مصنوعی ذہانت اب الزائمرکوجلد پکڑنے میں مدد ملے گی

اس طرح ریسرچ کرنے والوں کویہ سمجھنے میں آسانی ہوگئی کہ کن کن مراحل پرمرض کی شدت ہے اورکہاں کہاں یہ زیادہ شدید نہیں ہے


Mirza Zafar Baig August 07, 2016
اس طرح ریسرچ کرنے والوں کویہ سمجھنے میں آسانی ہوگئی کہ کن کن مراحل پرمرض کی شدت ہے اورکہاں کہاں یہ زیادہ شدید نہیں ہے :فوٹو : فائل

لاہور: کیا آپ کو تھری ڈی اینیمیشن بنانی ہے؟
اب یہ کام ایک پین یا مائوس کی حرکت سے ہوسکتا ہے

آج کل سائنسی ایجادات نے ساری دنیا میں ترقی کا ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے، ہر طرف نت نئی ایجادات کا شور ہے جنہوں نے انسان کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دیا ہے۔ ہر مشکل کام آسان ہوتا جارہا ہے۔ ماضی میں جن کاموں میں مہینے اور سال لگتے تھے، اب وہ سب گھنٹوں میں ہونے لگے ہیں۔ بلاشبہہ یہ سائنس ہی کا فیض ہے کہ انسان کی زندگی میں سہولتیں اور آسانیاں اتنی بڑی تعداد میں امڈ آئی ہیں کہ کبھی کبھی تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے لیے یہ دنیا جنت بن گئی ہے۔



ہوسکتا ہے کہ آنے والا وقت اتنی زیادہ آسانیاں ساتھ لائے کہ انسان کو ہل کر پانی پینے کی بھی ضرورت نہ رہے، وہ ارادہ کرے یا سوچے اور پانی خود بہ خود اس کے منہ تک پہنچ جائے۔ اس وقت ہم بات کریں گے تھری ڈی اینیمیشنز کی جن کی وجہ سے تصاویر بنانے کے کام بہت آسان ہوگیا ہے۔ Mosketch ایک نیا کمپیوٹر سافٹ ویئر ہے جو یوزرز کو کسی بھی خاص تربیت کے بغیر تھری ڈی اینیمیشن تخلیق کرنے کے قابل بناتا ہے۔ آپ کو کیا کرنا ہے؟ صرف ایک پین کو حرکت دینی ہے یا اپنے کمپیوٹر ماؤس کو کلک کرنا ہے، اس کے بعد آپ کے ٹو ڈی اسکیچز لمحوں میں تھری ڈی اینیمیشنز میں بدل جائیں گے۔



Mosketch نامی یہ نیا کمپیوٹر سافٹ ویئر کسی بھی یوزر کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ تھری ڈی اینیمیشن پر کوشش کرسکتے ہیں جس کے لیے انہیں ڈھیروں اسکیچز میں سے اپنی پسند کا اسکیچ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس سافٹ ویئر میں دو اہم اور بڑے اینیمیشن میتھڈز شامل ہیں جو کسی بھی کردار کے جوائنٹس کو بدلنے کے ذمے دار ہوتے ہیں اور اس کے kinematics کو معکوس کردیتے ہیں جس میں سافٹ ویئر کردار کے باڈی پارٹ کی حرکت کو پیش نظر رکھ کر یہ تبدیلی کرتا ہے۔

کوئی بھی آرٹسٹ تھری ڈی سافٹ ویئر کے ذریعے ٹو ڈی اسٹروک کو اس کے ڈولپرز کے مطابق تھری ڈی مووز میں بدل دیتا ہے۔ Mosketch اب بیٹا میں دست یاب ہے، اسے موکا اسٹوڈیو اور École Polytechnique Fédérale de Lausanne (EPFL) نے تیار کیا تھا جو سوئزرلینڈ کا ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، یہ انسٹی ٹیوٹ فزیکل سائنسز اور انجینیئرنگ میں اسپیشلائزیشن کا درجہ رکھتا ہے۔ Mosketch کو ایک پروفیشنل گریڈ سافٹ ویئر کی حیثیت سے پروموٹ کیا جارہا ہے جسے کوئی بھی آرٹسٹ استعمال کرسکتا ہے، چاہے وہ آزاد آرٹسٹ ہو یا اینیمیشن اسٹوڈیوز ہوں۔École Polytechnique Fédérale de Lausanne (EPFL)

میں ریسرچ گروپ کے سربراہ رونن بولک کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ سافٹ ویئر ایک گرافک آرٹسٹ کی قدرتی حرکات کو خودکار بنادیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی فرد اینیمیشن تخلیق کرسکتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سافٹ ویئر کو استعمال کرتے ہوئے آرٹسٹ اس قابل ہوں گے کہ وہ بصری اشاروں پر توجہ دے سکیں، انہیں اینیمیشنز بنانے کے لیے تفصیلی کوڈنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ سافٹ ویئر ایک حرکت کی پروگرامنگ کے پس منظر کو بھی تیار کردیتا ہے، جب کہ آرٹسٹ نہایت سادگی کے ساتھ اپنا پین یا ماؤس بروقت استعمال کرتے ہیں۔

رونن بولک نے یہ بھی کہا کہ ہم جہاں تک ممکن ہو، اسکرین پر بصری بین العمل پر انحصار کرتے ہیں، جس کے لیے اسکرین پر پین کی لوکیشن کا خیال رکھنا ہوگا۔ جیسے ہی آپ ایک لائن کھینچیں گے تو آپ کو اسکرین پر ایک اسٹروک دکھائی دے گا اور الگورتھم کا پراسیس اس لائن سے میچ کرنے کے لیے فوری طور پر ایک تھری ڈی فیگر کا پوز سیٹ کردے گا۔ معلوم ہوا کہ اس کام میں یوزر کو کسی مشکل یا پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ سافٹ ویئر اپنے یوزرز کو یہ موقع بھی دیتا ہے کہ جیسے ہی وہ کسی کردار کے پوز میں تبدیلی کریں تو ان کا پس منظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹر کی اسکرین کے پیچھے الگورتھم کے دو ماہر Mosketch کے سافٹ ویئر پر مل کر کام کرتے ہیں، تاکہ تھری ڈی اینیمیشنز آسانی سے تخلیق پاسکیں۔ رونن بولک نے یہ بھی بتایا کہ پہلا الگورتھم ماہراسکرین پر آپ کے تخلیق کردہ ٹو ڈی اسٹروکس کو ایک کردار میں بدل دیتا ہے اور دوسرا تھوڑا سا مختلف کام کرتا ہے۔

مثال کے طور پر یوزر نے جسم کا کوئی حصہ لیا، فرض کیا دایاں ہاتھ، وہ اس کو اس کی اصل پوزیشن پر جانے کی ہدایت دے گا، چناں چہ وہ ہاتھ خود بہ خود اپنی جگہ پہنچ کر اس مقام پر فٹ ہوجائے گا۔ ان دونوں ماہرین کی مشترکہ کاوشوں ہی سے عمدہ کام وجود میں آتا ہے۔ ایک ٹو ڈی آرٹسٹ بغیر رکے مسلسل چھوٹے اسٹروک کو ری ڈرا کرتا ہے، جس کے بعد اسے مطلوبہ تصویر تک پہنچنے کا راستہ مل جائے گا۔ اس کے بعد ان میں مائیکرو یا چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کرنی ہوں گی، یعنی آرٹسٹ کو زیادہ اسٹروکس تخلیق کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس حوالے سے رونن بولک نے یہ بھی بتایا کہ یہ سارا کام ٹو ڈی آرٹسٹ کا ہی تھا کہ Mosketch ان تصاویر کو دوبارہ تخلیق کرکے انہیں تھری ڈی تصاویر کا روپ دینے میں کام یاب ہوگیا۔



اصل میں ہم نے دو دنیاؤں کو ملانے کی کوشش کی ہے جس کے لیے ہمیں ٹوڈی آرٹسٹ کی صلاحیتوں کو کام میں لانا پڑا، جس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ اسی کے اسٹروکس کا سلسلہ تھا جو ہم اپنی کوشش میں کام یاب ہوگئے اور آج ہم تھری ڈی کی منزل حاصل کرچکے ہیں۔ رونن بولک نے اس موقع پر یہ اعلان کیا کہ ہماری کوشش کو صرف تھری ڈی اینیمیشن ہی تک محدود نہ سمجھا جائے۔ اس سافٹ ویئر کے پیچھے ریاضی اور الگورتھم کی جو مساوات کام کررہی ہیں، ان کی وجہ سے ہم ورچوئل ریئلٹی تک بھی پہنچ جائیں گے اور روبوٹس تک بھی۔

(انسانوں کی زندگی آسان بنانے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ایجادات اور نئے آئیڈیاز پر عمل کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور چلتا رہے گا۔ ان میں سے بہت سی اختراعات ایسی ہیں جن سے ہم واقف نہیں۔ ایکسپریس سنڈے میگزین کا یہ نیا سلسلہ آپ کو حال ہی میں سامنے آنے والی ایسی ہی ایجادات اور آئیڈیاز سے روشناس کرے گا)



الزائمر ایک ایسا لا علاج مرض ہے جس کے آگے چل کر بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن اگر اس مرض کی تشخیص ابتدا ہی میں کرلی جائے یعنی اس کی علامات کا بروقت پتا چل جائے تو اس کا موثر علاج ممکن ہے۔

ہمارے ماہرین اور محققین نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کو ایم آر آئی اسکین پر ڈالا کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سا مریض الزائمر میں مبتلا ہے اور کون سا مریض ڈیمینشیا کی ابتدائی اقسام کا شکار ہوگیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بیماریاں انسان کی یادداشت کو ختم کرڈالتی ہیں اور انسان کا ذہن بالکل صاف پلیٹ کی طرح ہوجاتا ہے جس پر ماضی کا کچھ بھی لکھا باقی نہیں رہتا۔ ایمسٹرڈم کی وی یو یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر میں ماہرین اور محققین نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اگر اس ضمن میں مصنوعی ذہانت کی مدد لی جائے اور مریضوں کو خود کار طریقے سے اسکریننگ کا موقع دیا جائے اور ساتھ ہی یادداشت کے حوالے سے ہونے والی بیماریوں مثلاً ڈیمینشیا کی علامات پر نظر رکھی جائے تو بہت سے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی حل ہوسکتے ہیں۔

ان کی تجویز کا بنیادی نکتہ یہ مشورہ ہے کہ مریضوں کی چیکنگ مشینوں سے کرائی جائے، مگر کیا مریض خود ان مشینوں پر بھروسا کریں گے؟ شاید نہیں۔ مریض تو پہلے ہی شاکی ہیں کہ آج کل صحت کے متعدد مراکز میں تجربہ کار نیوروکارڈیولوجسٹس کی بہت کمی ہے اور وہ اس بیماری کو بروقت پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مرض خوب پھیل رہا ہے، اس لیے ان کی بروقت اسکریننگ پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ہم عام طور سے ایسا کرتے ہیں کہ سابقہ ریکارڈز اور نتائج کی روشنی میں اپنے رزلٹ تیار کرتے ہیں جو کبھی قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ ایک ماہرصحت اور تشخیص کار Alle Meije Wink کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں کوئی بھی مریض کسی مشین کے نتائج پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ مگر حال ہی میں جو سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے، وہ ایسی قابل اعتماد ڈیوائس ہے جس پر مریض اعتبار کرنے کو تیار ہوجائیں گے۔ یہ سافٹ ویئر ڈیمینشا اور الزائمر کے مریضوں میں اعتماد پیدا کرے گا اور ان کا علاج آسان ہوجائے گا۔

٭مرض پکڑنے کا طریقہ:
Alle Meije Wink کا کہنا ہے کہ یہ مشین کے ذریعے سیکھنے والی وہ تیکنیک ہے جو اس سے پہلے بھی الزائمر کے مرض کو پکڑنے میں استعمال کی جاچکی ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے یہ کیا تھا کہ انہوں نے دماغ کی ایم آر آئی اسکین کرائی جن میں نرم ٹشوز دکھائی دے رہے تھے اور ان کا تعلق الزائمر کے مرض سے تھا۔ لیکن سائنس داں اب اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ اس بیماری کے حملہ آور ہونے سے پہلے دماغ کی کارکردگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا پتا چلانے کے لیے سب سے مقبول طریقہ Positron emission tomography (PET) imaging ہے ، لیکن اس میں دو مسائل ہیں: پہلا یہ کہ یہ دوسرے مسائل پیدا کرسکتا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ بہت مہنگا ہے۔ اس کے بجائے Alle Meije Wink اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایم آر آئی تیکنیک استعمال کی جو

arterial spin labeling (ASL) کہلاتی ہے اور جو اندر پمپ کی جانے والی چیز کی پیمائش کرتی ہے، یعنی دماغ میں خون کے ایک ٹشو میں جذب ہونے کے عمل کو دیکھتی ہے۔ لیکن یہ ابھی تجرباتی مراؒحل میں ہے، لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ پلٹ کر واپس نہیں آتی اور دوسری اچھی بات یہ ہے کہ یہ جدید ایم آر آئی اسکینرز میں بھی قابل عمل ہے۔

اس سے پہلے جو مطالعے کیے گئے تھے، ان سے پتا چلا تھا کہ الزائمر کے مریضوں میں دماغ کے ٹشوز میں کم خون گیا جس کی وجہ سے وہ سبھی مریض آکسیجن کی کمی کا شکار ہوگئے اور ان کے دماغ کو بھرپور غذائیت بھی نہیں مل سکی۔

٭اس سسٹم کی تربیت:
ونک کی ٹیم نے مریضوں کے perfusion mapsکی مدد سے سینٹر پر اپنی ٹیم کو اس سسٹم کی مکمل تربیت دی، تاکہ وہ یہ فرق کرسکیں کہ کونسا مریض الزائمر کی شدید قسم کا شکار ہے اور کونسا اس کی ہلکی قسم میں مبتلا ہوا ہے۔ ان مریضوں کے دماغوں کی اسکیننگ سے پتا چلا کہ جہاں سرخ رنگ نمایاں تھا، وہاں مرض شدید شکل میں ہے اور جہاں نیلا رنگ نمایاں تھا، وہاں مرض ابتدائی شکل میں ہے۔ چناں چہ ماہرین کو یہ معلوم ہوگیا کہ اب وہ الزائمر اور SCD کے مریضوں میں تمیز کرسکتے ہیں۔

اس طرح ریسرچ کرنے والوں کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگئی کہ کن کن مراحل پر مرض کی شدت ہے اور کہاں کہاں یہ زیادہ شدید نہیں ہے۔ اس کے بعد ماہرین کے لیے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگئی کہ کون سا مریض الزائمر کا شکار ہوا ہے اور کون سا ڈیمینشیا کی ہلکی یا شدید قسم میں مبتلا ہے۔ اس موقع پر ماہرین نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس سارے عمل میں مزید ایکوریسی لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جس کے بعد ان کا علاج اور بھی آسان ہوجائے گا۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سارا کا سارا کام ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اور ان پر ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی ہم ان پر سو فی صد بھروسا کرنے کے قابل ہوسکیں گے، بہرحال یہ ایک نئی تیکنیک ہے جس سے الزائمر اور ڈیمینشیا کے مریضوں کے علاج میں آسانی ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔