کتاب جس نے چینیوں کو حکومت کرنا سکھایا

امورِسیاست پرایک مشہور چینی مدبر کے سبق آموز نکات کا بیان جن سے ابھرتی سپرپاور،چین کے صدور آج بھی مستفید ہوتے ہیں


سید عاصم محمود August 07, 2016
امورِسیاست پرایک مشہور چینی مدبر کے سبق آموز نکات کا بیان جن سے ابھرتی سپرپاور،چین کے صدور آج بھی مستفید ہوتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

لاہور: چین کے ممتاز سیاست داں' مدبر اور فلسفی کنفیوشس (551قبل مسیح۔479 ق م) نے ہوش سنبھالا تو ان کی آبائی ریاست' لو میں مختلف سردار ایک دوسرے سے نبردآزما تھے۔ مرکزی حکومت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ اس لیے ریاست لو میں افراتفری اور بے چینی کا سماں تھا۔کنفیوشس خانہ جنگی ختم کرانے کی کوششیں کرنے لگے اور اپنی سعی میں خاصی حد تک کامیاب رہے۔ ان کی صلاحیتیوں سے متاثر ہو کر ریاست کے حکمران نے انہیں وزیر جنگ بنا دیا اور وقتاً فوقتاً دیگر اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کیا۔ کنفیوشس کی کوشش رہی کہ مرکزی حکومت کو زیاد ہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ مگر حکمران لہو ولعب کا شکار ہو کر حکومتی معاملات سے بے تعلق ہو گیا۔

کنفیوشس نے یہ دیکھ کر ریاست لو کو خیر باد کہا اور قریہ قریہ گھومنے لگے۔وہ جہاں بھی جاتے' لوگوں کو اچھی زندگی گزارنے کے گر بتاتے۔ یہ سکھاتے کہ حکومت سے لے کر معاشرے کی سب سے چھوٹی اکائی' خاندان تک کو کیسے مضبوط و توانا بنایا جا سکتا ہے۔کنفیوشس کے رہنما اقوال آج بھی سیدھا راستہ متعین کرنے میں بنی نوع انسان کی مدد کرتے ہیں۔اس ممتاز چینی فلسفی کے شاگردوں نے اپنے استاد کے اقوال ''تعالیم کنفیوشس'' (Analects) نامی مجموعے میں جمع کیے تھے۔ کنفیوشس کی تعلیمات ''پیار و محبت اور امن'' پر استوار ہیں۔ رن (REN) کنفیوشسیت کا بنیادی اصول ہے جس کے معنی ہے: دوسروں سے محبت کرو۔'' ان کا قول ہے: ''جو بات تمہیں ناپسند ہے' دوسروں کو اسے پسند کرنے پر مجبور نہ کرو۔''

اس چینی مفکر کو یقین تھا کہ ایک ملک کے عوام ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کر کے امن و خوشحالی پا سکتے ہیں۔ ایک معاشرے کی ترقی و کامرانی کا راز اسی اصول میں پوشیدہ ہے۔ معاشرے میں اگر ہر کوئی اپنی مرضی کرنے لگے' تو لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں اور وہ معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔چناںچہ کنفیوشس کی رو سے قانون اور اصولوں پر عمل کرنا خوشحالی و ترقی کا پیغام ہے۔ انہوں نے لوگوں پر یہ زور بھی دیا کہ وہ اپنے والدین کو عزت واحترام دیں اور اپنے بچوں کی اچھی پرورش کریں۔

''تعالیم کنفیوشس'' کا ایک باب نہایت بہترین انداز میں حکمرانی کے اچھے طور طریقوں پر روشنی ڈالتا ہے۔کنفیوشس کی نظر میں حکمران کا اصل کام ملکی انتظام سنبھالنا ہے' انسانوں کو قتل کرنا نہیں۔ ان کے نزدیک جو حکمران قوت و تشدد سے کام لے' اس کی حکومت ناکام کہلائے گی۔''تعالیم کنفیوشس'' رفتہ رفتہ آنے والے چینی حکمرانوں کے لیے رہنما کتاب بن گئی۔وہ حکومت کا معیار بہتر بنانے میں اس سے مدد لینے لگے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

چین کے موجودہ صدر،شی جن پنگ باقاعدگی سے''تعالیم کنفیوشس'' اور کنفیوشس کی دیگر کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔یہ ان کا محبوب ترین فلسفی ہے۔اسی واسطے مغربی میڈیا کا دعوی ہے کہ وہ چینی حکومت کو کنفیوشسی نظریات پر ڈھالنا چاہتے ہیں۔یاد رہے،مطالعہ صدرشی جن پنگ کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔''تعالیم کنفیوشس'' میں سے امورِ سیاست پر لکھے چیدہ نکات کا انتخاب نذر قارئین ہے۔ چین میں آج بھی سمجھا جاتا ہے کہ جس چینی نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا وہ جاہل اور بے شعور ہے۔

٭...انسان کی فطرت کو دیکھا جائے، تو اس کے لیے سب سے بڑی چیز ہے حکومت بنا کر رہنا۔
٭...جب سلطنت میں صحیح اصولوں کا راج ہو، تو عوام الناس حکمران اور حکومت کے خلاف کبھی سرگوشی نہیں کریں گے۔
٭...حکمرانی کا مطلب ہے، لوگوں کو سیدھے راستے پر چلانا، اگر حکمران سیدھے طریقے سے لوگوں کی راہنمائی کرے گا تو وہ کون سا انسان ہے جو سیدھا چلنے کی کوشش نہ کرے؟

٭...ایمان دار اور بااصول لوگوں کو (سرکاری) ملازمت دو اور ٹیڑھے و شریر لوگوں کو حکومت کے قریب نہ آنے دو۔ اگر حکومت میں بے ایمان لوگ موجود ہیں، تو ان کو فارغ کردو۔ ایسے بدذاتوں کو سیدھا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
٭...دنیا میں سب سے اچھی حکومت وہ ہے کہ جو لوگ اس میں رہتے ہوں، وہ خوش و خرم رہیں جبکہ جو لوگ دور ہیں، وہ اس حکومت کے قریب آنے کی تمنا کریں۔
٭...حکمران کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ ہر وقت عام لوگوں کے معاملات و مسائل کو اپنے ذہن میں رکھے اور کام کرتے ہوئے کبھی نہ تھکے۔ وہ عوام کے مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دے اور اپنی اس ذمے داری سے کبھی غفلت نہ برتے۔

٭...ایک اچھی حکومت وہ ہے جس میں بادشاہ بادشاہ ہو، وزیر وزیر، باپ باپ اور بیٹا بیٹا!
٭...حکمران جب بھی مقدمے کی سماعت کرے، تو اپنے دماغ سے خوئے حکمرانی نکال دے اور انصاف پسند بن جائے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ مقدمات کی سماعت نہ کرے۔
٭...وزیر وہ شخص ہے جو سچائی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت بجالاتا ہے۔ جو وزیر حق کی راہ پر نہ چل سکے، اسے مستعفی ہوجانا چاہیے۔

٭...جو حکمران اخلاق اور اپنی صلاحیتوں کے بل پر حکومت چلائے وہ ایک قطبی ستارے کے مانند ہے۔ وہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے جبکہ تمام ستارے اس کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔
٭...ایک حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ چند باتوں کا خاص خیال رکھے۔ اول حکومت میں حق و صداقت کا بول بالا ہو، دوم فوج کے پاس اسلحہ و سامان معقول تعداد میں ہو، سوم ملک کے عوام اپنی حکومت اور حکمرانوں پر اعتماد کرتے ہوں۔
٭...ایک حکومت کا فرض ہے کہ وہ بدعنوان اور اچھی شہرت نہ رکھنے والے لوگوں کو اعزازات سے نہ نوازے۔ اگر ایسا کیا گیا تو عام لوگ سیدھے راستے پر چلنا چھوڑ دیں گے۔

٭...ایک عمدہ حکومت میں لوگ غربت و افلاس کو باعث شرم خیال کرتے ہیں ۔جبکہ جس ملک میں حکومت اچھی نہ ہو، وہاں عام لوگ دولت و ثروت کو باعث شرم سمجھتے ہیں۔
٭...حکمرانوں اور وزیروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر دانشمند لوگوں کے مشوروں پر انحصار نہ کرے۔ بلند و بانگ وعدوں، طویل تقریروں اور دعوئوں سے دور رہیں۔ نیز غلط ملط لوگوں سے میل جول نہ رکھیں۔ حکمرانوں اور حکومتوں کا حال لکھنے والے مورخوں کو کھرا اور صاف گو ہونا چاہیے۔ (چینی) مورخ یود کا شمار بھی انہی مورخین میں ہوتا ہے۔ جب اس کے ملک میں حکومت اچھی تھی، تو وہ تیر کی طرح سیدھا تھا۔ جب بری حکومت آگئی تب بھی وہ تیر کے مانند سیدھا رہا۔
٭...اگر حکمران، وزیر اور مشیر اپنی ذات میں اچھے ہیں، تو انہیں کاروبار مملکت چلانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آنی چاہیے۔ لیکن وہ اپنی ذات میں اچھے نہیں تو پھر حکمران، وزیر اور مشیر کیوں بن گئے؟

٭...حکومت اگر عام لوگوں کی ضرورتیں خوش اسلوبی سے پوری کرتی رہے، تو وہ کبھی چوری ڈاکا نہ ڈالیں اور نیک زندگی گزاریں۔
٭...اچھا حکمران اور وزیر وہ ہے جو اپنی خدمات محنت، دیانت داری اور خلوص سے بجالاتے اور تنخواہوں و مراعات کو ثانوی حیثیت دے۔
٭...اگر ایک حکمران (بادشاہ، صدر یا وزیراعظم) کا ذاتی کردار اچھا ہے، تو قوانین بنائے اور احکامات جاری کیے بغیر بھی اس کی حکومت مضبوط اور موثر رہے گی۔ لیکن حکمران کا ذاتی کردار اچھا نہیں، تو پھر وہ لاکھ قوانین بنائے اور احکامات جاری کرے، کوئی ان کی پروا نہیں کرے گا۔
٭...جب کسی ملک میں اچھی حکومت آجائے، حکمران بااصول اور باصلاحیت ہوں، تو وہاں عام لوگوں کے قول و فعل میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ لیکن ملک میں بری حکومت آجائے اور بے ایمان لوگ حکمران بن بیٹھیں، تو وہاں عام لوگوں کے قول بلند ہوجائیں گے اور افعال پست یا افعال بلند ہوجائیں گے اور قول پست!
٭...ایک ملک میں حکومت اچھی ہو، تو وزیر، مشیر، سرکاری افسر وغیرہ عام طور پر اپنے دفتروں میں بیٹھتے ملتے ہیں۔ لیکن حکومت بری ہو، تو اچھے اچھے افسر بھی اصولوں کی بساط لپیٹ کر بغل میں داب لیتے ہیں۔ وہ پھر شاذونادر ہی اپنے دفاتر میں دکھائی دیتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مختلف کام انجام دینے کے لیے مختلف افسروں کی خدمات حاصل کرے۔ حکمران کو چاہیے کہ وہ اپنی انتظامیہ کی چھوٹی موٹی غلطیاں نظر انداز کردے اور جو سرکاری افسر تندہی و ایمان داری سے کام کریں، ان کو ترقیاں دی جائیں۔
٭...اگر اچھے اور ایمان دار حکمرانوں کے ہاتھ میں ایک سو سال تک حکومت رہے (جوکہ ناممکن ہے) تب ہی وہ بدی و شر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور سزاؤں کی ضرورت نہیں رہے گی۔

٭...وہ انسان ''افسر'' کہلانے کا مستحق ہے جس میں شرم و حیا ہو، جو غلط قدم اٹھانے پر ندامت محسوس کرے، وہ دوسروں کو عزت و تکریم دینے کا عادی ہو اور جسے ملک کے کسی بھی حصے میں تعینات کردیا جائے، وہ اپنا کام ایمان داری سے انجام دے۔
٭...اگر حکمران کو باصلاحیت لوگ مل جائیں اور وہ ان کی صلاحیتوں کے مطابق انہیں مقام و مرتبہ دینے سے اجتناب کرے، تو یہ ان لوگوں کی سخت توہین ہے۔ اگر حکمران کو نااہل لوگ نظر آجائیں مگر وہ انہیں برطرف نہ کرسکے تو یہ سچائی بھی عیاں کرتی ہے کہ وہ ایک کمزور حاکم ہے۔
٭...ایک وزیر یا مشیر حکمران کی شان میں سو قصیدے پڑھ ڈالے، لیکن جب اسے کوئی کام تفویض کیا جائے اور وہ بغلیں جھانکنے لگے کہ اسے کیونکر انجام دیا، یا اسے بیرون ملک کسی مہم پر بھیجا جائے اور وہ سوچنے لگے کہ باہر جاکر کیا کرے گا، تو ایسے نااہل وزیر مشیر کا کیا فائدہ؟

٭...حکمران کو چاہیے کہ وہ کام مکمل کرنے کی خاطر جلد بازی سے کام نہ لے۔ چھوٹے چھوٹے فائدے اپنے سامنے نہ رکھے۔ جلد بازی کی وجہ سے اکثر اوقات کام درست طریقے سے مکمل نہیں ہوپاتے جبکہ چھوٹے فوائد مدنظر رکھنے کے باعث بڑے بڑے فائدے حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ نکات یاد رکھنے چاہیں۔علم حاصل کرنے کی خواہش سے انسان دانا نہیں بن جاتا مگر دانش کے ضرور قریب ہوجاتا ہے۔ علم پانے کی شدید لگن سے انسان فیض رسانی کا ذریعہ تو نہیں بن پاتا، مگر اس امر کا امکان ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ شرم و حیا کی پاس داری سے انسان میں حوصلہ جنم نہیں لیتا، مگر وہ حوصلے کے قریب ضرور پہنچ جاتا ہے۔
جو انسان درج بالا تین نکات سے واقف ہو، وہ اپنا کردار (کریکٹر) بناسکتا ہے۔ اور جو یہ جانتا ہے کہ کردار کس طرح بنایا جاتا ہے، تو وہ دوسروں پر حکومت کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اور جو انسان دوسروں پر حکومت کرسکتا ہے وہ پورے ملک کا حکمران بھی بن سکتا ہے۔
٭...ایک اچھا وزیر سب سے پہلے (ملک و قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے) حکمران کو مشورہ دیتا ہے۔ اگر مشورہ قبول کرلیا جائے، تو وہ تشکر سے سرجھکاتا اور مشورے کو عملی جامعہ پہنانے کی خاطر اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔اگر اس کی خدمات قبول کرلی جائیں، تو وہ اپنی ذمے داری صحیح طور پر نبھانے کے لیے جان تک قربان کردے گا۔ ایسی صورت میں وزیر کو ترقی کے لیے خوشامد، چاپلوسی اور جھوٹ کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور بالفرض اس پر الزامات لگ جائیں، تو ان کی اہمیت معمولی ہوتی ہے۔
٭...امرا اور شرفا کو قانون سے ماورا سمجھنے کے نظریے نے اس مفروضے سے جنم لیا کہ چونکہ وہ اعلیٰ و معزز خاندان میں پیدا ہوتے ہیں، اس لیے ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی۔ برسراقتدار طبقہ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی خاطر یہ مفروضہ عوام کے سامنے اکثر پیش کرتا ہے۔

٭...حکمران کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دو طرح کا اثر رکھتے ہیں: اول وہ شروع میں ریشم کے دھاگے لگتے ہیں، مگر جب ان کا نتیجہ برآمد ہو، تو وہ معمولی رسیوں کی طرح بن جاتے ہیں۔ دوم وہ ابتدا میں عام رسیاں کے مانند لگتے ہیں، لیکن جب ان کا نتیجہ سامنے آئے، تو وہ ریشم کے دھاگے دکھائی دیتے ہیں۔پس اچھا حکمران وہی ہے جو زبان سے ایسے الفاظ ہی ادا کرے جن پر عمل ہوسکے اور اچھا حکمران وہی ہے جو ایسے عمل انجام دے جنہیں الفاظ میں بیان کیا جاسکے۔ جب ایسی نوبت آجائے تو عوام کی زبان سے نکلے الفاظ بھی عمل میں ڈھلنے لگتے ہیں جبکہ عوام کے اعمال کو بہ آسانی لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہوتا ہے۔
٭...قابل اور اہل حکمران اپنی مملکت میں بوڑھوں اور بیماروں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ جو سرکاری ملازم 80 سال کا ہوجائے، اسے سبکدوش کردینا چاہیے۔ اسی طرح کوئی شہری 90 سال کا ہوجائے اور اس کے اہل خانہ سرکاری ملازمت میں ہوں، تو انہیں سبکدوش کرنا چاہیے تاکہ وہ بوڑھے بزرگ کا خیال رکھ سکیں۔جو سرکاری ملازمین معذور یا بیمار ہوں اور جنہیں توجہ و علاج کی ضرورت ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ انہیں بھی ملازمت سے الگ کردے ۔جس سرکاری ملازم کی ماں یا باپ مرجائے، اسے تین ماہ کی چھٹی ملنی چاہیے تاکہ وہ مرحوم کا سوگ مناسکے۔
٭...یتیم، بوڑھے، بے اولاد لوگ اور بیوائیں...ان چاروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ روئے زمین پر سب سے زیادہ تنہا اور اداس ہوتے ہیں۔ وجہ یہ کہ عام طور پر کسی کو اپنی ضرورتوں کے بارے میں نہیں بتاتے اور نہ کسی کو اپنے دکھڑے سناتے ہیں۔ ان سب کو حکومت کی جانب سے الاؤنس ملنا چاہیے تاکہ وہ باوقار طریقے سے زندگی گزار سکیں۔
٭...یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ شراب کی محفلیں منعقد کرنے سے برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کثرت شراب نوشی برائیوں کا منبع ہے۔ برائی شراب کے خمیر میں ہے۔ اس لیے قدیم بادشاہوں نے شراب نوشی کے خلاف سخت قوانین بنائے تھے۔

٭...قدیم حکمرانوں نے اچھی حکومت بنانے کے لیے درج ذیل پانچ خصوصیات کو لازمی قرار دیا تھا:
-1 نیک کو عزت دینا
-2 شریفوں کے لیے تکریم
-3 بوڑھوں کے ساتھ احترام سے پیش آنا۔
-4 ادھیڑ عمر انسانوں سے محبت کرنا۔
-5 جوانوں کو شفقت دینا
جس ملک میں ان پانچ چیزوں پر عمل ہو، وہاں کی حکومت نہ صرف مضبوط و مستحکم رہتی ہے بلکہ کوئی بیرونی طاقت بھی اسے ختم نہیں کرپاتی۔

زندگی سنوارنے والے واقعات

کنفیوشس سے وابستہ واقعات بہت سبق آموز اور انسان کا اخلاق سدھارنے والے ہیں۔ یہ انسان کو نیکی کرنے کا درس دیتے اور بدی سے بچاتے ہیں۔ ایسے ہی چند دل افروز واقعات درج ذیل ہیں۔

ایک مقدمے کا فیصلہ:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریاست لو میں کنفیوشس کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ ایک دن باپ بیٹے نے ایک دوسرے کے خلاف ان کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ باپ کا کہنا تھا کہ بیٹا نافرمان ہے اور اپنے والدین کی عزت نہیں کرتا ۔ اس نے جج سے درخواست کی کہ بیٹے کو اس جرم پر سخت سزا سنائی جائے۔(یاد رہے، زمانہ قدیم کے چینی معاشرے میں والدین کی نافرمانی کرنا جرم تھا۔)ادھر بیٹے نے بھی باپ پر فاش غلطیاں کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ اپنے پدرانہ فرائض صحیح طرح انجام نہیں دے رہا۔

باپ بیٹا عدالت میں بھی جھگڑتے رہے۔ تاہم کنفیوشس نے اسی وقت فیصلہ نہیں کیا بلکہ ایک عجیب حکم جاری کر دیا... یہ کہ باپ بیٹے کو ایک ساتھ جیل میں بند کر دیا جا ئے۔ یہ حکم سن کر دونوں ہکا بکا رہ گئے۔ پولیس نے آناً فاناً انہیں گرفتار کر لیا۔

ایک ماہ بعد باپ نے کنفیوشس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ چیف جسٹس نے اسے اپنی عدالت میں بلوا لیا۔ باپ کہنے لگا: '' بیٹے سے میری مفاہمت ہوگئی ہے۔ اب مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں۔ لہٰذا میں اپنا مقدمہ واپس لینا چاہتا ہوں۔'' یہ سن کر کنفیوشس نے دونوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

ریاست میں بعض درباریوں اور امرا نے اس فیصلے پر کنفیوشس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو اس نے باپ کو بھی نافرمان بیٹے کے ساتھ قید کردیا ۔ یوں پدرانہ عزت خاک میں ملا دی۔ پھر بیٹے کو سزا دیئے بغیر رہا کر دیا۔ یوں اولاد کو والدین کی توہین کرنے کا پروانہ مل گیا کہ اب سزا تو نہیں ملے گی۔



تاہم مقدمے کا فیصلہ کنفیوشس کی فراست اور پیش بینی کا آئینہ دار تھا۔ وہ اگر چاہتے' تو بہ مطابق قانون بیٹے کو جیل بھجوا دیتے۔ مگر اسی فیصلے کے بھیانک نتائج نے انھیں یہ قدم اٹھانے سے روک دیا۔

ذرا سوچیے' اگر بیٹا قید خانے پہنچ جاتا ' تو کیا حالات جنم لیتے؟ بظاہر اس کا والد مقدمہ جیت جاتا' مگریہ فیصلہ گھر میں مختلف صورت حال کو جنم دیتا۔ بیٹے کے جیل جانے سے ماں اداس ہو جاتی اور شوہر سے خفا رہنے لگتی۔ ادھر عزیز واقارب بھی باپ کو سنگ دل ہونے کا طعنہ دیتے۔ جیل میں قید بیٹا باپ سے زیادہ نفرت کرنے لگتا۔

غرض کنفیوشس باپ کے حق میں فیصلہ دیتے' تو عارضی طور پر یقیناً اسے فائدہ پہنچتا۔ لیکن فیصلے کے دور رس نتائج خوفناک نکلتے ۔ وہ بظاہر قانونی اور مبنی برعقل فیصلہ ایک خاندان تباہ کر دیتا۔ باپ کو پچھتاوے اورایک خاندان کی تباہی روکنے کے لیے ہی کنفیوشس نے ایسا فیصلہ کیا جو وقتی طور پر نامنا سب نظرآیا۔ مگر طویل المعیاد طور پر اس کے خوشگوار نتائج برآمد ہوئے کہ باپ بیٹے میں صلح ہو گئی۔ یوں ان کا خاندان تباہ ہونے سے بچ گیا۔

کنفیوشس کا فیصلہ آشکارا کرتا ہے کہ میاں بیوی یا والدین واولاد کے مابین کوئی اختلاف جنم لے' تو اہم ترین بات یہ ہے کہ آرام و سکون سے ' ٹھنڈے دل سے مسئلے پر غور وفکر کیا جائے۔ مسائل عام طور گفت و شنید اور اپنی اپنی خامیوں کا جائزہ لینے سے ہی حل ہوتے ہیں۔

ایک خاندان یا برداری میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے بھی یاد رکھیں کہ کوئی مسئلہ جنم لے' تو سب سے پہلے وہ فریقین کو شانت کریں تاکہ گفت و شنید کا پُرامن اور موزوں ماحول جنم لے سکے۔ افہام وتفہیم کی فضا قائم ہو۔ بلا سوچے سمجھے ایک فریق کی حمایت کرنے سے عموماً اختلاف نہ صرف گہرا ہوتا ہے' بلکہ باہمی نفرتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ یوں مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جاتا ہے۔

غرض کنفیوشس کی دانش پسندی اور روشن ضمیری نے ایک خاندان ٹوٹنے سے بچا لیا۔ ان کے فیصلے میں خصوصاً ماں باپ اور اولاد کے لیے یہ اہم سبق پوشیدہ ہے کہ خاندانی و ازدواجی جھگڑے ہمیشہ مذاکرات اور ٹھنڈے دل و دماغ سے حل کرنے چاہیں۔

انسانی طبیعتوں کا فرق :
کنفیوشس اس سچائی سے بھی آگاہ تھے کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کے ایک شاگرد 'زیلوئی کی طبیعت میں جلد بازی زیادہ تھی۔ ایک دن زئی لوئی نے استاد سے پوچھا: ''آقا' جب ہم کوئی اچھی بات سنیں' تو کیا فوراً اس پر عمل کرنے لگیں؟''
استاد بولا: ''نہیں' پہلے تم کس تجربے کار فرد کو وہ بات بتائو۔ اگر بات اسے بھی عمدہ لگے' تب کوئی عملی قدم اٹھاؤ۔''
چند دن بعد کنفیوشس کے ایک اور شاگرد' ران ہوئی نے استاد سے درج بالا سوال پوچھا۔ اس بار کنفیوشس نے جواب دیا:''ہاں' تمہیں چاہیے کہ اچھی بات پر فوراً عمل شروع کر دو۔''
اتفاق سے کنفیوشس کا ایک تیسرا شاگرد دونوں مواقع پر موجود تھا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ دونوں بار استاد نے مختلف جواب کیوں دیا؟آخر اس نے اپنی حیرانی کا ذکر استاد سے کر ڈالا ۔ کنفیوشس گویا ہوئے:
''بیٹا! زئی لوئی اکثر غوروفکر کیے بغیر جلد بازی میں کام کرتا ہے۔ اسی لیے میں نے اسے نصیحت کی کہ وہ سوچ بچار سے کام لے کر ہر قدم اٹھائے۔ مگر ران ضرورت سے زائد احتیاط پسند ہے۔ وہ بہت غوروفکر کے بعد ہی کام کرتا ہے۔ سو میں نے اسے مشورہ دیا کہ ضرورت سے زیادہ سوچ بچار نقصان دہ ہے۔ ہر انسان مختلف طبیعت رکھتا ہے۔ اس کی فطرت مد نظر رکھ کر ہی اسے مشورہ د ینا چاہیے۔''

اصل عالم کون ؟
ایک بار کنفیوشس کسی گاؤں سے گذر رہے تھے کہ وہاں انہوں نے دو نوجوانوں کو آپس میں جھگڑتے دیکھا۔ کنفیوشس نے مسئلے کی بابت پوچھا' تو ایک نوجوان بولا ''بابا! میرا خیال ہے کہ ابھرتا سورج زمین کے قریب جبکہ دوپہر کا سورج سب سے دور ہوتا ہے۔ مگر یہ کہتا ہے' ابھرتا سورج زمین سے بعید ترین اور دوپہر والا قریب ترین ہوتا ہے۔''
یہ سن کر دوسرا نوجوان بولا :''بابا ! آپ ہی بتایئے ۔ صبح جب سورج نکلے' تو فضا میں ٹھنڈک اور خوشگواری ہوتی ہے۔ مگر دوپہر کو سورج آگ اگلنے لگتا ہے اور اس کے نیچے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔ اب یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ جب کوئی گرم شے ہمارے قریب آئے ' تو ہمیں گرمی لگنے لگتی ہے۔''
پہلا نوجوان کہنے لگا: '' بھئی تم بابا جی کو گمراہ مت کرو۔ جب سورج ابھرنے لگے' تو وہ گاڑی کے پہیے کی طرح گول اور بہت بڑا نظر آتا ہے۔ لیکن دوپہر کو وہ کسی چھوٹی پلیٹ کے مانند بن جاتا ہے۔اب سبھی کو علم ہے کہ جو شے زیادہ دور ہو وہ ہمیں چھوٹی نظر آتی ہے۔''
دونوں نوجوانوں نے اپنے اپنے دلائل دے کر کنفیوشس سے کہا ''بابا ! آپ بتایئے' ہم میں سے سچا کون ہے؟''
کنفیوشس نے کاندھے اچکائے اور بولے '' سچی بات تو ہے کہ میںنہیں جانتا۔''
استاد کی بات سن کر کنفیوشس کے شاگرد بہت حیران ہوئے۔ وہ تو سمجھتے تھے کہ ان کا استاد ہر سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ مگر وہ تو بے علمی کا اظہا رکر رہے تھے۔ چند دن بعد شاگردوں کے متجسس ذہن کو جواب مل گیا۔ کنفیوشس ان سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے:
''اب میں تمہیں حقیقی عالم کی تعریف بتاتا ہوں۔ وہ جو کچھ جانتا ہے' وہ کہہ دیتا ہے۔ جس علم کا اسے نہیں پتا ہوتا' اس کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا... ایسا شخص ہی حقیقی عالم ہوتا ہے۔''

کنفیوشس نے کہا
٭... زندگی گزارنا بہت آسان ہے، مگر انسان اسے مشکل اور پیچیدہ بنانے پر تلا رہتا ہے۔
٭... اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنی آہستہ چل رہے ہیں... بس سفر جاری رہنا چاہیے۔
٭... انسان کی عظمت کا راز یہ نہیں کہ وہ کبھی شکست نہ کھائے، بلکہ یہ ہے کہ ہر بار گرنے کے بعد وہ پھر کھڑا ہوجائے۔
٭... آپ جہاں بھی جائیے، اپنے پورے دل کے ساتھ جائیے۔
٭... ہر شے میں خوبصورتی ہوتی ہے، مگر ہر کوئی اسے نہیں دیکھ پاتا۔
٭... جب منزل پر پہنچنا دشوار ہو جائے، تو منزل کو نہ بدلیے، بلکہ اپنے قدموںکے عمل میں تبدیلی لے آئیے۔
٭... ایسے پیشے کا انتخاب کیجیے جس سے آپ محبت رکھتے ہوں... یوں آپ کو زندگی میں ایک دن بھی کام نہیں کرنا پڑے گا۔
٭... حقیقی علم یہ ہے کہ آپ جانتے ہوں، دوسرے کی جہالت کی حد کہاں ختم ہوتی ہے۔
٭... جو سیکھے مگر نہ سوچے، اس نے اپنی زندگی گنوادی۔ جو سوچے مگر کچھ نہ سیکھ سکے، وہ بھی اپنی زندگی برباد کر بیٹھا۔

شیر سے زیادہ ہولناک
ایک دفعہ کنفیوشس اپنے شاگردوں کے ساتھ کوہ تھائی سے گزر رہے تھے ۔دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے سرہانے بیٹھی زاروقطار روہی ہے۔ چینی بزرگ اس کے قریب گئے اور پوچھا ''اے خاتون! تم کیوں آہ و زاری کررہی ہو؟ کیا کسی نے تم پر تشدد کیا؟ تمہارے دکھوں میں اضافہ کردیا؟''
عورت نے جواب دیا ''نہیں، اس جگہ شیر نے میرے خاوند کو ہلاک کردیا تھا۔ پھر وہ میرے سسر کو بھی ہڑپ کرگیا۔ اب اس جگہ وہ میرے بیٹے کو بھی کھاگیا ہے۔''


کنفیوشس نے کہا ''خاتون! تم یہ جگہ چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟''
عورت بولی ''یہاں کی حکومت ظالم و جابر نہیں ۔ اس لیے میں یہیں زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔''
یہ سن کر چینی بزرگ اپنے شاگردوں کی جانب متوجہ ہوکر بولے ''یاد رکھو! ظالم و جابر حکومت شیر سے بھی زیادہ خطرناک و ہولناک ہوتی ہے۔''n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں