تربت ترقی کی اُمید
تربت یو نیورسٹی میں بی ایس سی آنرز، ایم ایس سی، ایم سی ایس، بی بی اے اور ایم بی اے کے17 پروگراموں میں تدریس جاری ہے
KARACHI:
تربت بلوچستان کا شہر ہے، یہ کیچ ڈسٹرکٹ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ تربت کی آبادی 1998کی مردم شماری کے مطابق 79 ہزار تھی۔ یہ دریائے کیچ کے کنارے واقع ہے۔ اس علاقے میں روزگار کا دارومدار زراعت اور غلہ بانی پر ہے، یہاں اعلیٰ قسم کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ گندم اور چاول بھی یہاں کی پیداوار ہے۔ تربت گزشتہ کئی برسوں سے مقامی جنگجوؤں کی سرگرمیوں کا مرکزرہا۔ مسلح نوجوان بازار میں آتے ،اچانک کلاشنکوف کی گولیوں کی آوازیں آتیں اورکاروبارِ زندگی بند ہوجاتا۔ پھر غیر مقامی افراد کی گولیوں زدہ لاش ملتی۔ تربت اور اطراف کے علاقوں سے سیاسی کارکن لاپتہ ہوجاتے، ان کی لاشیں تربت کے مضافات سے ملتی تھیں مگر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تحت مرکزی شاہراہ تربت سے گزرتی ہے۔
اس شاہراہ کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی فورسز نے مربوط آپریشن کیا اور جنگجو پہاڑوں تک محدود ہوگئے۔ اب تربت اور اطراف کے علاقوں میں سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں۔مرکزی شاہراہ کے دونوں طرف مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بورڈ آویزاں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک ہزارگز کے پلاٹ کی قیمت 5 لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ میر اکرم دشتی طالب علمی کے زمانے سے بائیں بازوکی تحریک سے منسلک ہوئے۔ پہلے بی ایس او عوامی میں متحرک ہوئے اور پھر بی این ایم بنائی۔ آج کل نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدر اکرم دشتی کی کوششوں سے تربت کا دو دن تک کا دورہ کرنے کا موقع ملا تو بہت سی معلومات حاصل ہوئیں اوراس خواہش کے ساتھ کراچی واپس آئے کہ پھر تربت اور گوادر کا دورہ کرنے کا موقع مل جائے۔
اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں نیشنل پارٹی نے اپنے شہیدوں کی یاد میں تربت میں جلسہ کیا۔ یہ جلسہ تربت یونیورسٹی کی لائبریری سے متصل میدان میں ہوا۔ ڈاکٹر مالک ،ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین فدا اور ان کے ساتھیوں نے جلسے کے لیے سخت محنت کی۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نیشنل پارٹی کے کارکنوں، حامیوں اور ہمدردوں کے گھروں پرگئے، یوں لوگوں کو براہِ راست ڈاکٹر مالک بلوچ اوران کے ساتھیوں سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔ بہت سے لوگوں نے شکایتوں کے دفترکھول دیے، نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے برداشت اور رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے ان لوگوں کے الزامات کو سنا اور ان لوگوں کو تسلی بخش جوابات دیے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جمعرات کو ہونے والے جلسے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی جن میں کئی ہزار خواتین بھی شامل تھیں ۔ غیر جانبدار اندازے کے مطابق 11 سے 12 ہزار افراد جلسے میں شریک تھے جن میں خواتین کی بھی تعداد شامل تھی۔
یہ جلسہ شام 5:00 بجے شروع ہوا او رات 10:00 بجے تک جاری رہا۔ نیشنل پارٹی کے 25 کارکنوں اور رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں فدا بلوچ، یاسین بلوچ، مولا بخش دشتی اور دیگر شہداء کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ وفاقی وزیر اور نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میرحاصل خان بزنجو اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنی تقاریر میں اقتصادی منصوبوں کی افادیت بیان کی اور نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالمالک تربت اور اطراف میں مذہبی انتہا پسندی کے خطرے کو محسوس کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مخصوص فرقے کے مدرسوں کا جال بچھایا جارہا ہے گزشتہ دنوں ایک مذہبی عالم کا قتل اس سلسلے کی کڑی ہے۔ ڈاکٹر مالک کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا تربت میں سب سے بڑا جلسہ تھا۔ جلسے میں شہرکی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔
تربت میں ایک یونیورسٹی قائم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق صابر اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ تربت یونیورسٹی کا کیمپس 8 ہزار ایکڑ پر تعمیر ہورہا ہے۔ اس احاطے میں میڈیکل ، انجنیئرنگ اور زرعی کالجز بھی تعمیر ہونگے، یوں ایک تعلیمی شہر وجود میں آئے گا۔ اس یونیورسٹی کی زمین کا معاملہ طویل عرصے سے التواء کا شکارتھا۔پرانی زمین سیم کا شکار تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے دور میں زمین کا معاملہ طے ہوا۔ نیشنل پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یاسین بلوچ مرحوم کے خاندان نے یہ زمین فراہم کی، جدید یونیورسٹی کے تصور کے مطابق عمارتیں تیزی سے تعمیر ہو رہی ہیں۔ اس منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں کی تعمیرکے لیے ملک کے مختلف علاقوں سے ماہرکاریگروں کو بلایا گیا ہے۔
ان میں سے کچھ کا تعلق کراچی،کچھ کا تعلق لاڑکانہ، کچھ کا پختون خواہ اور پنجاب سے ہے مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالرزاق صابرکی کوششوں سے تعلیمی عمل تیزی سے جاری ہے۔ یونیورسٹی میں اس وقت دو فیکلٹیاں قائم ہوچکی ہیں۔ ایک فیکلٹی آف سائنس اینڈ انجنیئرنگ اور دوسری فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز ہے۔ سائنس فیکلٹی میں کیمسٹری،کمپیوٹر سائنس، اکنامکس اور آرٹس فیکلٹی میں بلوچی، کامرس، ایجوکیشن، انگلش لٹریچر، پولیٹیکل سائنس اور مینیجمنٹ سائنس کے شعبے قائم ہیں۔ اس وقت 65 اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں 9 خواتین ہیں جن میں 2پی ایچ ڈی ہیں۔اسی طرح 754طلبا زیرِتعلیم ہیں جن میں خواتین کی تعداد 399 ہے۔
تربت یو نیورسٹی میں بی ایس سی آنرز، ایم ایس سی، ایم سی ایس، بی بی اے اور ایم بی اے کے17 پروگراموں میں تدریس جاری ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر صابر اس عزم کا اظہارکرتے ہیں کہ اس علاقے کی معیشت سے متعلق تدریسی شعبے قائم کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے جیولوجی، پیٹرولیم ٹیکنالوجی، قانون، انٹرنیشنل ریلیشنز اور آرکیالوجی کے شعبوں کے لیے ابتدائی تیاریاں ہورہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تیسرے مرحلے میں میڈیا اسٹڈیز، سوشیالوجی، فزکس اور ریاضی وغیرہ کے شعبے قائم ہونگے۔ پھر یونیورسٹی میں عمارتوں کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد میڈیکل ، انجنیئرنگ اور زرعی کالجوں میں تدریس شروع ہوجائے گی۔ ڈاکٹر صابر نے بتایا کہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ہائرایجوکیشن کمیشن کے تحت اسلام آباد میں ہونے والے تقریری مقابلے میں اول انعام حاصل کیا، جو ایک نئی یونیورسٹی کے لیے اعزاز ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق صابر کہتے ہیں کہ تربت ایک پسماندہ علاقہ ہے مگر والدین اساتذہ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں، یوں طالبات طلباء کے شانہ بشانہ تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔
مکران ڈویژن میں ایران سے بجلی خریدی جاتی ہے مگر طلب کے مقابلے میں بجلی کی رسد کم ہے، یوں دن میں کئی دفعہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی بناء پر زندگی رک جاتی ہے۔ میر اکرم کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت مکران ڈویژن کی ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کرنے کو تیار ہے مگر حکومت پاکستان ایران کو مکمل طور پر ادائیگی نہیں کرتی۔کہا جاتا ہے کہ واپڈا کا ناقص نظام اس معاملے میں حائل ہے۔
واپڈا حکام کہتے ہیں کہ اس علاقے میں ریکوری کی شرح کم ہے۔ علاقے کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ واپڈا کا عملہ غیر منصفانہ طور پر بجلی کے بل تیار کرتا ہے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ با اثر افراد کے بل کم آتے ہیں غریبوں کے بل کی رقم زیادہ ہوتی ہے اور عوام کے اس معاملے میں احتجاج کو کوئی سننے والا نہیں ہے۔ میر اکرم نے بتایا کہ حکومت پاکستان اگر ایران سے بجلی کا نیا معاہدہ کرے اور رقم یکمشت ادا کردے تو مکران ڈویژن میں لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ تربت اور اطراف کے علاقے خشک سالی کا شکار ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اس علاقے میں بارش نہیں ہوئی، یوں زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہوگئی ہے،کاریز خشک ہوگئے ہیں اور کنوؤں میں پانی نہیں۔ بعض لوگ بورنگ کے ذریعے پانی نکال رہے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی زیرِ زمین سطح گرگئی ہے۔ حکومت اس علاقے کے مسائل پرتوجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
دانشور مبارک بلوچ نے اس دورے کے دوران مکران کی تاریخ ثقافتی ورثے اور آثار قدیمہ کے بارے میں مفید معلومات فراہم کیں۔ مبارک بلوچ کا کہنا تھا کہ تربت کے مضافاتی علاقوں میں سات ہزار سال پرانی تہذیب کی آثار ملے ہیں ۔تربت ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین حاجی فدا اس علاقے کی سیاحتی اہمیت پر توجہ دے رہے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں امن وامان معمول پر آنے کے بعد سیاحتی مقامات کو ترقی دی جائے گی اس علاقے کی تاریخی اہمیت اورخوبصورت مناظرکی بنا پر ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لیے تربت اور اطراف کے علاقوں کے لیے خاصی کشش پیدا ہوسکتی ہے۔بندرگاہ اور جہاز رانی کے وفاقی وزیرسینیٹر حاصل بلوچ نے کراچی سے گوادر تک فیری چلانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سے علاقے کی قسمت تبدیل ہوجائے گی۔نیشنل پارٹی کا جلسہ اس علاقے میں ایک نئی تبدیلی کی نوید دے رہا ہے۔ بلوچی نوجوان جذباتی نعروں کے بجائے حقیقت کی دنیا میں واپس آرہے ہیں۔ تربت کے عوام ترقی چاہتے ہیں اور ترقی کے لیے امن ضروری ہے ۔جو نوجوان بندوق سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں انھیں حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا، اگر اسٹیبلشمنٹ اپنا رویہ تبدیل کرلے تو بہت سے گمراہ نوجوان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔