ماں کی طرح انمول ماں کا دودھ قدرت کا ہیلتھ پلان

حکم خداوندی ہے :’’ اور مائیں بچوں کو اپنا ددھ دو سال تک پلائیں۔‘‘


حکم خداوندی ہے :’’ اور مائیں بچوں کو اپنا ددھ دو سال تک پلائیں۔‘‘ فوٹو: فائل

ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ ہے جواشرف المخلوقات انسان کے لئے بہترین غذا کے طور پر قدرت کا ہیلتھ پلان ہے۔ ماں کے دودھ کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا حکم قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔

حکم خداوندی ہے :'' اور مائیں بچوں کو اپنا ددھ دو سال تک پلائیں۔''

ماں کا دودھ نوزائیدہ بچوں کی صحت مند نشوو نما کے لیے بہترین اور مکمل غذا ہے۔ اس میں وہ تمام غذائی اجزاء مناسب مقدار اور تناسب سے موجود ہیں جو بچے کی جسمانی اور دماغی نشو و نما کے لئے درکار ہیں۔ ماں کا دودھ بچے کو مختلف بیماریوں اور الرجی سے محفوظ رکھتا ہے اور اس میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔

تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے دوسرا دودھ پینے والے بچوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں، پیٹ اور سانس کی بیماریوں میں کم مبتلاہوتے ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ سے شرح اموات بھی ان بچوں میں نسبتاً کم ہوتی ہے۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ماں اور بچے کا لگاؤ اور پیار زیادہ ہوتا ہے۔ بچے پر سکون رہتے ہیں۔ انہیں جذباتی تحفظ ملتا ہے اور وہ کم روتے ہیں۔ جدید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں موٹاپا اور دائمی بیماری جیسے ذیابیطس، بلڈ پریشر کی شرح کم پائی جاتی ہے۔ ماہرین صحت عالمی سطح پر یہ ہدایات دیتے ہیں کہ بچوں کو پہلے 6 ماں کے دوران صرف اور صرف ماں کا دودھ ہی پلانا چاہیے اور اس کے علاوہ کوئی بھی مائع یا ٹھوس غذا قطعاً نہ دی جائے حتٰی کہ پانی بھی نہیں دینا چاہیے۔ ماں کے دودھ میں 88% پانی موجود ہوتا ہے جو اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کردیتا ہے۔ لہذا چھ ماہ کی عمر تک تمام بچوں کو ماں کے دودھ کے ساتھ دو سال کے عرصے تک ماں کا دودھ جاری رکھنا چاہیے۔

بچے کی پیدائش کے پہلے تین سے پانچ دن تک ماں کی چھاتیوں سے پیلا اور گاڑھا دودھ نکلتا ہے جسے فلاسزم کہتے ہیں۔ یہ پہلا دودھ بچے کیلئے انتہائی مفید ہے۔ اس میں ایسے قیمتی اجزاء شامل ہیں جو بچے کو مختلف بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ پہلا دودھ بچے میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ اسے یرقان سے بچاتا ہے۔ اس میں قبض کشا اجزاء ہوتے ہیں جس سے بچے کے کالے پخانے صاف ہو جاتے ہیں اور بچے کی کمزور آنتوں کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس میں وٹامن اے کی زیادہ مقدار کی وجہ سے مختلف انفیکشن کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ بچوں کی پہلی غذا ماں کا دودھ ہی ہونا چاہیے۔ پیدائش کے فوراً بعد ایک گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ شروع کروا دینا چاہیے۔ ماں کے دودھ کے علاوہ کسی قسم کی گھٹی، پانی، شہد یا کوئی اور شے دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ نہ صرف ماں کا دودھ کم کر دے گی بلکہ بیماری کا باعث بھی بنے گی۔

ماں بچے کو بار بار اپنا دودھ پلائے۔ جتنا زیادہ بچہ ماں کا دودھ پینے کی کوشش کرے گا اتنا ہی زیادہ ماں کا دودھ اترے گا۔ ہر خوراک میں بچہ وہ دودھ لیتا ہے جو کہ چھاتیوں میں پہلے سے موجود ہوتا ہے اور بچے کے چھاتی کو چوسنے کے عمل سے اگلی خوارک کے لئے دودھ تیار ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ دودھ پلایا جائے گا اتنا ہی نیا دودھ بنے گا۔ اگر ماں کے دودھ کے ساتھ دوسرا دودھ بھی دیا جائے تو ماں کا دودھ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ماں اور بوتل کا دودھ پینے والے بچے کو نیپل کے متعلق الجھاؤ یا پریشانی ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ ماں کا دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے جس سے ماں کے دودھ میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

نوازئیدہ بچے کو طلب کے مطابق ماں کا دودھ پلانا چاہیے۔ کم از کم ہر دو گھنٹے بعد دودھ ضرور پلایا جائے۔ دن رات میں کم از کم بارہ دفعہ دودھ پلایا جائے۔ اگر بچہ سویا ہوا ہو تو اسے جگا کر دودھ پلائیں اگر رات کو دودھ نہ پلایا جائے تو ماں کا دودھ کم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ماں ہر دفعہ دونوں طرف سے دودھ پلائے جب تک بچہ چاہے اسے دودھ دینا چاہیے ۔

جانور کا دودھ بچے کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں ہے اس کے اجزاء ماں کے دودھ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں ایسے نادر اجزاء ہیں جو کسی اور دودھ میں نہیں پائے جاتے۔ ماں کے دودھ میں پائے جانے والے لحمیات ، چکنائی اور نشاستہ کی مقدار اور کوالٹی دوسرے دودھ سے مختلف ہوتی ہے۔ ماں کے دودھ میں Lactose (لیکٹوز) دوسرے دودھ کی نسبت زیادہ ہوتا ہے جو دماغ کی نشو و نما میں مدد دیتا ہے۔ ماںکے دودھ میں موجود لحمیات دوسرے دودھ کی نسبت کم مقدار میں ہوتے ہیں جو بچے کے نازک گردوں پر بوجھ نہیں ڈالتے اور زود ہضم ہوتے ہیں۔ کوئی بھی دوسرا دودھ کسی طرح بھی ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔

پاکستا ن میں اکثر مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانا چاہتی ہیں لیکن دودھ پلانے میں دشواری کی صور ت میں انہیں ایسے تربیت یافتہ کارکنان کی عملی مدد نہیں ملتی جو ماں کا دودھ پلانے کے متعلق مشاورت دیں۔ ماں کا اعتماد بحال کرنے میں مددگار ہوں اور دودھ پلانے کے طریقے کو بہتر بنانے میں ان کی مدد کریں اور درپیش مشکلات کو دور کریں۔ نتیجتاً مائیں ڈبہ کا دودھ یا دوسرے جانور کا دودھ دینا شروع کر دیتی ہیں۔ عموماً ایسی ماں کو درست طریقے سے دودھ پلانے کی معلومات نہیں ہوتیں اور اکثر مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ اس کا دودھ بچے کے لئے ناکافی ہے یا ڈبے کا دودھ ماں کے دودھ سے بہتر ہے لیکن حقیقت میں سب مائیں اپنے بچے کے لئے پورا دودھ پیدا کر سکتی ہیں۔ ایک وقت میں دو بچوں کے لئے بھی کافی دودھ ہوتا ہے۔

ماں کو اپنا دودھ پلاتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ
-1کیا بچے کی پوزیشن درست ہے ؟
-2کیا بچہ چھاتی سے درست انداز میں لگا ہوا ہے؟
-3کیا بچہ موثر طریقے سے دودھ چوس رہا ہے ؟
درست پوزیشن کی نشانیاں یہ ہیں کہ
-1بچے کی گردن سیدھی ہو، بچے کا کان، کندھا اور کولہا ایک سیدھ میں ہوں۔
-2بچے کا جسم ماں کی طرف گُھوما ہوا ہو۔
-3 بچے کا جسم ماں سے قریب ہو۔
-4بچے کے پورے جسم کو سہارا مل رہا ہو۔
بچے کا منہ چھاتی سے درست طریقے سے لگے ہونے کی نشانیاں یہ ہیں۔
-1بچے کی ٹھوڑی چھاتی کو چھو رہی ہو۔
-2منہ اچھی طرح سے اور پورا کھلا ہوا ہو۔
-3بچے کا نچلا ہونٹ باہر کی طرف مڑا ہوا ہو۔
-4 نیپل کے گرد ہالہ بچے کے منہ میں اوجھل ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ صحیح طریقے سے چھاتی خالی نہ کر پائے جس سے چھاتی بھرنے کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اور بچے کو کم دودھ ملتا ہے جس کی وجہ سے بچہ غیر مطمئن رہتا ہے اور بار بار دودھ مانگتا ہے یا دیر تک دودھ پینا چاہتا ہے۔

ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ بچہ صحیح انداز میں چھاتی سے لگے۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پی رہا ہے اور دن میں چھ یا زیادہ مرتبہ پیشاب کرتا ہے، نرم پاخانہ کرتا اوربچے کا وزن ایک ماہ میں آدھ سے ایک کلو تک بڑھتا ہے تو ماں کو یقین کرنا چاہیے کہ اس کا دودھ بچے کے لئے کافی ہے۔ دودھ پلانے والی ماؤں کو اپنے آرام اور خوراک کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ دودھ پلانے والی ماں کو زیادہ بھوک لگتی ہے۔ اس لئے مناسب خوراک ماں کو صحت مند رکھتی ہے اور دودھ کی مقدار زیادہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔

کام کرنے والی ماؤں کو اکثر بچے کو اپنا دودھ پلانا جاری رکھنا مشکل لگتا ہے لہٰذا اکثر مائیں ڈبے کا یا کھلا دودھ بچے کو دینا شروع کر دیتی ہیں۔ تمام کام کرنے والی ماؤں کو مشورہ ہے کہ وہ کام پر جانے سے پہلے ہاتھ سے اپنا دودھ مناسب مقدار میں نکال کر صاف پیالے میں ڈھانپ کر محفوط جگہ پر رکھ سکتی ہیں۔ ماں کا دودھ نکالنے کا سب سے بہترین طریقہ ہاتھ سے دودھ نکالنا ہے۔ اس میں کسی آلہ کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے ماں اسے کہیں بھی اور کسی وقت بھی نکال سکتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کام کے دوران بھی وہ وقفے وقفے سے دودھ نکالتی رہے تاکہ دودھ بننے کا عمل کم نہ ہو۔ ماں کی چھاتی سے نکالے ہوئے دودھ کو کمرہ کے درجہ حرارت پر تقریباً 6-8 گھنٹے اور فریج میں چوبیس گھنٹے تک کیلئے سٹور کیا جا سکتا ہے۔

ماں کے دودھ کو بچے کو پلانا ہو تو ایک وقت کی مقدار کا دودھ کھلے مُنہ والے برتن میں ڈالیں اگر دودھ ٹھنڈا ہو تو گرم کرنے کے لئے پرات میں گرم پانی ڈالیں اور دودھ والا برتن گرم پرات میں رکھیں۔ تین سے چار منٹ میں دودھ نیم گرم ہو جائے گا۔ نکالے ہوئے دودھ کو براہ راست چولہے پر گرم نہیں کرنا چاہیے۔ بچے کو دودھ کپ یا چمچ کی مدد سے پلانا چاہیے۔ بوتل سے دودھ پلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ بوتل کو صاف رکھنے میں مشکل ہوتی ہے اور دست کی بیماری لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔یہ بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر ماں بیمار ہو تو وہ اپنا دودھ پلانا بند کر دیتی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً اسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس کی بیماری بچے کو لگ جائے گی۔ عام انفیکشن میں ماں کا دودھ پینے سے بچے بیمار نہیں ہوتے بلکہ ماں کے دودھ میں موجود بعض اجزاء ان بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلا سکتی ہیں دودھ سے انفیکشن کی منتقلی کا خطرہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اگر متاثرہ ماں کے نیپل پھٹے ہوئے ہوں یا خون آتا ہو یا بچے کے منہ میں انفیکشن ہو تو انہیں دودھ نہیں پلانا چاہیے۔ اسی طرح دست میں مبتلا بچوں کو ماں کا دودھ جاری رکھنا چاہیے اس سے نشو ونما کے لئے غذائی اجزاء میسر ہوتے ہیں اور پانی اور وزن کی کمی بھی نہیں ہونے پاتی۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں 1000 میں سے 74 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے وفات پا جاتے ہیں، جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 45 فیصد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے قد میں چھوٹے ہیں، 11 فیصد سوکھے پن کا شکار اور 30 فیصد اپنی عمر کے لحاظ سے کم وزن ہیں ملک میں صرف 18فیصد مائیں بچے کی پیدائش کے ایک گھنٹے کے اندر اندر دودھ پلانا شروع کرتی ہیں جبکہ 6 ماہ سے کم عمر بچوں کو صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانے کی شر ح صرف 38 فیصد ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں کے دودھ کی افادیت کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ مائیں بچوں کو صرف اور صرف اپنا دودھ دیں کیونکہ اس کاوش سے نہ صرف بچوں کی شرح اموات میں کمی ہوگی بلکہ بچوں میں غذائیت کی کمی میں بھی خاطر خواہ فرق آئے گا۔

پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ہر سال یکم سے سات اگست کو " ماں کے دودھ کا عالمی ہفتہ" منایا جاتا ہے۔ آئیے اس موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے بچوںکی بہترین نشوونما کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت کی آگاہی اور دودھ پلانے کے عمل کو یقینی بنانے میں اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کریں گے۔ اگر ماؤں کو صحیح معلومات اور خاندان کے افراد کی معاونت حاصل ہو تو ہر ماں کامیابی سے بچوں کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے۔

'' ماں کا دودھ۔ صحت مند معاشرے کی ضمانت''
ماں کا دودھ ۔ بچے کا حق اور ماں کا فرض
(مصنفہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسرپریونٹیوپیڈز ہیں)

حکم خداوندی ہے :'' اور مائیں بچوں کو اپنا ددھ دو سال تک پلائیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔