وہ ایک روشن روایت کا بیج بو رہے ہیں
شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ظلم و بربریت نے قیامت ِصغریٰ برپا کردی ہے .
فضاء میں لاشوں کی بو بس گئی ہے۔ یہ اُڑتی دھول اوردھواں۔ طیارے بم برسا کر جاچکے ہیں،اب سناٹا ہے۔ ایک ماں رو رہی ہے۔ میرے جگرکا ٹکڑا جس نے مجھے ماں کے لفظ سے آشنا کیا، ہائے شہید ہوگیا ہے۔ تو کچھ دور ایک بوڑھا باپ آہ وزاری کر رہا ہے۔ وہ دیکھو! ایک غازی سر پہ صافہ باندھے کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ اپنے جسم کو زمین پر گھسیٹ رہا ہے۔ لیکن وہ مطمئن ہے کہ خدا نے اُسے غازی کے مرتبے پر فائز کیا۔ پھرجسم کی معذوری کیا معنی۔ مگر یہ حوّا کی بیٹیاں کون ہیں؟ ان کے چہرے وحشت زدہ کیوں ہیں؟ یہ زندہ ہیں لیکن جسم مردہ کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی غازی کہلائے یا کوئی شہید۔ لیکن یہ شکستہ حال عورتیں! نہیں نہیں، عورتیں نہیں ان میں کچھ نا بالغ لڑکیاں بھی ہیں۔ انھیں آخر کیا ہوا ہے جو یہ زندگی کی طرف نہیں لوٹتیں۔
شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ظلم و بربریت نے قیامت ِصغریٰ برپا کردی ہے۔ معصوم بچوں ، بوڑھوں کسی کو نہیں بخشا جا رہا۔ یہ کیسا امتحان ہے کہ اپنی ہی زمین پر رہنے کا حق مانگتے یہ لوگ انصاف کے لیے پکارتے ہیں، مگر ظلم کو حق بہ جانب ہونے کی سند دے دی جاتی ہے۔ مسلم اُمہ بیانات تک محدود ہے۔ ایک لمحے کے لیے کیا ہم تصوّر کر سکتے ہیں کہ کوئی فوجی جدید ہتھیار سے لیس ہمارے گھر میں داخل ہو اور نوجوانوں کو یرغمال بنالے، نومولود بچوں کو آگ میں ڈال دے اور عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ میرا قلم یہ لکھتے ہوئے بھی انکاری ہے تو تصور کیسا، کہ روح کانپ جاتی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے، جس کا سامنا آج شام کی عورتیں اور بچیاں کر رہی ہیں۔
دس ہزار سے زاید شامی پناہ گزین ترکی کے کیمپوں میں موجود ہیں، جہاں ہر دس میں سے تین خواتین کسی نہ کسی طور پر اس بربریت کا نشانہ بنی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق عصمت دری سے متاثرہ خواتین کی صحیح تعداد کا شمار ابھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے پناہ گزین کیمپوں میں موجود ڈاکٹرز، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور زندہ بچ جانے والے گواہوں سے معلومات لی جارہی ہے تاکہ شام کی فوج کی طرف سے کی گئی اس جارحیت اور حملے کی رپورٹ تیار کی جاسکے۔
یہ سب پہلی دفعہ نہیں ہورہا۔ جنگ کے دوران اپنے مخالفین کو مات دینے کے لیے خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تاکہ کسی قوم کی عزت و وقار کو پیروں تلے روند دیا جائے اور اُس میں دوبارہ مزاحمت کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا جائے۔ کیسی عجیب جنگیں ہیں اور کیا انسانیت ہے کہ عورتوں کو جبراً جسمانی غلامی کا نشانہ بنایا جائے۔ جنسی تشدد جنگ کا ایک ہتھیار ہے جسے مدِمقابل کی ہمت توڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن شام کے نوجوانوں نے الاسد حکومت کے اس گھٹیا حملے کا جواب دیا ہے اور اُن عورتوں بچیوں کو اپنانے کا اعلان کیا ہے، جو اس گھنائونے فعل کا نشانہ بنی ہیں۔
ایک نوجوان مصعب جانی ریاست میں موجود عصمت دری کی متاثرہ خواتین سے شادی کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے ''عزت اور وقار شام کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں ، اور ہماری خواتین ہماری عزت ہیں۔ یہ بات مخالفین اچھی طرح جانتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن لوگوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیا ہے۔''
عام طور پر کسی بھی مرد کے لیے ایسی متاثرہ خواتین کو اپنانا نہایت مشکل ہوتا ہے ، لیکن یہ نوجوان ایک ایسی روشن روایت کا بیج بو رہے ہیں، جو خصوصاً امُت مسلمہ کے لیے ایک مثالی عمل ہے۔
32سالہ بصام مصرے کہتا ہے، ''میری خواہش ہے کہ میں ان متاثرہ لڑکیوں میں سے کسی سے شادی کرنے کا اعزاز حاصل کرلوں ۔ میں اس اذیت سے تڑپ اٹھتا ہوں کہ شام کی عزت پر وار کیا گیا۔ لیکن اس وقت سوال ان معصوم لڑکیوں کے ساتھ کھڑے رہنے کا ہے۔''
میڈیا کے مطابق ان لڑکیوں میں زیادہ تعداد 15سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔ ترکی کی سرحد کے قریب گائوں میں مختلف مساجد میں اس سلسلے میں باقاعدہ وعظ دیے گئے ہیں اور یہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے کہ ''ہماری ہر بچی یا عورت جس پر مجرمانہ حملہ کیا گیا ہے، سے شادی کرنا کسی نوجوان مرد کے لیے ایک اعزاز اور تمغے سے کم نہیں۔ آپ ان سے محبت کریں ان سے شادیاں کریں ۔ یہ یقیناً انقلاب ہے۔ اپنی حدود کا خیال رکھیں تو خدا کی طرف سے ان نوجوانوں کو بہت اجر ملے گا۔''
میڈیا نے بہت کچھ دکھایا، مگر یہ خبر شاذونادر ہی شہ سرخیوں کا حصّہ بنی کہ خواتین اور بچیاں شام کے تنازعے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ ان کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا ہے۔
اقوام عالم نے شام کے مسئلے پر بیانات دیے۔ ظلم سے باز رہنے کی تنبیہ کی ۔ افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن یہ نوجوان عملی طور پر مؤذنِِ صبح ٹھہرے جو واقعتاً خوشیوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں، لیکن آج جب اسد حکومت کے بُزدل فوجیوں نے اُن کی عزت پہ وار کیا، تو اُنھوں نے اُسے اپنے لیے اختتام تصور کرنے کے بجائے نئی شروعات کی، سہارا دیا، زندگیاں بنائیں ۔
یہ ایک امید ہے کہ ہم اس جہالت اور درد کے بعد پھر سے ایک دوسرے سے محبت کریں۔ شام میں جہاں درد ہے، خوف ہے، بچوں کی لاشیں ہیں تباہ شدہ مکانات ہیں ۔ معذور مرد اور کتنے ہی ایسے خاندان ہیں جو سرپرستی سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہیں دوسری طرف مجھے ایک اُمید نظر آتی ہے، فتح دکھائی دیتی ہے ۔ ایک نئی ریاست کا منظر نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ شام کے عوام کی انسانیت سے اُمید اب بھی باقی ہے۔ شام میں عصمت دری کے واقعات اور بڑے پیمانے پر قتل کے بعد بھی طلوع صبح ہو رہی ہے، کیوںکہ بصام مصرے اور مصعب جانی جیسے مرد موجود ہیں۔ وہ اپنی قوم کی خواتین کے دکھ کو سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات کے خلاف ہیں کہ جنگ کے دوران خواتین کی عصمت دری اور بچوں پر تشدد کیا جائے۔ یہ ایک نا قابل قبول اور بھیانک گناہ ہے۔
میری یہ تحریر پیغام ہے شام کی اُن عورتوں کے لیے، جنھوں نے قربانی دی۔ وہ عظیم ہیں اور عزت کے قابل ہیں۔