نئی اردو تنقید کو ایک ہاون دستہ ایک کھرل مطلوب ہے
منٹو کے افسانوں کو دوبارہ پڑھا گیا۔ نئے نئے زاویوں سے پرکھا گیا۔ نئے نئے معنی نکالے گئے.
ہم نے دلی جا کر منٹو سال کو آخری سلام کر لیا۔ یہ پورا سال منٹو کو یاد کرتے گزرا تھا۔ چھوٹی بڑی کتنی تقریبیں ہوئیں۔ پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی۔ کتنے مقالے لکھے گئے' تنقیدی بھی تحقیقی بھی' سمجھ لیجیے کہ ایک اچھے خاصے لمبے وقفے کے بعد منٹو کو نئے سرے سے سمجھنے سمجھانے کی کوشش ہوئی اور یہ کوشش خوب پروان چڑھی۔
منٹو کے افسانوں کو دوبارہ پڑھا گیا۔ نئے نئے زاویوں سے پرکھا گیا۔ نئے نئے معنی نکالے گئے۔ سچ پوچھئے تو یہ جو ہم نے نئی ادبی روایت کے تین بڑوں کے سال تواتر کے ساتھ آگے پیچھے منائے ہیں، ان کی افادیت سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ صرف ان تین بڑوں کا مطالعہ نہیں ہوا بلکہ ان کے واسطے سے اردو ادب کی نئی روایت یعنی مابعد اقبال دور میں جس روایت کی نشوونما ہوئی، اس کا نئے سرے سے مطالعہ کیا گیا۔
جب دلی سے ساہتیہ اکیڈیمی کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا تو ہم نے جھر جھری لی۔ سوچا کہ اب تو یہ سال ختم ہونے لگا ہے۔ منٹو سال کی شاید یہ آخری تقریب ہے۔ تو چلو چل کر اس برس کو جو منٹو سے منسوب ہے آخری سلام کر لیں۔ اس 'ہم' میں کشور ناہید کو بھی شامل سمجھو' اور اصغر ندیم سید کو بھی' اور ہمارے نئے نقاد ناصر عباس نیّر کو بھی۔ وہاں جا کر ارد گرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ساہتیہ اکیڈمی میں اردو کے نام سے بھی چہل پہل ہونے لگی ہے، اس میں ان کی چیئرمین کا بھی تو ہاتھ ہے۔ خیر اب تو وہ چیئرمین نہیں ہیں۔ لیکن اردو کے حوالے سے تقریب ہو تو اب بھی سب سے بڑھ کر انھیں کا قدم نظر آتا ہے۔
تو سیمینار اپنے جوبن پر ہے۔ پہلا سیشن' دوسرا سیشن' تیسرا سیشن' مجال ہے کہ سانس لینے کا موقع ملے۔ مقالوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ان سے بڑھ کر تقریروں کا سلسلہ جاری ہے۔ تقریروں' مقالوں کا اتنا ہجوم ہے اور ہمارے صرف دوکان ہیں۔ دو کان کتنا کچھ سن سکتے ہیں اور حافظہ کہے سنے کو کتنی مقدار میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ خیر ہم نے اپنے ساتھیوں میں سے اصغر ندیم سید کو اور کشور ناہید کو اطمینان سے سن لیا۔ کشور ناہید کے ہاتھوں میں ثانیث کا علم ہے۔ یہاں بھی انھوں نے یہی مضمون چھیڑا اور منٹو کے افسانوں سے اسے برآمد کیا اور اب جو پاکستان میں عورتوں پر گزر رہی ہے، اس سے اس کا رشتہ ملایا۔
اصغر ندیم سید نے یہ ذکر چھیڑا کہ منٹو صاحب بمبئی میں جمے بیٹھے تھے۔ وہاں سے اکھڑ کر جب لاہور آ گئے تو ان پر کیا گزری۔ منٹو صاحب کے آخری ایام کی دکھ بھری داستان اور اصغر ندیم سید کا پر درد بیان۔
یہاں تک تو خیریت گزری مگر جب نئے نقاد میدان میں اترے اور منٹو کے افسانوں کی ساختیات پس ساختیات کرنی شروع کی تو سامعین نے کسمسانا شروع کیا۔ ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ وہ کیسا بھلا زمانہ تھا کہ جو آئیڈیالوجی آئی جو فلسفہ آیا اپنا ایک گلیمر ساتھ لے کر آیا۔ سرخ انقلاب آوے ہی آوے۔ کھڑا کھیل فرخ آبادی بات فوراً سمجھ میں آ جاتی تھی اور سمجھ میں نہ بھی آتی مگر دل میں اتر جاتی تھی۔ پھر سارتر صاحب وجودیت کا فلسفہ لے کر نمودار ہوئے۔ اس فلسفہ کا اپنا گلیمر تھا۔ ادیبوں دانشوروں نے اسے بھی اپنی بحثوں میں خوب ملا دیا۔
اب زمانہ اور ہے۔ مارکسسٹ' وجودیت' فرائڈ' یونگ سب پس منظر میں چلے گئے۔ اب نئی تھیوریز کا طوطی بولتا ہے۔ ساختیات' پس ساختیات' تشکیل' رد تشکیل' جدیدیت' پس جدیدیت' یہ نئے زمانے کے فلسفے ہیں۔ نئے نقادوں کو ان سے مفر نہیں۔ ادھر علی گڑھ سے ابوالکلام قاسمی اور شافع قدوائی ان نئے ہتھیاروں سے لیس آئے تھے۔ ادھر نوخیز نقاد مولا بخش نے ڈاکٹر نارنگ کا آنکھیں دیکھ رکھی تھیں، وہ بھی رواں ہو گئے۔ ادھر ہم پاکستانی مندوبین بھی نہتے نہیں تھے۔ ایک دانہ ہمارے پاس بھی تھا۔ ناصر عباس نیر' مگر ان کا پر از ساختیات مقالہ سننے کے بعد دوسرے سیشن میں یاروں نے اصرار کیا کہ منہ زبانی ہو جائے۔ جب منہ زبانی میں آ کر ان کی تنقیدی نظر کے جوہر کھلے اور خوب داد ملی۔ داد دینے والے کہہ رہے تھے کہ بس منہ زبانی بولا کرو۔
یہ داد نقاد کے لیے بیدا بن گئی۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ برادر دل مت چھوڑو۔ ایسا وقت تو غالب پر بھی آیا تھا۔ تم نے اس کا یہ پر درد شکوہ تو سنا ہو گا کہ؎
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائشں
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
آسان کہنے کی فرمائش کو ایک کان سنو دوسرے کان سے اڑاؤ۔ قلم کو رواں رکھو' وہ روانی کے عمل میں خود ہی منجھ جائے گا اور فلسفہ کو پانی کرنے کا ہنر سیکھ لے گا۔ آخر غالب نے بھی تو اسی طرح یہ ہنر سیکھا تھا۔ پھر کتنی سادگی پر اتر آئے۔ پوچھ رہے ہیں کہ؎
ابر کیا چیز ہے' ہوا کیا ہے
اور یہ کہ؎
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اس سادہ بیانی کا اپنا لطف ہے
اس لیے ہمیں خیال آیا۔ آگے ہمارے یہاں ہر گھر میں ایک ہاون دستہ ہوا کرتا تھا اور ہر عطار کی دکان پر ایک کھرل ہوتی تھی۔ یہ چیزیں کہاں گئیں۔ جو نقاد مغرب کے فلسفے اور تھیوریز کا مطالعہ کرتا ہے اس کے پاس ایک ہاون دستہ' ایک کھرل ضرور ہونی چاہیے۔ گٹھل فلسفوں اور ثقیل اصطلاحوں کو ان میں کوٹو پیسو اور اپنی زبان میں حل کر لو۔ خدا بخش ایسا کریں کہ نارنگ صاحب سے کھرل تھوڑے دنوں کے لیے عاریتاً لے لیں۔ پھر اس کا کرشمہ دیکھیں۔
اے لو ہم کدھر نکل گئے۔ ابھی تو ہمیں نارنگ صاحب کے خطبوں کا حق حساب کرنا تھا اور یہاں سے نبٹ کر بنگلور جانا تھا کہ وہاں خلیل مامون ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ وہاں بھی تو کرناٹک اردو اکیڈیمی نے ایک محفل سجا رکھی ہے۔
خیر نارنگ صاحب کے خطبوں کا خلاصہ پیش کرنے کی بدمزاقی تو ہم نہیں کریں گے۔ اچھی تحریر کا خلاصہ ہو سکتا ہے۔ اچھی تقریر کا خلاصہ نہیں ہو سکتا۔ بہر حال سیمینار خوب اور مرغوب تھا۔
منٹو کے افسانوں کو دوبارہ پڑھا گیا۔ نئے نئے زاویوں سے پرکھا گیا۔ نئے نئے معنی نکالے گئے۔ سچ پوچھئے تو یہ جو ہم نے نئی ادبی روایت کے تین بڑوں کے سال تواتر کے ساتھ آگے پیچھے منائے ہیں، ان کی افادیت سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ صرف ان تین بڑوں کا مطالعہ نہیں ہوا بلکہ ان کے واسطے سے اردو ادب کی نئی روایت یعنی مابعد اقبال دور میں جس روایت کی نشوونما ہوئی، اس کا نئے سرے سے مطالعہ کیا گیا۔
جب دلی سے ساہتیہ اکیڈیمی کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا تو ہم نے جھر جھری لی۔ سوچا کہ اب تو یہ سال ختم ہونے لگا ہے۔ منٹو سال کی شاید یہ آخری تقریب ہے۔ تو چلو چل کر اس برس کو جو منٹو سے منسوب ہے آخری سلام کر لیں۔ اس 'ہم' میں کشور ناہید کو بھی شامل سمجھو' اور اصغر ندیم سید کو بھی' اور ہمارے نئے نقاد ناصر عباس نیّر کو بھی۔ وہاں جا کر ارد گرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ساہتیہ اکیڈمی میں اردو کے نام سے بھی چہل پہل ہونے لگی ہے، اس میں ان کی چیئرمین کا بھی تو ہاتھ ہے۔ خیر اب تو وہ چیئرمین نہیں ہیں۔ لیکن اردو کے حوالے سے تقریب ہو تو اب بھی سب سے بڑھ کر انھیں کا قدم نظر آتا ہے۔
تو سیمینار اپنے جوبن پر ہے۔ پہلا سیشن' دوسرا سیشن' تیسرا سیشن' مجال ہے کہ سانس لینے کا موقع ملے۔ مقالوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ان سے بڑھ کر تقریروں کا سلسلہ جاری ہے۔ تقریروں' مقالوں کا اتنا ہجوم ہے اور ہمارے صرف دوکان ہیں۔ دو کان کتنا کچھ سن سکتے ہیں اور حافظہ کہے سنے کو کتنی مقدار میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ خیر ہم نے اپنے ساتھیوں میں سے اصغر ندیم سید کو اور کشور ناہید کو اطمینان سے سن لیا۔ کشور ناہید کے ہاتھوں میں ثانیث کا علم ہے۔ یہاں بھی انھوں نے یہی مضمون چھیڑا اور منٹو کے افسانوں سے اسے برآمد کیا اور اب جو پاکستان میں عورتوں پر گزر رہی ہے، اس سے اس کا رشتہ ملایا۔
اصغر ندیم سید نے یہ ذکر چھیڑا کہ منٹو صاحب بمبئی میں جمے بیٹھے تھے۔ وہاں سے اکھڑ کر جب لاہور آ گئے تو ان پر کیا گزری۔ منٹو صاحب کے آخری ایام کی دکھ بھری داستان اور اصغر ندیم سید کا پر درد بیان۔
یہاں تک تو خیریت گزری مگر جب نئے نقاد میدان میں اترے اور منٹو کے افسانوں کی ساختیات پس ساختیات کرنی شروع کی تو سامعین نے کسمسانا شروع کیا۔ ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ وہ کیسا بھلا زمانہ تھا کہ جو آئیڈیالوجی آئی جو فلسفہ آیا اپنا ایک گلیمر ساتھ لے کر آیا۔ سرخ انقلاب آوے ہی آوے۔ کھڑا کھیل فرخ آبادی بات فوراً سمجھ میں آ جاتی تھی اور سمجھ میں نہ بھی آتی مگر دل میں اتر جاتی تھی۔ پھر سارتر صاحب وجودیت کا فلسفہ لے کر نمودار ہوئے۔ اس فلسفہ کا اپنا گلیمر تھا۔ ادیبوں دانشوروں نے اسے بھی اپنی بحثوں میں خوب ملا دیا۔
اب زمانہ اور ہے۔ مارکسسٹ' وجودیت' فرائڈ' یونگ سب پس منظر میں چلے گئے۔ اب نئی تھیوریز کا طوطی بولتا ہے۔ ساختیات' پس ساختیات' تشکیل' رد تشکیل' جدیدیت' پس جدیدیت' یہ نئے زمانے کے فلسفے ہیں۔ نئے نقادوں کو ان سے مفر نہیں۔ ادھر علی گڑھ سے ابوالکلام قاسمی اور شافع قدوائی ان نئے ہتھیاروں سے لیس آئے تھے۔ ادھر نوخیز نقاد مولا بخش نے ڈاکٹر نارنگ کا آنکھیں دیکھ رکھی تھیں، وہ بھی رواں ہو گئے۔ ادھر ہم پاکستانی مندوبین بھی نہتے نہیں تھے۔ ایک دانہ ہمارے پاس بھی تھا۔ ناصر عباس نیر' مگر ان کا پر از ساختیات مقالہ سننے کے بعد دوسرے سیشن میں یاروں نے اصرار کیا کہ منہ زبانی ہو جائے۔ جب منہ زبانی میں آ کر ان کی تنقیدی نظر کے جوہر کھلے اور خوب داد ملی۔ داد دینے والے کہہ رہے تھے کہ بس منہ زبانی بولا کرو۔
یہ داد نقاد کے لیے بیدا بن گئی۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ برادر دل مت چھوڑو۔ ایسا وقت تو غالب پر بھی آیا تھا۔ تم نے اس کا یہ پر درد شکوہ تو سنا ہو گا کہ؎
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائشں
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
آسان کہنے کی فرمائش کو ایک کان سنو دوسرے کان سے اڑاؤ۔ قلم کو رواں رکھو' وہ روانی کے عمل میں خود ہی منجھ جائے گا اور فلسفہ کو پانی کرنے کا ہنر سیکھ لے گا۔ آخر غالب نے بھی تو اسی طرح یہ ہنر سیکھا تھا۔ پھر کتنی سادگی پر اتر آئے۔ پوچھ رہے ہیں کہ؎
ابر کیا چیز ہے' ہوا کیا ہے
اور یہ کہ؎
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اس سادہ بیانی کا اپنا لطف ہے
اس لیے ہمیں خیال آیا۔ آگے ہمارے یہاں ہر گھر میں ایک ہاون دستہ ہوا کرتا تھا اور ہر عطار کی دکان پر ایک کھرل ہوتی تھی۔ یہ چیزیں کہاں گئیں۔ جو نقاد مغرب کے فلسفے اور تھیوریز کا مطالعہ کرتا ہے اس کے پاس ایک ہاون دستہ' ایک کھرل ضرور ہونی چاہیے۔ گٹھل فلسفوں اور ثقیل اصطلاحوں کو ان میں کوٹو پیسو اور اپنی زبان میں حل کر لو۔ خدا بخش ایسا کریں کہ نارنگ صاحب سے کھرل تھوڑے دنوں کے لیے عاریتاً لے لیں۔ پھر اس کا کرشمہ دیکھیں۔
اے لو ہم کدھر نکل گئے۔ ابھی تو ہمیں نارنگ صاحب کے خطبوں کا حق حساب کرنا تھا اور یہاں سے نبٹ کر بنگلور جانا تھا کہ وہاں خلیل مامون ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ وہاں بھی تو کرناٹک اردو اکیڈیمی نے ایک محفل سجا رکھی ہے۔
خیر نارنگ صاحب کے خطبوں کا خلاصہ پیش کرنے کی بدمزاقی تو ہم نہیں کریں گے۔ اچھی تحریر کا خلاصہ ہو سکتا ہے۔ اچھی تقریر کا خلاصہ نہیں ہو سکتا۔ بہر حال سیمینار خوب اور مرغوب تھا۔