اقوامِ متحدہ کی لاحاصل ماحولیات کانفرنس
ساری دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ نام نہاد اقوام ِ متحدہ کو انسانیت اور ماحولیات کی بہت فکر ہے۔.
ہر سال کی طرح اِس سال بھی اقوامِ متحدہ کی سالانہ ماحولیات کانفرنس دوحہ، قطر میں جاری ہے۔ یہ اِس سلسلے کی اٹھارویں کانفرنس ہوگی۔اُمید ِواثق ہے کہ گزشتہ سترہ لاحاصل کانفرنسوں کی طرح یہ بھی ایک شان دار لاحاصل کانفرنس ہو گی۔دیکھا یہ گیا ہے کہ اِس قبیل کی تمام تر کانفرنسیں ''نشستند،گفتند و برخاستند'' کی عمدہ تصویر ہوتی ہیں۔اِس کانفرنس میں دو سو ممالک کے سترہ ہزار سے زائد مندوبین شریک ہیں۔اِس قسم کی بے نتیجہ کانفرنسوں پر آنے والی لاگت ایک چھوٹے ملک کے سالانہ بجٹ کے نصف سے بھی زائد ہوا کرتی ہے۔
اِس رقم کے درست استعمال سے کسی خطے میں بھوک ،قحط یا ملیریا جیسا کوئی ایک مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکتا ہے۔1992ء ریو ڈی جنیرو میں ''ارتھ سمّٹ'' کے دوران''یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنوینشن اون کلائمیٹ چینج'' زمین کی بقا اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اِس کے تحت تحفظِ ماحولیات کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔اب تک کی سب سے نتیجہ خیزکانفرنس کیوٹو جاپان 1997ء میں منعقد ہوئی تھی۔161ممالک کے 10,000سے زائد مندوبین نے شریک ہو کر''کیوٹو پروٹو کول'' منظور کیا۔اِس معاہدے کی رُو سے ماحولیات کو برباد کرنے والی(گرین ہائوس گیسز) کا اخراج کم کرنا تھا۔ 37صنعتی ممالک اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ماحول بُرد (جی ایچ جی) گیسوں کے اخراج کو 1990ء کی سطح پر لے آئیں۔
یوں کچھ غیر حقیقت پسندانہ اور سطحی قسم کی باتیں طے کر کے دنیا بھر میں حسب ِ روایت اُس کا خوب ڈھول پیٹا گیا۔ ساری دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ نام نہاد اقوام ِ متحدہ کو انسانیت اور ماحولیات کی بہت فکر ہے۔ نیز وہ ماحولیات کو لاحق خطرات کا نہ صرف یہ کہ ادراک رکھتے ہیں بلکہ جلد ہی اُنہیں حل کر لینے والے ہیں۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دوحہ میں جاری کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام کانفرنسیں ناکام ترین ثابت ہوئی ہیں۔1990ء اور 92کے مقابلے میں زمینی ماحولیات کو آج کہیں زیادہ خطرات کا سامناہے۔ اور میرؔ کیا سادہ ہیں اُسی عطار کے لونڈے سے دوا کے طلب گار ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے۔جِن ممالک نے کارخانے اورگاڑیاں چلا چلا کر زمین کو مہلک گیسوں سے بھر دیا ہے اُنہی سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ۔اب معلوم نہیں کہ خود ''سادہ'' ہیں کہ دنیا کو ''سادہ'' سمجھتے ہیں۔
1988ء میں صدارتی امیدوارجارج ایچ ڈبلیو بُش نے اعلان کیا تھا۔''جو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کم زور ہیںگرین ہاؤس گیسز کے اثرات کا کچھ نہیں کر سکتے، اُنہیں ابھی وائٹ ہاؤس کے اثرات کا اندازہ نہیں۔ بہ طور صدر میں اس مسئلے کے حل کو اہمیت دوں گا۔'' اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ صدر بننے کے بعد، سینیٹ کو خط لکھتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ کیوٹو پروٹوکول میں بنیادی سُقم پائے جاتے ہیں۔اس میں چین اور بھارت کو بھی ذمے دارٹھہرانا چاہیے۔ اس سے امریکی معیشت شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ نیز اُن کا احساس ہے کہ اس ضمن میں سائنسی معلومات ادھوری ہیں۔
آپ یہ دیکھیے کہ صدر بنتے ہی کیسے اُنہوں نے بات بدل دی۔ وہی وائٹ ہاؤس جو ان کے خیال میں اتنا طاقت ور تھا کہ زمین کو ماحولیاتی خطرات سے نکال سکتا تھا کس طرح بے بس ہو گیا۔ اور مقطے میں آگئی ہے سخن گسترانہ بات ،یہ تو وہ بالکل ٹھیک کہہ گئے کہ اگر ماحولیات اور زمین کو بچانے کے چکر میں پڑ گئے توامریکی معیشت شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سائنس کے بارے میں انھوں نے اوٹ پٹانگ سی بات کیوں کہہ ڈالی۔واقعہ یہ ہے کہ بہت ہی کم معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر سائنسی میدان میں اس قدر کم اختلاف پایا جاتا ہو۔سائنس دان دو باتیں بہت ہی صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز ہی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ پچاس برس میں یہ اتنا زیادہ بڑھا ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔زمینی حرارت میں اضافے کا باعث انسان خود ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ اورمیتھین گیسوں کے اخراج نے زمین کی صاف ستھری فضا کو برباد کر دیا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ ہم آنے والی نسلوں کو کتنی زہریلی فضائیں دے کر جائیں گے۔سائنس دانوں کے اجماع کو '' سنتھیسس رپورٹ''سے جانا جا سکتا ہے ۔ ''انٹر گورنمنٹ پینل اون کلائمیٹ چینج'' کی رائے بھی یہی ہے۔خود امریکی حکومت کے ادارے '' یو ایس گلوبل چینج ریسرچ پروگرام'' کی رپورٹ کا خلاصہ بھی یہ ہی ہے۔ گزشتہ پچاس برس میں زمین کی ماحولیات اور فضا تیزی سے برباد ہوئے ہیں۔ درجہ حرارت ، سمندروں کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
قحط ،سیلاب، زلزلے اور سونامی تیزی سے آنے لگے ہیں۔کچھ ہی دن پیش تر آنے والے امریکی سیلاب ''سینڈی'' کے بارے میں بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ماحولیات برباد کرنے کی وجہ سے آیا۔ موجودہ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی انتخابی مہم کے اپنے بیان میں تو بڑی اچھی بات کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ''ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک ایسے امریکا میں رہیں جہاں انھیں زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی فکر نہ ہو''۔بہت اچھی فکر ہے لیکن محض خوب صورت الفاظ کے گولے داغنے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔
امریکا، چین،یورپی یونین اور بھارت وغیرہ صنعتی آلودگی، صنعتی فُضلے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیلا پھیلا کر زمین کو موت کی نیند سلانے جا رہے ہیں، صرف اچھی اچھی باتیں سنا کر تو یہ سب نہیں رک سکتا۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں پاکستان کی ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ اُسے دو اطراف سے دھواں اگلنے اور زمین برباد کرنے والے دو بڑے دیوگھیرے ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 14بلین امریکی ڈالرسالانہ کا نقصان محض ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کے سبب بھگتنا پڑتا ہے۔یہ ہماری جی ڈی پی کا تقریباً پانچ فی صد بنتا ہے۔پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات میں سے نوے فی صد آفات کا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔گزشتہ دو عشروں سے ان آفات میں ساٹھ فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیات کانفرنس اور اقوام ِ متحدہ ایک سراب کے پیچھے دوڑنے کی کوشش یا اداکاری کر رہے ہیں۔آج ساری دنیا کو اِس چکر میں لگا دیا گیا ہے کہ ایک چیز ہے غربت،اگر آپ کے پاس نئی کار ،بنگلہ، لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون،آئی پیڈ،بینک بیلنس وغیرہ نہیں ہے تو آپ ایک غریب آدمی ہیں۔ اورغریب ہونا بہت بری بات ہے۔آپ کو ترقی کرنی چاہیے ۔ تمام ممالک کو بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ آپ غربت دورکریں اور ترقی کریں۔ ترقی کرنے کے لیے صنعتیں لگائیں۔سرمایا داروں کو بلائیں۔ انھیں سہولیات دیں وغیرہ۔اب جب امریکا وغیرہ نے صنعتیں لگا لگا کر خوب ترقی کر لی تو اب کہہ رہے ہیں کہ آلودگی نہ پھیلاؤ۔کیاگاڑیاں موٹریں چلانا بند کر دیں؟ کیا کارخانے بند کر دیں؟ یہ ہو نہیں سکتا کیوں کہ جو ترقی کر چکے ہیں وہ پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔ جنہوں نے ترقی نہیں کی وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں۔
جان لیجیے کہ ہم نے، سائنس،صنعت اور ترقی کی جس راہ کا انتخاب کیا ہے اُس کی لازمی قیمت یہ زمین اور خود انسان ہے۔
اِس رقم کے درست استعمال سے کسی خطے میں بھوک ،قحط یا ملیریا جیسا کوئی ایک مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکتا ہے۔1992ء ریو ڈی جنیرو میں ''ارتھ سمّٹ'' کے دوران''یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنوینشن اون کلائمیٹ چینج'' زمین کی بقا اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اِس کے تحت تحفظِ ماحولیات کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔اب تک کی سب سے نتیجہ خیزکانفرنس کیوٹو جاپان 1997ء میں منعقد ہوئی تھی۔161ممالک کے 10,000سے زائد مندوبین نے شریک ہو کر''کیوٹو پروٹو کول'' منظور کیا۔اِس معاہدے کی رُو سے ماحولیات کو برباد کرنے والی(گرین ہائوس گیسز) کا اخراج کم کرنا تھا۔ 37صنعتی ممالک اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ماحول بُرد (جی ایچ جی) گیسوں کے اخراج کو 1990ء کی سطح پر لے آئیں۔
یوں کچھ غیر حقیقت پسندانہ اور سطحی قسم کی باتیں طے کر کے دنیا بھر میں حسب ِ روایت اُس کا خوب ڈھول پیٹا گیا۔ ساری دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ نام نہاد اقوام ِ متحدہ کو انسانیت اور ماحولیات کی بہت فکر ہے۔ نیز وہ ماحولیات کو لاحق خطرات کا نہ صرف یہ کہ ادراک رکھتے ہیں بلکہ جلد ہی اُنہیں حل کر لینے والے ہیں۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دوحہ میں جاری کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام کانفرنسیں ناکام ترین ثابت ہوئی ہیں۔1990ء اور 92کے مقابلے میں زمینی ماحولیات کو آج کہیں زیادہ خطرات کا سامناہے۔ اور میرؔ کیا سادہ ہیں اُسی عطار کے لونڈے سے دوا کے طلب گار ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے۔جِن ممالک نے کارخانے اورگاڑیاں چلا چلا کر زمین کو مہلک گیسوں سے بھر دیا ہے اُنہی سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ۔اب معلوم نہیں کہ خود ''سادہ'' ہیں کہ دنیا کو ''سادہ'' سمجھتے ہیں۔
1988ء میں صدارتی امیدوارجارج ایچ ڈبلیو بُش نے اعلان کیا تھا۔''جو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کم زور ہیںگرین ہاؤس گیسز کے اثرات کا کچھ نہیں کر سکتے، اُنہیں ابھی وائٹ ہاؤس کے اثرات کا اندازہ نہیں۔ بہ طور صدر میں اس مسئلے کے حل کو اہمیت دوں گا۔'' اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ صدر بننے کے بعد، سینیٹ کو خط لکھتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ کیوٹو پروٹوکول میں بنیادی سُقم پائے جاتے ہیں۔اس میں چین اور بھارت کو بھی ذمے دارٹھہرانا چاہیے۔ اس سے امریکی معیشت شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ نیز اُن کا احساس ہے کہ اس ضمن میں سائنسی معلومات ادھوری ہیں۔
آپ یہ دیکھیے کہ صدر بنتے ہی کیسے اُنہوں نے بات بدل دی۔ وہی وائٹ ہاؤس جو ان کے خیال میں اتنا طاقت ور تھا کہ زمین کو ماحولیاتی خطرات سے نکال سکتا تھا کس طرح بے بس ہو گیا۔ اور مقطے میں آگئی ہے سخن گسترانہ بات ،یہ تو وہ بالکل ٹھیک کہہ گئے کہ اگر ماحولیات اور زمین کو بچانے کے چکر میں پڑ گئے توامریکی معیشت شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سائنس کے بارے میں انھوں نے اوٹ پٹانگ سی بات کیوں کہہ ڈالی۔واقعہ یہ ہے کہ بہت ہی کم معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر سائنسی میدان میں اس قدر کم اختلاف پایا جاتا ہو۔سائنس دان دو باتیں بہت ہی صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز ہی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ پچاس برس میں یہ اتنا زیادہ بڑھا ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔زمینی حرارت میں اضافے کا باعث انسان خود ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ اورمیتھین گیسوں کے اخراج نے زمین کی صاف ستھری فضا کو برباد کر دیا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ ہم آنے والی نسلوں کو کتنی زہریلی فضائیں دے کر جائیں گے۔سائنس دانوں کے اجماع کو '' سنتھیسس رپورٹ''سے جانا جا سکتا ہے ۔ ''انٹر گورنمنٹ پینل اون کلائمیٹ چینج'' کی رائے بھی یہی ہے۔خود امریکی حکومت کے ادارے '' یو ایس گلوبل چینج ریسرچ پروگرام'' کی رپورٹ کا خلاصہ بھی یہ ہی ہے۔ گزشتہ پچاس برس میں زمین کی ماحولیات اور فضا تیزی سے برباد ہوئے ہیں۔ درجہ حرارت ، سمندروں کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
قحط ،سیلاب، زلزلے اور سونامی تیزی سے آنے لگے ہیں۔کچھ ہی دن پیش تر آنے والے امریکی سیلاب ''سینڈی'' کے بارے میں بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ماحولیات برباد کرنے کی وجہ سے آیا۔ موجودہ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی انتخابی مہم کے اپنے بیان میں تو بڑی اچھی بات کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ''ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک ایسے امریکا میں رہیں جہاں انھیں زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی فکر نہ ہو''۔بہت اچھی فکر ہے لیکن محض خوب صورت الفاظ کے گولے داغنے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔
امریکا، چین،یورپی یونین اور بھارت وغیرہ صنعتی آلودگی، صنعتی فُضلے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیلا پھیلا کر زمین کو موت کی نیند سلانے جا رہے ہیں، صرف اچھی اچھی باتیں سنا کر تو یہ سب نہیں رک سکتا۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں پاکستان کی ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ اُسے دو اطراف سے دھواں اگلنے اور زمین برباد کرنے والے دو بڑے دیوگھیرے ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 14بلین امریکی ڈالرسالانہ کا نقصان محض ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کے سبب بھگتنا پڑتا ہے۔یہ ہماری جی ڈی پی کا تقریباً پانچ فی صد بنتا ہے۔پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات میں سے نوے فی صد آفات کا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔گزشتہ دو عشروں سے ان آفات میں ساٹھ فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیات کانفرنس اور اقوام ِ متحدہ ایک سراب کے پیچھے دوڑنے کی کوشش یا اداکاری کر رہے ہیں۔آج ساری دنیا کو اِس چکر میں لگا دیا گیا ہے کہ ایک چیز ہے غربت،اگر آپ کے پاس نئی کار ،بنگلہ، لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون،آئی پیڈ،بینک بیلنس وغیرہ نہیں ہے تو آپ ایک غریب آدمی ہیں۔ اورغریب ہونا بہت بری بات ہے۔آپ کو ترقی کرنی چاہیے ۔ تمام ممالک کو بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ آپ غربت دورکریں اور ترقی کریں۔ ترقی کرنے کے لیے صنعتیں لگائیں۔سرمایا داروں کو بلائیں۔ انھیں سہولیات دیں وغیرہ۔اب جب امریکا وغیرہ نے صنعتیں لگا لگا کر خوب ترقی کر لی تو اب کہہ رہے ہیں کہ آلودگی نہ پھیلاؤ۔کیاگاڑیاں موٹریں چلانا بند کر دیں؟ کیا کارخانے بند کر دیں؟ یہ ہو نہیں سکتا کیوں کہ جو ترقی کر چکے ہیں وہ پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔ جنہوں نے ترقی نہیں کی وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں۔
جان لیجیے کہ ہم نے، سائنس،صنعت اور ترقی کی جس راہ کا انتخاب کیا ہے اُس کی لازمی قیمت یہ زمین اور خود انسان ہے۔