بڑھاپے کی چوٹ
میں جب بھی زخمی ہوتا ہوں تو میرے دائیں پاؤں کے انگوٹھے میں زخم آتا ہے
KARACHI:
میں جب بھی زخمی ہوتا ہوں تو میرے دائیں پاؤں کے انگوٹھے میں زخم آتا ہے اور اب یہ دوسری بار ہے کہ میرے اسی پاؤں کے انگوٹھے میں چوٹ لگی ہے جو بڑھتے بڑھتے اپنے محافظ ناخن کو بھی لے بیٹھی ہے اور اب دائیں پاؤں کے بڑے انگوٹھے کا یہ زخم اپنے انجام بد کو پہنچ رہا ہے انگوٹھا اس سے الگ اور جدا ہو گا اور پھر اس نرم سے انگوٹھے میں رفتہ رفتہ کچھ جان پڑے گی اس پر سخت چمڑے یا کچے پکے ناخن کی تہہ جمے گی اس کی یہ تہہ ذرا سخت ہو کر نیم جان ناخن کی جگہ لے لے گی جس سے کام چلتا رہے گا اور بالآخر یہ سچ مچ کا ناخن بن جائے گا۔
میں اس سلسلے میں مزید تفصیل سے عرض کر سکتا ہوں کیونکہ یہ حادثہ مجھ پر گزر چکا ہے۔ تاشقند میں امیر تیمور کا مزار دیکھنے تہہ خانے میں اترا جو ایک سیاہ کمرے میں سیاہ رنگ کی قبر تھی تو اس مصنوعی تاریکی میں میرا انگوٹھا کسی پتھر سے ٹکرایا تب تو کچھ محسوس نہ ہوا لیکن اس شام کو فاتح عالم امیر تیمور کی قبر یاد آنے لگی اور میرا انگوٹھا یہ بتانے لگا کہ اس کا کسی سے زبردست ٹاکرا ہوا ہے اور یہ ٹاکرا بھی کس سے تھا ایک فاتح کی قبر سے جس کی پتھر کی سیاہ رنگ کی بے جان قبر بھی خوفزدہ کر دینے کے لیے کافی تھی۔ فاتح امیر تیمور کو مورخوں نے کئی لقب دیے ہیں جن میں 'لرزندہ جہاں' بہت مشہور ہے یعنی دنیا کو ہلا دینے اور اس میں لرزش پیدا کر دینے والا۔ تیمور کی تاریخ پڑھیں تو اس کی سخت زندگی میں نرمی کے چند لمحے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جب وہ ایران میں حافظ شیرازی سے ملا تو اس نے شاعر سے کہا کہ تم نے کمال بے دردی سے میرے سمرقند و بخارا کو ایک محبوب کے رخسار کے تل کے عوض دے دیا جب کہ میں نے ان شہروں کو حاصل کرنے میں فتوحات کی ایک تاریخ بنا دی۔
تم نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ یہ کیا کیا۔ بتاتے ہیں کہ شاعر بڑھاپے کی آخری حدوں پر تھا۔اس نے اپنے ساتھ سہارے کے لیے آنے والے دوستوں کے کندھوں کی ٹیک لے کر کہا کہ امیر یہ شاعر اپنی انھی شہہ خرچیوں کی وجہ سے تو فقروفاقہ کی اس نوبت کو پہنچا ہے اور آج بے رحم بڑھاپے سے لڑ رہا ہے۔ امیر تیمور نے یہ سن کر اس شاعر کی بات کی قدر کی اور اسے باقی زندگی کے لیے دنیا داری سے بے نیاز کر دیا۔ بتاتے ہیں کہ شاعر نے آنکھوں کے لٹکے ہوئے پپوٹوں کو بڑی مشکل سے اٹھا کر ایک نظر امیر تیمور کو دیکھا اور پھر کہنے لگا کہ شکر ہے کہ میں نے اپنی آخری نگاہ میں کسی بڑی شخصیت کو دیکھ لیا ہے۔ بتاتے ہیں کہ امیر تیمور نے شاعر کو جن انعامات سے نوازا انھیں وہ اپنی بوڑھی آنکھوں سے جی بھر کر دیکھ بھی نہ سکا لیکن نہ جانے شاعر پر کیا کیفیت طاری تھی کہ اس نے ان شاہی انعامات پر توجہ بھی نہ دی اور فاتح عالم امیر تیمور کو اپنی لاپروائی سے حیران کر دیا۔ کسی مورخ نے کہیں لکھا ہے کہ تیمور نے یہ سب دیکھ سن کر کہا کہ حافظ شیرازی واقعی بڑا شاعر ہے جس کے لیے امیر تیمور بھی کسی بڑی وقعت کا مالک نہیں ہے۔
بات میں نے اپنے انگوٹھے سے شروع کی تھی جو میرے بے کار جسم کا ایک معمولی سا حصہ ہے لیکن میں نے اسے پہنچا دیا امیر تیمور اور حافظ شیرازی پر جن کا میں ایک ناچیز ذرہ بھی نہیں ہوں۔ بات شاید یہ ہے کہ انسان کے جسم پر جب ضرب پڑتی ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن یہ ضرب کچھ یاد بھی دلاتی ہے جیسے میرے پاؤں کے انگوٹھے کی یہ ضرب جو تاشقند کے امیر تیمور کے سیاہ رنگ کے مزار پر لگی تھی اور وہ کچھ دن بعد بہت علاج معالجے کے باوجود ناخن تو بچ گیا مگر اس ناخن کا محافظ انگوٹھا اور اس پر سخت گوشت کا پردہ چاک نہ ہو سکا اور اندر سے ناخن نکل گیا۔ جس کی جگہ اب دوسرا ناخن کسی چوٹ کے لیے باہر نکل آیا اب جو چوٹ لگی ہے تو مجھے یاد نہیں کہ یہ کون سے پاؤں کے انگوٹھے کی ہے لیکن یہ چوٹ اب اس پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن کو لے مرے گی اور یوں لگتا ہے کہ اب پاؤں کا یہ انگوٹھا ایک بے جان عضو بن کر ایک مدت تک ساتھ رہے گا اور میں اس کی احتیاط کرتا رہوں گا۔ البتہ شکر ہے کہ یہ کسی ہاتھ کا انگھوٹا نہیں ہے ورنہ تو بہت دن چھٹی کرنی پڑتی اور اپنے ایڈیٹر کو قائل کر کے میں بھی چھٹی مارتا۔
ہم اخبار والے چھٹی کو ترستے ہیں کہ اخبار روز چھپتا ہے چھٹی نہیں کرتا اور اس کے ساتھ ہم کارکنوں کے لیے بھی چھٹی ممکن نہیں ہوتی۔ اخبار خبروں کا نام اور مجموعہ ہے اور چونکہ خبروں میں ناغہ نہیں ہوتا اسی لیے اخبار میں بھی ناغہ نہیں ہوتا۔ خبروں کے ساتھ اسے بھی زندہ رہنا پڑتا ہے اور اس کی زندگی اگرچہ بہت سارے اخبار بینوں کا چسکہ پورا کرتی ہے اس لیے وہ ہماری روٹی روزی کا بھی ذریعہ ہے، معلوم نہیں صحافت کا پیشہ کیوں اختیار کیا تھا لیکن شروع میں یقیناً اندازہ نہیں تھا یا پتہ نہیں تھا کہ اخبار تو ہر روز چھپتا ہے اس لیے اخبار کے ساتھ ساتھ اس کے کارکن بھی ہر روز چھپتے ہیں اور ان کی زندگی میں ناغہ نہیں ہوا کرتا۔ وہ ہر روز کام کرتے ہیں تاکہ خبروں کو جمع کر کے قارئین کی تسکین طبی کا سامان کر سکیں۔ اخبار کے قارئین کو خوب معلوم ہے کہ اخبار ان کو باخبر اور مطمئن کرنے کے لیے چھپتا ہے اور ان تک پہنچتا ہے اس لیے اخباری کارکن کسی بھی دن چھٹی نہ کرنے پر تیار رہتے ہیں کہ مسلسل کام ان کے پیشے کا حصہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔