پانچ ملکوں کا دل فریب سنگم قدرتی مناظر سے سجا ’’دارجلنگ‘‘

دارجلنگ مذہبی اعتبار سے ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں میں کافی مقدس سمجھا جاتا ہے۔

دارجلنگ مذہبی اعتبار سے ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں میں کافی مقدس سمجھا جاتا ہے۔ :فوٹو : فائل

(یوں تو ہر شہر کی کوئی کہانی ہوتی ہے، لیکن بعض شہروں میں کوئی انوکھا پن کوئی انفرادیت ہوتی ہے۔ ایکسپریس سنڈے میگزین کا یہ نیا سلسلہ دنیا کے ایسے ہی شہروں سے قارئین کو متعارف کرائے گا، جن کے بارے میں وہ بہت کچھ نہیں جانتے)

دنیا کی بلندترین چوٹی 'ماؤنٹ ایورسٹ' کا رکھوالا، ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر تک دراز ہے۔ دنیا کا یہ مشہور پہاڑی سلسلہ 'ہمالیہ' ریاستی طور پر چین، پاکستان، ہندوستان، نیپال اور بھوٹان میں منقسم ہے۔ دھرتی نشیب وفراز جب بھارت میں نیپال سے گزرتا ہوا بھوٹان کی عمل داری میں آتا ہے، تو اسی جگہ خطے کا ایک ایسا خوب صورت شہر آباد ہے، جسے 'دارجلنگ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔

دارجلنگ کا جغرافیائی سمبندھ بھی کچھ ایسا ہے کہ انتظامی طور پر تو یہ ریاست مغربی بنگال کا حصہ ہے، جب کہ مشرق میں یہ بھارتی ریاست سکم جب کہ مغرب میں یہ نیپال سے جڑا ہوا ہے، جنوب میں مغربی بنگال کا علاقہ Siliguri ہے، جب کہ مشرق میں مغربی بنگال ہی کے علاقے Kalimpong سے منسلک ہے۔

دنیا کے نقشے پر جب ہم دارجلنگ کو دیکھتے ہیں، تو ریاست سکم اور ملک نیپال سے جڑی ہوئی مغربی بنگال کی یہ حسین وادی چین، بھوٹان اور بنگلادیش کے سنگم پر کچھ اس طرح واقع ہے کہ اس کے شمال میں تھوڑے ہی فاصلے پر چین، شمال مشرق میں بھوٹان، مشرق میں ریاست آسام، جنوب میں بنگلادیش اور بنگلادیش اور نیپال کی سرحدوں کی درمیان مشرقی ہندوستان کو باقی ملک سے جوڑنے والی مغربی بنگال اور بہار میں تقسیم ہوتی پتلی سی ہندوستانی پٹی واقع ہے۔ یوں دارجلنگ پانچ ممالک (بھارت، بھوٹان، چین، نیپال اور بنگلادیش) اور چار ریاستوں (سکم، آسام، مغربی بنگال اور بہار) کے سنگم پر واقع ہے۔

''دارجلنگ'' لفظ دو تبتی الفاظ ''دورج'' اور ''لینگ'' سے مل کر بنا ہے۔ دورج کے معنی بادلوں کی کڑک جب کہ لینگ کے معنی زمین کے ہیں۔ اس اعتبار سے اسے گرج چمک کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔

شدید گرمی اور حبس کے موسم میں جب ہندوستان بھر کے لوگ پسینوں میں شرابور ہو رہے ہوتے ہیں، تب دل فریب نظاروں کی اس سرزمین پر نہایت خوش گوار ٹھنڈا موسم ہوتا ہے۔ اسی موسم کی بنا پر 1864ء کے بعد اسے بنگال کے 'سمر کیپٹل' کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

دارجلنگ میں واقع 2 ہزار 590 میٹر بلند 'ٹائیگرز ہلز' سے سکم اور نیپال کے سنگم پر سر اٹھائے دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی Kangchenjunga پر طلوع آفتاب کے منظر کی کافی شہرت ہے۔ دنیا بھر کے سیاح دارجلنگ میں فطرت کے اس حسین منظر کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ ٹائیگر ہل سے یہ چوٹی فقط 172 کلومیٹر دور ہے اور اگر حد نظر ٹھیک ہو تو یہاں سے اس کا منظر نہایت دل فریب ہوتا ہے۔

دارجلنگ میں برطانوی نوآبادیاتی دور کے قائم کردہ ہوٹل Windamere کے ذریعے بیتے دنوں کی یاد تازہ کی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں بل کہ بورڈنگ ہاؤس کے طور پر قائم ہونے والے اس مسافر خانے کے دریچوں سے تبت (چین)، سکم، نیپال اور بھوٹان کے نظارے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے دارجلنگ میں نوآبادیاتی دور کی تعمیرات خاص دل چسپی کا سامان رکھتی ہیں۔ دیدہ زیب گرجے گھر اور مختلف کوٹھیوں میں مورگن ہاؤس اور کرکٹی (Crickety) قابل ذکر ہیں۔

دارجلنگ کے منفرد عجائب گھر 'ایورسٹ میوزیم' میں دنیا کی ان بلند وبالا چوٹیوں کو سر کرنے والے تمام کوہ پیماؤں کی تصاویر اور دیگر چیزیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدا میں کوہ پیمائی کے لیے استعمال ہونے والا سامان بھی سیاحوں کو بے حد متاثر کرتا ہے۔

دارجلنگ کے بازاروں میں یہاں مختلف مذہبی اور ثقافتی رنگارنگی جھلکتی ہے، ایک چائے اور ہمالیائی شہد پر کیا موقوف، بدھا کی دست کاریوں سے تبتی قالین اور مقامی طور پر تیار کردہ ملبوسات یہاں کی خاص سوغات ہے۔

انتظامی طور پر دارجلنگ نیپال، بھوٹان، سکم اور برطانوی ہند کا حصہ رہا۔ اس کا انتظام لینے کے لیے کئی لڑائیاں بھی ہوئیں، پھر جب ہندوستان میں برطانوی راج آگیا، تو ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اس میں فریق بن گئی، تاہم اس نے شہنشاہِ سکم کو تمام علاقے واپس کیے اور اس کے اقتدار کی ضمانت دی۔

دارجلنگ کے پُرفضا ماحول اور دل فریب مناظر نے انگریز حکم رانوں کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے 1828ء میں اپنی فوجیوں کے لیے Sanatorium کے لیے اس جگہ کا چناؤ کیا۔ اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکم کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر Arthur Campbell اور ماہر نباتات Joseph Dalton Hooker کو سکم میں قید کرلیا گیا، جنہیں رہا کرنے کی کوششیں سکم اور برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کے درمیان جنگ کا پیش خیمہ بنیں اور کافی عرصے جنگی صورت حال رہی۔ اس کے نتیجے میں 1865ء میں دارجلنگ برطانیہ کے زیرنگیں آگیا۔ 1866ء میں اسے موجودہ شکل دی گئی، اور اس کا رقبہ 1234 اسکوائر میل تک پھیلایا گیا۔ یہاں کی خوش گوار آب و ہوا کو دیکھتے ہوئے گوروں نے گرما میں یہاں چھٹیاں گزارنے کے لیے ہل اسٹیشن قائم کیے۔ اس کے ساتھ برطانوی باشندوں کے لیے اسکاٹش مشنریز نے یہاں اسکول اور دیگر تعلیمی و فلاحی ادارے بھی بنائے۔ دارجلنگ کو میدانی علاقوں سے جوڑنے کے لیے پہلی سڑک 1839ء سے 1842ء کے درمیان تعمیر کی گئی۔ 1850ء میں اسے میونسپلیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔


دنیا بھر میں چائے کی پیداوار میں ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے اور اس کا ایک بہت بڑا حصہ صرف دارجلنگ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دارجلنگ کی ہر وادی کی چائے کی خصوصیات دوسری سے جداگانہ ہے۔ یہاں چائے کا نمایاں باغ ہیپی ویلی 1854ء میں ایک برطانوی کاشت کار کے ہاتھوں قائم کیا گیا۔ یہ باغ سطح سمندر سے 2 ہزار 750 میٹر بلند ہے، اور دنیا کے بلند ترین چائے کے باغوں میں سے ایک ہے۔ یہاں تجارتی بنیادوں پر چائے کی کاشت 1856ء میں شروع ہوئی اور اس کے لیے انواع اقسام کے پودے لگائے گئے۔

برطانوی راج کے دوران دارجلنگ کو 'نون ریگولیشن ڈسٹرکٹ' کا خصوصی درجہ حاصل رہا، جس کے تحت ہندوستان بھر میں لاگو برطانوی قوانین کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا تھا، لیکن جب سانحہ جلیانوالہ باغ کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں 'تحریک عدم تعاون' شروع ہوئی تو دارجلنگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ 1934ء میں یہاں بنگال کے گورنر سر جون اینڈرسن (Sir John Anderson) پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ بھی ہوا اور 1940ء کے بعد کمیونسٹوں کی سام راج مخالفت بھی یہاں نمایاں دکھائی دی۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد دارجلنگ کو صوبہ مغربی بنگال میں شامل کردیا گیا، جب کہ ریاست سکم 1975ء میں بھارت کا حصہ بنی۔ 1980ء کی دہائی میں 'گورکھ نیشنل لبریشن فرنٹ' کی جانب سے الگ ریاست کی جدوجہد پُرتشدد رنگ اختیار کر گئی۔ دارجلنگ کے پہلو میں واقع Kalimpong گورکھ لینڈ تحریک کا مرکز ہے۔ گورکھ لینڈ تحریک وقتاً فوقتاً اپنے حقوق کے لیے سرگرم ہوتی رہتی ہے، ان کا موقف ہے کہ انہیں اپنے لوگوں کے لیے جدا ریاست درکار ہے اور وہ بنگال کی غلامی نہیں کرسکتے۔ پُرتشدد جدوجہد کے بعد لبریشن فرنٹ اور حکومت کے درمیان ایک سمجھوتا ہوا، جس کے بعد یہاں کا انتظام چلانے کے لیے ایک خودمختار منتخب تنظیم دارجلنگ گورکھ ہل کونسل (DGHC) قائم کی گئی۔ علیحدہ ریاست کے لیے احتجاج کا دوسرا دور 2008-09ء میں شروع ہوا۔ جولائی 2011ء میں گورکھ جنمکتی مورچاز (GJM) اور حکومت نے ایک معاہدہ کیا، جس کے بعد ایک مزید خودمختار منتخب تنظیم گورکھ لینڈ ٹیریٹوریل ایڈمنسٹریشن (GTA) بنائی گئی۔

دارجلنگ کا موسم نہ صرف گرما میں نہایت فرحت بخش رہتا ہے، بل کہ سردیوں میں بھی درجۂ حرارت پانچ، چھے ڈگری سے نیچے نہیں جاتا۔ سال میں اوسطاً 126 دن بارش ہوتی ہے، بالخصوص جولائی میں موسم شدید بارانی ہوتا ہے۔ فلک بوس چٹانوں کے دامن میں آباد اس شہر کو 1899ء میں پہاڑی تودے گرنے کے نتیجے میں کافی جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔ چائے اور سیاحت اس کی معیشت کے نمایاں جزو ہیں۔ دارجلنگ انڈین ٹی ایسوسی ایشن کا دفتر بھی دارجلنگ میں واقع ہے۔ دنیا کے تسلیم شدہ معیار اور ذائقے کے باوجود دارجلنگ کو چائے کی پیداوار میں نیپال اور دیگر ہندوستانی علاقوں سے مسابقت کا سامنا ہے۔ دارجلنگ میں چائے کے باغات میں کام کرنے والوں میں 60 فی صد خواتین کارکن ہیں۔ یہاں کی دیگر اہم فصلوں میں مکئی، چاول، باجرہ، آلو، ادرک اور الائچی شامل ہے۔

دارجلنگ تک پہنچنے کے لیے فضائی راستے سے رسائی کے لیے Bagdogra کے ایئرپورٹ سے جایا جا سکتا ہے، جس کا زمینی راستہ 68.3 کلومیٹر ہے۔ دوسرا راستہ بہ ذریعہ ریل ہے، جو بذات خود ایک نہایت خوش گوار اور ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ اس کے علاہ Siliguri سے براستہ بس بھی یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ دارجلنگ مارچ سے ستمبر کے دوران سیاحت کے لیے موزوں ترین سمجھا جاتا ہے۔

٭ 'کھلونا ریلوے' عالمی ورثہ!
دارجلنگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں دنیا کا دوسرا عالمی ورثہ قرار دیا گیا ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔ 'دارجلنگ ہمالیہ' ریلوے کو یہ اعزاز 1999ء میں حاصل ہوا۔ 78 کلومیٹر طویل اس ریلوے سے قبل صرف Semmering Railway of Austria کو یہ اعزاز حاصل تھا۔ 1879ء سے 1881ء کے درمیان تعمیر ہونے والی اس ریلوے کو اپنے چھوٹے حجم کی بنا پر 'کھلونا ریل' بھی کہا جاتا ہے۔ پہاڑیوں کے درمیان خراماں خراماں چلتی یہ ریل گاڑی جب پہاڑی راستوں پر رواں ہوتی ہے، تو اردگرد کے مناظر سیاحوں کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اسے اپنی نوعیت کی ایک بے مثل نظیر قرار دیا ہے۔ 1988ء میں Gorkhaland تحریک کی بنا پر یہ سروس ڈیڑھ سال معطل رہی۔

٭ مقدس مذہبی دھرتی!
دارجلنگ مذہبی اعتبار سے ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں میں کافی مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہاں نیپالی ہندو اور تبتی بدھ مت کے ماننے والوں کے علاوہ مختلف نسلی گروہ آّباد ہیں، جن کی مختلف زبانیں ہیں۔ 1959ء میں بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی جلاوطنی کے بعد دارجلنگ تبتی پناہ گزینوں کا ایک اہم وطن شمار ہونے لگا ہے۔ نیپالی اور تبتیوں کی مرغوب غذا 'مومو' ہے، جو چینی کھانوں کی طرز پر تیار کی جاتی ہے۔ تبتی نوڈلز بھی یہاں کا خاص کھاجا ہے۔ زیادہ تر چاول کی روٹی نوش کی جاتی ہے۔

٭ زولوجیکل پارک
دارجلنگ کا پدماجا نیڈو(Padmaja Naidu) زولوجیکل پارک ہندوستان بھر میں معروف ہے۔ اس پارک کا افتتاح 1958ء میں کیا گیا۔ 67.56 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس دل فریب پارک کی اوسط بلندی سات ہزار فٹ ہے۔ ہر سال فطرت کے دل دادہ تین لاکھ افراد یہاں آتے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زائد جانوروں سے آباد اس قدرتی چڑیا گھر کے جانوروں میں سرخ پانڈا، تبتی بھیڑیا اور برفانی تیندوا قابل ذکر ہیں۔

٭ بادلوں کو چھوتا 'روپ وے'
دارجلنگ میں ہندوستان کا مشہور اور نمایاں ''روپ وے'' خاصے کی چیز ہے، جس کا شمار ایشیا کے چند طویل ترین روپ ویز میں کیا جاتا ہے۔ اس 'روپ وے' میں چیئر لفٹ کے ذریعے سیاح برف پوش چٹانوں سے جھرنے اور دریا سے لے کر چائے کے باغات سے سجی اس خوب صورت دنیا کی فضائی سیر کر سکتے ہیں۔ یہ چیئر لفٹ کبھی چائے کے سرسبز باغات سے گزرتی ہے، تو کبھی پہاڑوں کے اوپر محو پرواز ہوتی ہے اور کبھی بادلوں میں سفر کرتی ہے۔ 2003ء میں ایک حادثے میں چار سیاح ہلاک ہوگئے، تو 2012ء تک یہ منفرد سفری سہولت معطل رہی۔

٭ قصہ Sherlock Holmes
کے پڑھانے کا!
Sherlock Holmes کا کردار نبھا کر شہرت پانے والے ہالی ووڈ کے اداکارBenedict Cumberbatch 19 برس کی عمر میں دارجلنگ میں تبت کے بدھ مت کے پیشواؤں کو انگریزی پڑھا چکے ہیں۔ اسے وہ اپنی زندگی کا ایک ایسا تجربہ قرار دیتے ہیں، جس میں انہوں نے وہاں کے لوگوں اور ان کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا۔ Benedict Cumberbatch نے فلم The Fifth Estate میں مشہور زمانہ ویب سائٹ وکی لیکس کے مالک جولیان اسانج کا کردار بھی نبھایا۔ Benedict Cumberbatch کو اگرچہ شہرت بعد میں ملی، لیکن دارجلنگ میں ان سے انگریزی پڑھنے والے اب بجا طور پر ان کی شاگردی پر نازاں ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story