بے چارے اسٹریٹ چلڈرن
افسوس صد افسوس کہ ملک و قوم کا یہ بیش قیمت سرمایہ سڑکوں،گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پڑا ہوا ضائع ہورہا ہے
''سڑک چھاپ آدمی'' (Man in the Street) کی پرانی اصطلاح سے تو ہم سب بخوبی واقف تھے مگر اب کچھ عرصے سے ایک نئی اصطلاح "Street Children" کے نام سے رائج ہوئی ہے جس سے مراد وہ بچے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اور جو دن رات یوں ہی طفلانِ نا پُرساں کی صورت میں ہماری گلی کوچوں میں سگانِ آوارہ کی طرح دربدر خاک بسر نظر آتے ہیں۔ ان بے چاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ والدین انھیں جنم دے کر گردشِ حالات کے حوالے کرکے قطعی طور پر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اس پر ہمیں منفرد مزاح نگار پروفیسر غلام احمد فرقتؔ کاکویؒ (مرحوم) یاد آرہے ہیں جنہوں نے اس قبیل کے ماں باپ کے بارے میں فرمایا تھا کہ
بچے بھی ہم پیدا کریں
اور بیٹھ کر سوچا کریں
روٹی کہاں سے آئے گی
کپڑا کہاں سے آئے گا
گزشتہ عید پر ان بے سایہ مرجھائے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر دل بہت ملول ہوا۔ ایک طرف منہ میں سونے اور چاندی کے چمچے لے کر پیدا ہونے والے بڑے لوگوں کے بچے تھے جو زرق برق لباس زیب تن کیے اور امپورٹڈ جوتے پہنے ہوئے موج مستیاں کرتے پھر رہے تھے اور دوسری جانب کوڑے کے ڈھیر سے بھوکے پیٹ کے لیے ایندھن تلاش کرتے ہوئے یہ گدڑی کے لعل تھے جن کا کوئی پُرسان حال نہ تھا۔
دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ یہ بے آسرا نونہال غلاظت کے اس ڈھیر سے اپنے لیے رزق تلاش کر رہے تھے جس سے بدبو اور تعفن کے بھپکے پھوٹ رہے تھے، جس پر مکھیاں بُری طرح بھنبھنا رہی تھیں اور دیگر حشرات الارض کلبلاتے پھر رہے تھے۔ یہ اس ملک کے بچوں کا حال ہے جو خودکو اسلامی دنیا کی واحد اور پوری دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کہلانے پر فخر کرتا ہے اورجس کے لیڈروں کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں اور جن کا لُوٹا ہوا سرمایہ سوئس بینکوں کی تجوریوں میں بند پڑا ہوا ہے۔
شدید ترین احساس محرومی کا شکار ان بچوں میں کچرا اور ردی کاغذ چننے والے ایسے بے شمار بچے شامل ہیں کہ جنھیں اگر تھوڑی سی بھی سہولیات میسر آجائیں تو یہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت امراء و رؤسا کے نالائق لاڈلوں کو اتنا پیچھے چھوڑ دیں کہ وہ ان کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکیں۔ پھولوں سے بھی حسین ان معصوموں کو دیکھ کر ہمیں ابن انشاء (مرحوم) کی وہ خوبصورت شہرہ آفاق نظم یاد آگئی جس کا عنوان تھا ''یہ بچہ کس کا ہے؟''
ان میں سے نہ جانے کتنے بچوں کی آنکھوں میں بڑا آدمی بننے کے خواب سجے ہوئے ہوں گے اور اہلِ ثروت کے مراعات یافتہ بچوں کو دیکھ کر ان بے چاروں کے سینوں پر حسرتوں کے کیسے کیسے سانپ لوٹتے ہوں گے۔ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ان نونہالوں اور ہونہاروں کو دیکھ کر دل بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔''
افسوس صد افسوس کہ ملک و قوم کا یہ بیش قیمت سرمایہ سڑکوں،گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پڑا ہوا ضایع ہورہا ہے اور ہماری بے حس حکومت اور مادہ پرست معاشرے کو اس کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق کراچی میں اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
اپنے سنہرے خوابوں کو حقیقت کی تعبیر نہ دے پانے والے عدم توجہی اور جنسی تشدد کا شکار ان بچوں کو جرائم پیشہ لوگ نہایت آسانی کے ساتھ اچک کر اپنے چنگل میں پھنسا لیتے ہیں یا پھر یہ بدقسمت بڑا آدمی بننے کے چکر میں شارٹ کٹ اختیار کرتے ہوئے چوری چکاری، جیب تراشی یا منشیات فروشوں کی گرفت میں چلے جاتے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ خودکش حملہ آور ان بچوں کو اپنی توپوں کا ایندھن نہیں بنا رہے۔ ان اسٹریٹ چلڈرن کو اسٹریٹ کریمنلز(Street Criminals) بننے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟ احساسِ محرومی کا شکار یہ بچے اگر نفسیاتی مریض یا Addicts بن جائیں تو بھلا اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
اولاً حکومت اور ریاست پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ Street Children کے سنگین مسئلے پر فوری توجہ دے اور ان کا ایک مکمل سروے کرانے کا اہتمام کرے۔ اس کے بعد ان بچوں کی دیکھ بھال، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا ایک ادارہ قائم کرے جو ملک گیر ہو اور جس کی شاخیں تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں موجود ہوں۔ این جی او اور فلاح و بہبود کے متعدد ادارے بھی یہ فریضہ نہایت احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کام میں مخلص ہوں۔
پورے معاشرے کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کارخیر میں بھرپور تعاون کرے اور اپنا حصہ ڈالے۔ پاکستان سے اربوں کھربوں روپے کمانے والے مختلف تجارتی اداروں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس کام کے لیے اپنا دست تعاون ادا کریں۔ ہمارے میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ مخیر حضرات بھی حسب توفیق اس کام کا بیڑہ اٹھاسکتے ہیں اور ایسا کرکے ثواب دارین حاصل کرسکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی یہ بنیادی اور اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ نادار اسٹریٹ چلڈرن کے تمام مسائل کا جائزہ لے اور انھیں حل کرنے کی بے لوث اور پُرخلوص کوشش کرے۔ ان مفلوک الحال بچوں کی سرپرستی اور رہنمائی کرنا ہم سب کا دینی اور اخلاقی فرض ہے۔ اگر ان بچوں کی صلاحیتوں اور ذوق کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت کا معقول بندوبست کیا جائے تو صرف تھوڑی سی محنت کے بعد ان کے جواہر قابل نکھر نکھر کر ہمارے سامنے آسکتے ہیں اور یہ نونہال فعال اور اچھے شہریوں کے سانچے میں ڈھل کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد ملک و قوم کے لیے شاندار خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
نام نہاد بڑے لوگوں کے بچوں کے سروں پر کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوتے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر بچے نالائق اور غبی ہوتے ہیں اور زندگی کی راہ پر محض یہ سفارش کی بے ساکھیوں کے سہارے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں جن لوگوں نے انقلاب برپا کرکے دکھایا ہے اور اپنی قابلیت وہ اہلیت کا لوہا منوایا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر کا تعلق غریب اور مفلوک الحال گھرانے سے رہا ہے۔
اس ملک میں گزشتہ 65 سال سے صاف و شفاف اور اہل قیادت کے فقدان کا رونا رویا جارہا ہے اور ہر کوئی انقلاب کا راگ الاپ رہا ہے مگر انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک و قوم کی باگ ڈور روز اول سے اس مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں میں ہے جس نے قبضہ مافیا کی صورت میں ملک کے تمام وسائل پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ وسائل کی اس بندر بانٹ میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں، بیوروکریٹس، ٹیکنو کریٹس، فوجی افسران اور نام نہاد دین داروں سمیت تمام طبقات شامل ہیں۔ جمہوریت کے نام پر بدترین سول آمریت کا دور دورہ ہے اور Musical Chairs کا کھیل کسی صورت بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہمیں تو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ آیندہ انتخابات (اگر ہوئے) کے بعد کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہوگی اور یہی قبضہ مافیا کسی تبدیل شدہ صورت میں اقتدار پر دوبارہ قابض ہوجائے گا۔
بچے بھی ہم پیدا کریں
اور بیٹھ کر سوچا کریں
روٹی کہاں سے آئے گی
کپڑا کہاں سے آئے گا
گزشتہ عید پر ان بے سایہ مرجھائے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر دل بہت ملول ہوا۔ ایک طرف منہ میں سونے اور چاندی کے چمچے لے کر پیدا ہونے والے بڑے لوگوں کے بچے تھے جو زرق برق لباس زیب تن کیے اور امپورٹڈ جوتے پہنے ہوئے موج مستیاں کرتے پھر رہے تھے اور دوسری جانب کوڑے کے ڈھیر سے بھوکے پیٹ کے لیے ایندھن تلاش کرتے ہوئے یہ گدڑی کے لعل تھے جن کا کوئی پُرسان حال نہ تھا۔
دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ یہ بے آسرا نونہال غلاظت کے اس ڈھیر سے اپنے لیے رزق تلاش کر رہے تھے جس سے بدبو اور تعفن کے بھپکے پھوٹ رہے تھے، جس پر مکھیاں بُری طرح بھنبھنا رہی تھیں اور دیگر حشرات الارض کلبلاتے پھر رہے تھے۔ یہ اس ملک کے بچوں کا حال ہے جو خودکو اسلامی دنیا کی واحد اور پوری دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کہلانے پر فخر کرتا ہے اورجس کے لیڈروں کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں اور جن کا لُوٹا ہوا سرمایہ سوئس بینکوں کی تجوریوں میں بند پڑا ہوا ہے۔
شدید ترین احساس محرومی کا شکار ان بچوں میں کچرا اور ردی کاغذ چننے والے ایسے بے شمار بچے شامل ہیں کہ جنھیں اگر تھوڑی سی بھی سہولیات میسر آجائیں تو یہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت امراء و رؤسا کے نالائق لاڈلوں کو اتنا پیچھے چھوڑ دیں کہ وہ ان کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکیں۔ پھولوں سے بھی حسین ان معصوموں کو دیکھ کر ہمیں ابن انشاء (مرحوم) کی وہ خوبصورت شہرہ آفاق نظم یاد آگئی جس کا عنوان تھا ''یہ بچہ کس کا ہے؟''
ان میں سے نہ جانے کتنے بچوں کی آنکھوں میں بڑا آدمی بننے کے خواب سجے ہوئے ہوں گے اور اہلِ ثروت کے مراعات یافتہ بچوں کو دیکھ کر ان بے چاروں کے سینوں پر حسرتوں کے کیسے کیسے سانپ لوٹتے ہوں گے۔ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ان نونہالوں اور ہونہاروں کو دیکھ کر دل بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔''
افسوس صد افسوس کہ ملک و قوم کا یہ بیش قیمت سرمایہ سڑکوں،گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پڑا ہوا ضایع ہورہا ہے اور ہماری بے حس حکومت اور مادہ پرست معاشرے کو اس کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق کراچی میں اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
اپنے سنہرے خوابوں کو حقیقت کی تعبیر نہ دے پانے والے عدم توجہی اور جنسی تشدد کا شکار ان بچوں کو جرائم پیشہ لوگ نہایت آسانی کے ساتھ اچک کر اپنے چنگل میں پھنسا لیتے ہیں یا پھر یہ بدقسمت بڑا آدمی بننے کے چکر میں شارٹ کٹ اختیار کرتے ہوئے چوری چکاری، جیب تراشی یا منشیات فروشوں کی گرفت میں چلے جاتے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ خودکش حملہ آور ان بچوں کو اپنی توپوں کا ایندھن نہیں بنا رہے۔ ان اسٹریٹ چلڈرن کو اسٹریٹ کریمنلز(Street Criminals) بننے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟ احساسِ محرومی کا شکار یہ بچے اگر نفسیاتی مریض یا Addicts بن جائیں تو بھلا اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
اولاً حکومت اور ریاست پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ Street Children کے سنگین مسئلے پر فوری توجہ دے اور ان کا ایک مکمل سروے کرانے کا اہتمام کرے۔ اس کے بعد ان بچوں کی دیکھ بھال، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا ایک ادارہ قائم کرے جو ملک گیر ہو اور جس کی شاخیں تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں موجود ہوں۔ این جی او اور فلاح و بہبود کے متعدد ادارے بھی یہ فریضہ نہایت احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کام میں مخلص ہوں۔
پورے معاشرے کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کارخیر میں بھرپور تعاون کرے اور اپنا حصہ ڈالے۔ پاکستان سے اربوں کھربوں روپے کمانے والے مختلف تجارتی اداروں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس کام کے لیے اپنا دست تعاون ادا کریں۔ ہمارے میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ مخیر حضرات بھی حسب توفیق اس کام کا بیڑہ اٹھاسکتے ہیں اور ایسا کرکے ثواب دارین حاصل کرسکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی یہ بنیادی اور اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ نادار اسٹریٹ چلڈرن کے تمام مسائل کا جائزہ لے اور انھیں حل کرنے کی بے لوث اور پُرخلوص کوشش کرے۔ ان مفلوک الحال بچوں کی سرپرستی اور رہنمائی کرنا ہم سب کا دینی اور اخلاقی فرض ہے۔ اگر ان بچوں کی صلاحیتوں اور ذوق کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت کا معقول بندوبست کیا جائے تو صرف تھوڑی سی محنت کے بعد ان کے جواہر قابل نکھر نکھر کر ہمارے سامنے آسکتے ہیں اور یہ نونہال فعال اور اچھے شہریوں کے سانچے میں ڈھل کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد ملک و قوم کے لیے شاندار خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
نام نہاد بڑے لوگوں کے بچوں کے سروں پر کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوتے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر بچے نالائق اور غبی ہوتے ہیں اور زندگی کی راہ پر محض یہ سفارش کی بے ساکھیوں کے سہارے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں جن لوگوں نے انقلاب برپا کرکے دکھایا ہے اور اپنی قابلیت وہ اہلیت کا لوہا منوایا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر کا تعلق غریب اور مفلوک الحال گھرانے سے رہا ہے۔
اس ملک میں گزشتہ 65 سال سے صاف و شفاف اور اہل قیادت کے فقدان کا رونا رویا جارہا ہے اور ہر کوئی انقلاب کا راگ الاپ رہا ہے مگر انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک و قوم کی باگ ڈور روز اول سے اس مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں میں ہے جس نے قبضہ مافیا کی صورت میں ملک کے تمام وسائل پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ وسائل کی اس بندر بانٹ میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں، بیوروکریٹس، ٹیکنو کریٹس، فوجی افسران اور نام نہاد دین داروں سمیت تمام طبقات شامل ہیں۔ جمہوریت کے نام پر بدترین سول آمریت کا دور دورہ ہے اور Musical Chairs کا کھیل کسی صورت بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہمیں تو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ آیندہ انتخابات (اگر ہوئے) کے بعد کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہوگی اور یہی قبضہ مافیا کسی تبدیل شدہ صورت میں اقتدار پر دوبارہ قابض ہوجائے گا۔