جزیرہ نما کامچاٹکا
روسی مشرق بعید کا انوکھا خطہ، برف اور آگ کی سرزمین جہاں کے موسم ہر پل نئی کہانیاں سناتے ہیں
جزیرہ نما کامچاٹکا روسی مشرق بعید کا ایک بے مثال خطہ ہے۔ یہ جزیرہ نما ہے، لیکن اسی جزیرہ نما میں ایک اور خطہ یا علاقہ بھی شامل ہے جسے Kamchatka Krai کہتے ہیں۔ یہ وفاق روس میں شامل علاقہ ہے۔ کامچاٹکا کرائے یکم جولائی2007کو قائم ہوا تھا جس کے لیے کامچاٹکا اوبلاسٹ اور کوریاک خود مختار علاقےOkrug کو آپس میں مدغم کردیا گیا تھا اور ان دونوں کے ادغام سے وفاق روس کا یہ خطہ وجود میں آیا۔ اس کے لیے 23اکتوبر2005کو ایک عوامی ریفرنڈم کرایا گیا، جس میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے بعد ہی اس روسی وفاق کا فیصلہ کیا گیا اور آج کا کامچاٹکا کرائے اسی کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ کامچاٹکا کرائے اصل میں جزیرہ نما کامچاٹکا کا حصہ ہے اور اسی میں شامل ہے۔
اور اب ہم بات کریں گے جزیرہ نما کامچاٹکا کی۔ یہ جزیرہ نما 1250کلومیٹر (780میل) لمبا جزیرہ نما ہے جو روسی مشرق بعید میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ لگ بھگ 270,000 کلومیٹر یعنی ایک لاکھ مربع میل پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرق میں بحرالکاہل اور مغرب میں بحیرۂ Okhotsk واقع ہے۔ جزیرے کے ساحل کے ساتھ ساتھ 10,500 میٹر یا 34,400 فٹ گہری Kuril-Kamchatka Trench یا کھاڑی واقع ہے۔
جزیرہ نما کامچاٹکا، کمانڈر آئی لینڈ اور کاراگنسکی آئی لینڈ نامی جزائر پر مشتمل ہے جن کو ملا کر کرائے آف کامچاٹکا تشکیل پاتا ہے اور جو روسی جمہوریہ کا حصہ ہے۔ یہاں رہنے والے 322,079 افراد نسلاً روسی ہیں، لیکن ان میں لگ بھگ 13,000 کوریاک بھی شامل ہیں۔ کوریاک روسی مشرق بعید کے مقامی یا دیسی افراد ہیں جو اس خطے کے اصل باشندے ہیں۔
جزیرہ نما کامچاٹکا کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آگ اگلتے آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں اور برف ابلتے سخت یخ بستہ گلیشیئر بھی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خطہ شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی۔ اس علاقے میں ترسیب سازی کا اوسط 2,700 ملی میٹر سالانہ ہے۔ یہاں گرمیوں کا موسم معتدل سرد ہوتا ہے اور سردیوں میں یہاں گرج چمک کے طوفان آتے ہیں، گویا سردی کا موسم یہاں کے رہنے والوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔
٭ جزیرہ نما کامچاٹکا کا جغرافیہ:
سیاسی طور پر تو جزیرہ نما کامچاٹکا، کامچاٹکا کرائے میں شامل ہے، لیکن جغرافیائی طور پر یہ ایک الگ خطہ ہے۔ اس کی جنوبی چوٹی کیپ لوپاٹکا کہلاتی ہے۔ شمال میں بحرالکاہل کی جانب واقع اس کی دائرے نما خلیج کو Avacha Bay کہتے ہیں۔ یہیں اس کا دارلحکومت Petropavlovsk بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ شمال میں چار دیگر جزیرے نما بھی واقع ہیں جو Shipunsky پوائنٹ، Kronotsky پوائنٹ، کامچاٹکی پوائنٹ اور Ozernoy پوائنٹ کہلاتے ہیں۔ Ozernoy کے شمال میں ایک کافی طویل Karaginsky خلیج واقع ہے جس میں Karaginsky جزیرہ نمایاں ہے۔ اس کے شمال مشرق میں کورفا خلیج واقع ہے جس کے بالکل مخالف سمت میں Shelikhov کی خلیج واقع ہے۔
کامچاٹکا یا اس کا مرکزی علاقہ اس جزیرہ نما میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے جنوب مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ Vostochny یا مشرقی رینج واقع ہے۔ ان کے درمیان مرکزی وادی واقع ہے۔ دریائے کامچاٹکا Avacha کے شمال مغرب سے بہنا شروع ہوتا ہے اور مرکزی وادی میں شمال کی طرف بہتا چلا جاتا ہے، یہ Klyuchi کے قریب مشرق کی جانب گھوم کر کامچاٹکی پوائنٹ سے جاملتا ہے۔
زمانۂ قدیم میں یہ جگہ ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتی تھی جہاں بہت سے بحری جہاز اور کشتیاں آتی تھیں اور لوگ اس کی بندرگاہ سے تجارت کرتے تھے جس سے اس خطے کے لوگوں کو کاروبار ملتا تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے اس جزیرہ نما کے لیے بہت بڑی تعداد میں سمندری تجارت ہوتی تھی۔ یہی وہ جگہ تھی جو کامچاٹکا کو Okhotsk سے ملاتی تھی۔ یہاں دو بڑی سڑکیں یا شاہراہیں بھی واقع ہیں، لیکن یہ اعلیٰ معیار کی نہیں ہیں، ان پر سفر کرنا بہت مشکل ہے۔ ان دو سڑکوں کے علاوہ اس خطے میں آنے جانے اور نقل و حمل کے لیے چھوٹے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، بھاری ٹرک اور فوجی ٹرک بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
کامچاٹکا کی مرکزی وادی میں جو دائرے کی شکل کا کھلا علاقہ واقع ہے، وہ Klyuchevskaya Sopka کہلاتا ہے۔ یہ آتش فشانی علاقہ ہے جو ہمہ وقت آگ اگلتا رہتا ہے۔ یہاں Kronotsky پوائنٹ کے مغرب میں دریائے کامچاٹکا کا خم واقع ہے۔ یہ بھاپ اڑاتے گرم پانی کے چشموں کی وادی ہے جو اس خطے کو ایک انوکھا حسن بخشتی ہے۔ یہیں جنوبی کامچاٹکا میں جھیل کوریل بھی واقع ہے۔ شاید یہ جھیل اس خطے کے لوگوں کے لیے قدرت کا حسین و جمیل تحفہ ہے، کیوں کہ اس جھیل کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہے اور قسم قسم کے جانور اس علاقے کے حسن کو دوبالا کررہے ہیں۔
٭کامچاٹکا کی آب و ہوا:
کامچاٹکا میں ویسے تو برف کے ساتھ آتش فشاں بھی موجود ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ خطہ برف اور سردی کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ سائیبریا کی جانب سے آنے والی یخ بستہ قطبی ہواؤں اور بحیرۂ Oyashio کے سرد سمندری بہاؤ کی وجہ سے اکتوبر سے مئی کے اواخر تک یہاں برف جمی رہتی ہے۔ کامچاٹکا، مشرقی سائبیریا کے مقابلے میں زیادہ نم اور معتدل رہتا ہے۔ سائبیریا کے ساتھ ساتھ چین سے آنے والی سرد ہوائیں بھی اس خطے کو مزید سرد کردیتی ہیں اور یہ پورا خطہ انہی کے زیراثر رہتا ہے۔ تاہم یہاں کی آب و ہوا میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ کبھی یہاں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو ہر طرف جل تھل ہوجاتا ہے اور کبھی بہت زیادہ برف باری ہوتی ہے، بعض اوقات اس کی اندرونی وادی بالکل خشک رہتی ہے۔ اس کے باوجود پورا خطہ ملے جلے موسم کی زد میں رہتا ہے جس میں سردی بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
٭سیاحوں کا پسندیدہ موسم:
یہاں آنے والے اور یہاں کے موسم سے لطف اندوز ہونے والے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے سب سے پسندیدہ موسم گرمیوں کا ہوتا ہے جب یہاں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 15 سے20 درجے سینٹی گریڈ یا 59سے68 فارن ہائیٹ کے درمیان ہوتا ہے۔ لیکن آنے والے سیاح چوں کہ موسم سرما کے کھیل کھیلنے یہاں آتے ہیں، اس لیے وہ پورے سال ہی اس علاقے میں آتے رہتے ہیں۔ جزیرہ نما کامچاٹکا کے موسم اور اس کی آب و ہوا میں یہاں کے آتش فشاں اور گلیشیئرز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرم پانی کے چشموں نے بھی یہاں قدیم دور کی متعدد حیاتیات کو قائم رکھا ہوا ہے، ورنہ وہ زندگیاں تو اب تک ختم ہوجاتیں اور ان کا وجود ہی اس خطے سے مٹ جاتا۔
دریائے کامچاٹکا اور مرکزی وادی کے اطراف میں بڑے آتش فشانوں کی ایک پوری قدرتی زنجیر قائم ہے جس میں 160آتش فشاں نمایاں ہیں۔ ان میں سے 29 آتش فشاں تو آج بھی متحرک ہیں اور اپنا جلوہ دکھارہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جزیرہ نما کامچاٹکا کو وہاں کے مقامی لوگ ''برف اور آگ کی سرزمین'' کہہ کر پکارتے ہیں، کیوں کہ یہاں سردی بھی ہے اور گرمی بھی، ایک طرف یخ بستہ گلیشیئرز اور برف ہے تو دوسری جانب آگ اگلتے آتش فشاں، اس کے ساتھ ساتھ گرم پانی کے بھاپ اڑاتے چشمے بھی یہاں اپنی شان دکھا رہے ہیں۔
اس خطے کا بلند ترین آتش فشاں 15,584 فٹ بلند Klyuchevskaya Sopka ہے جو شمالی نصف کرے میں سب سے بڑا متحرک آتش فشاں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور قابل ذکر آتش فشاں کا نام Kronotskyہے جسے دنیا بھر کے لوگ سب سے خوب صورت آتش فشاں تسلیم کرتے ہیں۔
کامچاٹکا کے مرکز میں وہ وادی واقع ہے جہاں بھاپ اڑاتے گرم پانی کے چشمے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کام یاب رہتے ہیں۔ لیکن اس کا کچھ حصہ یہاں مستقل آنے والے زلزلوں کے باعث تباہ ہوچکا ہے، مگر ان زلزلوں کی وجہ سے لوگوں نے اس علاقے کو نظر انداز نہیں کیا، بل کہ یہاں تو اب بھی ملکی اور غیرملکی سیاح بڑے ذوق اور شوق سے آتے ہیں اور یہاں کی سیر کرتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
٭تاریخ اور کھوج:
1639میں روسی مہم جو Ivan Moskvitin بحیرۂ Okhotsk کے راستے یہاں پہنچا، مگر اس دور میں بحری جہازوں اور اس سفر میں مہارت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنا سفر آگے جاری نہ رکھ سکا۔ بہرحال بعد میں کچھ روسی مہم جو مقامی افراد کی مدد، رہ نمائی اور تعاون سے شمال کی طرف سے کامچاٹکا میں داخل ہوئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے ہمت تو کی، مگر ان میں سے زیادہ تر اپنی جانوں سے گئے، مگر کچھ لوگوں نے جاپانی مہم جوؤں کے ساتھ مل کر اس سفر کو مکمل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں بھی کامیابی نہ مل سکی اور زیادہ تر لوگ تجربے کی بھینٹ چڑھتے رہے۔
٭بیماریوں کا گڑھ:
پھر ایک وقت ایسا آیا جب یہ جزیرہ نما مختلف بیماریوں کا گڑھ بن گیا اور یہاں متعدد مہلک بیماریاں بھی پھیلنے لگیں جس سے مقامی آبادی مشکلات کا شکار ہوگئی اور کافی لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ اس دوران جو لوگ بچ گئے تھے، انہوں نے اپنا طرز زندگی بدل ڈالا۔ ان میں سے بیش تر لوگوں نے اپنے قدیم رسم و رواج ترک کرکے روسی رسم و رواج اپنالیے، انہوں نے روسیوں میں ہی شادیاں بھی کرلیں اور رشتے داریاں قائم کرلیں، اپنی زبان چھوڑ کر روسی زبان اختیار کرلی، اس طرح جزیرہ نما کامچاٹکا ایک روسی پیراہن میں ڈھل گیا اور یہاں ہر طرف روسی اثر دکھائی دینے لگا۔
پھر 1713میں پیٹر دی گریٹ نے بحری جہاز بنانے والے کاری گر Okhotsk بھجوائے جنہوں نے 54فٹ لمبی ایک کشتی تیار کی اور اس طرح جون 1716میں یہ لوگ دریائے ٹیگل کی طرف روانہ ہوگئے۔ بس اس کے بعد سے یہ نیا بحری روٹ یا راستہ وجود میں آگیا۔ بعد میں کچھ غیرملکیوں نے کامچاٹکا کا ایک اہم بحری نقشہ تیار کیا اور اس دوران کئی بحری سفر بھی کیے۔ اس طرح کامچاٹکا تک جانے کی راہیں کھل گئیں۔
٭1854میں کیا ہوا؟
1854میں کریمیائی جنگ کے دوران فرانسیسی اور برطانوی فوجیں روسی فوجوں سے نبرد آزما تھیں تو انہوں نے Petropavlovsk پر حملہ کردیا۔
Petropavlovsk کے محاصرے کے دوران گنتی کے روسی فوجیوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا، مگر روسی فوجیوں نے اس وقت Petropavlovsk خالی کردیا جب فرانسیسی اور برطانوی فوجیں بھی لڑائی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئیں۔ اگلے سال دشمن کی دوسری فوج حملہ کرنے آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بندرگاہ خالی ہے اور وہاں کوئی روسی فوج موجود نہیں ہے۔ آنے والی فوج نے غصے اور اشتعال کے عالم میں اس شہر پر بم باری کی اور وہاں قیام کرنے کے بجائے واپس چلی گئی۔
٭1865کی خانہ جنگی:
1865میں اس جگہ امریکی خانہ جنگی شروع ہوئی اور صورت حال خاصی بگڑ گئی۔ روسیوں نے امریکی بحریہ کی خوب خبر لی، مگر برف کی وجہ سے یہ جنگ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکی، کیوں کہ خراب اور سخت موسم آڑے آجاتا تھا۔ اگلے 50سال یعنی کم و بیش نصف صدی کا عرصہ کامچاٹکا کے لیے زیادہ اچھا نہ تھا۔ اس مدت میں ہر وقت کی لڑائی کی وجہ سے یہ خطہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوکر رہ گیا تھا۔ انیسویں صدی میں اس جزیرے نما پر سائنسی کھوج جاری رہی اور ماہرین مختلف چیزیں تلاش کرتے رہے اور نئے نئے منصوبوں پر کام کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم نے کامچاٹکا کی ترقی کے لیے کیے جانے والے کاموں کو بری طرح متاثر کردیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین نے کامچاٹکا کو ایک ملٹری زون یا فوجی علاقہ قرار دے دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ علاقہ اب ممنوعہ تھا۔
اس کے بعد یہ 1989تک یہ خطہ سوویت شہریوں کے لیے بند رہا، مگر غیرملکیوں کا داخلہ یہاں 1990 تک بند رہا۔
٭نباتیات اور زمین:
کامچاٹکا میں نباتات کے وسیع ذخائر ہیں جس کی وجہ سے پورا علاقہ ہی سرسبز اور شاداب دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا چوں کہ مختلف النوع ہے، اس لیے یہاں طرح طرح کے نباتات بھی پائی جاتی ہے۔ ہر طرف اونچی اونچی سبز گھاس کے میدان ہیں۔ جھاڑیاں، پھل پھول اور پیڑ پودے بھی خوب اگتے اور اپنی شان دکھاتے ہیں۔ اس خطے میں صنوبر کے جنگلات بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے اس خطے کو ایک انوکھا حسن دیا ہے۔ اسی مختلف النوع آب و ہوا کی وجہ سے جانوروں کی بھی مختلف اقسام اس خطے میں موجود ہیں جنہیں یہاں اپنی مخصوص خوراک بھی وافر مقدار میں ملتی ہے۔
حالاں کہ کامچاٹکا کے خطے کا بہت بڑا حصہ درختوں سے محروم ہے، اسی لیے یہ ٹنڈرا کہلاتا ہے، مگر قدیم اور طویل درختوں کی کئی اقسام اس پورے جزیرے نما میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا میں ایک خاص قسم کا توازن بھی پایا جاتا ہے۔
کامچاٹکا میں جنگلی حیات بہت بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا کافی حد تک مختلف ہے۔ متعدد دریا یہاں آزادی کے ساتھ بہہ رہے ہیں جس کی وجہ سے پیڑ پودوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی پانی بڑی مقدار میں ملتا ہے۔ پھر سمندری پانی بھی یہاں موجود ہے، یہاں چوں کہ انسانی آبادی بہت کم پائی جاتی ہے، اس لیے یہ قدرتی آب و ہوا ابھی تک محفوظ ہے اور بڑی مقدار میں موجود بھی ہے۔ اس کے باوجود اس خطے میں بڑے پیمانے پر انسان کے ہاتھوں ہونے والی تبدیلیوں اور موسم کے باعث ہونے والی تبدیلیوں نے اپنا خراج وصول کیا ہے اور کافی اہم جنگلی حیات کا یہاں سے صفایا ہوگیا ہے۔
٭بھورا ریچھ:
کامچاٹکا اپنے بھورے ریچھ کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ یہ ریچھ یہاں کافی بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ کرونوٹسکی کے قدرتی ریزرو میں ہر سو مربع کلومیٹر پر تین سے چار بھورے ریچھ پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹنڈرا کا بھیڑیا بھی کافی مشہور ہے اور قطبی لومڑی بھی۔ یہاں برفانی بھیڑ، برفانی رینڈیئر اور برفانی بارہ سنگھا بھی پایا جاتا ہے جو دنیا بھر میں سب سے بڑ بارہ سنگھا ہوتا ہے۔ یہاں کا پہاڑی خرگوش اور دیگر برفانی گلہریاں بھی قابل دید ہوتی ہیں۔ اس خطے کا سمندری عقاب، سنہرا ایگل اور گرے فالکن اڑتے ہوئے بہت دلکش منظر پیش کرتا ہے۔
کامچاٹکا کی سالمن مچھلی کا بھی جواب نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی سالمن مچھلی کا پانچواں حصہ کامچاٹکا میں پایا جاتا ہے۔ سمندر کے علاوہ کامچاٹکا کے دریاؤں میں سالمن مچھلی بڑی تعداد میں ملتی ہے۔ تازہ پانی میں پائی جانے والی اس سالمن مچھلی کے ذائقے کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہے۔
یہاں کی بندرگاہوں اور سمندروں میں ہر قسم کی سمندری وھیل بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ مچھلیاں مقامی لوگ بڑے شوق اور رغبت سے کھاتے بھی ہیں۔ شمال کی والرس تو ہمیشہ سے ہی مشہور رہی ہے جو اکثر پیسیفک سائیڈ پر پائی جاتی ہے۔ خلیج Karaginsky کے برفانی علاقے میں والرس اور سیل مچھلیوں کے غول کے غول پائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ سمندری اود بلاؤ بھی بڑی تعداد میں سیل اور والرس کے ساتھ ساتھ ساحل پر پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جزیرے نما کامچاٹکا کے جنوبی سرے پر یہ سب بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔
ان کے علاوہ سمندری بگلے، موٹی چونچ والے پرندے اور ہنس کی طرح کے بے شمار آبی پرندے بھی یہاں کی اہم ترین سوغات ہیں۔ یہاں کے سمندر بھی آبی حیات کی مختلف اقسام سے بھرے پڑے ہیں۔ کامچاٹکا کا کیکڑا، اور کئی طرح کی مچھلی بھی لاجواب ہے۔ غرض یہ خطہ قدرت کی فیاضیوں سے مالامال ہے اور انسان کی توجہ چاہتا ہے، تاکہ یہاں ترقیاتی کام شروع کیے جاسکیں اور یہ علاقہ بھی انسان کے رہنے کے قابل بنانے کے بعد قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
اور اب ہم بات کریں گے جزیرہ نما کامچاٹکا کی۔ یہ جزیرہ نما 1250کلومیٹر (780میل) لمبا جزیرہ نما ہے جو روسی مشرق بعید میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ لگ بھگ 270,000 کلومیٹر یعنی ایک لاکھ مربع میل پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرق میں بحرالکاہل اور مغرب میں بحیرۂ Okhotsk واقع ہے۔ جزیرے کے ساحل کے ساتھ ساتھ 10,500 میٹر یا 34,400 فٹ گہری Kuril-Kamchatka Trench یا کھاڑی واقع ہے۔
جزیرہ نما کامچاٹکا، کمانڈر آئی لینڈ اور کاراگنسکی آئی لینڈ نامی جزائر پر مشتمل ہے جن کو ملا کر کرائے آف کامچاٹکا تشکیل پاتا ہے اور جو روسی جمہوریہ کا حصہ ہے۔ یہاں رہنے والے 322,079 افراد نسلاً روسی ہیں، لیکن ان میں لگ بھگ 13,000 کوریاک بھی شامل ہیں۔ کوریاک روسی مشرق بعید کے مقامی یا دیسی افراد ہیں جو اس خطے کے اصل باشندے ہیں۔
جزیرہ نما کامچاٹکا کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آگ اگلتے آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں اور برف ابلتے سخت یخ بستہ گلیشیئر بھی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خطہ شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی۔ اس علاقے میں ترسیب سازی کا اوسط 2,700 ملی میٹر سالانہ ہے۔ یہاں گرمیوں کا موسم معتدل سرد ہوتا ہے اور سردیوں میں یہاں گرج چمک کے طوفان آتے ہیں، گویا سردی کا موسم یہاں کے رہنے والوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔
٭ جزیرہ نما کامچاٹکا کا جغرافیہ:
سیاسی طور پر تو جزیرہ نما کامچاٹکا، کامچاٹکا کرائے میں شامل ہے، لیکن جغرافیائی طور پر یہ ایک الگ خطہ ہے۔ اس کی جنوبی چوٹی کیپ لوپاٹکا کہلاتی ہے۔ شمال میں بحرالکاہل کی جانب واقع اس کی دائرے نما خلیج کو Avacha Bay کہتے ہیں۔ یہیں اس کا دارلحکومت Petropavlovsk بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ شمال میں چار دیگر جزیرے نما بھی واقع ہیں جو Shipunsky پوائنٹ، Kronotsky پوائنٹ، کامچاٹکی پوائنٹ اور Ozernoy پوائنٹ کہلاتے ہیں۔ Ozernoy کے شمال میں ایک کافی طویل Karaginsky خلیج واقع ہے جس میں Karaginsky جزیرہ نمایاں ہے۔ اس کے شمال مشرق میں کورفا خلیج واقع ہے جس کے بالکل مخالف سمت میں Shelikhov کی خلیج واقع ہے۔
کامچاٹکا یا اس کا مرکزی علاقہ اس جزیرہ نما میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے جنوب مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ Vostochny یا مشرقی رینج واقع ہے۔ ان کے درمیان مرکزی وادی واقع ہے۔ دریائے کامچاٹکا Avacha کے شمال مغرب سے بہنا شروع ہوتا ہے اور مرکزی وادی میں شمال کی طرف بہتا چلا جاتا ہے، یہ Klyuchi کے قریب مشرق کی جانب گھوم کر کامچاٹکی پوائنٹ سے جاملتا ہے۔
زمانۂ قدیم میں یہ جگہ ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتی تھی جہاں بہت سے بحری جہاز اور کشتیاں آتی تھیں اور لوگ اس کی بندرگاہ سے تجارت کرتے تھے جس سے اس خطے کے لوگوں کو کاروبار ملتا تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے اس جزیرہ نما کے لیے بہت بڑی تعداد میں سمندری تجارت ہوتی تھی۔ یہی وہ جگہ تھی جو کامچاٹکا کو Okhotsk سے ملاتی تھی۔ یہاں دو بڑی سڑکیں یا شاہراہیں بھی واقع ہیں، لیکن یہ اعلیٰ معیار کی نہیں ہیں، ان پر سفر کرنا بہت مشکل ہے۔ ان دو سڑکوں کے علاوہ اس خطے میں آنے جانے اور نقل و حمل کے لیے چھوٹے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، بھاری ٹرک اور فوجی ٹرک بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
کامچاٹکا کی مرکزی وادی میں جو دائرے کی شکل کا کھلا علاقہ واقع ہے، وہ Klyuchevskaya Sopka کہلاتا ہے۔ یہ آتش فشانی علاقہ ہے جو ہمہ وقت آگ اگلتا رہتا ہے۔ یہاں Kronotsky پوائنٹ کے مغرب میں دریائے کامچاٹکا کا خم واقع ہے۔ یہ بھاپ اڑاتے گرم پانی کے چشموں کی وادی ہے جو اس خطے کو ایک انوکھا حسن بخشتی ہے۔ یہیں جنوبی کامچاٹکا میں جھیل کوریل بھی واقع ہے۔ شاید یہ جھیل اس خطے کے لوگوں کے لیے قدرت کا حسین و جمیل تحفہ ہے، کیوں کہ اس جھیل کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہے اور قسم قسم کے جانور اس علاقے کے حسن کو دوبالا کررہے ہیں۔
٭کامچاٹکا کی آب و ہوا:
کامچاٹکا میں ویسے تو برف کے ساتھ آتش فشاں بھی موجود ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ خطہ برف اور سردی کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ سائیبریا کی جانب سے آنے والی یخ بستہ قطبی ہواؤں اور بحیرۂ Oyashio کے سرد سمندری بہاؤ کی وجہ سے اکتوبر سے مئی کے اواخر تک یہاں برف جمی رہتی ہے۔ کامچاٹکا، مشرقی سائبیریا کے مقابلے میں زیادہ نم اور معتدل رہتا ہے۔ سائبیریا کے ساتھ ساتھ چین سے آنے والی سرد ہوائیں بھی اس خطے کو مزید سرد کردیتی ہیں اور یہ پورا خطہ انہی کے زیراثر رہتا ہے۔ تاہم یہاں کی آب و ہوا میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ کبھی یہاں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو ہر طرف جل تھل ہوجاتا ہے اور کبھی بہت زیادہ برف باری ہوتی ہے، بعض اوقات اس کی اندرونی وادی بالکل خشک رہتی ہے۔ اس کے باوجود پورا خطہ ملے جلے موسم کی زد میں رہتا ہے جس میں سردی بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
٭سیاحوں کا پسندیدہ موسم:
یہاں آنے والے اور یہاں کے موسم سے لطف اندوز ہونے والے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے سب سے پسندیدہ موسم گرمیوں کا ہوتا ہے جب یہاں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 15 سے20 درجے سینٹی گریڈ یا 59سے68 فارن ہائیٹ کے درمیان ہوتا ہے۔ لیکن آنے والے سیاح چوں کہ موسم سرما کے کھیل کھیلنے یہاں آتے ہیں، اس لیے وہ پورے سال ہی اس علاقے میں آتے رہتے ہیں۔ جزیرہ نما کامچاٹکا کے موسم اور اس کی آب و ہوا میں یہاں کے آتش فشاں اور گلیشیئرز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرم پانی کے چشموں نے بھی یہاں قدیم دور کی متعدد حیاتیات کو قائم رکھا ہوا ہے، ورنہ وہ زندگیاں تو اب تک ختم ہوجاتیں اور ان کا وجود ہی اس خطے سے مٹ جاتا۔
دریائے کامچاٹکا اور مرکزی وادی کے اطراف میں بڑے آتش فشانوں کی ایک پوری قدرتی زنجیر قائم ہے جس میں 160آتش فشاں نمایاں ہیں۔ ان میں سے 29 آتش فشاں تو آج بھی متحرک ہیں اور اپنا جلوہ دکھارہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جزیرہ نما کامچاٹکا کو وہاں کے مقامی لوگ ''برف اور آگ کی سرزمین'' کہہ کر پکارتے ہیں، کیوں کہ یہاں سردی بھی ہے اور گرمی بھی، ایک طرف یخ بستہ گلیشیئرز اور برف ہے تو دوسری جانب آگ اگلتے آتش فشاں، اس کے ساتھ ساتھ گرم پانی کے بھاپ اڑاتے چشمے بھی یہاں اپنی شان دکھا رہے ہیں۔
اس خطے کا بلند ترین آتش فشاں 15,584 فٹ بلند Klyuchevskaya Sopka ہے جو شمالی نصف کرے میں سب سے بڑا متحرک آتش فشاں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور قابل ذکر آتش فشاں کا نام Kronotskyہے جسے دنیا بھر کے لوگ سب سے خوب صورت آتش فشاں تسلیم کرتے ہیں۔
کامچاٹکا کے مرکز میں وہ وادی واقع ہے جہاں بھاپ اڑاتے گرم پانی کے چشمے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کام یاب رہتے ہیں۔ لیکن اس کا کچھ حصہ یہاں مستقل آنے والے زلزلوں کے باعث تباہ ہوچکا ہے، مگر ان زلزلوں کی وجہ سے لوگوں نے اس علاقے کو نظر انداز نہیں کیا، بل کہ یہاں تو اب بھی ملکی اور غیرملکی سیاح بڑے ذوق اور شوق سے آتے ہیں اور یہاں کی سیر کرتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
٭تاریخ اور کھوج:
1639میں روسی مہم جو Ivan Moskvitin بحیرۂ Okhotsk کے راستے یہاں پہنچا، مگر اس دور میں بحری جہازوں اور اس سفر میں مہارت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنا سفر آگے جاری نہ رکھ سکا۔ بہرحال بعد میں کچھ روسی مہم جو مقامی افراد کی مدد، رہ نمائی اور تعاون سے شمال کی طرف سے کامچاٹکا میں داخل ہوئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے ہمت تو کی، مگر ان میں سے زیادہ تر اپنی جانوں سے گئے، مگر کچھ لوگوں نے جاپانی مہم جوؤں کے ساتھ مل کر اس سفر کو مکمل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں بھی کامیابی نہ مل سکی اور زیادہ تر لوگ تجربے کی بھینٹ چڑھتے رہے۔
٭بیماریوں کا گڑھ:
پھر ایک وقت ایسا آیا جب یہ جزیرہ نما مختلف بیماریوں کا گڑھ بن گیا اور یہاں متعدد مہلک بیماریاں بھی پھیلنے لگیں جس سے مقامی آبادی مشکلات کا شکار ہوگئی اور کافی لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ اس دوران جو لوگ بچ گئے تھے، انہوں نے اپنا طرز زندگی بدل ڈالا۔ ان میں سے بیش تر لوگوں نے اپنے قدیم رسم و رواج ترک کرکے روسی رسم و رواج اپنالیے، انہوں نے روسیوں میں ہی شادیاں بھی کرلیں اور رشتے داریاں قائم کرلیں، اپنی زبان چھوڑ کر روسی زبان اختیار کرلی، اس طرح جزیرہ نما کامچاٹکا ایک روسی پیراہن میں ڈھل گیا اور یہاں ہر طرف روسی اثر دکھائی دینے لگا۔
پھر 1713میں پیٹر دی گریٹ نے بحری جہاز بنانے والے کاری گر Okhotsk بھجوائے جنہوں نے 54فٹ لمبی ایک کشتی تیار کی اور اس طرح جون 1716میں یہ لوگ دریائے ٹیگل کی طرف روانہ ہوگئے۔ بس اس کے بعد سے یہ نیا بحری روٹ یا راستہ وجود میں آگیا۔ بعد میں کچھ غیرملکیوں نے کامچاٹکا کا ایک اہم بحری نقشہ تیار کیا اور اس دوران کئی بحری سفر بھی کیے۔ اس طرح کامچاٹکا تک جانے کی راہیں کھل گئیں۔
٭1854میں کیا ہوا؟
1854میں کریمیائی جنگ کے دوران فرانسیسی اور برطانوی فوجیں روسی فوجوں سے نبرد آزما تھیں تو انہوں نے Petropavlovsk پر حملہ کردیا۔
Petropavlovsk کے محاصرے کے دوران گنتی کے روسی فوجیوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا، مگر روسی فوجیوں نے اس وقت Petropavlovsk خالی کردیا جب فرانسیسی اور برطانوی فوجیں بھی لڑائی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئیں۔ اگلے سال دشمن کی دوسری فوج حملہ کرنے آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بندرگاہ خالی ہے اور وہاں کوئی روسی فوج موجود نہیں ہے۔ آنے والی فوج نے غصے اور اشتعال کے عالم میں اس شہر پر بم باری کی اور وہاں قیام کرنے کے بجائے واپس چلی گئی۔
٭1865کی خانہ جنگی:
1865میں اس جگہ امریکی خانہ جنگی شروع ہوئی اور صورت حال خاصی بگڑ گئی۔ روسیوں نے امریکی بحریہ کی خوب خبر لی، مگر برف کی وجہ سے یہ جنگ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکی، کیوں کہ خراب اور سخت موسم آڑے آجاتا تھا۔ اگلے 50سال یعنی کم و بیش نصف صدی کا عرصہ کامچاٹکا کے لیے زیادہ اچھا نہ تھا۔ اس مدت میں ہر وقت کی لڑائی کی وجہ سے یہ خطہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوکر رہ گیا تھا۔ انیسویں صدی میں اس جزیرے نما پر سائنسی کھوج جاری رہی اور ماہرین مختلف چیزیں تلاش کرتے رہے اور نئے نئے منصوبوں پر کام کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم نے کامچاٹکا کی ترقی کے لیے کیے جانے والے کاموں کو بری طرح متاثر کردیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین نے کامچاٹکا کو ایک ملٹری زون یا فوجی علاقہ قرار دے دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ علاقہ اب ممنوعہ تھا۔
اس کے بعد یہ 1989تک یہ خطہ سوویت شہریوں کے لیے بند رہا، مگر غیرملکیوں کا داخلہ یہاں 1990 تک بند رہا۔
٭نباتیات اور زمین:
کامچاٹکا میں نباتات کے وسیع ذخائر ہیں جس کی وجہ سے پورا علاقہ ہی سرسبز اور شاداب دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا چوں کہ مختلف النوع ہے، اس لیے یہاں طرح طرح کے نباتات بھی پائی جاتی ہے۔ ہر طرف اونچی اونچی سبز گھاس کے میدان ہیں۔ جھاڑیاں، پھل پھول اور پیڑ پودے بھی خوب اگتے اور اپنی شان دکھاتے ہیں۔ اس خطے میں صنوبر کے جنگلات بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے اس خطے کو ایک انوکھا حسن دیا ہے۔ اسی مختلف النوع آب و ہوا کی وجہ سے جانوروں کی بھی مختلف اقسام اس خطے میں موجود ہیں جنہیں یہاں اپنی مخصوص خوراک بھی وافر مقدار میں ملتی ہے۔
حالاں کہ کامچاٹکا کے خطے کا بہت بڑا حصہ درختوں سے محروم ہے، اسی لیے یہ ٹنڈرا کہلاتا ہے، مگر قدیم اور طویل درختوں کی کئی اقسام اس پورے جزیرے نما میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا میں ایک خاص قسم کا توازن بھی پایا جاتا ہے۔
کامچاٹکا میں جنگلی حیات بہت بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا کافی حد تک مختلف ہے۔ متعدد دریا یہاں آزادی کے ساتھ بہہ رہے ہیں جس کی وجہ سے پیڑ پودوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی پانی بڑی مقدار میں ملتا ہے۔ پھر سمندری پانی بھی یہاں موجود ہے، یہاں چوں کہ انسانی آبادی بہت کم پائی جاتی ہے، اس لیے یہ قدرتی آب و ہوا ابھی تک محفوظ ہے اور بڑی مقدار میں موجود بھی ہے۔ اس کے باوجود اس خطے میں بڑے پیمانے پر انسان کے ہاتھوں ہونے والی تبدیلیوں اور موسم کے باعث ہونے والی تبدیلیوں نے اپنا خراج وصول کیا ہے اور کافی اہم جنگلی حیات کا یہاں سے صفایا ہوگیا ہے۔
٭بھورا ریچھ:
کامچاٹکا اپنے بھورے ریچھ کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ یہ ریچھ یہاں کافی بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ کرونوٹسکی کے قدرتی ریزرو میں ہر سو مربع کلومیٹر پر تین سے چار بھورے ریچھ پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹنڈرا کا بھیڑیا بھی کافی مشہور ہے اور قطبی لومڑی بھی۔ یہاں برفانی بھیڑ، برفانی رینڈیئر اور برفانی بارہ سنگھا بھی پایا جاتا ہے جو دنیا بھر میں سب سے بڑ بارہ سنگھا ہوتا ہے۔ یہاں کا پہاڑی خرگوش اور دیگر برفانی گلہریاں بھی قابل دید ہوتی ہیں۔ اس خطے کا سمندری عقاب، سنہرا ایگل اور گرے فالکن اڑتے ہوئے بہت دلکش منظر پیش کرتا ہے۔
کامچاٹکا کی سالمن مچھلی کا بھی جواب نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی سالمن مچھلی کا پانچواں حصہ کامچاٹکا میں پایا جاتا ہے۔ سمندر کے علاوہ کامچاٹکا کے دریاؤں میں سالمن مچھلی بڑی تعداد میں ملتی ہے۔ تازہ پانی میں پائی جانے والی اس سالمن مچھلی کے ذائقے کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہے۔
یہاں کی بندرگاہوں اور سمندروں میں ہر قسم کی سمندری وھیل بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ مچھلیاں مقامی لوگ بڑے شوق اور رغبت سے کھاتے بھی ہیں۔ شمال کی والرس تو ہمیشہ سے ہی مشہور رہی ہے جو اکثر پیسیفک سائیڈ پر پائی جاتی ہے۔ خلیج Karaginsky کے برفانی علاقے میں والرس اور سیل مچھلیوں کے غول کے غول پائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ سمندری اود بلاؤ بھی بڑی تعداد میں سیل اور والرس کے ساتھ ساتھ ساحل پر پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جزیرے نما کامچاٹکا کے جنوبی سرے پر یہ سب بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔
ان کے علاوہ سمندری بگلے، موٹی چونچ والے پرندے اور ہنس کی طرح کے بے شمار آبی پرندے بھی یہاں کی اہم ترین سوغات ہیں۔ یہاں کے سمندر بھی آبی حیات کی مختلف اقسام سے بھرے پڑے ہیں۔ کامچاٹکا کا کیکڑا، اور کئی طرح کی مچھلی بھی لاجواب ہے۔ غرض یہ خطہ قدرت کی فیاضیوں سے مالامال ہے اور انسان کی توجہ چاہتا ہے، تاکہ یہاں ترقیاتی کام شروع کیے جاسکیں اور یہ علاقہ بھی انسان کے رہنے کے قابل بنانے کے بعد قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔