حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
گفتگو ان سے نہیں ہے جوذاتی مفادات اور اشرافیہ کے مفادات کو قومی مفادات سے تعبیر کرتے ہیں
گفتگو ان سے نہیں ہے جوذاتی مفادات اور اشرافیہ کے مفادات کو قومی مفادات سے تعبیر کرتے ہیں۔ معراج بھائی اپنی تمام عمر کی جدوجہد کے پس منظر میں ان دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بہت سے اہم سوالات اٹھا گئے ہیں، جو محروم طبقات کے حقوق اور آزادیوں اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔
معاشرے پر اشرافیہ کی گرفت کو مضبوط تر کرنیوالوں کی سیاست کی بالکل ایک جدا اخلاقیات ہے، وہ صحیح اور غلط کی بحث میں نہیں پڑتے۔ ان کے لیے ہر وہ عمل اخلاقی طور پر درست ہے جو اشرافیہ کے مفادات کو مستحکم کرتا اور فروغ دیتا ہے۔ محروم طبقات کے حقوق اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ہر وہ اقدام اخلاقی طور پر درست ہے جو محروموں کے حقوق اور مساوات کی منزل کو قریب لاتا ہے۔
ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اشرافیہ کی انتہائی طاقتور عوام دشمن یلغار کے سامنے مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کوآگے بڑھانے کے لیے کس طرز سیاست کو اختیار کیا جائے۔ کیا ہم اشرافیہ کی سیاست کرنیوالوں کو یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ اپنی اخلاقیات کے مطابق ایک ایک کر کے ہم سب کو کچلتے اور ختم کرتے رہیں یا پھر ہم اپنے مقصد پر یقین رکھنے والی متحد اور منظم قوت بن کر اور ایک دانشمندانہ حکمت عملی اختیارکر کے اپنی منزل حاصل کریں گے؟
اگر میری یاد داشت میرا ساتھ دے رہی ہے تو کابینہ سے استعفی دیتے وقت معراج بھائی کے سترہ اٹھارہ صفحات پر مشتمل خط کے جواب میں ذوالفقارعلی بھٹو نے جو جواب لکھا تھا۔ اس میں شاید سب سے کلیدی بات یہ تھی کہ انھیں افسوس تھا کہ وہ اپنے سب سے زیادہ قریبی ساتھی کو اپنے طرز سیاست پر نہیں لا سکے۔ کابینہ سے استعفے کے بعد بھی معراج بھائی نے پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی تھی جن میں ان اختلافی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی، لیکن معراج بھائی کے لیے پارٹی میں شامل دائیں بازو اور جاگیرداروں کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے نظریاتی دست راست معراج محمد خان کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوتی چلی گئیں۔
مخالفین کی یلغار کو یکسر نظرانداز کر دینا کسی بھی رہنما یا کارکن کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی منزل کے حصول کے لیے کس طرز سیاست کو اختیار کیا جائے؟ اور یہ سوال ہمارے ہر ترقی پسند رہنما کے سامنے رہا ہے۔ جن علاقوں میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا وہاں سیاسی طاقت انگریزکے بنائے ہوئے مسلمان جاگیرداروں کے پاس تھی۔ محمد علی جناح کے سامنے یہ سوال تھا کہ پہلے مرحلے میں کیا ان سیاسی طور پر طاقتور جاگیرداروں سے جنگ کر کے پاکستان کی منزل کو کھو دیا جائے یا پہلے مرحلے میں ان کو ساتھ لے کر پاکستان حاصل کر لیا جائے؟
موہن داس کرم چند گاندھی کا فیصلہ بھی اسی قسم کا رہا کہ مذہبی انتہا پسند عناصرکے خلاف محاذ کھولنے کے بجائے ان کو آزادی کے کارواں میں شریک کیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے بھی رجعت پسندوں اور امریکی سامراج کے ایجنٹوں کی یلغار روکنے کے لیے ایک وسیع تر محاذ بنانے کا مسئلہ تھا اور انھوں نے اس سے قطع نظر کہ کس کا تعلق کس طبقے سے ہے مقامی طور پر باا ثرافراد کو اپنے ساتھ رکھنے کی پالیسی اختیارکی۔ ان کے نزدیک ان لوگوں کو یکسر رد کر کے ان کو امریکی سامرج کے ایجنٹوں کی گود میں ڈال دینا عوامی جدوجہد کے مخالفین کو مضبوط کرنا تھا۔
شاید تاریخ کے اس مرحلے پراس طویل اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد میں شامل سیاسی کارکنوں کی جانبدار حیثیت میں ہمارے لیے ان سوالات کے فوری جواب فراہم کرنے مشکل ہیں لیکن فی الوقت جو دیکھنے اور احتیاط کرنے کی چیز ہے وہ یہ ہے کہ ایک وسیع اتحاد بناتے ہوئے ہمارے نظریاتی کارکن کیا دوسروں کو اپنے سیاسی نظریات کے قریب لا رہے ہیں یا خود جاگیردارانہ طرز سیاست اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہمارے بہت سے نظریاتی ساتھی سیاسی جد وجہد کرنے کے بجائے غیرسرکاری ادارے بنا کرعوام کی خدمت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آج تقریبا تمام کے تمام غیرسرکاری ادارے اور ان میں شامل افراد ترقی پسند افراد بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک جانب اگر یہ عوامی خدمت کے جذبے کی کامیابی ہے تو دوسری جانب یہ ترقی پسند سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنوں کی کمیابی کا بھی اشاریہ ہے۔
نتیجہ اس کا کیا ہوا ہے؟ پاکستان بن گیا لیکن محمدعلی جناح ایک ناکارہ ایمبولنس میں آتے ہوئے میری ویدر ٹاور کی فٹ پاتھ پر دم توڑ گئے۔ نوکر شاہی اور فوج جنہوں نے جدوجہد آزادی کی مخالفت کی تھی ان کے بنائے ہوئے ملک پر قابض ہو گئیں اور جناح کے تمام مخلص اور دیانتدار ساتھیوں کو ایک ایک کر کے عوام سے جدا کر دیا گیا۔ گاندھی ایک انتہا پسند ہندو کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کا اہنسا کا نظریہ ان کی زندگی ہی میں نفرتوں کی چتا میں جل کر راکھ ہو گیا۔ پٹیل اور نہرو راج سنگھاسن پر بیٹھے اور آج گاندھی کے قاتلوں کے سیاسی پیروکار ہندوستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ رات کی تاریکی میں تنہائی کے عالم میں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا۔ شہر بلک رہے تھے لیکن ہر جانب سکتے کا عالم تھا۔ معراج بھائی طویل بیماری کے بعد عالم تنہائی میں ہم سے بچھڑ گئے۔ کیا تنہائی ہی ہم سب کا مقدر ہے؟ یہ سوال ہم سب کے سوچنے کا ہے۔
میری تجویز ہے کہ تاریخ کو عوام کی جدوجہد کے نکتہ نظر سے لکھا جائے۔ جن مراحل سے ہماری جدوجہد گزری ہے وہ بھولنے والی باتیں نہیں ہیں۔ اظہر جمیل نے مجھے بتایا ہے کہ معراج بھائی کی یاداشتوں کی بیس گھنٹے کی ٹیپ ان کے پاس موجود ہے۔ لوگوں کے پاس ان کی یادوں اور ان کی جدوجہد کے مراحل کا ایک سمندر موجود ہے۔ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ نوجوانوں کا کوئی گروپ اس سے پہلے کہ یہ لوگ ہمارے درمیان نہ رہیں ان کی یاد داشتوں کو محفوظ کر لے۔ خوشحال اور ترقی پسند پاکستانیوں کی آیندہ نسلیں بار بار اپنی تاریخ کو دیکھ کر ان لوگوں کو یاد کریں گی جن کا مقدر تنہائی تھا لیکن جو اپنے مقصد کی لگن میں ہر ظلم کو ہنس کر برداشت کرتے تھے۔
ان سطور کو لکھتے وقت میرا ذہن پتہ نہیں کہاں کہاں جا رہا ہے۔ مجھے ٹیگور کا گیت یاد آ رہا ہے ۔ ''جودی تور ڈاک شونے کیوناشے، توبے ایکلا چلو، ایکلا چلورے'' ۔''اگر تمہاری آواز سن کر کوئی بھی نہ آئے تو اکیلے ہی چلنا شروع کر دو۔'' مجھے بھٹائی کا حسینی سر یاد آ رہا ہے۔ ''جیکی ہلندیوںہیکلی''۔ ''وہ جو کہ تنہا ہی سفر کرتی ہیں''۔ اس بیت کو ہماری بڑی بہن اشرف عباسی صاحبہ نے اپنی آپ بیتی کا عنوان بنایا ہے۔ اور یہ کیا ہوا۔ میرا ذہن اپنے نبی پاک ﷺ کی حدیث کی جانب جا رہا ہے۔ ''ابوذر اکیلا ہی سفرکرتا ہے اور اکیلا ہی اس دنیا سے جائے گا''۔ اللہ تنہا تنہا سفر کرنے والوں پر اپنی رحمتوں کا سایہ کرے۔ ان کا ذکر کرنے سے ہمارے ضمیر بیدار رہتے ہیں، ہمارا عزم تروتازہ رہتا ہے۔
ہاں ایک قافلہ ضرور تھا جو اس ویران راہ سے گزر رہا تھا۔ انھیں جب خبر ہوئی کہ ابوذر اپنے خالق سے جا ملے تو وہ بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ابوذر ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ وقت اور تاریخ آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کسے معلوم کون سے قافلے اس وقت بھی ویران راہوں میں سفر کر رہے ہوں۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے ادھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
وہ ہمیں دیکھ نہ پائیں پہ صدا تو دیں گے
دورکتنی ہے ابھی صبح ، بتا تو دیں گے
معاشرے پر اشرافیہ کی گرفت کو مضبوط تر کرنیوالوں کی سیاست کی بالکل ایک جدا اخلاقیات ہے، وہ صحیح اور غلط کی بحث میں نہیں پڑتے۔ ان کے لیے ہر وہ عمل اخلاقی طور پر درست ہے جو اشرافیہ کے مفادات کو مستحکم کرتا اور فروغ دیتا ہے۔ محروم طبقات کے حقوق اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ہر وہ اقدام اخلاقی طور پر درست ہے جو محروموں کے حقوق اور مساوات کی منزل کو قریب لاتا ہے۔
ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اشرافیہ کی انتہائی طاقتور عوام دشمن یلغار کے سامنے مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کوآگے بڑھانے کے لیے کس طرز سیاست کو اختیار کیا جائے۔ کیا ہم اشرافیہ کی سیاست کرنیوالوں کو یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ اپنی اخلاقیات کے مطابق ایک ایک کر کے ہم سب کو کچلتے اور ختم کرتے رہیں یا پھر ہم اپنے مقصد پر یقین رکھنے والی متحد اور منظم قوت بن کر اور ایک دانشمندانہ حکمت عملی اختیارکر کے اپنی منزل حاصل کریں گے؟
اگر میری یاد داشت میرا ساتھ دے رہی ہے تو کابینہ سے استعفی دیتے وقت معراج بھائی کے سترہ اٹھارہ صفحات پر مشتمل خط کے جواب میں ذوالفقارعلی بھٹو نے جو جواب لکھا تھا۔ اس میں شاید سب سے کلیدی بات یہ تھی کہ انھیں افسوس تھا کہ وہ اپنے سب سے زیادہ قریبی ساتھی کو اپنے طرز سیاست پر نہیں لا سکے۔ کابینہ سے استعفے کے بعد بھی معراج بھائی نے پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی تھی جن میں ان اختلافی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی، لیکن معراج بھائی کے لیے پارٹی میں شامل دائیں بازو اور جاگیرداروں کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے نظریاتی دست راست معراج محمد خان کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوتی چلی گئیں۔
مخالفین کی یلغار کو یکسر نظرانداز کر دینا کسی بھی رہنما یا کارکن کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی منزل کے حصول کے لیے کس طرز سیاست کو اختیار کیا جائے؟ اور یہ سوال ہمارے ہر ترقی پسند رہنما کے سامنے رہا ہے۔ جن علاقوں میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا وہاں سیاسی طاقت انگریزکے بنائے ہوئے مسلمان جاگیرداروں کے پاس تھی۔ محمد علی جناح کے سامنے یہ سوال تھا کہ پہلے مرحلے میں کیا ان سیاسی طور پر طاقتور جاگیرداروں سے جنگ کر کے پاکستان کی منزل کو کھو دیا جائے یا پہلے مرحلے میں ان کو ساتھ لے کر پاکستان حاصل کر لیا جائے؟
موہن داس کرم چند گاندھی کا فیصلہ بھی اسی قسم کا رہا کہ مذہبی انتہا پسند عناصرکے خلاف محاذ کھولنے کے بجائے ان کو آزادی کے کارواں میں شریک کیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے بھی رجعت پسندوں اور امریکی سامراج کے ایجنٹوں کی یلغار روکنے کے لیے ایک وسیع تر محاذ بنانے کا مسئلہ تھا اور انھوں نے اس سے قطع نظر کہ کس کا تعلق کس طبقے سے ہے مقامی طور پر باا ثرافراد کو اپنے ساتھ رکھنے کی پالیسی اختیارکی۔ ان کے نزدیک ان لوگوں کو یکسر رد کر کے ان کو امریکی سامرج کے ایجنٹوں کی گود میں ڈال دینا عوامی جدوجہد کے مخالفین کو مضبوط کرنا تھا۔
شاید تاریخ کے اس مرحلے پراس طویل اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد میں شامل سیاسی کارکنوں کی جانبدار حیثیت میں ہمارے لیے ان سوالات کے فوری جواب فراہم کرنے مشکل ہیں لیکن فی الوقت جو دیکھنے اور احتیاط کرنے کی چیز ہے وہ یہ ہے کہ ایک وسیع اتحاد بناتے ہوئے ہمارے نظریاتی کارکن کیا دوسروں کو اپنے سیاسی نظریات کے قریب لا رہے ہیں یا خود جاگیردارانہ طرز سیاست اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہمارے بہت سے نظریاتی ساتھی سیاسی جد وجہد کرنے کے بجائے غیرسرکاری ادارے بنا کرعوام کی خدمت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آج تقریبا تمام کے تمام غیرسرکاری ادارے اور ان میں شامل افراد ترقی پسند افراد بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک جانب اگر یہ عوامی خدمت کے جذبے کی کامیابی ہے تو دوسری جانب یہ ترقی پسند سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنوں کی کمیابی کا بھی اشاریہ ہے۔
نتیجہ اس کا کیا ہوا ہے؟ پاکستان بن گیا لیکن محمدعلی جناح ایک ناکارہ ایمبولنس میں آتے ہوئے میری ویدر ٹاور کی فٹ پاتھ پر دم توڑ گئے۔ نوکر شاہی اور فوج جنہوں نے جدوجہد آزادی کی مخالفت کی تھی ان کے بنائے ہوئے ملک پر قابض ہو گئیں اور جناح کے تمام مخلص اور دیانتدار ساتھیوں کو ایک ایک کر کے عوام سے جدا کر دیا گیا۔ گاندھی ایک انتہا پسند ہندو کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کا اہنسا کا نظریہ ان کی زندگی ہی میں نفرتوں کی چتا میں جل کر راکھ ہو گیا۔ پٹیل اور نہرو راج سنگھاسن پر بیٹھے اور آج گاندھی کے قاتلوں کے سیاسی پیروکار ہندوستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ رات کی تاریکی میں تنہائی کے عالم میں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا۔ شہر بلک رہے تھے لیکن ہر جانب سکتے کا عالم تھا۔ معراج بھائی طویل بیماری کے بعد عالم تنہائی میں ہم سے بچھڑ گئے۔ کیا تنہائی ہی ہم سب کا مقدر ہے؟ یہ سوال ہم سب کے سوچنے کا ہے۔
میری تجویز ہے کہ تاریخ کو عوام کی جدوجہد کے نکتہ نظر سے لکھا جائے۔ جن مراحل سے ہماری جدوجہد گزری ہے وہ بھولنے والی باتیں نہیں ہیں۔ اظہر جمیل نے مجھے بتایا ہے کہ معراج بھائی کی یاداشتوں کی بیس گھنٹے کی ٹیپ ان کے پاس موجود ہے۔ لوگوں کے پاس ان کی یادوں اور ان کی جدوجہد کے مراحل کا ایک سمندر موجود ہے۔ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ نوجوانوں کا کوئی گروپ اس سے پہلے کہ یہ لوگ ہمارے درمیان نہ رہیں ان کی یاد داشتوں کو محفوظ کر لے۔ خوشحال اور ترقی پسند پاکستانیوں کی آیندہ نسلیں بار بار اپنی تاریخ کو دیکھ کر ان لوگوں کو یاد کریں گی جن کا مقدر تنہائی تھا لیکن جو اپنے مقصد کی لگن میں ہر ظلم کو ہنس کر برداشت کرتے تھے۔
ان سطور کو لکھتے وقت میرا ذہن پتہ نہیں کہاں کہاں جا رہا ہے۔ مجھے ٹیگور کا گیت یاد آ رہا ہے ۔ ''جودی تور ڈاک شونے کیوناشے، توبے ایکلا چلو، ایکلا چلورے'' ۔''اگر تمہاری آواز سن کر کوئی بھی نہ آئے تو اکیلے ہی چلنا شروع کر دو۔'' مجھے بھٹائی کا حسینی سر یاد آ رہا ہے۔ ''جیکی ہلندیوںہیکلی''۔ ''وہ جو کہ تنہا ہی سفر کرتی ہیں''۔ اس بیت کو ہماری بڑی بہن اشرف عباسی صاحبہ نے اپنی آپ بیتی کا عنوان بنایا ہے۔ اور یہ کیا ہوا۔ میرا ذہن اپنے نبی پاک ﷺ کی حدیث کی جانب جا رہا ہے۔ ''ابوذر اکیلا ہی سفرکرتا ہے اور اکیلا ہی اس دنیا سے جائے گا''۔ اللہ تنہا تنہا سفر کرنے والوں پر اپنی رحمتوں کا سایہ کرے۔ ان کا ذکر کرنے سے ہمارے ضمیر بیدار رہتے ہیں، ہمارا عزم تروتازہ رہتا ہے۔
ہاں ایک قافلہ ضرور تھا جو اس ویران راہ سے گزر رہا تھا۔ انھیں جب خبر ہوئی کہ ابوذر اپنے خالق سے جا ملے تو وہ بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ابوذر ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ وقت اور تاریخ آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کسے معلوم کون سے قافلے اس وقت بھی ویران راہوں میں سفر کر رہے ہوں۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے ادھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
وہ ہمیں دیکھ نہ پائیں پہ صدا تو دیں گے
دورکتنی ہے ابھی صبح ، بتا تو دیں گے