بچوں کا عہد بلوغت
جب بچہ پختگی کی طرف گام زن ہوتا ہے تو اسے بہت سے جسمانی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
اکثر والدین کو شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے جوان ہوتے بچوں کا موڈ بڑی تیزی سے بدلتا ہے۔
ابھی وہ اچھے خاصے خوش گوار موڈ میں تھے کہ اگلے ہی پل مارے غصے کے تلملا اٹھے۔۔۔ ان کے مزاج کا یہ تغیر اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ان کے اندر جوش مارتا خون ہر وقت انھیں کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتا رہتا ہے۔ ضروری ہے کہ بہ حیثیت والدین آپ اس سلسلے میں تحمل کا مظاہرہ کریںکیوں کہ ذرا سا تلخ ردِعمل جلتی پر تیل کا کام کر سکتا ہے۔
کھیلنے کودنے کی عمر سے نکل کر جب بچہ پختگی کی طرف گام زن ہوتا ہے تو اسے بہت سے جسمانی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ بچپن کی دہلیز پار کرتے ہوئے بچہ ڈپریشن، ہارمونز کی تبدیلی، تعلیم سے عدم دل چسپی یا حکم عدولی جیسے اہم مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ماہرین اس وقت کو والدین کے لیے خاصا اہم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب والدین کو اپنے بچے کی صحیح طور پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وقت ان کی کم عمری کی طرح غصہ دکھانے کا نہیں بلکہ پیار و محبت سے کنٹرول کرنے کا ہوتا ہے۔
ان کی سرگرمیوں پر اس انداز سے نظر رکھیں کہ انہیں محسوس بھی نہ ہو اور وہ کسی بری یا ناپسندیدہ سرگرمی میں بھی نہ پڑ یں۔ اس کے لیے آپ ان کے روز مرہ امور اور تبدیلیوں پر نظر رکھیںکہ کہیں اس میں کسی بری سرگرمی کا شائبہ تو نہیں۔ اگر آپ کا بلوغت میں داخل ہوتا چاق و چوبند بچہ اچانک نا پسندیدگی یا روزمرہ امور میں جوش وجذبے میں کچھ کمی کا مظاہرہ کرے تو والدین کو عمر کی نزاکت کے تحت پریشان یا متفکر ہونے کے بجائے اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے۔
نوجوانی میں ترجیحات بدلنے لگتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ چند دن پہلے تک اچھی لگنے والی چیز اب ناپسند ہو جائے یا اس کی پسندیدگی میں کمی آجائے، دراصل اس عمر میں دل چسپیوں میں پیدا ہونے والا تغیر ہی براہ راست مزاج کو متاثر کرتا ہے۔اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اس سے بات کریں انہیں کسی ایسی چیز میں مشغول کریں جو انہیں بہت مرغوب ہو، ممکن ہے اس کی پسند آپ کے مزاج کے خلاف ہو، مگر یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں، بہت ضروری ہے کہ ان کے احساسات کا خیال رکھیں۔ ان کی دل چسپیوں میں بھرپور حصہ لیں اور ان پر براہ راست تنقید نہ کریں۔
اگر آپ ان کے کھانے پینے میں عدم دل چسپی کا مشاہدہ کر رہے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان کی پسند نا پسند بھی اب بدل رہی ہو، جو چیز وہ شوق سے کھاتے تھے اب ان سے انکار کرنے لگے ہوں تو آپ کو اس کی نئی پسند کے بارے میں بھی آگاہی ہونا چاہیے۔ ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس عمر میں ان کے جسم کو کیسی اور کتنی خوراک کی ضرورت ہے۔
ذرائع ابلاغ کی چکا چوند بھی براہ راست اس عمر کے بچوں کو متاثر کرتی ہے اور وہ بلاسوچ دکھائی اور سنائی دینے والی چیزیںاختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے بتائیں کہ محض دیکھنے میں پرکشش چیزوں کی اصل حقیقت کیا ہے اور یہ ان کے لیے کس حدتک مفید یا غیر مفید ہیں۔
اس عمر کے دوران ان کے روزمرہ امور پر نظر رکھنے کی غرض سے ان کی جاسوسی کرنے سے گریز کریں۔ اس کی باتوں میں دل چسپی لے کر اسے زندگی میں توازن پیدا کرنا سکھائیں۔ منطقی طریقوں سے انہیں صحیح اور غلط کے بارے میں بتائیں۔ ان کے دوستوں پر بغیر کسی مضبوط وجہ کے کوئی تنقید نہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ اگر وہ کسی بھی مشکل صورت حال میں گرفتار ہیں تو اسے چھپائیں نہیں۔ اس پر الجھن میں مبتلا رہنے کے بجائے اس پر بات کریںتاکہ اس کا حل نکالا جاسکے۔ آپ کی بھرپور توجہ اور دوستانہ انداز اس پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
جذبات کی غلبہ پاتی اس عمرمیں بعض اوقات تعلیم کچھ کم اہم لگنے لگتی ہے یا سوچ کے زاویے بدلنے کی صورت وہ اپنی تعلیم کے حوالے سے الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے غلط مضامین کا انتخاب کرلیا یا انہیں دوسرے شعبے میں جانا چاہیے تھا۔
اس لیے اگر تعلیمی معیار میں اچانک کمی واقع ہونے لگے تو مجرمانہ برتائو سے گریز کریں کیوں کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ انہیں ہوم ورک اور تعلیمی مصروفیات بہت تھکا دینے والی محسوس ہوتی ہوں۔ یہاں بھی آپ کو صرف اسے تعلیم کی اہمیت اور اس طرف عدم توجہ کا احساس دلانا ہی مقصود ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی غفلت کا احساس کرتے ہوئے تعلیمی معیارکو برقرار رکھنے کی کوشش کریں یا اگر کچھ مشکلات ہیں تو ان پر بات کرے۔
عہد بلوغت میں نوجوانوں کے بدلتے مزاج اور والدین کی توقعات کے درمیان ایک طرح کا ٹکرائو سا پیدا ہونے لگتا ہے، ایک طرف والدین یہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اب بڑی ہو رہی ہے لہٰذا اسے اب ذمہ داری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تو دوسری طرف اس عمر کی تبدیلیوں کے باعث ان کے بچے کو ہم آہنگی میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اپنے والدین کی بڑھتی ہوئی توقعات کو پور انہیں کر پاتا، ایسی صورت حال میں اکثر والدین روایتی تلخی اور برہمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کی اولاد بھی سخت ردعمل دکھاتی ہے جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھنے لگتے ہیں لہٰذا والدین کو ان کے سرپرست کی حیثیت سے اس دور کی ضروریات اور مسائل کو سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ نئی نسل کی بنیادیں مضبوط بنائیں گے تب وہ بڑے ہو کر معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔
ابھی وہ اچھے خاصے خوش گوار موڈ میں تھے کہ اگلے ہی پل مارے غصے کے تلملا اٹھے۔۔۔ ان کے مزاج کا یہ تغیر اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ان کے اندر جوش مارتا خون ہر وقت انھیں کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتا رہتا ہے۔ ضروری ہے کہ بہ حیثیت والدین آپ اس سلسلے میں تحمل کا مظاہرہ کریںکیوں کہ ذرا سا تلخ ردِعمل جلتی پر تیل کا کام کر سکتا ہے۔
کھیلنے کودنے کی عمر سے نکل کر جب بچہ پختگی کی طرف گام زن ہوتا ہے تو اسے بہت سے جسمانی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ بچپن کی دہلیز پار کرتے ہوئے بچہ ڈپریشن، ہارمونز کی تبدیلی، تعلیم سے عدم دل چسپی یا حکم عدولی جیسے اہم مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ماہرین اس وقت کو والدین کے لیے خاصا اہم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب والدین کو اپنے بچے کی صحیح طور پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وقت ان کی کم عمری کی طرح غصہ دکھانے کا نہیں بلکہ پیار و محبت سے کنٹرول کرنے کا ہوتا ہے۔
ان کی سرگرمیوں پر اس انداز سے نظر رکھیں کہ انہیں محسوس بھی نہ ہو اور وہ کسی بری یا ناپسندیدہ سرگرمی میں بھی نہ پڑ یں۔ اس کے لیے آپ ان کے روز مرہ امور اور تبدیلیوں پر نظر رکھیںکہ کہیں اس میں کسی بری سرگرمی کا شائبہ تو نہیں۔ اگر آپ کا بلوغت میں داخل ہوتا چاق و چوبند بچہ اچانک نا پسندیدگی یا روزمرہ امور میں جوش وجذبے میں کچھ کمی کا مظاہرہ کرے تو والدین کو عمر کی نزاکت کے تحت پریشان یا متفکر ہونے کے بجائے اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے۔
نوجوانی میں ترجیحات بدلنے لگتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ چند دن پہلے تک اچھی لگنے والی چیز اب ناپسند ہو جائے یا اس کی پسندیدگی میں کمی آجائے، دراصل اس عمر میں دل چسپیوں میں پیدا ہونے والا تغیر ہی براہ راست مزاج کو متاثر کرتا ہے۔اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اس سے بات کریں انہیں کسی ایسی چیز میں مشغول کریں جو انہیں بہت مرغوب ہو، ممکن ہے اس کی پسند آپ کے مزاج کے خلاف ہو، مگر یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں، بہت ضروری ہے کہ ان کے احساسات کا خیال رکھیں۔ ان کی دل چسپیوں میں بھرپور حصہ لیں اور ان پر براہ راست تنقید نہ کریں۔
اگر آپ ان کے کھانے پینے میں عدم دل چسپی کا مشاہدہ کر رہے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان کی پسند نا پسند بھی اب بدل رہی ہو، جو چیز وہ شوق سے کھاتے تھے اب ان سے انکار کرنے لگے ہوں تو آپ کو اس کی نئی پسند کے بارے میں بھی آگاہی ہونا چاہیے۔ ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس عمر میں ان کے جسم کو کیسی اور کتنی خوراک کی ضرورت ہے۔
ذرائع ابلاغ کی چکا چوند بھی براہ راست اس عمر کے بچوں کو متاثر کرتی ہے اور وہ بلاسوچ دکھائی اور سنائی دینے والی چیزیںاختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے بتائیں کہ محض دیکھنے میں پرکشش چیزوں کی اصل حقیقت کیا ہے اور یہ ان کے لیے کس حدتک مفید یا غیر مفید ہیں۔
اس عمر کے دوران ان کے روزمرہ امور پر نظر رکھنے کی غرض سے ان کی جاسوسی کرنے سے گریز کریں۔ اس کی باتوں میں دل چسپی لے کر اسے زندگی میں توازن پیدا کرنا سکھائیں۔ منطقی طریقوں سے انہیں صحیح اور غلط کے بارے میں بتائیں۔ ان کے دوستوں پر بغیر کسی مضبوط وجہ کے کوئی تنقید نہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ اگر وہ کسی بھی مشکل صورت حال میں گرفتار ہیں تو اسے چھپائیں نہیں۔ اس پر الجھن میں مبتلا رہنے کے بجائے اس پر بات کریںتاکہ اس کا حل نکالا جاسکے۔ آپ کی بھرپور توجہ اور دوستانہ انداز اس پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
جذبات کی غلبہ پاتی اس عمرمیں بعض اوقات تعلیم کچھ کم اہم لگنے لگتی ہے یا سوچ کے زاویے بدلنے کی صورت وہ اپنی تعلیم کے حوالے سے الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے غلط مضامین کا انتخاب کرلیا یا انہیں دوسرے شعبے میں جانا چاہیے تھا۔
اس لیے اگر تعلیمی معیار میں اچانک کمی واقع ہونے لگے تو مجرمانہ برتائو سے گریز کریں کیوں کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ انہیں ہوم ورک اور تعلیمی مصروفیات بہت تھکا دینے والی محسوس ہوتی ہوں۔ یہاں بھی آپ کو صرف اسے تعلیم کی اہمیت اور اس طرف عدم توجہ کا احساس دلانا ہی مقصود ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی غفلت کا احساس کرتے ہوئے تعلیمی معیارکو برقرار رکھنے کی کوشش کریں یا اگر کچھ مشکلات ہیں تو ان پر بات کرے۔
عہد بلوغت میں نوجوانوں کے بدلتے مزاج اور والدین کی توقعات کے درمیان ایک طرح کا ٹکرائو سا پیدا ہونے لگتا ہے، ایک طرف والدین یہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اب بڑی ہو رہی ہے لہٰذا اسے اب ذمہ داری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تو دوسری طرف اس عمر کی تبدیلیوں کے باعث ان کے بچے کو ہم آہنگی میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اپنے والدین کی بڑھتی ہوئی توقعات کو پور انہیں کر پاتا، ایسی صورت حال میں اکثر والدین روایتی تلخی اور برہمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کی اولاد بھی سخت ردعمل دکھاتی ہے جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھنے لگتے ہیں لہٰذا والدین کو ان کے سرپرست کی حیثیت سے اس دور کی ضروریات اور مسائل کو سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ نئی نسل کی بنیادیں مضبوط بنائیں گے تب وہ بڑے ہو کر معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔