آرٹس کونسل کو ایک قدم اور آگے آنا چاہیے
برصغیر کی تقسیم سے عوام میں جو نفرتیں پیدا ہوگئی تھیں ان نفرتوں کے خاتمے میں ادب اور شاعری نے بہت اہم کردار ادا کیا.
آرٹس کونسل کے زیر اہتمام دسمبر کے پہلے ہفتے میں اُردو کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا اقدام ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کیونکہ روشنیوں کا یہ شہر مدتوں سے قتل وغارت گری کے جن اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، ایسے شہر میں ادب اور ثقافت کے حوالے سے کیا جانے والا کوئی اقدام روشنی کی ایک کرن ہی کہلا سکتا ہے۔ غالباً اسی تناظر میں ہمارے بعض محترم ادیبوں نے اس کانفرنس کی تعریف کرتے ہوئے اسے ''محبت کا ایک پیغام'' کہا ہے اور کچھ دوستوں نے اسے تہوار کا نام دیا ہے۔
اُردو کانفرنس ایک وقتی تقریب ہے، اگرچہ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کانفرنس میں پاکستان ہی کے نہیں دنیا کے دوسرے ملکوں کے اکابرین بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایک طرح سے یہ کانفرنس ایک عالمی کانفرنس ہے، لیکن اس قسم کی دوسری کانفرنسوں کی طرح اس کی افادیت وقتی ہی کہی جاسکتی ہے۔ کانفرنس سے کچھ پہلے اور کانفرنس کے بعد چند دنوں تک اس کے چرچے رہیں گے اس کے بعد لوگ اسے اگلی کسی کانفرنس تک بھول جائیں گے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود اس قسم کی کوششوں کو خوف و دہشت کے اس سمندر میں ایک کنکری ضرور کہا جاسکتا ہے۔
ہم نے اپنے ایک کالم میں کتاب کلچر کے فروغ کے حوالے سے ایک تجویز پیش کی تھی کہ آرٹس کونسل کے منتخب لوگ اس بڑے ادارے میں جس کی صوبائی حکومت خصوصاً گورنر سندھ بھرپور سرپرستی کر رہے ہیں ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کیا جائے۔ جو پاکستان سمیت دنیا بھر کے ادب سے پاکستان کے آج کے حالات کے تناظر میں ادبی کتابوں کا انتخاب کرکے اس کے سستے ایڈیشن شایع کرے اور کیبن لائبریریوں کا وہ نظام قائم کرے جو قیام پاکستان کے بعد دو دہائیوں تک کراچی میں موجود رہا۔ ان کیبن لائبریریوں میں متحدہ ہندوستان کے بڑے ادیبوں کی وہ کتابیں دستیاب تھیں جو نوآبادیاتی نظام کی چیرہ دستیوں، تقسیم ہند کے المیوں اور طبقاتی استحصال کے تناظر میں لکھی گئی تھیں، ان کتابوں کی اور اس ادب کی اہمیت کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ گلی گلی میں موجود ان لائبریریوں سے کتابیں کرائے پر حاصل کرنے کے لیے دنوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اور دوسرے نصف کے ابتدائی سالوں میں لکھا جانے والا یہ ادب اس خطے کے عوام کی فکر اور رویوں میں تبدیلیاں لانے میں انتہائی موثر کردار ادا کرتا رہا، مذہب کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم سے عوام میں جو نفرتیں پیدا ہوگئی تھیں ان نفرتوں کے خاتمے میں ادب اور شاعری نے بہت اہم کردار ادا کیا، اس کی افادیت کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ کرشن چندر، پریم چند، عصمت چغتائی، جیلانی ، بانو، منٹو، حاجرہ، سردار جعفری، کیفی اعظمی جیسے کئی ادیب اور شاعر ہندوستان اور پاکستان میں یکساں طور پر مقبول تھے اورآج بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ادیبوں اور شاعروں نے رنگ و نسل، ذات پات، دین دھرم سے بالاتر ہوکر جو کچھ لکھا اس کا بنیادی نظریہ انسانوں کے درمیان محبت کا فروغ، تنگ نظری، تعصبات، طبقاتی استحصال کے خلاف اس خطے کے عوام میں فکری بیداری پیدا کرنا تھا جس میں بھرپور کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
آج ہندوستان اور پاکستان جن سماجی اور اقتصادی عذابوں میں لت پت کھڑے ہیں اور ان کے اِرد گرد کرپشن اور انتہا پسندی کے جو الاؤ بھڑک رہے ہیں اگرچہ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ اس خطے سے کتاب کلچر کا خاتمہ بھی ہے۔ ادب سے عوام کی لاتعلقی کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب عوام خاص طور پر نوجوان طبقہ انٹرنیٹ، فیس بُک، ٹی وی وغیرہ کے کلچر میں گم ہوگیا ہے، جہاں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں وہاں کتاب کلچر ختم ہوجاتا ہے۔
یہ ایک عذرلنگ ہے۔ مغربی ملکوں میں یہ میڈیا بہت عرصہ پہلے سے ترقی یافتہ رہا ہے لیکن ان ملکوں میں ادب آج بھی ہر گھر کی ضرورت بنا ہوا ہے۔ ہر گھر کے ماہانہ بجٹ میں کتابوں کی خریداری کا بھی ایک حصہ رکھا جاتا ہے۔ میڈیا کی مقبولیت کو کتاب کلچر کے خاتمے کی وجہ بتانا اپنی نااہلیاں چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اگر توجہ دے اور ادبی ادارے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ادب کے فروغ کے لیے کام کریں تو آج بھی ادب کو عام آدمی اور نوجوان کی زندگی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
کراچی کی بدترین صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے طرح طرح کے انتظامی اقدامات کیے جارہے ہیں، انتظامی اقدامات ہمیشہ جوابی جبر کی حیثیت رکھتے ہیں اور جبر خواہ وہ کسی صورت میں ہو مزاحمت کو جنم دیتا ہے۔ جہاں مزاحمت ہوگی وہاں ابتری میں اضافہ ہوگا، نفرتوں کا جواب نفرتوں سے جبر کا جواب جبر سے دے کر نہ نفرتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے نہ جبر کو، جو ہمارے شہر اور ملک میں بہیمانہ تشدد کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس فکری انارکی کوختم کرنے کے لیے ایک بامعنی فکری انقلاب کی ضرورت ہے اور ہمارے ادب میں فکری انقلاب برپا کرنے کی پوری پوری صلاحیتیں موجود ہیں۔
ہم نے منتخب عالمی ادب سے انتخاب کی بات اسی حوالے سے کی ہے کہ بڑے عالمی ادب کی بنیاد محبت، بھائی چارے پر استوار ہے۔ اگر کوئی ادارہ منتخب اعلیٰ ادب کو عوام میں بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کے لیے آگے آتا ہے تو وہ ایک ایسا بڑا کام سر انجام دیتا ہے جس کی افادیت نہ وقتی ہوتی ہے نہ واقعاتی بلکہ یہ کام ذہنوں کی تبدیلی کا اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک جاتے رہیں گے۔
اُردو کانفرنس کا اہتمام یقیناً ایک مفید کام ہے، لیکن ہمارا معاشرہ جن جن حوالے سے تقسیم کا شکار ہے ان میں ایک تقسیم زبان کی بھی ہے، اگرچہ زبان صرف ذریعہ اظہار ہے اس حوالے سے کسی زبان کی مخالفت تنگ نظری کے علاوہ کچھ نہیں، لیکن اس قسم کی تقسیم کو ہوا دینے والے محترم لوگ اُردو کانفرنس کو بھی اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اگر ہر زبان کے بہترین اور محبت و بھائی چارے پر مبنی ادبی کتابوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت کا اہتمام کیا جائے تو تعصب، تنگ نظری، انتہا پسندی، نفرت کو انسانی ذہنوں اور انسانی زندگیوں سے نکالا جاسکتا ہے۔
یہ بات غلط ہے کہ اب اچھا ادب لکھا نہیں جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اچھا ادب ہر زبان میں لکھا جارہا ہے۔ بھارت میں بہت اچھا ادب مختلف زبانوں میں لکھا جارہا ہے اور ایسے ادب کے فروغ کے لیے نہ صرف آرٹس کونسل جیسے اداروں کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے بلکہ حکومت اور ان حکمرانوں کو بھی آگے آنا چاہیے جو ادب کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ادب کی اسی حوصلہ افزائی سے بڑا ادب بھی سامنے آئے گا۔