معراج محمد خان یاد گلی کے پھیرے
اس روز پریس کلب میں معراج محمد خان کا تعزیتی جلسہ نہ تھا۔
بچپن میں سوتے سمے کہانیوں کا چراغاں ہوتا۔ شہزادوں اور شہزادیوں کی، جنوں اور جادوگرنیوں کی کہانیاں۔ کہانی کہنے والی آواز ان جنگلوں اور بیابانوں کا بیان کرتی جن میں سفر کرنیوالوں سے کہا جاتا کہ مڑ کر نہ دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔ کہانی سنتے ہوئے میں اس مرحلے پر شور مچا دیتی۔ کیوں نہ مڑ کر دیکھیں۔ آخرکار اس دھمکی کے بعد کہ کہانی سنائی ہی نہیں جائے گی، مجھے ہتھیار ڈالنے پڑتے، لیکن ذہن سوال کرتا رہتا، ہم مڑ کر کیوں نہ دیکھیں۔
کراچی پریس کلب میں اس روز شام جب رات سے ملاقات کر رہی تھی، معراج محمد خان کی یادوں کا جشن تھا تو سب ہی مڑ کر دیکھ رہے تھے اور ان دنوں کو یاد کر رہے تھے جب کراچی انقلاب کے نعروں سے گونجتا ہوا شہر تھا۔ طلبہ اور مزدور تنظیمیں اس بات پر مصر تھیں کہ وہ ملک کو آمریت کے شکنجے سے آزاد کرا کے دم لیں گی اور دیو استبداد 'آدم بو... آدم بو...'' چنگھاڑتا ہوا کوچہ و بازار میں پھرتا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب معراج محمد خان، حسین نقی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی اور دوسرے طالب علم رہنما سماج بدلنے کی اور انقلاب لانے کی باتیں کرتے تھے۔
اس روز پریس کلب میں معراج محمد خان کا تعزیتی جلسہ نہ تھا۔ تعزیتی جلسے تو ان کے لیے ہوتے ہیں، موت جن کی زندگی کا باب بند کر دیتی ہے، معراج محمد خان کی سوچ، ان کا نظریۂ حیات آج بھی زندہ ہے، اس لیے میں تو یہی کہوں گی کہ اس روز خان صاحب کی یادوں کا جشن تھا اور ہم سب اپنی اپنی بساط بھر ان دنوں کو مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے جب یہ وہ شہر تھا جس سے لوگوں کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، یہ وہ دن تھے جب شہر مذہبی، مسلکی، لسانی، نسلی اور فقہی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہوا تھا۔ اس شہر میں مظلوموں کی اکثریت تھی اور ظالم مٹھی بھر تھے۔ آمریت ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھی اور اس شہر کے طلبہ ہتھیلی پر اپنی زندگی کے چراغ رکھ کر نکلے تھے۔
آج کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس رات خان صاحب کو جس محبت سے یاد کیا وہ سننے کی چیز تھی۔ انھوں نے کہا کہ خان صاحب محنت کرنیوالے ہاتھ کے حامی تھے جب کہ اس ہاتھ کے خلاف تھے جو مزدور کے حق پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ انھوں نے کہا: معراج محمد خان ایک عہد ساز شخصیت تھے، اگر ان کی باتوں پر عمل کر لیا جاتا تو ملک میں آج آپریشن ضرب عضب کی ضرورت نہ پڑتی۔ ملک میں جمہوریت کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق اور مکالمے کا حق تسلیم کیا جائے، مکالمہ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔
معراج محمد خان صرف شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کے ترجمان تھے، اس عہد میں بہت سے ایسے سیاسی کارکن تھے جنھوں نے جمہوریت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی، ان آوازوں میں سب سے طاقتور آواز اور جدوجہد معراج محمد خان کی تھی۔ وہ جبر کے خلاف للکار کی علامت تھے۔ 1970ء میں مارشل لا کے خلاف آواز بلند کرنے پر انھیں فوجی عدالت سے 6 سال سزا ہوئی، بھٹو کے دور میں وہ وزیر بھی رہے۔ ان کے پروٹوکول میں وہ شخص بھی شامل تھا جس نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی، اس پولیس افسر کو دیکھ کر معراج محمد خان مسکرائے اور کہا کہ میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے کہ پولیس یا تو میرے آگے یا پیچھے ہو گی۔
اس پولیس افسر کو کچھ کہنے کے بجائے انھوں نے اس کی خیریت دریافت کی، یہ ان کی اعلیٰ شخصیت کی دلیل ہے۔ معراج محمد خان ہمارا اثاثہ تھے، وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی جدوجہد اور اصول ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ پرویز رشید نے کہا کہ کچھ لوگوں نے خطے کے امن کو ہائی جیک کیا ہوا ہے جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آج ہمیں اپنی مسلح طاقت استعمال کرنا پڑ رہی ہے جن سے ملک کی درس گاہیں محفوظ ہیں اور نہ کوئی اور چیز۔ اگر 1970ء میں معراج محمد خان کو پابند سلاسل کرنے کے بجائے ان کی بات مان لی جاتی تو آج پاکستان میں امن تباہ کرنے والوں سے جان چھڑانے کے لیے مسلح طاقت استعمال نہ کرنا پڑتی۔
اس رات احفاظ الرحمن کی شعلہ بار تحریر مومن خان نے اتنے ہی شعلہ فشاں انداز میں سنائی۔ قومی محاذ آزادی کے اظہر جمیل، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک، جماعت اسلامی کے منور حسن، عمر بلوچ، منظور رضی، عبدالخالق جونیجو، انیس باقر، راشد ربانی، شیما کرمانی، بینا سرور، یوسف مستی خان ، حسام الحق، متقدا منصور اور دیگر بہت سے لوگوں نے معراج صاحب کو اور ان کی جدوجہد کو یاد کیا۔
انھوں نے اپنی زندگی کی ابتدا سیاست سے کی۔ ان کے بہت سے ساتھی طالب علم سی ایس ایس کر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بننے کے خواب دیکھتے تھے۔ ایسے زمانے میں خان صاحب اور بعض دوسرے آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے نکلے۔ اس جرم کی سزا میں ان پر جیل کے دروازے کھلے اور روزی روزگار کے دروازے بند ہوئے۔ وہ ان کے دوسرے ساتھی اتنے 'خطرناک' سمجھے گئے کہ انھیں شہر بدر کر دیا گیا۔
کسی بھی جمہوری سماج کے استحکام میں طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونین کے اراکین اور ادیب و شاعر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے ایوب خان کے دور سے جیل کی صعوبتیں سہیں لیکن کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں انھیں ایک عوامی رہنما نظر آیا، وہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر بھی ہوئے لیکن جلد ہی انھوں نے وزارت سے جان چھڑائی اور اس جدوجہد اور قید و بند کے دوران ان کی ایک آنکھ کی بصارت بھی چلی گئی۔
اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کراچی میں طلبہ تنظیموں کا بطور خاص ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کا زور تھا۔ مارشل لاء کا دیواستبداد بائیں بازو سے تعلق رکھنے اولوں کو جیل میں ڈال رہا تھا، کچھ کراچی بدر کیے جا رہے تھے، کچھ انڈر گراؤنڈ تھے، یہ لوگ گنتی میں کم تھے لیکن فوجی حکومتیں ان سے دہشت زدہ رہتی تھیں۔ بائیں بازو کے لوگوں کی جدوجہد روشن خیالی، جمہوریت، انصاف اور مساوات پر مبنی ایک ایسا سماج چاہتی تھی جہاں مرد اور عورت طلبہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کا حق ملے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آخر تک اپنے پیمان وفا سے سچے رہے۔ آج جب پاکستان پر انتہا پسندی، دہشتگردی، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کا نرغہ ہے، خان صاحب کی سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے آخری جلسے میں معراج محمد خان نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب کوئی قوم اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے، جب اقلیتوں کی مذہبی آزاد یاں نشانے پر ہوتی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ شہریوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے تو پھر انتہا پسند سر اٹھاتے ہیں اور ملک میں فرقہ واریت اور دہشتگردی کے ہتھیاروں سے وہ ملک اور قوم کو کمزور کر دیتے ہیں۔
اس روز انھوں نے کہا تھا کہ اگر ملک میں ترقی پسند سیاست کو فروغ ہوتا اور لوگوں کے درمیان نفرت اور تفرقہ پھیلانے کی بجائے انھیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا جاتا تو نہ انتہا پسند ہمارے یہاں غالب آ سکتے تھے اور نہ شیعہ سنی اور دوسرے فرقوں کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ سکتی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں اور نہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر لوگ قتل کیے جا سکتے تھے۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھی عمر بھر آمریت اور عقل دشمنی کے خلاف لڑائی لڑتے رہے۔ وہ چلے گئے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب کی سوچ کو عام کرنے کے لیے ان کے سب نظریاتی دوست بہم ہو کر ایک ایسی فاؤنڈیشن یا ٹرسٹ قائم کریں جو عقل دوستی اور سائنسی سوچ کو عام کرے۔
خان صاحب زندگی بھر ترقی پسندوں کو جوڑنے کی سیاست کرتے رہے، ان کے بعد رہ جانے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ترقی پسند سوچ کو اپنا بنیادی نکتہ مان کر اکٹھے ہوں اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں، اس وقت خرد دشمنی کی سیاہ گھٹا ہمارے سر پر تلی کھڑی ہے۔ جدال و قتال کو نصاب کا حصہ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، کیا اب بھی ہم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹے رہیں گے اور ایک ہمہ جہت خواب دیکھنے کی لذت سے محروم رہیں گے؟
کراچی پریس کلب میں اس روز شام جب رات سے ملاقات کر رہی تھی، معراج محمد خان کی یادوں کا جشن تھا تو سب ہی مڑ کر دیکھ رہے تھے اور ان دنوں کو یاد کر رہے تھے جب کراچی انقلاب کے نعروں سے گونجتا ہوا شہر تھا۔ طلبہ اور مزدور تنظیمیں اس بات پر مصر تھیں کہ وہ ملک کو آمریت کے شکنجے سے آزاد کرا کے دم لیں گی اور دیو استبداد 'آدم بو... آدم بو...'' چنگھاڑتا ہوا کوچہ و بازار میں پھرتا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب معراج محمد خان، حسین نقی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی اور دوسرے طالب علم رہنما سماج بدلنے کی اور انقلاب لانے کی باتیں کرتے تھے۔
اس روز پریس کلب میں معراج محمد خان کا تعزیتی جلسہ نہ تھا۔ تعزیتی جلسے تو ان کے لیے ہوتے ہیں، موت جن کی زندگی کا باب بند کر دیتی ہے، معراج محمد خان کی سوچ، ان کا نظریۂ حیات آج بھی زندہ ہے، اس لیے میں تو یہی کہوں گی کہ اس روز خان صاحب کی یادوں کا جشن تھا اور ہم سب اپنی اپنی بساط بھر ان دنوں کو مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے جب یہ وہ شہر تھا جس سے لوگوں کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، یہ وہ دن تھے جب شہر مذہبی، مسلکی، لسانی، نسلی اور فقہی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہوا تھا۔ اس شہر میں مظلوموں کی اکثریت تھی اور ظالم مٹھی بھر تھے۔ آمریت ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھی اور اس شہر کے طلبہ ہتھیلی پر اپنی زندگی کے چراغ رکھ کر نکلے تھے۔
آج کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس رات خان صاحب کو جس محبت سے یاد کیا وہ سننے کی چیز تھی۔ انھوں نے کہا کہ خان صاحب محنت کرنیوالے ہاتھ کے حامی تھے جب کہ اس ہاتھ کے خلاف تھے جو مزدور کے حق پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ انھوں نے کہا: معراج محمد خان ایک عہد ساز شخصیت تھے، اگر ان کی باتوں پر عمل کر لیا جاتا تو ملک میں آج آپریشن ضرب عضب کی ضرورت نہ پڑتی۔ ملک میں جمہوریت کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق اور مکالمے کا حق تسلیم کیا جائے، مکالمہ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔
معراج محمد خان صرف شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کے ترجمان تھے، اس عہد میں بہت سے ایسے سیاسی کارکن تھے جنھوں نے جمہوریت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی، ان آوازوں میں سب سے طاقتور آواز اور جدوجہد معراج محمد خان کی تھی۔ وہ جبر کے خلاف للکار کی علامت تھے۔ 1970ء میں مارشل لا کے خلاف آواز بلند کرنے پر انھیں فوجی عدالت سے 6 سال سزا ہوئی، بھٹو کے دور میں وہ وزیر بھی رہے۔ ان کے پروٹوکول میں وہ شخص بھی شامل تھا جس نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی، اس پولیس افسر کو دیکھ کر معراج محمد خان مسکرائے اور کہا کہ میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے کہ پولیس یا تو میرے آگے یا پیچھے ہو گی۔
اس پولیس افسر کو کچھ کہنے کے بجائے انھوں نے اس کی خیریت دریافت کی، یہ ان کی اعلیٰ شخصیت کی دلیل ہے۔ معراج محمد خان ہمارا اثاثہ تھے، وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی جدوجہد اور اصول ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ پرویز رشید نے کہا کہ کچھ لوگوں نے خطے کے امن کو ہائی جیک کیا ہوا ہے جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آج ہمیں اپنی مسلح طاقت استعمال کرنا پڑ رہی ہے جن سے ملک کی درس گاہیں محفوظ ہیں اور نہ کوئی اور چیز۔ اگر 1970ء میں معراج محمد خان کو پابند سلاسل کرنے کے بجائے ان کی بات مان لی جاتی تو آج پاکستان میں امن تباہ کرنے والوں سے جان چھڑانے کے لیے مسلح طاقت استعمال نہ کرنا پڑتی۔
اس رات احفاظ الرحمن کی شعلہ بار تحریر مومن خان نے اتنے ہی شعلہ فشاں انداز میں سنائی۔ قومی محاذ آزادی کے اظہر جمیل، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک، جماعت اسلامی کے منور حسن، عمر بلوچ، منظور رضی، عبدالخالق جونیجو، انیس باقر، راشد ربانی، شیما کرمانی، بینا سرور، یوسف مستی خان ، حسام الحق، متقدا منصور اور دیگر بہت سے لوگوں نے معراج صاحب کو اور ان کی جدوجہد کو یاد کیا۔
انھوں نے اپنی زندگی کی ابتدا سیاست سے کی۔ ان کے بہت سے ساتھی طالب علم سی ایس ایس کر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بننے کے خواب دیکھتے تھے۔ ایسے زمانے میں خان صاحب اور بعض دوسرے آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے نکلے۔ اس جرم کی سزا میں ان پر جیل کے دروازے کھلے اور روزی روزگار کے دروازے بند ہوئے۔ وہ ان کے دوسرے ساتھی اتنے 'خطرناک' سمجھے گئے کہ انھیں شہر بدر کر دیا گیا۔
کسی بھی جمہوری سماج کے استحکام میں طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونین کے اراکین اور ادیب و شاعر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے ایوب خان کے دور سے جیل کی صعوبتیں سہیں لیکن کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں انھیں ایک عوامی رہنما نظر آیا، وہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر بھی ہوئے لیکن جلد ہی انھوں نے وزارت سے جان چھڑائی اور اس جدوجہد اور قید و بند کے دوران ان کی ایک آنکھ کی بصارت بھی چلی گئی۔
اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کراچی میں طلبہ تنظیموں کا بطور خاص ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کا زور تھا۔ مارشل لاء کا دیواستبداد بائیں بازو سے تعلق رکھنے اولوں کو جیل میں ڈال رہا تھا، کچھ کراچی بدر کیے جا رہے تھے، کچھ انڈر گراؤنڈ تھے، یہ لوگ گنتی میں کم تھے لیکن فوجی حکومتیں ان سے دہشت زدہ رہتی تھیں۔ بائیں بازو کے لوگوں کی جدوجہد روشن خیالی، جمہوریت، انصاف اور مساوات پر مبنی ایک ایسا سماج چاہتی تھی جہاں مرد اور عورت طلبہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کا حق ملے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آخر تک اپنے پیمان وفا سے سچے رہے۔ آج جب پاکستان پر انتہا پسندی، دہشتگردی، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کا نرغہ ہے، خان صاحب کی سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے آخری جلسے میں معراج محمد خان نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب کوئی قوم اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے، جب اقلیتوں کی مذہبی آزاد یاں نشانے پر ہوتی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ شہریوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے تو پھر انتہا پسند سر اٹھاتے ہیں اور ملک میں فرقہ واریت اور دہشتگردی کے ہتھیاروں سے وہ ملک اور قوم کو کمزور کر دیتے ہیں۔
اس روز انھوں نے کہا تھا کہ اگر ملک میں ترقی پسند سیاست کو فروغ ہوتا اور لوگوں کے درمیان نفرت اور تفرقہ پھیلانے کی بجائے انھیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا جاتا تو نہ انتہا پسند ہمارے یہاں غالب آ سکتے تھے اور نہ شیعہ سنی اور دوسرے فرقوں کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ سکتی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں اور نہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر لوگ قتل کیے جا سکتے تھے۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھی عمر بھر آمریت اور عقل دشمنی کے خلاف لڑائی لڑتے رہے۔ وہ چلے گئے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب کی سوچ کو عام کرنے کے لیے ان کے سب نظریاتی دوست بہم ہو کر ایک ایسی فاؤنڈیشن یا ٹرسٹ قائم کریں جو عقل دوستی اور سائنسی سوچ کو عام کرے۔
خان صاحب زندگی بھر ترقی پسندوں کو جوڑنے کی سیاست کرتے رہے، ان کے بعد رہ جانے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ترقی پسند سوچ کو اپنا بنیادی نکتہ مان کر اکٹھے ہوں اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں، اس وقت خرد دشمنی کی سیاہ گھٹا ہمارے سر پر تلی کھڑی ہے۔ جدال و قتال کو نصاب کا حصہ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، کیا اب بھی ہم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹے رہیں گے اور ایک ہمہ جہت خواب دیکھنے کی لذت سے محروم رہیں گے؟