پُرنم الہ آبادی بھردوجھولی مری یا محمدؐ سمیت مقبول عام کلام کے خالق

شعری اُفق پر جگمگانے والا یہ ستارہ69 برس کی عمر میں 29 جون 2009ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا


فاروق شہزاد August 07, 2016
شعری اُفق پر جگمگانے والا یہ ستارہ69 برس کی عمر میں 29 جون 2009ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا :فوٹو : فائل

یوںنام زمانے میں کرجائیں تو اچھا ہو
ہم عشق محمدؐ میں مر جائیں تو اچھا ہو

ہر مسلمان شاعر کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسے رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نعت کہنے کا شرف حاصل ہوجائے، لیکن نعت کہنا صرف فن ہی نہیں ہے بل کہ عشق رسول کریمؐ کی بنا پر ہونے والی عطائے خداوندی ہے۔

یہ وہ عظیم رتبہ ہے جو ہر شاعر کو حاصل نہیں ہوا۔ اُستاد پُرنم اِلٰہ آبادی کا شمار اُن خوش نصیب شعراء میں ہوتا ہے عشق رسولؐ جن کی متاع حیات ہوتی ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں عشق رسول کریمؐ کی تڑپ، اظہار عجز، سوزوگداز، عقیدت کی شیرینی، محبت کی مٹھاس، وفورِشوق اور جذب وکیف کی کیفیات ملتی ہیں۔ ان کا حمدیہ، نعتیہ اور عارفانہ کلام پڑھ کر اور سن کر دل کو پاکیزگی اور روح کو طہارت عطا ہوتی ہے۔

''بھر دو جھولی مری یامحمدؐ'' سمیت لازوال قوالیوں، حمدیہ اور نعتیہ کلام کے خالق پُرنم الٰہ آبادی کا اصل نام محمد موسیٰ ہاشمی تھا۔ آپ 1940ء میں الٰہ آباد بھارت میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے کراچی آ بسے ۔ 1958ء میں استاد قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی اور شاعری میں جداگانہ اسلوب اپنایا اور عشق کے رنگ میں ڈوب کر لازوال کلام تخلیق کیا۔ یہ صوفی اور درویش صفت شاعر اپنے خاندان کو کراچی میں تیاگ کر نوے کی دہائی میں صوفیا اور اولیائے کرام کی نگری لاہور چلے آئے اور انارکلی میں مستقل قیام پذیر ہوگئے۔ وہ اپنے حجرے میں بیٹھ کر عشق کی جوت جگاتے، شاعری کے گلہائے سدا بہار کھلاتے اور وجد آفریں محفلیں سجاتے رہے۔ ان کی شاعری کی خوشبو آج دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔



پُرنم اِلٰہ آبادی درویش صف انسان تھے جو تمام عمر شہرت اور خود نمائی سے دور بھاگتے رہے، انہوں نے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی اور درویشی میں سلطانی کرتے رہے ، جو شہرت ان کے نعتیہ اور عارفانہ کلام کو ملی وہ بہت کم شعراء کے حصے میں آئی ہے۔ برصغیر میں قوالی کے ذریعے اولیاء کرام نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا جو فریضہ انجام دیا پُرنم اِلٰہ آبادی صوفیاء کی اس عظیم روایات کی امین تھے۔ بارگاہ رسالت ؐ سے شرف قبولیت حاصل ہونے کی وجہ سے اس درویش شاعر کا کلام آج دنیا کے گوشے گوشے میں بڑی گونج رہا ہے اور جہاں جہاں بھی اردو زبان بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے ان کا کلام زبان زد عام ہے۔ خصوصاً ان کی لکھی ہوئی قوالی ''بھر دو جھولی مری یامحمدؐ'' لبوں پر دعا کی صورت گلی گلی سے بلند ہوتی ہوئی سنائی دیتی ہے اور روح کو سرشار کرتی چلی جاتی ہے۔

سادہ اور عام فہم ہونے کی وجہ سے اُستاد پُرنم الٰہ آبادی کے کلام کو عوامی سطح پر بے حد مقبولیت ملی بل کہ جن جن گلوکاروں نے ان کا کلام گایا وہ شہرت کی بلندیوں کی انتہا کو پہنچے۔ اُستاد پُرنم کے پاس وقت کے نام ور اداکار اور گلوکار حاضری دینے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ غلام فرید صابری قوال، استاد نصرت فتح علی خان، میڈم نور جہاں، منی بیگم، عزیز میاں قوال، استاد حامد علی خان، امجد فرید صابری سمیت برصغیر کے بہت سے قوالوں اور گلوکاروں نے ان کے کلام کو گا کر عالمی سطح پر شہرت پائی اور یہ کلام ان گلوکاروں اور صداکاروں کی وجہ شہرت بنا۔

پُرنم اِلٰہ آبادی کو تو ادبی حلقوں میں بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں عوامی سطح پر تو شاید ہی کوئی ان کے نام سے واقف ہو۔ پُرنم اِلٰہ آبادی نے جوانی کے ابتدائی ایام میں ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے نغمے اور گیت بھی لکھے جن کو بے حد پذیرائی ملی، لیکن بعد میں انہوں نے یہ سب کچھ چھوڑ کر عشق رسولؐؐ ہی کو اپنا حوالہ بنایا اور درویشانہ زندگی بسر کی۔



استاد پرنم الٰہ آبادی نے جو مشہور زمانہ قوالیاں، حمدیہ، نعتیہ اور صوفیانہ کلام لکھا، جنہیں برصغیر کے نام ور قوالوں اور گلوکاروں نے گایا ان کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے: (حمد) اللہ ہواللہ ہو، عارف لوہار، بھردو جھولی مری یامحمدؐ، سلطان حرم ہوجائے کرم، غلام فرید صابری ، رسولوں کے سردارؐ تشریف لائے۔ راحت فتح علی خان، پروردگار موت نہ میری حرام ہو۔

عزیز میاں قوال، اس شان کرم کا کیا کہنا (انڈین فلم کچے دھاگے) استاد نصرت فتح علی خان، جلوؤں سے محمدؐ روشن میرا سینہ ہے، عزیز میاں قوال، ہوکرم شاہِ مدینہ بڑی شان ہے تمہاری، بہاؤالدین قوال، کتنا خدا کو میرے محمدؐ سے پیار ہے، چھوٹے صالح محمد قوال، بن کے آیا ہوں سوالی تم ہو دُکھیوں کے والی۔ استادنصرت فتح علی خان، داتا تیرا دربار ہے رحمت کا خزانہ، استاد نصرت فتح علی خان، کربلا میں کیا قیامت کی گھڑی ہوگی، استاد نصرت فتح علی خان، لال مری پت رکھیو بھلا، رونا لیلٰی، میڈم نور جہاں، استاد نصرت فتح علی خان، دولت دنیا نہ عقبیٰ کا خزینہ چاہیے، عزیز نازاں (معروف قوال، انڈیا) تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی، استاد نصرت فتح علی خان۔



پُرنم الہ آبادی کا رُجحان کتب کی اشاعت کی طرف بہت کم تھا۔ اس لیے زندگی میں تو ان کے کلام کی خوش بو مستور رہی صرف وہ کلام جو گلوکاروں اور قوالوں نے گا دیا عوام الناس تک پہنچ پایا، لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے شاگرد اقبال پیام نے استاد پرنم الہ آبادی کے غیر مطبوعہ نعتیہ کلام اور غزلیات کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ ان کے شعر ی مجموعوں میں ''عشق محمدؐ۔'' اور ''عشق اولیاء کرام'' شامل ہیں۔ ''بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے'' اور ''پھول دیکھے نہ گئے''،''بھردو جھولی مری یا محمدؐ'' شامل ہیں۔ اقبال پیام جو ''بزم پرنم'' کے بانی بھی ہیں مختلف زاویوں اور پیرایوں سے استاد پرنم الہ آبادی کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کے غیر مطبوعہ کلام کو منظر عام پر لانے کے لیے سرگرم ہیں، جو کام حکومتی سرپرستی میں قائم ادبی اداروں کو کرنا چاہیے تھا وہ کام اقبال پیام جیسا نوجوان اکیلا کررہا ہے، جس پر انہیں داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔



شعری اُفق پر جگمگانے والا یہ ستارہ69 برس کی عمر میں 29 جون 2009ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ لیکن ادبی کہکشاں پر ان کا کلام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ ان کا لکھا ہوا کلام کانوں میں صدا رس گھولتا رہے گا۔ آپ کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان لاہور میں ہے۔ گذشتہ دنوں اس عظیم صوفی منش شاعر کی ساتویں برسی خاموشی سے گزر گئی ان کی یاد میں کوئی سیمینار ہوا نہ ہی تعزیتی ریفرنس افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسلاف اور مشاہیر کو یاد رکھنے اور اہل علم ودانش، شاعروں اور ادیبوں کو عزت واحترام دینے کی روایت مفقود ہوچکی ہے، جو قوم اپنے قومی شاعر کے آفاقی پیغام اور کلام کو فراموش کردے اس قوم سے علم وادب اور اپنے اسلاف سے محبت کی اُمید رکھنا ہی فضول ہے۔ ہماری معاشرتی اقدار اور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں جو ایک المیہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پُرآشوب دور میں نسل نو کا علم و ادب اور اسلاف سے ناتا جوڑ کر معاشرے کو امن و محبت اور علم و ادب کا گہوارہ بنایا جائے۔ ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ جامعات میں استاد پرنم الہ آبادی کی شخصیت اور فن پُرایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام کیا جائے اور اس عظیم شاعر کے کلام کو یک جا کرکے کلیات کی شکل میں سرکاری سطح پر شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں