چوڑیاں۔۔۔ نزاکت کا احساس لیے ایک قدیم زیور
پہلے چوڑیوں کی تیاری کے لیے مٹی، ہاتھی دانت اور لکڑی کا استعمال کیا گیا پھر دیگردھاتوں کے کنگن بننے لگے ۔
لاہور:
چوڑیوں کا شمار خواتین کے قدیم ترین زیورات میں ہوتا ہے، دنیا بھرمیں دریافت ہونے والے صدیوں پرانے کھنڈرات سے بھی چوڑیوں کے مختلف نمونے دریافت ہوئے۔
پہلے چوڑیوں کی تیاری کے لیے مٹی، ہاتھی دانت اور لکڑی کا استعمال کیا گیا پھر دیگردھاتوں کے کنگن بننے لگے۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت کانچ کی چوڑیوں کو حاصل ہوئی۔آج کی عورت کا بنائو سنگھار تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ کانچ کی چوڑیاں نہ پہن لے۔
برصغیر میں شادی شدہ عورت کی زندگی میں کانچ کے یہ نازک آبیگنے ''سہاگ'' کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی خواہش پر منفرد چوڑیوں کی تلاش میں حیدرآباد تک کا سفر کیا، جہاں کچھ کاری گروں نے پہلی بارکانچ کی انتہائی نفیس اور خوب صورت چوڑیاں تیار کر کے دربار میں مستقل اپنی جگہ بنالی۔ یوں یہ زیور خواص سے نکل کر عوام میں پہنچ گیا۔ چوڑیوں کی یوں تو بے شمار اقسام ہیںلیکن جو مقبولیت کانچ کی ان نازک چوڑیوں کو حاصل ہے وہ کسی کا مقدر نہیں۔
نزاکت کے احساس سے نتھی کانچ کی چوڑیاں سستی ہونے کے علاوہ اپنی مخصوص جھنکار کے باعث خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ سونے چاندی کی طرح ان کے کھونے، اور چرا لینے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی عمر کی خواتین کے لیے مخصوص ہیں، کم سن بچیوں سے لے کر نوعمر لڑکیوں، اورشادی شدہ سے لے کرمعمر خواتین تک ہر ایک کے لیے ہیں اور خوشی کا شاید ہی کوئی موقع ہو جو اس زیور کے بغیر مکمل تصور کیا جا سکتا ہو۔
کانچ کی چوڑیوں کی صنعت سب سے بڑے پیمانے پر حیدرآباد میں قائم ہیں، جہاں اس صنعت سے کم و بیش تین چار لاکھ افراد منسلک ہیں جو کہ کانچ کی چوڑیوں کو آٹھ مراحل سے گزار کر خواتین کی کلائیوں کی زینت بناتے ہیں، ان چوڑیوں کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے ان پر مائع سونا چڑھانے کا رجحان بھی ہے۔
چوڑیوں کی دیگر اقسام :۔
کڑے... سونے، چاندی، لوہے، ہاتھی دانت وغیرہ کے تیار کیے جاتے ہیں۔ راجھستان اور اندرون سندھ، پنجاب کے علاوہ تھر کی خواتین میں یہ بہت مقبول ہیں۔ یہاں کی خواتین لوہے، ہاتھی دانت، ہڈی، اسٹیل، پلاسٹک کے کام دار، نقش و نگار والے منقش کڑے اپنی پوری کلائیوںاور بازوؤں میں پہنتی ہیں۔
پنجہ... یہ عموماً دلہنوں کو پہنایا جاتا ہے۔ جس میں پانچ انگوٹھیاں ہوتی ہیں جو لڑیوں کے ذریعے کڑے سے منسلک ہوتی ہیں۔
چھاگل... چھاگل بھی چوڑی کی ایک قسم کا نام ہے، یہ سونے، چاندی، تانبے، پیتل اور لوہے کی چوڑی ہوتی ہے جو کہ کافی چوڑی اور چپٹی ہوتی ہے اس میں گھنگھرو لگے ہوتے ہیں۔
پہونچیاں... یہ بھی چوڑی کی ایک قسم ہے جو چھاگل سے مشابہہ ہوتی ہے اور چھاگل کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ چوڑی بھی ہوتی ہے کڑے نما اس چوڑی میں سونے، چاندی، تانبے، اسٹیل، کانچ، پلاسٹک وغیرہ کے بڑے بڑے موتی لٹک رہے ہوتے ہیں۔
نوگریاں... یہ چھاگل اور پہونچیاں کی طرح چوڑی نہیں بلکہ نسبتاً پتلی ہوتی ہیں۔ ''نوگریوں'' سچے نگینے کے چوکور پیس لگے ہوتے ہیں۔
موتی چیر... موتی چیر چوڑی سے مراد وہ چوڑی ہے جس میں چوڑی کو چپٹا کر کے یا تاروں میں موتی پرو کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ تار سونے، چاندی، تانبے اور پیتل کے بھی استعمال ہوتے ہیں جب کہ موتی بھی سچے اور نقلی دونوں ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ چوڑیوں کی دیگر اہم اقسام میں مختلف دھاتوںکی پٹی سے تیار کی جانے والی پیٹی چیرچوڑی بہت مقبول ہے،اس کے علاوہ کنگن چیر کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے، کنگن چیر ایک کٹاؤ دار ابھری ہوئی چوڑی ہے جس پر نقش و نگاری کی جاتی ہے ان چوڑیوں پر عموماً چوڑی گر ''لہریں'' بڑی چھوٹی یا نقشے اور چوکور نمونے کندہ کرتے ہیں۔
چوڑیوں کا شمار خواتین کے قدیم ترین زیورات میں ہوتا ہے، دنیا بھرمیں دریافت ہونے والے صدیوں پرانے کھنڈرات سے بھی چوڑیوں کے مختلف نمونے دریافت ہوئے۔
پہلے چوڑیوں کی تیاری کے لیے مٹی، ہاتھی دانت اور لکڑی کا استعمال کیا گیا پھر دیگردھاتوں کے کنگن بننے لگے۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت کانچ کی چوڑیوں کو حاصل ہوئی۔آج کی عورت کا بنائو سنگھار تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ کانچ کی چوڑیاں نہ پہن لے۔
برصغیر میں شادی شدہ عورت کی زندگی میں کانچ کے یہ نازک آبیگنے ''سہاگ'' کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی خواہش پر منفرد چوڑیوں کی تلاش میں حیدرآباد تک کا سفر کیا، جہاں کچھ کاری گروں نے پہلی بارکانچ کی انتہائی نفیس اور خوب صورت چوڑیاں تیار کر کے دربار میں مستقل اپنی جگہ بنالی۔ یوں یہ زیور خواص سے نکل کر عوام میں پہنچ گیا۔ چوڑیوں کی یوں تو بے شمار اقسام ہیںلیکن جو مقبولیت کانچ کی ان نازک چوڑیوں کو حاصل ہے وہ کسی کا مقدر نہیں۔
نزاکت کے احساس سے نتھی کانچ کی چوڑیاں سستی ہونے کے علاوہ اپنی مخصوص جھنکار کے باعث خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ سونے چاندی کی طرح ان کے کھونے، اور چرا لینے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی عمر کی خواتین کے لیے مخصوص ہیں، کم سن بچیوں سے لے کر نوعمر لڑکیوں، اورشادی شدہ سے لے کرمعمر خواتین تک ہر ایک کے لیے ہیں اور خوشی کا شاید ہی کوئی موقع ہو جو اس زیور کے بغیر مکمل تصور کیا جا سکتا ہو۔
کانچ کی چوڑیوں کی صنعت سب سے بڑے پیمانے پر حیدرآباد میں قائم ہیں، جہاں اس صنعت سے کم و بیش تین چار لاکھ افراد منسلک ہیں جو کہ کانچ کی چوڑیوں کو آٹھ مراحل سے گزار کر خواتین کی کلائیوں کی زینت بناتے ہیں، ان چوڑیوں کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے ان پر مائع سونا چڑھانے کا رجحان بھی ہے۔
چوڑیوں کی دیگر اقسام :۔
کڑے... سونے، چاندی، لوہے، ہاتھی دانت وغیرہ کے تیار کیے جاتے ہیں۔ راجھستان اور اندرون سندھ، پنجاب کے علاوہ تھر کی خواتین میں یہ بہت مقبول ہیں۔ یہاں کی خواتین لوہے، ہاتھی دانت، ہڈی، اسٹیل، پلاسٹک کے کام دار، نقش و نگار والے منقش کڑے اپنی پوری کلائیوںاور بازوؤں میں پہنتی ہیں۔
پنجہ... یہ عموماً دلہنوں کو پہنایا جاتا ہے۔ جس میں پانچ انگوٹھیاں ہوتی ہیں جو لڑیوں کے ذریعے کڑے سے منسلک ہوتی ہیں۔
چھاگل... چھاگل بھی چوڑی کی ایک قسم کا نام ہے، یہ سونے، چاندی، تانبے، پیتل اور لوہے کی چوڑی ہوتی ہے جو کہ کافی چوڑی اور چپٹی ہوتی ہے اس میں گھنگھرو لگے ہوتے ہیں۔
پہونچیاں... یہ بھی چوڑی کی ایک قسم ہے جو چھاگل سے مشابہہ ہوتی ہے اور چھاگل کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ چوڑی بھی ہوتی ہے کڑے نما اس چوڑی میں سونے، چاندی، تانبے، اسٹیل، کانچ، پلاسٹک وغیرہ کے بڑے بڑے موتی لٹک رہے ہوتے ہیں۔
نوگریاں... یہ چھاگل اور پہونچیاں کی طرح چوڑی نہیں بلکہ نسبتاً پتلی ہوتی ہیں۔ ''نوگریوں'' سچے نگینے کے چوکور پیس لگے ہوتے ہیں۔
موتی چیر... موتی چیر چوڑی سے مراد وہ چوڑی ہے جس میں چوڑی کو چپٹا کر کے یا تاروں میں موتی پرو کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ تار سونے، چاندی، تانبے اور پیتل کے بھی استعمال ہوتے ہیں جب کہ موتی بھی سچے اور نقلی دونوں ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ چوڑیوں کی دیگر اہم اقسام میں مختلف دھاتوںکی پٹی سے تیار کی جانے والی پیٹی چیرچوڑی بہت مقبول ہے،اس کے علاوہ کنگن چیر کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے، کنگن چیر ایک کٹاؤ دار ابھری ہوئی چوڑی ہے جس پر نقش و نگاری کی جاتی ہے ان چوڑیوں پر عموماً چوڑی گر ''لہریں'' بڑی چھوٹی یا نقشے اور چوکور نمونے کندہ کرتے ہیں۔