ایک اور اگست ایک اور دھرنا

نہ کرپشن محض عمران خان کا مسئلہ ہے اور نہ قصاص صرف طاہر القادری کا مسئلہ،بلکہ یہ عوامی مسائل ہیں جن کا حل سب چاہتے ہیں


اعزاز کیانی August 07, 2016
اگر حکومت عوام کے مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہوگی تو یہ دھرنے یوںہی ہوتے بھی رہیں گے اور عوامی طاقت انہیں کامیابی سے ہمکنار بھی کرواتی رہے گی۔ فوٹو: فائل

KARACHI: اقبال بھی کیا خوب کہہ گئے کہ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

پاکستان میں ماہ اگست کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اُس کی صرف ایک ہی وجہ ہے یعنی آزادی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس مہینے میں ہمیں ہر طرف سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں، قومی نغمے اور گیت دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں مگر سال 2015ء اور 2016ء کے ماہ اگست گزشتہ سالوں کے برعکس قدرے مختلف ہیں۔ سال 2015ء کے ماہ اگست میں بھی پاکستان کی دو سیاسی جماعتوں نے مختلف قومی اور ملکی معاملات پر ملک کے دارالحکومت اسلام باد میں دھرنے دیے، اور اب اِس سال بھی وہی دو جماعتیں ایک بار پھر اگست کے مہینے میں دھرنے دینے جارہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ برس جو دھرنا دیا تھا اُس کی وجہ سے عام انتخابات میں دھاندلی تھی، جب کہ اِس دھرنے کی وجہ پانامہ لیکس یعنی کرپشن اور ملکی پیسہ باہر بھجوانا ہے، اور اِس بار ہونے والے احتجاج کو 'تحریک احتساب' کا نام دیا گیا ہے۔ ابتدائی طور اپوزیشن کی تمام ہی جماعتوں نے حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی، اِس حوالے سے کمیٹی بھی بنی لیکن معاملہ افہام و تفہیم سے حل نہ ہوسکا، جس کے بعد عمران خان نے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کردیا جبکہ اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی حالات کا جائزہ لینے کے بعد کوئی حتمی اعلان کرے گی۔

چونکہ ملک میں بڑے مسائل میں کرپشن کا شمار بھی ہوتا ہے، جو صرف حکمراں نہیں کرتے بلکہ جس کو جب بھی موقع مل جائے وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتا ہے، اِس لیے عمران خان کا کرپشن کے خلاف احتجاج نہ صرف جائز ہے بلکہ قوم کی ترجمانی بھی ہے۔ اِس لیے خان صاحب کو چاہیے کہ وہ صرف نعرے اور لعن طعن کرنے کے بجائے اس تحریک میں کرپشن کے خاتمے کا ایک متبادل ضابطہ بھی حکومت کے سامنے رکھیں اور اُس ضابطے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں وگرنہ یہ دھرنا بھی محض ایک سیاسی دھرنا ہی کہلائے گا۔

دوسرا دھرنا ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے 'تحریک قصاص' کے نام پر دیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قصاص کی تحریک چلا رہے ہیں۔ جہاں تک اِس سانحہ کے شہدا کا تعلق ہے تو اِس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جہاں ایک طرف 14 افراد جان سے گئے تو درجنوں بچے، جوان، بوڑھے اور عورتیں زخمی ہوئے تھے، پھر دوسری طرف گلو بٹ کی شکل میں قانون کی ایسی دھجیاں اڑائیں گئیں کہ گلو بٹ توڑ پھوڑ کی علامت بن گئے اور 'گلوکریسی' کی ایک مستقل اصطلاح بھی وجود میں آگئی۔ اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے بھی ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے ذمے داروں کا بھی تعین کیا لیکن حسب روایت ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

پاکستان میں دھرنوں کی روایت کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے خود (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی مختلف ادوار میں دھرنے دی چکیں ہیں۔ لیکن اپنے دور حکومت میں نہ پیپلزپارٹی نے دھرنوں کو سنجیدہ نہیں لیا اور اب نہ (ن) لیگ کے طرز حکومت سے بھی ظاہر ہورہا ہے کہ انہیں اِن دھرنوں سے کچھ فرق پڑتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو وہ ضرور قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرتی۔

اگر پاکستانی معاشرے کا عبوری تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے بیسویں صدی کے پاکستان میں دو اہم مسائل تھے ایک آمریت اور جمہوریت کی آنکھ مچولی اور دوسرا کرپشن۔ لیکن پاکستان جب اکیسویں صدی میں داخل ہوا تو پہلا مسلہ یعنی آمریت کا خطرہ تو اب بہت حد تک ٹل چکا ہے اُس کی جگہ دہشت گردی نے لے لی ہے۔ لیکن دوسرا مسئلہ یعنی کرپشن جس کی بنیاد پر ماضی میں کہیں حکومتیں الٹی جاچکی ہیں، آج بھی جوں کا توں کا موجود ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کے نزدیک شاید یہ کوئی بڑا مسئلہ ہے ہی نہیں۔

پاکستان میں جب بھی دھرنوں یا احتجاج کی کال دی جاتی ہے تو حکومتی طبقہ نہ صرف بھرپور مخالفت کرتا ہے بلکہ اسے ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سے تعبیر بھی کردیتا ہے۔ اس بات میں کیا شبہ کہ دھرنوں سے ملک کو معاشی طور پر نقصان ہوتا ہے، کاروباری زندگی میں خلل آتا ہے، عام شہریوں کی معمول کی زندگی متاثر ہوتی ہے، اسکولوں، کالجوں، دفاتر اور دیگر اہم کام کاج کے لیے نکلنے والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ مگر حکومتی عہدیداروں اور سیاست دانوں کی یہ دلیل میرے نزدیک اس لیے باطل ہے کہ انہیں خود کرپشن کرتے وقت، اپنے گرد کرپٹ لوگوں کو جمع کرتے وقت، کرپٹ مافیا کو پناہ دیتے وقت، خود ٹیکس نہ دینے اور عوام پر بھاری ٹیکس لگاتے وقت، اہم سرکاری محکموں کی خستہ حالی میں بطور سربراہ رہتے ہوئے، اپنے عزیزوں کو نوازتے اور لوگوں کا حق مارتے وقت، اقتدار میں رہتے ہوئے عوام سے بے نیازی پر کیوں انہیں عوام کی مشکلات کا احساس نہیں ہوتا؟ اُس وقت کیوں عوامی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا؟ کیوں عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں کیا جاتا؟ کیوں عوام کے معمولات میں آسانیاں پیدا نہیں کی جاتی؟ حالانکہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سے قبل یہ سارے وعدے کیے جاتے ہیں۔ اِس لیے اگر حکومت عوام کے مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہوگی تو یہ دھرنے یوںہی ہوتے بھی رہیں گے اور عوامی طاقت انہیں کامیابی سے ہمکنار بھی کرواتی رہے گی۔ حکومت اگر واقعی دھرنوں کو ملکی راہ میں میں رکاوٹ سمجھتی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ کسی دوسرے فریق کی نشاندہی اور یاد دہانی کے بغیر اپنی ذمے داریوں کا احساس کرے۔ حکومت اگر احتساب کی خواں ہے تو کیوں آج تک احتساب شروع نہیں کیا جاسکا؟ حکومت اگر سب کو قانون کی نظر میں برابر جانتی ہے تو کیوں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے داروں کے خلاف دو سال بعد بھی کارروائی نہیں کی جاسکی؟ سچ تو یہ ہے کہ تمام دعوے محض وقت گزاری ہے اور وعدوں کی وہ قسم ہیں جن کی قسمت میں وفا ہونا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کرپشن محض عمران خان کا مسئلہ نہیں بلکہ احتساب پاکستانی قوم کی خواہش ہے، قصاص صرف ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ منسوب نہیں بلکہ ملک کے تمام بے گناہ مارے جانے والے شہریوں کو انصاف ملنا چاہیے۔

اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو فوری طور پر سب سے پہلے وزیر اعظم سمیت تمام اسمبلی ممبران کا احتساب کیا جائے اور اُس کے بعد دیگر سیاستدانوں، تاجروں اور عہدیداران کو اس کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اسی طرح تمام جرائم پیشہ افراد اور قاتلوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تبھی شفاف اور پُرامن پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں