کرپشن منظم جرائم اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ

پاک چین اقتصادی راہداری جسے ہماری معیشت میں ایک گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اس کی سست روی سے چین کو تشویش ہو رہی ہے


اکرام سہگل August 06, 2016

KARACHI: ہم نے ایک بحران سے دوسرے بحران تک کے دورانئے میں جو سبق سیکھا اسے نہایت افسوسناک طور پر طاق نسیاں پر رکھ دیا۔ ہمارے جاگیردارانہ مزاج حکمرانوں نے اپنے لاکھوں کروڑوں ہم وطنوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے اور انھیں مقامی سطح پر بھی فیصلہ سازی کا کوئی اختیار دینے پر تیار نہیں۔ دہشتگردوں اور کالعدم تحریک طالبان جیسے گروپوں کے ارباب اختیار کے ساتھ بھی روابط ہیں۔

عجیب بات ہے کہ وہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کو کراچی سے اغوا کر کے1000 کلو میٹر دور تک لے جائیں اور قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کو ان پر شبہ تک نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ان کو ''سرکاری پروٹوکول'' کی سہولت حاصل رہی ہو گی۔ یہ اغوا کنندگان عدلیہ پر ناجائز دباؤ ڈال کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ادھر اسد کھرل اور اس کے ساتھی جو اب حراست میں ہیں ان سے تفتیش کے نتیجے میں چونکا دینے والے انکشافات متوقع ہیں تاآنکہ صاحبان اقتدار ان کے ساتھ سیاسی سودا بازی نہ کر لیں۔

یہ الزام کہ رینجرز کراچی سے ماورا بھی اپنے اختیارات کا استعمال چاہتے تھے جس کی وجہ سے ان کو اختیارات دینے میں اتنی تاخیر ہو گئی (تاہم اب یہ اختتیارات تفویض کر دیے گئے ہیں) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے رینجرز کو پولیس کے اختیارات دیدیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ موقف تھا کہ چونکہ چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ کو کراچی سے اغوا کیا گیا لہٰذا رینجرز کی طرف سے اس کی تلاش میں لاڑکانہ جانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس بات پر آپ یقین کریں یا نہ کریں کہ پیپلز پارٹی کی ساری قیادت رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے لیے آمادہ نہیں تھی۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں، دعویٰ کیا کہ کراچی کو جرائم اور مجرموں سے پاک کرنے کا کام پولیس نے کیا ہے، رینجرز نے نہیں۔ لیکن اپوزیشن لیڈر کا یہ بیان حقائق کے برعکس تھا' وفاقی حکومت آخر شہریوں کی حفاظت کے لیے کیوں اپنے آئینی اختیارات کو استعمال نہیں کر رہی جو کہ اسے چاروں صوبوں کے لیے حاصل ہیں؟ عام لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا حکمرانوں کا اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کے مترادف ہے۔

مالدار اور طاقتور لوگوں کے نام پانامالیکس میں صراحت کے ساتھ شامل ہیں لیکن ہمارے حکمران انتظامیہ اور سیاست کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دل کی تکلیف نے انھیں مہلت کا ایک خوش قسمت موقع عطا کیا ہے جب کہ اسحاق ڈار بڑی ذہانت سے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں جو انھوں نے قبل ازیں 2014ء کے دھرنے کے موقع پر بھی استعمال کیے۔ اب ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کی تیاری میں جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے تاکہ پانامالیکس کا معاملہ وقت کی دھول میں دب کر عوام کے ذہن سے محو ہو جائے۔

ان واقعات کا انکشاف منظم جرائم کے دہشتگردی کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بھی بے نقاب کر سکتا ہے۔ پانامالیکس کے سکینڈل میں 500 سے زیادہ افراد کے نام شامل ہیں لیکن لگتا ہے کہ نیب کو ان میں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے۔ کرپشن اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ کالے دھن کی نشاندہی کرتا ہے۔ کرپٹ عناصر کے بے پناہ مالیاتی اثاثوں کا ٹیکس وصول کرنے کے لیے ان کی حقیقی مالیت کے افشا پر تیار نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ منظم جرائم کرنے والا مافیا ہماری اعلیٰ انتظامیہ میں کس قدر اثرورسوخ کا حامل ہے۔

ہمارے شہیدوں کا مسلسل خون بہہ رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے حکمران بیرون ممالک بڑے شاہانہ انداز سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم' عذیر بلوچ' اسد کھرل' ناصر مورائی' سلطان قمر صدیقی وغیرہ سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے بعد یہ لازم تھا کہ ان کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اب اگر اصلاح احوال کی کوئی امید رکھی جا سکتی ہے تو وہ جنرل راحیل شریف پر ہی ہو سکتی ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا پیارا وطن امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا اور دنیا کی قوموں میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لے گا۔ اگرچہ سندھ حکومت اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہے کہ خطرناک جرائم میں ملوث افراد کی گواہی کے راستے میں رخنہ اندازی کی جائے لیکن دنیا میں کونسا ایسا آئین ہے جو کرپشن' قتل و غارت اور اس قسم کے دیگر جرائم کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

الیکٹرونک میڈیا کی یکجہتی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں لہٰذا وہ بھی ان عناصر کے جرائم کی رپورٹنگ سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اگر حفیظ پاشا اور پروفیسر خورشید احمد وغیرہ کی بات پر یقین کر لیا جائے تو اسحاق ڈار کی طرف سے پیش کیے جانے والے بیشتر اعدادوشمار بے بنیاد ثابت ہو جائیں گے۔ ہم اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے اربوں کھربوں کے حساب سے قرضے لیتے جا رہے ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری جسے ہماری معیشت میں ایک گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اس کی سست روی سے چین کو تشویش ہو رہی ہے جب کہ ہماری سیاسی جتھہ بندیوں میں اس کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا جاری ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے لیے سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش کے کئی پہلو موجود ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے برسرعام اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاک فوج سی پیک کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی تاکہ ہمیں اپنی جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔

چین والے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان آرمی کو اس منصوبے کا باقاعدہ طور پر کنٹرول سونپ دیا جائے تاکہ اسے بڑے ہموار طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ لیکن وہ لوگ جو صرف روپیہ کمانا چاہتے ہیں اور ہر قیمت پر اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے ریاست کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو وہ اپنی رخنہ اندازیوں سے باز نہیں آئیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے اگرچہ صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتے اس کے باوجود جان بوجھ کر مفاد پرست عناصر اس حوالے سے غیرضروری متنازع صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ایسے کمانڈرز بھی منظرعام پر آئے ہیں جو جنرل راحیل شریف کے شروع کردہ کام کو انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔

بہت سی داخلی اور بین الاقوامی مشکلات خود حکومت کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ عمران خان نے7 اگست سے کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں وزیراعظم نواز شریف کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ حکومت کے وزراء اعلان کر چکے ہیں کہ عمران خان کے دھرنے کو کوئی خفیہ حمایت حاصل ہے جس کا الزام انھوں نے 2014ء میں بھی لگایا تھا لیکن جب سیاست دان کرپشن کو چھپانے کے لیے خفیہ ہاتھوں کا واویلا شروع کر دیں تو اس سے کرپشن اور منظم جرائم کے گٹھ جوڑ کو لامحالہ تقویت حاصل ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں