تعلیم انتظار میں
ہم نے پاکستان بنایا، کئی چیزیں اس کو وجود میں لانے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں جیسے لیڈر شپ، جذبہ اور تعلیم .
پاکستان کو بہتر بنانے کا صرف اورصرف ایک طریقہ ہے ''تعلیم'' ۔ہوسکتا ہے آپ کے ذہن میں کئی باتیں ہوں جو آپ کے حساب سے پاکستان کو بہتر بنانے کا حل ہیں، جیسے عمران خان کو پاکستان کا صدر بنادیا جائے یا لا اینڈ آرڈر یعنی پولیس کو بہترکیا جائے، ملک میں صنعت کا فروغ ہو، یا پھر ہمیں امپورٹ ایکسپورٹ پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ بہت سے حل ہیں سب ہی کے پاس آج پاکستان کو بدلنے کے لیے، لیکن کسی بھی حل کی کامیابی، صرف تعلیم ہے۔
گاڑی کے پرانے ٹائر جس پر پہلے ہی سے کئی پنکچر جوڑے جاچکے ہوں، بار بار پھٹنے اور پنکچر لگنے سے شاید کچھ دیر کے لیے صحیح کام کرتا نظر آئے، لیکن لمبے عرصے تک ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ٹائر بدلنا ہی گاڑی کی حفاظت اور چلتے رہنے کی گارنٹی ہوگی اور یہ ''نیا ٹائر'' ہماری قوم کے لیے ''تعلیم'' ہے۔ وہ تعلیم جو ہماری سوچ، ہمارے دماغ کو بدلے گی، ہمیں ایک بہتر قوم بنائے گی۔
امریکا یا انگلینڈ میں پانچ سال کا بچہ گاڑی میں بیٹھ کر چپس یا آئسکریم کھا کر اس کا ریپر باہر نہیں پھینکتا، اپنے ساتھ رکھتا ہے اور گاڑی سے اترنے کے بعد صحیح جگہ یعنی کچرے میں ڈالتا ہے، اسے معلوم ہے کہ اپنے شہر، اپنے ملک کو گندہ کرنا غلط ہے، لیکن ہماری قوم میں ایک پچاس سال کے سمجھدار صاحب جنھیں اپنے ملک سے بہت پیار ہے، پان کھا کر اس کا کاغذ سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور دل میں سوچتے ہیں، کاش میرا ملک بہتر ہوجائے، یہ ملک اس دن بہتر ہوگا جس دن ہم اپنی گاڑی سے کچرا باہر پھینک کر اپنے ملک ، اپنے شہر کو گندہ کرنا بند کردیں گے۔
ہم نے پاکستان بنایا، کئی چیزیں اس کو وجود میں لانے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں جیسے لیڈر شپ، جذبہ اور تعلیم۔ سرسید احمد خان نے سمجھا کہ کیوں ہماری قوم پیچھے رہ گئی ہے اور یہ کہ مسلمان قوم کو برصغیر میں آگے لانے کے لیے تعلیم اہم ہے، لوگ آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ان تحریکوں کی باتیں کرتے ہیں جو ہیں تو سو سال پرانی، لیکن ہمارے دلوں میں آج بھی تازہ ہیں، تعلیم سے وہ اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے آپ میں دنیا فتح کرنے کی ہمت آجاتی ہے، دماغ کھلتا ہے اور آپ خود کو بہتر انسان بناتے ہیں۔
پاکستان بنانے والے جذبے اور اعتماد کی آج ہماری قوم کو پھر ضرورت ہے، پھر ہمیں علی گڑھ یونیورسٹی والا ماڈل چاہیے، یعنی قوم کے نوجوانوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم دی جائے، جہاں لوگوں کو صرف بہتر نوکریوں کے لیے نہیں، لیڈر شپ کے لیے تیار کر رہے ہوں اور یہ موقع پاکستان کے پاس آج خود چل کر آیا ہے۔
پیسے سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتی ہیں، یہ آپ جانتے ہیں، لیکن پیسے سے بہت ساری ایسی چیزیں ہوسکتی ہیں جن کے نتیجے میں قوم کو بہت ساری خوشیاں حاصل ہوں اور اسی پیسے کا انتظام پاکستان کی ہائر ایجوکیشن کے لیے ورلڈ بینک نے کیا ہے۔
یہ پچھلے سال کی بات ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان کو تین سو ملین ڈالرز کا قرضہ ہائر ایجوکیشن کے لیے دینے کا فیصلہ کیا تھا، یہ قرض پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پچھلے سال کے شروع میں دینے کا فیصلہ ہوا تھا، لون کی شرائط میں ایک اہم بات یہ تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے فنانشل اور انتظامی ڈھانچے کو نہیں بدلے گی، پاکستانیوں سے کچھ بھی کروانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انھیں بتا دیا جائے کہ ''یہ کام نہیں کرنا چاہیے'' تو وہ فوراً کر گزرتے ہیں۔ پاکستانی ہونے کا ثبوت ہمارے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی دیا اور لون ابھی پاس بھی نہیں ہوا تھا کہ کمیشن نے کلیدی عہدوں پر فائز اپنے افسران کو بدلنا شروع کردیا جس سے میڈیا میں یہ بات آنے لگی کہ پاکستان کو ہوسکتا ہے یہ قرضہ نہ ملے۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ پچھلے مشہور امریکی شو ''سیسمی اسٹریٹ'' کا پاکستانی انداز ''سم سم بولے'' شروع ہوا تھا، یُو۔ایس کی کمپنی نے پانچ سال میں اس شو پر بیس ملین ڈالرز خرچ کرنے کا ارادہ بھی کیا تھا، شو شروع ہی ہوا تھا کہ امریکن کمپنی کو پاکستانی پروڈکشن ہاؤس کی شکایتیں ملنے لگیں اور انھوں نے بیچ میں ہی پروجیکٹ روک دیا۔ ہائر ایجوکیشن کی تبدیلیوں سے لگ رہا تھا کہ پاکستان میں آنے والے تین سو ملین آنے سے پہلے ہی کینسل ہوجائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور ستمبر 2011ء میں یہ لون منظور ہوگیا۔
آج ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے یہ لون منظور ہوئے، لیکن ہم اس دنیا میں آگے بڑھنے والی دوڑ میں کچھوے کی چال چل رہے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ اس دوڑ میں دوسرے ملکوں کے خرگوش نہیں ہم سو رہے ہیں۔
عوام میں اس تین سو ملین کے پروجیکٹ کو مئی 2012ء میں متعارف کیا گیا، جس میں کمیشن نے اٹھارہ ہزار ٹیچرز کی اسامیوں کو پوسٹ کیا۔ پاکستان کی جاب مارکیٹ کو دیکھ کر کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کسی بھی اسامی کے لیے سیکڑوں درخواستیں آئیں گی اور اگر اٹھارہ ہزار جابز ہوں تو یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوگی اور یہی ہوا۔ کمیشن کو ایک ساتھ سات لاکھ درخواستیں موصول ہوگئیں، اتنی درخواستوں کو کمیشن کیسے ہینڈل کرے؟ اس کا تو انھوں نے پلان ہی نہیں بنایا تھا، مئی جون میں بھیجی گئی درخواستوں کا کمیشن نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ کمیشن کے مطابق وہ مختلف کمپنیوں سے ''بڈس'' لے رہی ہیں جو ان سات لاکھ درخواست دہندگان کا ٹیسٹ لے کر بتائیں گی کہ ان میں سے کن اٹھارہ ہزار کو نوکریاں ملنی چاہئیں۔
کمیشن کو یہ پلاننگ جاب پوسٹنگ سے پہلے کرنی چاہیے تھی، کیوں کہ جو اس وقت پروجیکٹ کی رفتار چل رہی ہے تو یہ امتحان اگلے سال جون جولائی سے پہلے نہیں ہوگا، جب تک سات لاکھ درخواست دہندگان میں سے بیشتر دوسری نوکریوں پر لگ چکے ہوں گے۔
ہم اُمید کرتے ہیں ورلڈ بینک ہمارے اس عجیب و غریب طریقہ کار کو دیکھ کر اور ساتھ ہی کام کرنے کی رفتار کا اندازہ کرکے امریکن ٹی ۔وی کمپنی کی طرح ناراض ہوکر وہ تین سو ملین ڈالرز کا قرضہ منسوخ نہ کردے، کیونکہ ہمارے بہتر مستقبل کے لیے کسی بھی لون سے زیادہ ضروری یہ لون ہے۔