بُک شیلف
کتاب چوبیس ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کو اقبال کے کسی مصرعے سے مزین کیا گیا ہے.
تصورخدامیں مماثلت
مصنف: عبدالعزیز سنگھیڑا،قیمت:350 روپے
ناشر... نگارشات، 24 مزنگ روڈ لاہور
زیرنظر کتاب میں مختلف مذاہب عالم کی روشنی میں تصور خدا میں مماثلت تلاش کی گئی ہے اور بیان کیاگیا ہے کہ پوری انسانیت کا ایک ہی خدا ہے اور سارے انسانوں کے لئے اس کا پیغام بھی ایک ہی ہے۔ کتاب کا آغاز لفظ'اللہ' کی تاریخ بیان کرنے سے ہوتاہے، اس کے بعد بتایاجاتاہے کہ قدیم انبیائے کرام کے بیان کردہ اسمائے الہیہ کیا ہیں؟ بائبل میں کیا مذکور ہیں؟ اس کے دیگرمذاہب عالم میں خدا کو کس نام سے پکارا جاتاہے ، ساتھ ہی یہودیت، عیسائیت، ہندومت، سکھ مت، زرتشت مت، اسلام ، بدھ مت اور تاؤمت میں تصور خدا میں مماثلت بھی بیان کی گئی ہے۔ اگلے باب میں مصنف کا کہنا ہے کہ پیغام خدا میں مماثلت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ایک ہی رہیں۔
آگے چل کر مختلف مذاہب میں نبیوں کی آمد کی پیش گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے، اللہ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے وہ سب کے سب مسلم ہی تھے۔ آخر میں حضرت آدم، حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام، حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کا ذکر کرنے کے بعد ہندومت مصلح، بدھ مت کے احکام عشرہ اور جین مت کے اخلاقی اصولوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
دکھ کا دریا سکھ کا ساگر( ناول)
مصنفہ: آسیہ مرزا،قیمت: ایک ہزار روپے
ناشر: القریش پبلیکشنز، سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور
زیرنظرناول کے نام ہی سے جھلک رہاہے کہ یہ دکھ اور سکھ کی کہانی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی زندگی دکھوں اور سکھوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ خدا کا قانون نہایت متوازن ہے وہ اپنے ہربندے کو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی حوالے سے خوشی، سکھ اور آسودگی سے ضرور نوازتاہے۔ اگرآپ یاسیت زدہ اور قنوطی نہیں ہیں تو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے دامن بھر کر سکھ اور خوشیوں میں صاحب حیثیت ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ایک یاسیت زدہ انسان ہیں، بہت زود رنج ہیں تو خوشیاں آپ کے اردگرد منڈلانے کے باوجود آپ کو دکھائی نہیں دے سکتیں۔
اس ناول میں بہت سے کردار کچھ ایسی ہی یاسیت کا شکار ہیں جب کہ کچھ پرامید ہیں، کئی زندگی سے اپنا حصہ لڑ کر وصول کرنے کے جتن کررہے ہیں، کوئی تقدیر پر تکیہ کئے ہوئے ہیں تو کچھ دکھوں سے نبردآزما، اداس اور ملول ہیں۔ یہ ناول قاری کو یہ اہم سبق دیتاہے کہ خوشیاں کبھی طشتری میں سجا کر پیش نہیں ہوتیں، قدرت بھی آپ کی تقدیر کی خوشیاں آپ کی جھولی میں نہیں ڈالتی جس طرح کسی پرندے کو غذا اس کے گھونسلے میں نہیں ڈالی جاتی، اس کے لئے خواہش، طلب اور امید کے ساتھ جستجو اور جدوجہد کا سفر ضروری ہے۔ آپ یہ ناول پڑھیں گے تو ایک عرصہ تک اس ناول کے سحر میں مبتلا رہیں گے۔ القریش پبلیکیشنز نے پونے چھ سو صفحات پر مشتمل یہ ناول انتہائی شاندار اندازمیں شائع کیا ہے۔
پوپ کہانیاں(3)
مصنف: مقصودالٰہی شیخ،قیمت:250روپے
ناشر: فضلی سپر مارکیٹ 507/3 ٹیمپل روڈ نزد
ریڈیوپاکستان اردوبازار کراچی
کہانی صرف تخیلات سے اٹھتے بلبلوں کا نقش کاغذ پر اتارنے کا نام نہیں، کہانی میں مقصدیت ہی کہانی کو اعتبار بخشتی ہے۔برق رفتاری ہماری آج کی دنیا کی ضرورت بھی ہے اور شاخسانہ بھی۔ اسی سرپٹ دوڑتی دنیا میں ' پوپ کہانی' ایک نئی صنف کی شکل میں تریاقی صفت لئے ابھری ہے جو آج ہمارے ادب کی ضرورت اور حصہ بن چکی ہے۔ چند جملوں اور سطروں میں سلیقہ سے ہدف پالینے کا نام پوپ کہانی ہے جو مشکل نہیں تو آسان بھی کب ہے؟ مگر پوپ کہانی کی تان اختصار ہی پر ٹوٹے یہ بھی ضروری نہیں، پوپ کہانی نے ننھی سی عمر کے باوجود اپنی راہ کے سارے کانٹے گلوں میں تبدیل کرلئے ہیں، تعمیر کی لبن اول سہرا ڈاکٹرمقصود الٰہی شیخ کے سر ہوا، جس سے پھوٹتی خوشبو ہماری روح کی غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ یہی کچھ خوبیاں پوپ کہانی میں ملیں گی تو وہ پوپ کہانی ورنہ تھوپ کہانی۔ زیرنظر مجموعہ انہی کہانیوں کی پوتھی ہے جسے پڑھ کر آپ اپنے کربوں کا علاج پالیں گے، خدا کرے ایسا ہی ہو۔
بستی بستی پھر ا مسافر
مصنف: عبدالمجید خاں ،قیمت:600 روپے ،ناشر: بک ہوم ، لاہور
''بستی بستی پھرا مسافر '' عبدالمجیدخاں کا سفر نامہ ہے جس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور کینیڈا کی سیاحت کی روداد بیان کی گئی ہے۔سفر نامے ہمارے ادب کااہم حصہ بن چکے ہیں ۔نئے ممالک ، نئے جزیروں اور نئی نئی زمینوں کی تلاش و جستجو انسانی فطرت بھی ہے اور بعض حالات میں ضرورت بھی ۔جن سے قاری کو نہ صرف ان ممالک کی تاریخ ، ادب وثقافت ، معاشرت اور عوامی رویوں اور مزاج کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے بلکہ جس سفر نامے میں جس قدر مستند تاریخی حوالے اور انداز بیاں دلچسپ اوردلکش ہوگا اتنا ہی وہ سفر نامہ مقبولیت حاصل کرے گا اور ادب میں جگہ پائے گا۔ زیر نظر سفر نامے میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو کسی بھی معیاری سفر نامے کا طرہ امتیاز تصور کی جاتی ہیں ۔
عبدالمجیدخاں نے ان ممالک کی سیاحت کے دوران جو کچھ دیکھا اسے مشاہدے کی آنکھ میںمحفوظ کرکے صفحہ قرطاس پر انڈیل دیا ہے ۔ انداز ِ بیاں بلاشبہ دلکش اور مزیدار ہے کہ قاری جب اسے پڑھنا شروع کرتاہے تو پھر اسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ۔یہی اس کی خوبی اور یہی اس کاحسن ہے ۔معروف ادیب، نقاد اور دانش ور ڈاکٹر انورسدید کا یہ کہنا کہ '' جعلی اور فرضی سفر ناموں کے افراط میں یہ ایک سچا سفر نامہ نظرآتاہے '' ۔علاوہ ازیں سلمیٰ اعوان، پروفیسر حسن عسکری کاظمی ، ایم اے راحت ، حکیم راحت نسیم سوہدروی اور ڈاکٹر صغرا صدف ایسے اہل دانش کی طرف سے تحسینی کلمات ، تبصرے اور بیانات دراصل اس سفرنامے کی کامیابی پر دال ہیں ۔بک ہوم نے بھی اس کتاب کوجس سلیقے اور حسن کے ساتھ شائع کیاہے اس پر رانا عبدالرحمان اور ایم سرور بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
نام کتاب ۔بانگِ سرافیل
شاعر: انور علی قریشی (مرحوم )،
قیمت: 550روپے ،ناشر: گلشن بکس ، نسبت روڈ ، لاہور
'' بانگِ سرافیل '' انور علی قریشی کا شعری مجموعہ ہے جس میں حمد و نعت کے ساتھ نظمیں ، غزلیں اور قطعات شامل ہیں ۔انور علی قریشی ماہر تعلیم تھے اور قیام پاکستان سے قبل جالندھر میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے اور اسی محکمہ سے ریٹائرمنٹ حاصل کی ۔انور علی قریشی بنیادی طورپر ایک استاد کے ساتھ ساتھ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے ۔ان کی شاعری پر حضرت علامہ اقبال ؒ کا اثر نمایاں ہے کہ جن سے انہوں نے روحانی طورپر فیض حاصل کیا۔
ان کے شعری مجموعے کا عنوان بھی ان کی (بقول ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ) '' فنا فی الاقبال '' ہونے کی ہی دلیل ہے ۔انور علی قریشی نے 1971 میں وفات پائی اور ان کا شعری مجموعہ ان کے بیٹے مسعود احمد قریشی نے مرتب کرکے شائع کروایا ہے ۔ڈاکٹر سعادت سعید کے بقول ''بانگ ِ دراء لکھ کر علامہ اقبال ؒ نے ملت اسلامیہ کے مردہ جسم میں ایک نئی روح پھونکی ۔انورعلی قریشی نے اپنے درد مند دل میں پلتی نواوں کو اپنے شعری مجموعے '' بانگ ِ سرافیل '' میں یوں رقم کیا ہے کہ قارئین کو محسوس ہورہاہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ کے بعد مسلمانوں کی صورت حال کو ایک نیا علمی ، قدری اور جزباتی تناظر مہیا ہوا ہے ''ْانور علی قریشی نے دردِ دل کے ساتھ یہ نظمیں لکھیں ہیں ان کے مخاطب مسلمان اور ملت اسلامیہ ہے جواپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا کر گمراہی کی دلدل میں دھنسی چلی جارہی ہے ۔انہوں نے اسے اپنے الفاظ کے چابک سے بیدار کرنے کی سعی کی ہے ۔ان کی ساری نظموں میں اسی فکر کا پرتو دکھائی دیتا ہے ۔
آس دی پینگھ
شاعر:۔ ریاض اِ رم ،قیمت:300 روپے
ناشر: جھوک پبلشرز ، دولت گیٹ،ملتان
ریاض حسین اِرم بنیادی طور پر شاعر ہیں اور ان کی شاعری کے اب تک درجن بھر مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔سرائیکی ان کی اپنی زبان ہے جس میں انہوںنے ڈوہڑے ، گیت، حمدو نعت ، غزلیں اور قطعات لکھے ہیں اور اردو میں بھی لکھتے ہیں ۔ان کا تازہ شعری مجموعہ '' آس دی پینگھ '' بھی سرائیکی شاعری پر مشتمل ہے جس میں حمدو نعت ، منقبت کے علاوہ کافیاں ، گیت ، غزلیں اور ڈوہڑے شامل ہیں ۔ثقافتی رنگ ، لہجے کی مٹھا س، دھرتی کی خوشبو، جذبے کی گہرائی اور موسیقت دردِ دل رکھنے اور محبت کرنے والے ریاض اِرم کی شاعری کے بنیادی عناصر ہیںجن میں زندگی کے کم وبیش تمام رنگ دکھائی دیتے ہیں ۔وہ شاعری محض کسی علت کی بناپر نہیں کرتے بلکہ اسے عوام الناس کے لیے ایک پیغام ایک درس اور پندونصائح کے طورپر کرتے ہیں۔ ان کے ہر شعر میں محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا درس بھی ملتا ہے۔ سرائیکی زبان اور سرائیکی وسیب سے پیار ان کے خون میں شامل ہے جس کا اظہار ان کے ہر شعری مجموعے میں بہ تمام و کمال ملتاہے پروفیسر شوکت مغل، ظہور دھریجہ اور آصف خان کھیتران جیسے دانش وروں نے بھی ان کی تحسین کی ہے ۔دھرتی سے محبت کرنے والوں کے لیے ان کایہ تازہ مجموعہ کلام ایک اچھا تحفہ ہے ۔
انتظار حسین: ایک عہد، ایک داستان
مولفین: افتخار مجاز، عبدالستار عاصم
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
ممتاز ادیب انتظار حسین اس سال دو فروری کو ہم سے جدا ہو گئے۔ وہ اردو کے بڑے فکشن نگار، نقاد اور کالم نویس تو تھے ہی، لیکن دھیمے مزاج، ٹھہراؤ اور بزرگی کی وجہ سے ان کی شخصیت میں خاص قسم کی کشش تھی، جس کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ انتظار حسین کی وفات پر اخبارات و جرائد میں ان کی شخصیت اور فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور خصوصی ایڈیشن شائع کیے گئے۔ 655 صفحات کی اس کتاب میں مختلف اخبارت میں شائع ہونے والے ان مضامین، کالموں، خبروں اور انٹرویوز کو یکجا کیا گیا ہے۔ انتظار حسین کے ایک سو سے زائد کالم بھی اس مجموعے میں شامل کیے گئے ہیں، جس سے قارئین ان کے آخری دور کی تحریروں کی جھلک بھی دیکھ سکیں گے۔ پیش لفظ میں کہا گیاہے کہ ''انتظار حسین پر حوالے کی یہ پہلی بنیادی کتاب ہو گی۔'' لیکن پیش لفظ میں ہی مولف نے انتظار حسین کے والد کا نام غلط طور پر مظفر علی لکھا ہے، جو کہ منظر علی تھا۔ ایک ریفرنس بک کیلئے پروف کا معیار بہت اچھا ہونا چاہیے، تاکہ اس طرح کی بنیادی غلطیوں سے کتاب کا تاثر خراب نہ ہو۔
نام... سفرنامہ ابن بطوطہ
مترجم: رئیس احمد جعفری،قیمت:1200 روپے
ناشر: بک کارنر جہلم پاکستان
ہمارے ہاں بہت سے لوگوں نے ابن بطوطہ کا محض نام ہی سنا ہے، وہ صرف یہی جانتے ہیں کہ یہ کسی ایسے فرد کا نام ہے جو پرانے وقتوں میں ملکوں ملکوں سفرکیاکرتاتھا اور بس! ایسے لوگوں کے علم میں اضافہ کے لئے بتانا ضروری ہے کہ ابن بطوطہ مغرب اقصیٰ کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے علوم اسلامیہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کررکھی تھی بالخصوص تفسیر، حدیث اور فقہ کے علوم میں انھیں اچھی دسترس حاصل تھی۔ وہ امام مالک ؒ کی فقہ پر عامل تھے تاہم فقہ مالکی کے مقلد تھے نہ ہی فقہ حنفی کے۔ تصوف آشنا بھی تھے، اللہ والوں کی صحبت بھی اٹھائی تھی، زیارت بھی کی تھی۔
ان کی سیاحت چند مہینوں کی نہیں تھی بلکہ وہ دوران سیاحت ملکوں ملکوں گھومے، کئی مقامات پر متعدد بار منصب قضا پر بھی فائز ہوئے اور وہاں پوری جرأت کے ساتھ احکام شریعہ نافذ کئے۔ انھوں نے اپنے ربع صدی سے زائد عرصہ کے سفر کے تاثرات ومشاہدات پوری سچائی ، بے باکی اور جرات کے ساتھ قلم بند کئے جو آنے والے وقتوں میں 'سفرنامہ ابن بطوطہ' کے نام سے مشہور ہوئے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنے سفر کا احوال مادری زبان عربی میں تحریر کیا۔ ابن بطوطہ بادشاہوں سے بھی ملے اور وزیروں سے بھی، ابن خلیفۃ المسلمین سے بھی اور امرائے عرب وعجم سے بھی، اہل علم سے بھی اور اصحاب سیف سے بھی، سب کے بارے میں انھوں نے بے لاگ اندازمیں اظہار رائے کیا۔
دنیا کی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی نہیں ہے جس میں سفرنامہ ابن بطوطہ کا ترجمہ نہ ہوا ہو، مشرق اور ایشیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں عظیم سیاح کے قدم نہ پہنچے ہوں، سرزمین مغرب کے بعض مقامات کی بھی ابن بطوطہ نے سیاحت کی۔ یادرہے کہ یہ سفرنامہ اس دور کا ہے جب موجودہ دور کی سفری سہولیات میں سے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ اس زمانے میں دور دراز کا سفر جان جوکھوں کا کام تھا۔ سمندری ، صحرائی اور میدانی سفر کسی بھی حوالے سے خطرات سے خالی نہ تھا۔جگہ جگہ ڈاکوئوں اور لٹیروں کا پڑائو ہوا کرتاتھا لیکن یہ عرب مسلمان سیاح اپنے جذبۂ سیاحت اور شوق سفر کی بنا پر کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتا اور اٹھائیس برس تک سمندری موجوں سے لڑتے، صحرائوں سے گزرتے، جنگلوں کو عبور کرتے، بیابانوں اور برفستانوں کی مسافتیں طے کرتے بالآخر ایک کروڑ مربع کلومیٹر کا سفر مکمل کرکے رہا۔
جہلم جیسے چھوٹے شہر میں بڑے کام کرنے والے'بک کارنر' نے سفرنامہ ابن بطوطہ کو مجلدصورت میں، بالتصویر نہایت خوبصورتی کے ساتھ شائع کرکے شائقین علم وادب کے ذوق کو تسکین فراہم کی ہے۔بین الاقوامی معیار کی کتابیں شائع کرنے پر یہ ادارہ تحسین کا مستحق ہے۔
علامہ اقبال شخصیت اور فکروفن
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ناشر: اقبال اکادمی پاکستان،چھٹی منزل ایوانِ اقبال،لاہور
قیمت۔ ۶۰۰روپے
علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعرتھے مگر اس کے ساتھ ان کی ایک مفکر، ایک قانون دان، ایک فلسفی اور ایک سیاست دان کی حیثیت بھی بہت نمایا ںہے۔ انھوں نے ہندی مسلمانوں کو غلامی کی گہری نیند سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلمانانِ برصغیر کو اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے امید کا پیغام دیا اور اپنے افکار و نظریات کے ذریعے اہل وطن کو آزادی کی جدوجہد پر ابھارا۔ انھوں نے خطبہ الہٰ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا جس کی بناپر ان کو ''مصورِپاکستان'' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
انھوں نے ہرشعبے میں یاد گار نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی فکر ،شاعری اور سوانح پر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون پاکستان بیسیوں ملکوں میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ''اقبالیات''اردو ادب کا ایک مستقل شعبہ بن گیا ہے جس میں لکھنے والے اپنی تخلیقات پیش کرکے اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، پاکستان میں اقبال پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب اقبال کو بڑے منفرد انداز میں سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے محققین اور ناقدین کے لیے نہیں بلکہ عام تعلیم یافتہ طبقے کے لیے لکھا جو علامہ اقبال کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہش مند ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی رقم طراز ہیں ''یہ کتاب محققوں، دانش وروں اور نقادوں کے لیے نہیں ،اقبال کے عام قاری کے لیے ہے ،اس قاری کے لیے جو اقبال کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ ''
اقبال پوری امتِ مسلمہ کا محسن اور عالمِ انسانیت کا ایک بڑا نا م ہے ۔ وہ ایک ایسا باکمال شخص تھا جو غلام قوم میں پیدا ہوا (اور اسے اس کا شدید احساس تھا) مگر اس کے عزائم اور مقاصد اتنے بلند تھے کہ اس نے: سوئے قطار مے کشم ناقۂ بے زمام را
کا عظیم ملی فریضہ انجام دیا اور اسی سلسلے میں خطبہ الہٰ آباد کی صورت میں اس نے تصورِ پاکستان کے جواز کے لیے پہلی اینٹ فراہم کی۔''(دیباچہ از مصنف)
مزید لکھتے ہیں ''اقبال کے سوانحی ذخیرے کو دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ بیشتر سوانح نگار وں نے اپنے اپنے زاویۂ نظر سے اقبال کا مطالعہ کیا ہے ۔ جہاں تک راقم نے اقبال کو پڑھا اور سمجھا ہے اقبال کی اصل زندگی ،ان کا مطالعہ اور ان کی فکر تھی۔ خدا نے اقبال کو جو غیر معمولی بصیرت عطا کی تھی ،مطالعے ،سوچ بچار اور غور و فکر نے اسے جِلا بخشی۔''
کتاب چوبیس ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کو اقبال کے کسی مصرعے سے مزین کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب قاری کو سوانح اقبال کی ضخیم کتابوں سے بے نیاز کردیتی ہے۔کتاب کا اسلوب سادہ ،رواں اور د ل کش ہے جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور کتاب کا مطالعہ کروا کے ہی دم لیتا ہے اور کیوں نہ جکڑے کہ ڈاکٹر ہاشمی نے کتاب کو مرتب کرنے کے لیے ۱۰۷کتابوں اور ۱۲رسائل کی ورق گردنی کی ہے ۔ کتابیات کی فہرست ڈاکٹر ہاشمی کے مطالعے اور محنت پر دال ہے ۔کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے کتاب کی قدر و قیمت میں مزید وقیع ہوئی ہے اور قارئین کے لیے آسانی بھی۔
مصنف: عبدالعزیز سنگھیڑا،قیمت:350 روپے
ناشر... نگارشات، 24 مزنگ روڈ لاہور
زیرنظر کتاب میں مختلف مذاہب عالم کی روشنی میں تصور خدا میں مماثلت تلاش کی گئی ہے اور بیان کیاگیا ہے کہ پوری انسانیت کا ایک ہی خدا ہے اور سارے انسانوں کے لئے اس کا پیغام بھی ایک ہی ہے۔ کتاب کا آغاز لفظ'اللہ' کی تاریخ بیان کرنے سے ہوتاہے، اس کے بعد بتایاجاتاہے کہ قدیم انبیائے کرام کے بیان کردہ اسمائے الہیہ کیا ہیں؟ بائبل میں کیا مذکور ہیں؟ اس کے دیگرمذاہب عالم میں خدا کو کس نام سے پکارا جاتاہے ، ساتھ ہی یہودیت، عیسائیت، ہندومت، سکھ مت، زرتشت مت، اسلام ، بدھ مت اور تاؤمت میں تصور خدا میں مماثلت بھی بیان کی گئی ہے۔ اگلے باب میں مصنف کا کہنا ہے کہ پیغام خدا میں مماثلت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ایک ہی رہیں۔
آگے چل کر مختلف مذاہب میں نبیوں کی آمد کی پیش گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے، اللہ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے وہ سب کے سب مسلم ہی تھے۔ آخر میں حضرت آدم، حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام، حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کا ذکر کرنے کے بعد ہندومت مصلح، بدھ مت کے احکام عشرہ اور جین مت کے اخلاقی اصولوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
دکھ کا دریا سکھ کا ساگر( ناول)
مصنفہ: آسیہ مرزا،قیمت: ایک ہزار روپے
ناشر: القریش پبلیکشنز، سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور
زیرنظرناول کے نام ہی سے جھلک رہاہے کہ یہ دکھ اور سکھ کی کہانی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی زندگی دکھوں اور سکھوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ خدا کا قانون نہایت متوازن ہے وہ اپنے ہربندے کو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی حوالے سے خوشی، سکھ اور آسودگی سے ضرور نوازتاہے۔ اگرآپ یاسیت زدہ اور قنوطی نہیں ہیں تو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے دامن بھر کر سکھ اور خوشیوں میں صاحب حیثیت ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ایک یاسیت زدہ انسان ہیں، بہت زود رنج ہیں تو خوشیاں آپ کے اردگرد منڈلانے کے باوجود آپ کو دکھائی نہیں دے سکتیں۔
اس ناول میں بہت سے کردار کچھ ایسی ہی یاسیت کا شکار ہیں جب کہ کچھ پرامید ہیں، کئی زندگی سے اپنا حصہ لڑ کر وصول کرنے کے جتن کررہے ہیں، کوئی تقدیر پر تکیہ کئے ہوئے ہیں تو کچھ دکھوں سے نبردآزما، اداس اور ملول ہیں۔ یہ ناول قاری کو یہ اہم سبق دیتاہے کہ خوشیاں کبھی طشتری میں سجا کر پیش نہیں ہوتیں، قدرت بھی آپ کی تقدیر کی خوشیاں آپ کی جھولی میں نہیں ڈالتی جس طرح کسی پرندے کو غذا اس کے گھونسلے میں نہیں ڈالی جاتی، اس کے لئے خواہش، طلب اور امید کے ساتھ جستجو اور جدوجہد کا سفر ضروری ہے۔ آپ یہ ناول پڑھیں گے تو ایک عرصہ تک اس ناول کے سحر میں مبتلا رہیں گے۔ القریش پبلیکیشنز نے پونے چھ سو صفحات پر مشتمل یہ ناول انتہائی شاندار اندازمیں شائع کیا ہے۔
پوپ کہانیاں(3)
مصنف: مقصودالٰہی شیخ،قیمت:250روپے
ناشر: فضلی سپر مارکیٹ 507/3 ٹیمپل روڈ نزد
ریڈیوپاکستان اردوبازار کراچی
کہانی صرف تخیلات سے اٹھتے بلبلوں کا نقش کاغذ پر اتارنے کا نام نہیں، کہانی میں مقصدیت ہی کہانی کو اعتبار بخشتی ہے۔برق رفتاری ہماری آج کی دنیا کی ضرورت بھی ہے اور شاخسانہ بھی۔ اسی سرپٹ دوڑتی دنیا میں ' پوپ کہانی' ایک نئی صنف کی شکل میں تریاقی صفت لئے ابھری ہے جو آج ہمارے ادب کی ضرورت اور حصہ بن چکی ہے۔ چند جملوں اور سطروں میں سلیقہ سے ہدف پالینے کا نام پوپ کہانی ہے جو مشکل نہیں تو آسان بھی کب ہے؟ مگر پوپ کہانی کی تان اختصار ہی پر ٹوٹے یہ بھی ضروری نہیں، پوپ کہانی نے ننھی سی عمر کے باوجود اپنی راہ کے سارے کانٹے گلوں میں تبدیل کرلئے ہیں، تعمیر کی لبن اول سہرا ڈاکٹرمقصود الٰہی شیخ کے سر ہوا، جس سے پھوٹتی خوشبو ہماری روح کی غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ یہی کچھ خوبیاں پوپ کہانی میں ملیں گی تو وہ پوپ کہانی ورنہ تھوپ کہانی۔ زیرنظر مجموعہ انہی کہانیوں کی پوتھی ہے جسے پڑھ کر آپ اپنے کربوں کا علاج پالیں گے، خدا کرے ایسا ہی ہو۔
بستی بستی پھر ا مسافر
مصنف: عبدالمجید خاں ،قیمت:600 روپے ،ناشر: بک ہوم ، لاہور
''بستی بستی پھرا مسافر '' عبدالمجیدخاں کا سفر نامہ ہے جس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور کینیڈا کی سیاحت کی روداد بیان کی گئی ہے۔سفر نامے ہمارے ادب کااہم حصہ بن چکے ہیں ۔نئے ممالک ، نئے جزیروں اور نئی نئی زمینوں کی تلاش و جستجو انسانی فطرت بھی ہے اور بعض حالات میں ضرورت بھی ۔جن سے قاری کو نہ صرف ان ممالک کی تاریخ ، ادب وثقافت ، معاشرت اور عوامی رویوں اور مزاج کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے بلکہ جس سفر نامے میں جس قدر مستند تاریخی حوالے اور انداز بیاں دلچسپ اوردلکش ہوگا اتنا ہی وہ سفر نامہ مقبولیت حاصل کرے گا اور ادب میں جگہ پائے گا۔ زیر نظر سفر نامے میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو کسی بھی معیاری سفر نامے کا طرہ امتیاز تصور کی جاتی ہیں ۔
عبدالمجیدخاں نے ان ممالک کی سیاحت کے دوران جو کچھ دیکھا اسے مشاہدے کی آنکھ میںمحفوظ کرکے صفحہ قرطاس پر انڈیل دیا ہے ۔ انداز ِ بیاں بلاشبہ دلکش اور مزیدار ہے کہ قاری جب اسے پڑھنا شروع کرتاہے تو پھر اسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ۔یہی اس کی خوبی اور یہی اس کاحسن ہے ۔معروف ادیب، نقاد اور دانش ور ڈاکٹر انورسدید کا یہ کہنا کہ '' جعلی اور فرضی سفر ناموں کے افراط میں یہ ایک سچا سفر نامہ نظرآتاہے '' ۔علاوہ ازیں سلمیٰ اعوان، پروفیسر حسن عسکری کاظمی ، ایم اے راحت ، حکیم راحت نسیم سوہدروی اور ڈاکٹر صغرا صدف ایسے اہل دانش کی طرف سے تحسینی کلمات ، تبصرے اور بیانات دراصل اس سفرنامے کی کامیابی پر دال ہیں ۔بک ہوم نے بھی اس کتاب کوجس سلیقے اور حسن کے ساتھ شائع کیاہے اس پر رانا عبدالرحمان اور ایم سرور بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
نام کتاب ۔بانگِ سرافیل
شاعر: انور علی قریشی (مرحوم )،
قیمت: 550روپے ،ناشر: گلشن بکس ، نسبت روڈ ، لاہور
'' بانگِ سرافیل '' انور علی قریشی کا شعری مجموعہ ہے جس میں حمد و نعت کے ساتھ نظمیں ، غزلیں اور قطعات شامل ہیں ۔انور علی قریشی ماہر تعلیم تھے اور قیام پاکستان سے قبل جالندھر میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے اور اسی محکمہ سے ریٹائرمنٹ حاصل کی ۔انور علی قریشی بنیادی طورپر ایک استاد کے ساتھ ساتھ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے ۔ان کی شاعری پر حضرت علامہ اقبال ؒ کا اثر نمایاں ہے کہ جن سے انہوں نے روحانی طورپر فیض حاصل کیا۔
ان کے شعری مجموعے کا عنوان بھی ان کی (بقول ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ) '' فنا فی الاقبال '' ہونے کی ہی دلیل ہے ۔انور علی قریشی نے 1971 میں وفات پائی اور ان کا شعری مجموعہ ان کے بیٹے مسعود احمد قریشی نے مرتب کرکے شائع کروایا ہے ۔ڈاکٹر سعادت سعید کے بقول ''بانگ ِ دراء لکھ کر علامہ اقبال ؒ نے ملت اسلامیہ کے مردہ جسم میں ایک نئی روح پھونکی ۔انورعلی قریشی نے اپنے درد مند دل میں پلتی نواوں کو اپنے شعری مجموعے '' بانگ ِ سرافیل '' میں یوں رقم کیا ہے کہ قارئین کو محسوس ہورہاہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ کے بعد مسلمانوں کی صورت حال کو ایک نیا علمی ، قدری اور جزباتی تناظر مہیا ہوا ہے ''ْانور علی قریشی نے دردِ دل کے ساتھ یہ نظمیں لکھیں ہیں ان کے مخاطب مسلمان اور ملت اسلامیہ ہے جواپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا کر گمراہی کی دلدل میں دھنسی چلی جارہی ہے ۔انہوں نے اسے اپنے الفاظ کے چابک سے بیدار کرنے کی سعی کی ہے ۔ان کی ساری نظموں میں اسی فکر کا پرتو دکھائی دیتا ہے ۔
آس دی پینگھ
شاعر:۔ ریاض اِ رم ،قیمت:300 روپے
ناشر: جھوک پبلشرز ، دولت گیٹ،ملتان
ریاض حسین اِرم بنیادی طور پر شاعر ہیں اور ان کی شاعری کے اب تک درجن بھر مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔سرائیکی ان کی اپنی زبان ہے جس میں انہوںنے ڈوہڑے ، گیت، حمدو نعت ، غزلیں اور قطعات لکھے ہیں اور اردو میں بھی لکھتے ہیں ۔ان کا تازہ شعری مجموعہ '' آس دی پینگھ '' بھی سرائیکی شاعری پر مشتمل ہے جس میں حمدو نعت ، منقبت کے علاوہ کافیاں ، گیت ، غزلیں اور ڈوہڑے شامل ہیں ۔ثقافتی رنگ ، لہجے کی مٹھا س، دھرتی کی خوشبو، جذبے کی گہرائی اور موسیقت دردِ دل رکھنے اور محبت کرنے والے ریاض اِرم کی شاعری کے بنیادی عناصر ہیںجن میں زندگی کے کم وبیش تمام رنگ دکھائی دیتے ہیں ۔وہ شاعری محض کسی علت کی بناپر نہیں کرتے بلکہ اسے عوام الناس کے لیے ایک پیغام ایک درس اور پندونصائح کے طورپر کرتے ہیں۔ ان کے ہر شعر میں محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا درس بھی ملتا ہے۔ سرائیکی زبان اور سرائیکی وسیب سے پیار ان کے خون میں شامل ہے جس کا اظہار ان کے ہر شعری مجموعے میں بہ تمام و کمال ملتاہے پروفیسر شوکت مغل، ظہور دھریجہ اور آصف خان کھیتران جیسے دانش وروں نے بھی ان کی تحسین کی ہے ۔دھرتی سے محبت کرنے والوں کے لیے ان کایہ تازہ مجموعہ کلام ایک اچھا تحفہ ہے ۔
انتظار حسین: ایک عہد، ایک داستان
مولفین: افتخار مجاز، عبدالستار عاصم
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
ممتاز ادیب انتظار حسین اس سال دو فروری کو ہم سے جدا ہو گئے۔ وہ اردو کے بڑے فکشن نگار، نقاد اور کالم نویس تو تھے ہی، لیکن دھیمے مزاج، ٹھہراؤ اور بزرگی کی وجہ سے ان کی شخصیت میں خاص قسم کی کشش تھی، جس کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ انتظار حسین کی وفات پر اخبارات و جرائد میں ان کی شخصیت اور فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور خصوصی ایڈیشن شائع کیے گئے۔ 655 صفحات کی اس کتاب میں مختلف اخبارت میں شائع ہونے والے ان مضامین، کالموں، خبروں اور انٹرویوز کو یکجا کیا گیا ہے۔ انتظار حسین کے ایک سو سے زائد کالم بھی اس مجموعے میں شامل کیے گئے ہیں، جس سے قارئین ان کے آخری دور کی تحریروں کی جھلک بھی دیکھ سکیں گے۔ پیش لفظ میں کہا گیاہے کہ ''انتظار حسین پر حوالے کی یہ پہلی بنیادی کتاب ہو گی۔'' لیکن پیش لفظ میں ہی مولف نے انتظار حسین کے والد کا نام غلط طور پر مظفر علی لکھا ہے، جو کہ منظر علی تھا۔ ایک ریفرنس بک کیلئے پروف کا معیار بہت اچھا ہونا چاہیے، تاکہ اس طرح کی بنیادی غلطیوں سے کتاب کا تاثر خراب نہ ہو۔
نام... سفرنامہ ابن بطوطہ
مترجم: رئیس احمد جعفری،قیمت:1200 روپے
ناشر: بک کارنر جہلم پاکستان
ہمارے ہاں بہت سے لوگوں نے ابن بطوطہ کا محض نام ہی سنا ہے، وہ صرف یہی جانتے ہیں کہ یہ کسی ایسے فرد کا نام ہے جو پرانے وقتوں میں ملکوں ملکوں سفرکیاکرتاتھا اور بس! ایسے لوگوں کے علم میں اضافہ کے لئے بتانا ضروری ہے کہ ابن بطوطہ مغرب اقصیٰ کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے علوم اسلامیہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کررکھی تھی بالخصوص تفسیر، حدیث اور فقہ کے علوم میں انھیں اچھی دسترس حاصل تھی۔ وہ امام مالک ؒ کی فقہ پر عامل تھے تاہم فقہ مالکی کے مقلد تھے نہ ہی فقہ حنفی کے۔ تصوف آشنا بھی تھے، اللہ والوں کی صحبت بھی اٹھائی تھی، زیارت بھی کی تھی۔
ان کی سیاحت چند مہینوں کی نہیں تھی بلکہ وہ دوران سیاحت ملکوں ملکوں گھومے، کئی مقامات پر متعدد بار منصب قضا پر بھی فائز ہوئے اور وہاں پوری جرأت کے ساتھ احکام شریعہ نافذ کئے۔ انھوں نے اپنے ربع صدی سے زائد عرصہ کے سفر کے تاثرات ومشاہدات پوری سچائی ، بے باکی اور جرات کے ساتھ قلم بند کئے جو آنے والے وقتوں میں 'سفرنامہ ابن بطوطہ' کے نام سے مشہور ہوئے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنے سفر کا احوال مادری زبان عربی میں تحریر کیا۔ ابن بطوطہ بادشاہوں سے بھی ملے اور وزیروں سے بھی، ابن خلیفۃ المسلمین سے بھی اور امرائے عرب وعجم سے بھی، اہل علم سے بھی اور اصحاب سیف سے بھی، سب کے بارے میں انھوں نے بے لاگ اندازمیں اظہار رائے کیا۔
دنیا کی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی نہیں ہے جس میں سفرنامہ ابن بطوطہ کا ترجمہ نہ ہوا ہو، مشرق اور ایشیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں عظیم سیاح کے قدم نہ پہنچے ہوں، سرزمین مغرب کے بعض مقامات کی بھی ابن بطوطہ نے سیاحت کی۔ یادرہے کہ یہ سفرنامہ اس دور کا ہے جب موجودہ دور کی سفری سہولیات میں سے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ اس زمانے میں دور دراز کا سفر جان جوکھوں کا کام تھا۔ سمندری ، صحرائی اور میدانی سفر کسی بھی حوالے سے خطرات سے خالی نہ تھا۔جگہ جگہ ڈاکوئوں اور لٹیروں کا پڑائو ہوا کرتاتھا لیکن یہ عرب مسلمان سیاح اپنے جذبۂ سیاحت اور شوق سفر کی بنا پر کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتا اور اٹھائیس برس تک سمندری موجوں سے لڑتے، صحرائوں سے گزرتے، جنگلوں کو عبور کرتے، بیابانوں اور برفستانوں کی مسافتیں طے کرتے بالآخر ایک کروڑ مربع کلومیٹر کا سفر مکمل کرکے رہا۔
جہلم جیسے چھوٹے شہر میں بڑے کام کرنے والے'بک کارنر' نے سفرنامہ ابن بطوطہ کو مجلدصورت میں، بالتصویر نہایت خوبصورتی کے ساتھ شائع کرکے شائقین علم وادب کے ذوق کو تسکین فراہم کی ہے۔بین الاقوامی معیار کی کتابیں شائع کرنے پر یہ ادارہ تحسین کا مستحق ہے۔
علامہ اقبال شخصیت اور فکروفن
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ناشر: اقبال اکادمی پاکستان،چھٹی منزل ایوانِ اقبال،لاہور
قیمت۔ ۶۰۰روپے
علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعرتھے مگر اس کے ساتھ ان کی ایک مفکر، ایک قانون دان، ایک فلسفی اور ایک سیاست دان کی حیثیت بھی بہت نمایا ںہے۔ انھوں نے ہندی مسلمانوں کو غلامی کی گہری نیند سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلمانانِ برصغیر کو اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے امید کا پیغام دیا اور اپنے افکار و نظریات کے ذریعے اہل وطن کو آزادی کی جدوجہد پر ابھارا۔ انھوں نے خطبہ الہٰ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا جس کی بناپر ان کو ''مصورِپاکستان'' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
انھوں نے ہرشعبے میں یاد گار نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی فکر ،شاعری اور سوانح پر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون پاکستان بیسیوں ملکوں میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ''اقبالیات''اردو ادب کا ایک مستقل شعبہ بن گیا ہے جس میں لکھنے والے اپنی تخلیقات پیش کرکے اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، پاکستان میں اقبال پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب اقبال کو بڑے منفرد انداز میں سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے محققین اور ناقدین کے لیے نہیں بلکہ عام تعلیم یافتہ طبقے کے لیے لکھا جو علامہ اقبال کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہش مند ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی رقم طراز ہیں ''یہ کتاب محققوں، دانش وروں اور نقادوں کے لیے نہیں ،اقبال کے عام قاری کے لیے ہے ،اس قاری کے لیے جو اقبال کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ ''
اقبال پوری امتِ مسلمہ کا محسن اور عالمِ انسانیت کا ایک بڑا نا م ہے ۔ وہ ایک ایسا باکمال شخص تھا جو غلام قوم میں پیدا ہوا (اور اسے اس کا شدید احساس تھا) مگر اس کے عزائم اور مقاصد اتنے بلند تھے کہ اس نے: سوئے قطار مے کشم ناقۂ بے زمام را
کا عظیم ملی فریضہ انجام دیا اور اسی سلسلے میں خطبہ الہٰ آباد کی صورت میں اس نے تصورِ پاکستان کے جواز کے لیے پہلی اینٹ فراہم کی۔''(دیباچہ از مصنف)
مزید لکھتے ہیں ''اقبال کے سوانحی ذخیرے کو دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ بیشتر سوانح نگار وں نے اپنے اپنے زاویۂ نظر سے اقبال کا مطالعہ کیا ہے ۔ جہاں تک راقم نے اقبال کو پڑھا اور سمجھا ہے اقبال کی اصل زندگی ،ان کا مطالعہ اور ان کی فکر تھی۔ خدا نے اقبال کو جو غیر معمولی بصیرت عطا کی تھی ،مطالعے ،سوچ بچار اور غور و فکر نے اسے جِلا بخشی۔''
کتاب چوبیس ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کو اقبال کے کسی مصرعے سے مزین کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب قاری کو سوانح اقبال کی ضخیم کتابوں سے بے نیاز کردیتی ہے۔کتاب کا اسلوب سادہ ،رواں اور د ل کش ہے جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور کتاب کا مطالعہ کروا کے ہی دم لیتا ہے اور کیوں نہ جکڑے کہ ڈاکٹر ہاشمی نے کتاب کو مرتب کرنے کے لیے ۱۰۷کتابوں اور ۱۲رسائل کی ورق گردنی کی ہے ۔ کتابیات کی فہرست ڈاکٹر ہاشمی کے مطالعے اور محنت پر دال ہے ۔کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے کتاب کی قدر و قیمت میں مزید وقیع ہوئی ہے اور قارئین کے لیے آسانی بھی۔