتے ہیں، دوسری طرف کمال یہ بھی ہے کہ صوبے کے ''منتظم اعلیٰ'' کو بھی رتی بھر ناراض نہیں ہونے دیتے، اس حوالے سے انھوں نے اپنی مخالف لابی کو بھی لگام دے رکھی ہے، پی سی ایس سی اور پی ایم سی افسران میں گروپ بندی بھی ''مبینہ طور'' ان کی پیدا کردہ ہے۔

اتنے محاذوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان کو کامیاب آدمی قرار دینے میں کسی کو کیا تامل ہو سکتا ہے جہاں تک ''کام'' کے متعلق کامیابیوں کی بات ہے تو کچھ عرصہ قبل صوبے کے منتظم اعلیٰ کی طرف سے، بیورو کریسی سے متعلق منفی ارشادات سن کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس محاذ کو ابھی انھوں نے پوری طرح فتح نہیں کیا ہے، یہ طویل اقتباس دینے کی وجہ یہ نہیں کہ ہم صرف اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کی سعی کر رہے ہیں بلکہ اس میں اصلی ''فی'' جو ہے وہ ہم نے بیورو کریسی ہی سے سیکھی ہے۔ بیورو کریسی کے قابل اور تجربہ کار افسران جو انگریزوں پر چل رہے ہیں وہ کبھی کسی کیس میں ''خود'' کو انوالو نہیں کرتے بلکہ کسی اور کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلاتے ہیں، مثلاً کسی بھی معاملے کی چھان بین کیجیے ابتدائی ذمے داری تھرو پراپر چینل چلتے چلتے پٹواری یا نمبردار یا کونسلر پر ڈالی ہوئی ہوتی ہے اور ان کو صرف دستخط کرنا ہوتا ہے تاکہ کل کلاں کو کوئی گڑ بڑ ہو تو گردن کسی اور کی پکڑی جائے حالانکہ سب کچھ یہی کرتے ہیں اور کراتے بھی ہیں۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ کھیت کو برباد کیا چڑیوں نے اور بدنام ہوئے کوئے ... یا ایک ٹپہ بھی ہے کہ

زما پرھسے نوم بدنام دے
د جینئی سرے شونڈے پیزوان خوڑلی دینہ

یعنی میرا نام تو ویسے ہی بدنام ہو گیا ہے، لڑکی کے ہونٹوں پر تو ''پیزوان'' (بلا) کا قبضہ ہے۔

ٹھیک بیورو کریسی کے اصول پر چلتے ہوئے ہم نے بھی اس اقتباس کی گردن پر سب کچھ ڈال دیا ہے، حالاں کہ یہ حقیقت بلکہ اس سے زیادہ حقائق بلکہ حیران کن کر دینے والے حقائق ہمیں پہلے ہی سے معلوم ہیں حتیٰ کہ خود اس صوبے کے منتظم اعلیٰ کو اپنے بارے میں، اپنے بیانات کے بارے میں، اپنے احکام کے بارے میں اور ان کا حشر نشر ہونے کے بارے میں خود بھی اتنا پتہ نہیں ہے جتنا ہمیں ہے۔ بے چارے منتظم اعلیٰ تو حکم دے دیتے ہیں پھر بیان جاری کر دیتے ہیں کیونکہ اپنے خیال میں وہ مذکورہ ''کام'' کر چکے ہوتے ہیں لیکن ان کے وہ ''کر چکے'' کے بجائے ''مر چکے'' کی فہرست میں شامل ہو چکے ہوتے ہیں، چنانچہ صحت کے بارے میں تعلیم کے بارے میں اور اس طرح دوسرے معاملات میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر اخبارات میں اکثر کاموں حتیٰ کہ فنڈز خرچ نہ ہونے کی خبریں چلتی رہتی ہیں۔

منتظم اعلیٰ کو پتہ نہیں ہے کہ آج کل ان کے بیانات جب اخبارات کی زینت بنتے ہیں تو انھیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا، اسی طرح عمران خان بھی جب اپنے مقبوضہ صوبے میں ''تبدیلی'' کے دعوے کرتے ہیں تو اصل صورت حال سے واقف لوگ اسے ہنسی میں اڑا دیتے ہیں اور یہ اس لیے کہ ''اوپر'' سے تو ایک کام کی منظوری مل جاتی ہے اور سہولتوں کا اعلان ہو جاتا ہے لیکن وہ عوام تک بالکل بھی پہنچ نہیں پاتیں اور یا اگر محض دکھاوے کے لیے پہنچتی ہیں تو برف کی طرح پگھل کر سل کے بجائے ایک چھوٹی سی ڈلی کی صورت میں پہنچتی ہے۔

مثال کے طور پر وزیراعلیٰ کو اور ان کے ذریعے عمران خان کو اس غلط فہمی میں ڈالا گیا ہے کہ ''سب اچھا'' ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی اچھا نہیں ہے صرف اوپر اوپر یعنی سیکریٹریٹ اور ہیں کوارٹر کی حد تک اوپری طور پر دکھائی ایسا دے رہا ہے یا دکھایا ایسا جارہا ہے جب کہ حقیقت میں نیچے نیچے سب کچھ سڑ چکا ہے اور بدبو دے رہا ہے۔

تحریک انصاف کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جلدی جلدی میں اس کے اندر بہت سارے افراد گھس تو گئے ہیں جو ''بینگن'' کی نوکری بھی نہیں کرتے اور خان کی بھی نہیں کرتے صرف اپنی نوکری کرتے ہیں چنانچہ اس میں اکثر ایسے لوگ آگے آئے ہیں جو پیدائشی طور پر کھلاڑی ہیں، ادھر سے بیورو کریسی کا تعاون بھی حاصل ہو چکا ہے جس بیورو کریسی کے ناپسندیدہ عناصر ادھر ادھر کر دیے گئے ہیں اسی طرح پی ٹی آئی کے اصل اور مخلص کارکن بھی کھڈے لائن لگائے گئے ہیں، اب ہم نہیں جانتے کہ پس چہ بائد کرد... لیکن اگر وزیراعلیٰ اور عمران خان پی ٹی آئی کی رہی سہی ساکھ بچانا چاہتے ہیں تو انھیں براہ راست عوام سے رابطے میں رہنا چاہیے ورنہ اگر وہ اسی طرح اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ''حلقوں'' کے اسیر رہے تو حکومت تو وہ کر لیں گے لیکن آیندہ کے لیے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا اور یوسف بے کارواں ہو کر رہ جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں