آزاد کشمیر انتخابات خدمت و دیانت کی جیت

مجموعی طور پر تمام جماعتوں کی طرح بلاول بھٹو زرداری نے بھی وزیراعظم نوازشریف کو ٹارگٹ بنا رکھا تھا۔


[email protected]

ISLAMABAD: آزاد کشمیر کے انتخابات میں بظاہر مسلم لیگ ن جیت گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بے لوث خدمت، امانت اور دیانت کی سیاست کو فتح ملی ہے، لیکن بہتر ہو گا کہ انتخابی نتائج کا مزید تجزیہ کرنے کے بجائے پہلے آزاد کشمیر کے حوالے سے چند حقائق گوش گزار کر دوں۔ پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر کا علاقہ 13 ہزار 3 سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کا دارالحکومت مظفرآباد ہے اور آبادی تقریباً 40 لاکھ سے زائد ہے۔ یہاں پہاڑی، ہندکو، گوجری، پنجابی اور پشتو بولی جاتی ہے جب کہ شرح خواندگی 65 فیصد بتائی جاتی ہے۔ کشمیر اپنی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع ہیں جب کہ 19 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔

گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کی 49 میں سے 41 نشستوں کے لیے انتخابات منعقدہوئے جس میں مسلم لیگ ن 32 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ جب کہ پیپلز پارٹی 3، مسلم کانفرنس 2 اور تحریک انصاف نے بھی 2 نشستیں حاصل کیں۔ جب کہ ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی مجموعی طور پر 49 نشستیں ہیں ان میں 8 نمایندے مخصوص نشستوں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اس پارٹی سے منتخب ہوتا ہے جس کے پاس سادا اکثریت، کم از کم 25 نشستیں ہوں۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید، حمزہ شہباز، مریم نواز، ڈاکٹر آصف کرمانی، وفاقی وزیر برائے امور کشمیر برجیس طاہر، صدیق الفاروق اور راجہ ظفر الحق پر مشتمل ٹیم نے بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھرپورکوششیں کیں۔

ان انتخابات کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ سندھ سے بھی آزاد کشمیر اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کامیابی حاصل کر کے اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ ان انتخابات میں وزیراعظم کشمیر چوہدری عبدالمجید اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق کامیاب ہو سکے ہیں جب کہ پی ٹی آئی آزاد کشمیرکے صدر اور سابق وزیراعظم کشمیر بیرسٹر سلطان محمود مسلم لیگ ن کے امیدوار سے شکست کھا گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سابق کابینہ کے 13 وزراء اور اسپیکر بھی اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے حکومت کے خلاف من گھڑت الزامات عائد کیے لیکن نتائج سے ثابت ہو گیا ہے کہ ابھی ان کی سیاست میں پختگی نہیں آئی ہے وہ احتجاج دھرنے اورگھیراؤ جلاؤ کی دھمکیاں دے کر یا بے سروپا الزامات عائد کر کے عوام کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ان کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے بلکہ وہ ہر ضمنی الیکشن، قومی و بلدیاتی انتخابات اور اب کشمیرکے انتخابات میں سیاسی طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ عوام ان کے بلند بانگ دعوؤں اور انداز سیاست سے مسلسل بیزاری کا اظہارکر رہے ہیں۔ یقینا حالیہ انتخابی نتائج ان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہیں۔

انتخابات سے قبل آزادکشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور سیاسی تجزیہ نگار پہلے ہی اس رائے کا اظہار کر رہے تھے کہ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر سے بھی پیپلز پارٹی کا صفایا کر دے گی۔ پاکستان کی قومی سیاست پر مسلم لیگ ن کی گرفت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مئی 2013ء کے قومی انتخابات ہوئے تو تین صوبوں سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔ 2015ء میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں پیپلز پارٹی گلگت بلتستان سے بھی الیکشن ہار گئی جب کہ 2016ء میں آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کی ناکامی کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ اس کی ناقص کارکردگی ہے اسی لیے کشمیر سمیت پاکستان کے عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔

جب انتخابات قریب آتے ہیں تو پیپلز پارٹی عوام سے وعدے کرتی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کرے گی، لیکن اقتدار کے پورے عرصے میں پی پی والے یہ بھو ل جاتے ہیں کہ عوام نام کی بھی کوئی مخلوق ہے اور ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً انتخابات میں پھر عوام کی جانب سے اس ہی قسم کے ردعمل کا اظہارکیا جاتا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی شہرت عوامی خدمت سے وابستہ نہیں رہی۔ اسی لیے عوام نے پیپلزپارٹی کو انتخابات میں شکست سے دوچارکر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو الیکشن مہم کے دوران حکومت کے خلاف الزامات عائدکیے۔ انھیں ابھی تک تقریرکرنے کا فن بھی نہیں آتا۔ وہ پرامپٹر کی مدد سے تقریر کرتے ہیں۔ انھوں نے الیکشن مہم کے دوران اپنی جس سوچ، نظریات اور الفاظ کا استعمال کیا ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے ان کے والد آصف زرداری کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے کشمیریوں کے دکھوں، مسائل، امنگوں کے برعکس 90ء کی دہائی کی الزام تراشی کی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ مخالفت میں مقبوضہ کشمیر کے عوام پر کیے جانے والے مظالم کو بھی بھول گئے۔

مجموعی طور پر تمام جماعتوں کی طرح بلاول بھٹو زرداری نے بھی وزیراعظم نوازشریف کو ٹارگٹ بنا رکھا تھا۔ وہ بار بار وزیر اعظم پر الزامات کی بوچھاڑکرتے رہے۔ انھیں یہ ہوش ہی نہ رہا کہ وہ کشمیریوں کے اصل مقصد کی بات کریں۔ راقم الحروف بلاول بھٹو زرداری کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے نام پر ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 1965ء کی جنگ میں ان کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور جب سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے سابق وزیراعظم راجیوگاندھی پاکستان آئے تو بے نظیر بھٹو نے کشمیر روڈ کے بورڈ تک ہٹوا دیے تھے۔ ان حقائق سے پاکستان کا ہر شہری واقف ہے۔

پاکستان کے عوام امن اور ترقی چاہتے ہیں وہ الزامات کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور موجودہ حکومت نے امن بھی قائم کیا اور ترقی و خوشحالی کی طرف بھی پاکستان کو گامزن کر دیا ہے۔ دل کی سرجری کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف اب معمول کے مطابق سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی کی خوشی اور کشمیری عوام سے اظہار تشکر کے لیے وہ تمام مصروفیات کو نظر انداز کر کے مظفر آباد پہنچے اور وہاں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے خلاف مخالفین نے کیا کچھ نہیں کہا مگر عوام نے انھیں مسترد کر دیا۔ اب یہاں بھی موٹرویز، ہائی ویز اور سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا۔ اسپتال، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ میں خود ان کاموں کی نگرانی کروں گا۔ بلاشبہ وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ کامیابی دھرنے سے نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے اور الزامات کی سیاست سے عوام اب تنگ آ چکے ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں