ریڑھی گوٹھ۔۔۔ایک عجیب بستی
ماہی گیر مرد بھارت میں قید، بیویاں گھر چلارہی ہیں
اس امیر شہر، جس کا نام کراچی ہے، کے جنوب میں ایک ایسی ماہی گیر بستی بھی ہے جسے نہیں معلوم کے امیر شہر کے لوگ اسے جانتے بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر جانتے بھی ہیں تو کس نام سے؟ کس حیثیت سے؟ لیکن اس غریب بستی کے لوگ اس بستی کو ریڑھی میان کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک ایسی بستی جس میں کئی کردار ، کئی نام، کئی کہانیاں اور کئی لوگ رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ غالب نے اس بستی ہی کے لیے کہا تھا۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس بستی کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ دُکھ کیا ہوتا ہے اور اس میں جیا کیسے جاتا ہے۔ اس ماہی گیر بستی کی خواتین جینے کی کوشش کر رہی ہیں اور ہر نیا ابھرتا سورج ان خواتین کے لئے ایک نئی جدوجہد بھی اپنے ساتھ لاتا ہے جسے وہ مردانہ وار سہہ کر آگے بڑھنے نے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں، لیکن اس بستی میں دکھ بہت ہے ایسا دکھ جس کے لیے کسی نے لکھا کہ
ماہی گیروں کی بستی میں
درد پلتے ہیں بچوں کی طرح!
ماؤں کی چھاتیاں خشک ہوئیں
ان کی آنکھوں سے خون ٹپکتا رہا
ماہی گیروں کی بستی میں
کھانے کے برتن خالی ہیں
چولھے کی آگ ٹھنڈی ہے
نل میں پانی کی بوندیں کم ہوئیں
اب آنکھیں بھی خشک ہوئیں
پیٹ کا جہنم جلتا ہے
چھت پر کوئی طائر کیا بیٹھے
اب تو روح بھی جسم سے باغی ہے
ماہی گیروں کی بستی میں
درد پلتے ہیں بچوں کی طرح
یہ پوری بستی کا رواج ہے کہ یہاں اسکول کے حاضری رجسٹر میں بچوں کے نام باپ نہیں ماں کے نام سے درج کیے جاتے ہیں۔ یہ رواج اس لیے یہاں پر عام ہے کہ جب ماہی گیر مرد گھروں سے باہر ہوتے ہیں تو گھر کا سارا نظام عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے بچے بھی اپنی ماؤں کے ناموں سے جانے جاتے ہیں اور اس بات کو یہ بستی والے بھی بُرا نہیں جانتے۔
آپ کراچی کی آخری بستی میں داخل ہوجائیں تو آپ کو ایسا لگے گا کہ یہ کراچی نہیں آپ شہر سے بہت دور نکل آئے ہیں، جس کی وجہ یہاں کی غربت اور یہاں طاری اُداسی ہے۔
جب آپ اس بستی میں داخل ہوں گے تو آپ کو بہت سے بچے ننگے بدن کھیلتے ملیں گے اور سڑک کنارے بوڑھے مرد اور خواتین ملیں گی۔ اس بستی کے ایک طرف کراچی ہے اور دوسری طرف کچرے کا ڈھیر بنتا سمندر۔ جب آپ اس بستی میں پہلی بار آئیں گے تو آپ کو بہت حیرت ہوگی، کیوںکہ اس بستی میں چائے اور کھانے کے ہوٹل خواتین چلاتی ہیں بڑے شہروں میں، جہاں معاشرہ پڑھا لکھا ہوتا ہے وہاں اگر عورتیں دکان چلائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، لیکن ایک ماہی گیروں کی بستی جہاں تعلیم بھی نہیں،عورتوں کا ہوٹل چلانا ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
اس بستی میں عورتوں کے چھوٹے بڑے پندرہ ہوٹل ہیں، جن میں چائے اور کھانے کی اشیا ملتی ہیں۔ ان ہوٹلوں میں کام کرنے اور چائے اور کھانا پکانے والی سبھی خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ سموسے، پکوڑے اور آلو چاٹ کے ٹھیے بھی ہیں، جنہیں عورتیں چلاتی نظر آتی ہیں!
ہم نے جب سنا کہ اس بستی میں عورتوں کے ہوٹل ہیں تو ہم ان ہوٹلوں میں گئے جاکر دیکھا کہ خواتین ان ہوٹلوں کو کیسے چلا رہی ہیں اور ان کے ساتھ ان مردوں کا رویہ کیسا ہے جو وہاں کھانے پینے آتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس ہوٹل میں گئے جو اس بستی میں سب سے پہلے قائم ہوا تھا۔
یہ موسانی محلہ کی زلیخا کا ہوٹل ہے، زلیخا پختہ عمر کی خاتون ہیں، ان کے سر پر کالے بال بہت کم رہ گئے ہیں۔ جب ہم ان کے ہوٹل میں داخل ہوئے تو وہ کسی مرد گاہک سے الجھ رہی تھیں۔
ہم زلیخا سے سلام دعا کے بعد ان کے قریب بیٹھ گئے اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کے انہوں نے یہ ہوٹل کیوں کھولا؟
زلیخا گویا ہوئیں،''میرا شوہر ایک ماہی گیر ہے، جو عرصۂ دراز سے بھارت کی قید میں ہے۔ کتنے سال گزر گئے میں نہیں جانتی! اب تو مجھے وہ سال بھی یاد نہیں جس سال وہ گہرے پانی میں پکڑا گیا تھا اور لوگ دلاسا دینے لگے تھے کہ وہ جلد آجائے گا، لیکن اب تک نہیں آیا۔ وہ زندہ ہے اور بھارت میں قید ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے اوپر جاسوسی کا کیس ہے۔ جب میرا مرد پکڑا گیا اور کئی مہینوں تک واپس نہیں آیا تو میرے گھر میں فاقے پڑنے لگے۔ میرے بچے چھوٹے تھے، کوئی مدد کو تیار نہیں تھا اور پیٹ تو روٹی مانگتا ہے، تو مجھے کوئی کام بھی نہیں آتا تھا اور نہ میں پڑھی لکھی ہوں۔ اس لیے اسی بستی کے ایک نیک مرد سے کچھ پیسے اُدھار لے کر ادھر یہ چائے کا ہوٹل کھولا۔ یہ جگہ میرے میاں کی ہے۔ شروع شروع میں میرا بڑا مذاق بنا۔ جوان مرد اور چھوکرے آتے تھے اور چھیڑ خانی کرتے تھے، لیکن میں نے بھی ایک مرد بن کر ان کا مقابلہ کیا، تب جاکے وہ یہاں سے بھاگے ہیں، ورنہ مرد کے بازار میں عورت کو کون برداشت کرتا ہے صاحب! زلیخا کے اس سوال نما جواب نے ہمیں چونکا دیا۔ ہم نے اگلا سوال کیا:
ہوٹل کھولنے کا تجربہ کیسا رہا؟
''صاحب! بہت مشکل ہوئی۔ پہلے پیسہ نہیں تھا جب پیسہ ادھار لے کر ہوٹل کھولا تو میرے پاس مرد نہیں آتے تھے اور عورتوں کے پاس پیسے نہیں کہ وہ میرے پاس چائے پینے آئیں۔ میں پورا پورا دن سو روپے بھی نہیں کما پاتی تھی۔ پھر مرد آنے لگے تو شکایت کرنے لگے کہ یہاں گرمی ہے ٹھنڈا پانی نہیں ہے۔ تمہارے ہوٹل میں ٹی وی نہیں ہے۔ ایک تو مرد آتے نہیں تھے اور جب آتے تھے تو فرمائشیں بہت کرتے تھے، مجھے تنگ بہت کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو کوئی لڑکی لانے کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ میں اپنے پاس ایک ڈنڈا رکھتی تھی جو اب بھی میرے پاس ہے۔''
یہ کہہ کر زلیخا ہنسنے لگیں اور بولیں،''صاحب! بھلا یہ کوئی ڈنڈے کا زمانہ ہے؟ لیکن میں ڈنڈا رکھتی ہوں۔'' انہوں نے یہ ڈنڈاکاؤنٹر سے نکال کر ہمیں دکھایا اور کہنے لگیں،''مجھے اس بازار میں مرد بننا پڑا ہے، جب جاکر عزت بھی رہی ہے اور کام بھی کرپائی ہوں۔''
اس ہوٹل کے کام سے کیا آپ کی زندگی بدلی؟ اس سوال پر وہ بولیں،''صاحب! زندگی کیا بدلنی تھی، بس ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ اس سے پہلے تو میں فاقے کاٹ رہی تھی اور میرے بچے بھی۔''
زلیخا کا کہنا ہے کہ اُن کے ہوٹل کھولنے سے اس بستی کی دیگر عورتوں کی بھی ہمت بڑھی اور وہ بھی اس کام میں آگئی ہیں۔ پہلے پہل تو میں نے ایک ہی ہوٹل کھولا تھا اب تو کوئی چودہ پندرہ ہوٹل ہیں اس بستی میں۔
یہ ہوٹل کون عورتیں کھولتی ہیں؟ اس حوالے سے زلیخا بتاتی ہیں کہ وہ خواتین جن کے شوہر یا تو وفات پاگئے ہیں یا بھارت میں گرفتار ہیں۔ ایک اور بات بھی ہے، وہ خواتین جنہیں طلاق ہوچکی ہے، وہ بھی یہ کام کر رہی ہیں۔ اس بستی کے اکثر مرد نشہ کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے، چناں چہ طلاق دے دیتے ہیں۔
اب مردوں کا رویہ کیسا ہے؟
اس کے بعد ہم ریڑھی گوٹھ کے اس بندر (جیٹی) پر گئے جہاں زلیخا کے ہوٹل سے ایک قدرے بڑا ہوٹل موجود ہے، جو عائشہ نامی خاتون چلاتی ہیں۔ یہاں کی چائے بہت مشہور ہے۔ ہم ہوٹل میں داخل ہوئے اور عائشہ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ جو عورت چائے بنا رہی ہے وہی عائشہ ہے۔ ہم نے قریب جاکر عائشہ کو سلام کیا اور اپنا تعارف کرانے کے بعد اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو چائے بنا رہی ہوں، اس لیے میں الگ سے کسی کرسی پر تو بیٹھ کر آپ سے بات نہیں کر سکتی۔ ہم عائشہ کے پاس اسی چائے بنانے والی جگہ پر ایک اسٹول رکھ کر بیٹھ گئے۔
ہمارے سوالوں کے جواب میں عائشہ نے کہا کہ وہ کوئی دس سال سے ہوٹل چلارہی ہیں۔
ان دس سالوں میںشروع کے سبھی دن، سبھی راتیں، سبھی منٹ اور سبھی سیکنڈ پریشانی میں گزرے ہیں۔
عائشہ نے کہا کہ انہوں نے ہوٹل اس لیے کھولا کہ ان کا شوہر نشہ کرنے لگا تھا اور کچرے میں پڑا رہتا تھا، کچھ بھی نہیں کماتا تھا۔ گھر میں بھوک آگئی تھی۔ بچے بھوک کی وجہ سے بیمار ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی بھی کام کرنا چاہیے، ''مگر نہ تعلیم نہ کوئی ہنر۔ چائے تو گھر میں بھی بنالیتی تھی۔ اس لیے یہ کام قدرے بہتر تھا۔ میری شادی پر میری امی نے مجھے ایک سونے کا کنگن دیا تھا وہ بیچ کر ہوٹل کھول لیا۔''
مردوں کے رویے کے حوالے سے اس نے بڑی تلخی کے ساتھ کہا،''بہت ہی بھیانک۔ یہ اندازہ ہوا کہ سارے ہی مرد، مُردارخور ہیں اور مرداروں کا گوشت کھاتے ہیں، لیکن ہمت کرنی پڑتی ہے جو میں نے بھی کی۔''
عائشہ کے ساتھ ان کی بچیاں بھی کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچیاں گھر سے زیادہ یہاں محفوظ ہیں۔ اس کی والدہ بھی اس کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ عائشہ نے آواز دی تو دو نئے چہرے ہمارے سامنے تھے۔ ان میں سے ایک عائشہ کی والدہ آسیہ خاتون تھیں اور دوسری ان کی بیٹی راحیلہ۔
اس بستی سے واپسی پر ہم سوچ رہے تھے کہ یہ کیسی بستی ہے، کچھ اداس، کچھ مایوس، مگر مشکلات سے لڑتی ہوئی۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس بستی کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ دُکھ کیا ہوتا ہے اور اس میں جیا کیسے جاتا ہے۔ اس ماہی گیر بستی کی خواتین جینے کی کوشش کر رہی ہیں اور ہر نیا ابھرتا سورج ان خواتین کے لئے ایک نئی جدوجہد بھی اپنے ساتھ لاتا ہے جسے وہ مردانہ وار سہہ کر آگے بڑھنے نے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں، لیکن اس بستی میں دکھ بہت ہے ایسا دکھ جس کے لیے کسی نے لکھا کہ
ماہی گیروں کی بستی میں
درد پلتے ہیں بچوں کی طرح!
ماؤں کی چھاتیاں خشک ہوئیں
ان کی آنکھوں سے خون ٹپکتا رہا
ماہی گیروں کی بستی میں
کھانے کے برتن خالی ہیں
چولھے کی آگ ٹھنڈی ہے
نل میں پانی کی بوندیں کم ہوئیں
اب آنکھیں بھی خشک ہوئیں
پیٹ کا جہنم جلتا ہے
چھت پر کوئی طائر کیا بیٹھے
اب تو روح بھی جسم سے باغی ہے
ماہی گیروں کی بستی میں
درد پلتے ہیں بچوں کی طرح
یہ پوری بستی کا رواج ہے کہ یہاں اسکول کے حاضری رجسٹر میں بچوں کے نام باپ نہیں ماں کے نام سے درج کیے جاتے ہیں۔ یہ رواج اس لیے یہاں پر عام ہے کہ جب ماہی گیر مرد گھروں سے باہر ہوتے ہیں تو گھر کا سارا نظام عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے بچے بھی اپنی ماؤں کے ناموں سے جانے جاتے ہیں اور اس بات کو یہ بستی والے بھی بُرا نہیں جانتے۔
آپ کراچی کی آخری بستی میں داخل ہوجائیں تو آپ کو ایسا لگے گا کہ یہ کراچی نہیں آپ شہر سے بہت دور نکل آئے ہیں، جس کی وجہ یہاں کی غربت اور یہاں طاری اُداسی ہے۔
جب آپ اس بستی میں داخل ہوں گے تو آپ کو بہت سے بچے ننگے بدن کھیلتے ملیں گے اور سڑک کنارے بوڑھے مرد اور خواتین ملیں گی۔ اس بستی کے ایک طرف کراچی ہے اور دوسری طرف کچرے کا ڈھیر بنتا سمندر۔ جب آپ اس بستی میں پہلی بار آئیں گے تو آپ کو بہت حیرت ہوگی، کیوںکہ اس بستی میں چائے اور کھانے کے ہوٹل خواتین چلاتی ہیں بڑے شہروں میں، جہاں معاشرہ پڑھا لکھا ہوتا ہے وہاں اگر عورتیں دکان چلائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، لیکن ایک ماہی گیروں کی بستی جہاں تعلیم بھی نہیں،عورتوں کا ہوٹل چلانا ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
اس بستی میں عورتوں کے چھوٹے بڑے پندرہ ہوٹل ہیں، جن میں چائے اور کھانے کی اشیا ملتی ہیں۔ ان ہوٹلوں میں کام کرنے اور چائے اور کھانا پکانے والی سبھی خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ سموسے، پکوڑے اور آلو چاٹ کے ٹھیے بھی ہیں، جنہیں عورتیں چلاتی نظر آتی ہیں!
ہم نے جب سنا کہ اس بستی میں عورتوں کے ہوٹل ہیں تو ہم ان ہوٹلوں میں گئے جاکر دیکھا کہ خواتین ان ہوٹلوں کو کیسے چلا رہی ہیں اور ان کے ساتھ ان مردوں کا رویہ کیسا ہے جو وہاں کھانے پینے آتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس ہوٹل میں گئے جو اس بستی میں سب سے پہلے قائم ہوا تھا۔
یہ موسانی محلہ کی زلیخا کا ہوٹل ہے، زلیخا پختہ عمر کی خاتون ہیں، ان کے سر پر کالے بال بہت کم رہ گئے ہیں۔ جب ہم ان کے ہوٹل میں داخل ہوئے تو وہ کسی مرد گاہک سے الجھ رہی تھیں۔
ہم زلیخا سے سلام دعا کے بعد ان کے قریب بیٹھ گئے اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کے انہوں نے یہ ہوٹل کیوں کھولا؟
زلیخا گویا ہوئیں،''میرا شوہر ایک ماہی گیر ہے، جو عرصۂ دراز سے بھارت کی قید میں ہے۔ کتنے سال گزر گئے میں نہیں جانتی! اب تو مجھے وہ سال بھی یاد نہیں جس سال وہ گہرے پانی میں پکڑا گیا تھا اور لوگ دلاسا دینے لگے تھے کہ وہ جلد آجائے گا، لیکن اب تک نہیں آیا۔ وہ زندہ ہے اور بھارت میں قید ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے اوپر جاسوسی کا کیس ہے۔ جب میرا مرد پکڑا گیا اور کئی مہینوں تک واپس نہیں آیا تو میرے گھر میں فاقے پڑنے لگے۔ میرے بچے چھوٹے تھے، کوئی مدد کو تیار نہیں تھا اور پیٹ تو روٹی مانگتا ہے، تو مجھے کوئی کام بھی نہیں آتا تھا اور نہ میں پڑھی لکھی ہوں۔ اس لیے اسی بستی کے ایک نیک مرد سے کچھ پیسے اُدھار لے کر ادھر یہ چائے کا ہوٹل کھولا۔ یہ جگہ میرے میاں کی ہے۔ شروع شروع میں میرا بڑا مذاق بنا۔ جوان مرد اور چھوکرے آتے تھے اور چھیڑ خانی کرتے تھے، لیکن میں نے بھی ایک مرد بن کر ان کا مقابلہ کیا، تب جاکے وہ یہاں سے بھاگے ہیں، ورنہ مرد کے بازار میں عورت کو کون برداشت کرتا ہے صاحب! زلیخا کے اس سوال نما جواب نے ہمیں چونکا دیا۔ ہم نے اگلا سوال کیا:
ہوٹل کھولنے کا تجربہ کیسا رہا؟
''صاحب! بہت مشکل ہوئی۔ پہلے پیسہ نہیں تھا جب پیسہ ادھار لے کر ہوٹل کھولا تو میرے پاس مرد نہیں آتے تھے اور عورتوں کے پاس پیسے نہیں کہ وہ میرے پاس چائے پینے آئیں۔ میں پورا پورا دن سو روپے بھی نہیں کما پاتی تھی۔ پھر مرد آنے لگے تو شکایت کرنے لگے کہ یہاں گرمی ہے ٹھنڈا پانی نہیں ہے۔ تمہارے ہوٹل میں ٹی وی نہیں ہے۔ ایک تو مرد آتے نہیں تھے اور جب آتے تھے تو فرمائشیں بہت کرتے تھے، مجھے تنگ بہت کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو کوئی لڑکی لانے کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ میں اپنے پاس ایک ڈنڈا رکھتی تھی جو اب بھی میرے پاس ہے۔''
یہ کہہ کر زلیخا ہنسنے لگیں اور بولیں،''صاحب! بھلا یہ کوئی ڈنڈے کا زمانہ ہے؟ لیکن میں ڈنڈا رکھتی ہوں۔'' انہوں نے یہ ڈنڈاکاؤنٹر سے نکال کر ہمیں دکھایا اور کہنے لگیں،''مجھے اس بازار میں مرد بننا پڑا ہے، جب جاکر عزت بھی رہی ہے اور کام بھی کرپائی ہوں۔''
اس ہوٹل کے کام سے کیا آپ کی زندگی بدلی؟ اس سوال پر وہ بولیں،''صاحب! زندگی کیا بدلنی تھی، بس ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ اس سے پہلے تو میں فاقے کاٹ رہی تھی اور میرے بچے بھی۔''
زلیخا کا کہنا ہے کہ اُن کے ہوٹل کھولنے سے اس بستی کی دیگر عورتوں کی بھی ہمت بڑھی اور وہ بھی اس کام میں آگئی ہیں۔ پہلے پہل تو میں نے ایک ہی ہوٹل کھولا تھا اب تو کوئی چودہ پندرہ ہوٹل ہیں اس بستی میں۔
یہ ہوٹل کون عورتیں کھولتی ہیں؟ اس حوالے سے زلیخا بتاتی ہیں کہ وہ خواتین جن کے شوہر یا تو وفات پاگئے ہیں یا بھارت میں گرفتار ہیں۔ ایک اور بات بھی ہے، وہ خواتین جنہیں طلاق ہوچکی ہے، وہ بھی یہ کام کر رہی ہیں۔ اس بستی کے اکثر مرد نشہ کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے، چناں چہ طلاق دے دیتے ہیں۔
اب مردوں کا رویہ کیسا ہے؟
اس کے بعد ہم ریڑھی گوٹھ کے اس بندر (جیٹی) پر گئے جہاں زلیخا کے ہوٹل سے ایک قدرے بڑا ہوٹل موجود ہے، جو عائشہ نامی خاتون چلاتی ہیں۔ یہاں کی چائے بہت مشہور ہے۔ ہم ہوٹل میں داخل ہوئے اور عائشہ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ جو عورت چائے بنا رہی ہے وہی عائشہ ہے۔ ہم نے قریب جاکر عائشہ کو سلام کیا اور اپنا تعارف کرانے کے بعد اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو چائے بنا رہی ہوں، اس لیے میں الگ سے کسی کرسی پر تو بیٹھ کر آپ سے بات نہیں کر سکتی۔ ہم عائشہ کے پاس اسی چائے بنانے والی جگہ پر ایک اسٹول رکھ کر بیٹھ گئے۔
ہمارے سوالوں کے جواب میں عائشہ نے کہا کہ وہ کوئی دس سال سے ہوٹل چلارہی ہیں۔
ان دس سالوں میںشروع کے سبھی دن، سبھی راتیں، سبھی منٹ اور سبھی سیکنڈ پریشانی میں گزرے ہیں۔
عائشہ نے کہا کہ انہوں نے ہوٹل اس لیے کھولا کہ ان کا شوہر نشہ کرنے لگا تھا اور کچرے میں پڑا رہتا تھا، کچھ بھی نہیں کماتا تھا۔ گھر میں بھوک آگئی تھی۔ بچے بھوک کی وجہ سے بیمار ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی بھی کام کرنا چاہیے، ''مگر نہ تعلیم نہ کوئی ہنر۔ چائے تو گھر میں بھی بنالیتی تھی۔ اس لیے یہ کام قدرے بہتر تھا۔ میری شادی پر میری امی نے مجھے ایک سونے کا کنگن دیا تھا وہ بیچ کر ہوٹل کھول لیا۔''
مردوں کے رویے کے حوالے سے اس نے بڑی تلخی کے ساتھ کہا،''بہت ہی بھیانک۔ یہ اندازہ ہوا کہ سارے ہی مرد، مُردارخور ہیں اور مرداروں کا گوشت کھاتے ہیں، لیکن ہمت کرنی پڑتی ہے جو میں نے بھی کی۔''
عائشہ کے ساتھ ان کی بچیاں بھی کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچیاں گھر سے زیادہ یہاں محفوظ ہیں۔ اس کی والدہ بھی اس کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ عائشہ نے آواز دی تو دو نئے چہرے ہمارے سامنے تھے۔ ان میں سے ایک عائشہ کی والدہ آسیہ خاتون تھیں اور دوسری ان کی بیٹی راحیلہ۔
اس بستی سے واپسی پر ہم سوچ رہے تھے کہ یہ کیسی بستی ہے، کچھ اداس، کچھ مایوس، مگر مشکلات سے لڑتی ہوئی۔