سائبر کرائم بل مخالفین اور پرنٹ میڈیا کو کچلنے کا نیا حکومتی حربہ

نیب قانون کے مطابق نیب کے ملزم کی کوئی عدالت ضمانت نہیں لے سکتی


رحمت علی راز August 07, 2016
[email protected]

آپ تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھ لیں، جب بھی ظالم حکمران عوام پر ظلم کرتے اور ان پر آخری دروازہ بھی بند کر دیتے ہیں تو لوگ بپھر کر سب و شتم کے حبس سے باہر نکل آتے ہیں اور پھر حال انقلابِ فرانس جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے قبل تو لوگ اپنا غصہ سوشل میڈیا پر آ کر نکال دیتے تھے، کوئی سڑکوں پر نہیں آتا تھا مگر اب سوشل میڈیا پر پابندی کے بعد صرف ایک واقعہ چاہیے، لوگ سیلاب کی طرح بپھر کر سڑکوں پر آ جائینگے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائبر کرائم بل وزیراعظم کے لیے اتنا پرخطر ثابت ہو گا کہ ان کا اقتدار تک بہا کر لے جائے گا۔ اب دُنیا میں کچھ بھی چھپانا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا، سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی کسی بھی زیادتی اور ناانصافی کے خلاف بڑی آسانی کے ساتھ آواز اٹھا سکتا ہے۔ اپنے ساتھ ہونیوالے کسی بھی ظلم و جبرکو بنا کسی رکاوٹ اور پابندی کے طشت ازبام لا سکتا ہے، اس پر احتجاج کرتے ہوئے اصل حقیقت دنیا پر آشکار کر سکتا ہے۔

پاکستانی ریاست کی ایماء پر عاقبت نا اندیش نادان عوامی نمائندوں نے عوام کے بنیادی شہری حقوق کی پامالی کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ایک ایسے قانون کو منظور کیا ہے، جو بظاہر تو سائبر کرائم کنٹرول قانون ہے مگر اس میں کچھ ایسے نقائص اور ابہام دانستہ چھوڑ دیے گئے ہیں جن کی آڑ میں حکمرانوں کے لیے نہ صرف اپنے جرائم چھپانا آسان ہو جائے گا بلکہ اظہار رائے اور اختلافِ رائے جیسے بنیادی شہری حقوق پر بھی حکومت کا کنٹرول مزید سخت ہو جائے گا، اب شہری سوشل میڈیا جیسے آسان ترین ذریعہ اظہار سے محروم ہو کر ذہنی اور فکری طور پر آزادیٔ اظہار کی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑ بند ہوجائینگے۔

سائبر کرائمز بل کے جائزہ کے بعد ایک ہی تاثر ذہن میں ابھرتا ہے کہ یہ متعفن قانون اظہار رائے کی آزادی کے ضمن میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا پلندہ ہے، یعنی اس کے تحت مذہب یا فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت کا پھیلانا تو جرم قرار دیا گیا ہے اور اگر کوئی لسانیت اور صوبائیت یا کسی بھی اور تعصب کے تحت نفرت پھیلائے تو یہ جرم نہیں ہو گا۔ اس کے مطابق جرم صرف اس نفرت کا فروغ ہے جو مذہب یا فرقہ واریت کی بنیاد پر پھیلائی جائے گی۔ بل کے تحت بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم ہے، یعنی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم نہیں ہے صرف بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم ہے۔

سوال یہ ہے کہ صرف بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم کیوں؟ عریاں تصاویر تو خواہ کسی کی بھی ہوں ان کی شیئرنگ پر پابندی ہونی چاہیے لیکن جب عقلِ سلیم کو زحمت دینے کی بجائے کاپی پیسٹ کے ذریعے قوانین بنیں گے تو ایسا ہی ہو گا۔ بل کے مطابق منفی مقاصد کے لیے ویب سائٹ بنانا جرم ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ منفی مقصد کیا ہوتا ہے، کچھ احباب لبرل ویب سائٹس چلا رہے ہیں، اسلام پسندوں کے نزدیک ہو سکتا ہے ان کا مقصد منفی ہو اور وہ ملک میں الحاد کا فروغ چاہتے ہوں جب کہ سیکولر احباب کے نزدیک ہو سکتا ہے مذہب پرستوں کا مقصد بھی منفی ہو اور وہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا فروغ چاہتے ہوں، اس تناظر میں اس مبہم اصطلاح کی تشریح آخرکون کریگا؟

غیراخلاقی سرگرمی بھی بل کے تحت جرم ہے لیکن غیراخلاقی سرگرمی کی وضاحت بھی نہیں کی گئی۔ یہاں یہ عرض ہے کہ اشرافیہ کے بگڑے صاحبزادگان شہروں میں اتنے مختصر پہناوے استعمال کرتے ہیں جو ظاہر ہے ان کی نگاہ میں اخلاقی کام ہو گا مگر گاؤں میں اسے معیوب اور غیراخلاقی تصور کیا جاتا ہے، اب اس بات کا تعین کون کریگا کہ غیراخلاقی کیا ہوتا ہے۔ کسی فرد کی تصویر اس کی مرضی کے بغیر شیئر کرنا بھی جرم ہے، یہاں صرف تصویر کی بات کی گئی ہے، یعنی کوئی صاحب چہرہ بگاڑے بغیر اور منفی کمنٹ دیے بغیر صرف کسی کی تصویر شیئر کر دیں تو جیل جائینگے۔ موبائل فون اور وائر لیس میں کوئی تبدیلی لانا بھی جرم ہے۔

سوال یہ ہے کہ تبدیلی سے کیا مراد ہے، موبائل فون میں کوئی پرزہ ڈلوانا بھی تو تبدیلی ہو سکتا ہے، یہ بل مبہم اصطلاحات سے بھرا ہوا ہے۔ ان اصطلاحات کی تشریح کون کریگا؟کہا تو یہ گیا ہے کہ اس کا تعین سائبر کورٹ کرینگے مگر بعد میں یقینی طور پر اس کی تفتیش بھی پولیس کے ہاتھ سے کروائی جائے گی جن کی دکانداری میں خوب اضافہ متوقع ہے۔ پارلیمنٹ کا حال تو یہ ہے کہ نیب کے قانون کو آج تک نہیں بدل سکی، صرف اچھل کود ہوتی رہتی ہے اور کارروائی ڈال دی جاتی ہے۔

نیب قانون کے مطابق نیب کے ملزم کی کوئی عدالت ضمانت نہیں لے سکتی، اسفند یار ولی اس کے خلاف عدالت چلے گئے، عدالت نے اس قانون کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیدیا، اس کے باوجود حکومت نے آج تک اس شق کو نہیں بدلا چنانچہ آج بھی کوئی عدالت نیب کے ملزم کی ضمانت نہیں لے سکتی۔ اعلیٰ عدالتوں پر ایک اضافی بوجھ آ گیا ہے اور اعلیٰ عدالتیں آرٹیکل 199 کی آئینی پٹیشن کے تحت ضمانت لیتی ہیں، حکومتوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ عدالتی معاملات کتنی مشکل سے چل رہے ہیں۔

سینیٹ کی جس کمیٹی نے سائبر قانون وضع کیا ہے اس کے سربراہ شاہی سید ہیں، معلوم نہیں انھوں نے کبھی فیس بک یا ٹوئیٹر استعمال کیا بھی ہے کہ نہیں کیونکہ جناب کا بنیادی تعارف ایک ٹرانسپورٹر کا ہے، قریب قریب یہی حال اس کمیٹی کے دیگر اراکین کا بھی ہے۔ یہ حضرات اگر سوشل میڈیا پر متحرک ہوتے تو شاید اس کی نزاکتوں کو بہتر جاننے کے قابل ہوتے۔ مجوزہ قانون کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات میں اضافہ تو کیا جا رہا ہے مگر اگر اس قانون سازی کے نتیجے میں انھیں اگر استثنیٰ مل جاتا ہے تو یہ بات اس بل کی اصل روح کے منافی ہوگی۔

بل کی شق 34 کے تحت پا کستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ جو مواد اسے غیرمناسب لگے وہ اسکو پاکستانی صارفین کے انٹرنیٹ سے ہٹا سکتی ہے۔ اس بل کے تحت کسی کی رضامندی کے بغیر کسی کو ٹیکسٹ میسج بھیجنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کو جرمانے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔ بل اسقدر غیر واضح ہے کہ یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ عدالت کا کیا اختیارہو گا اور تحقیقاتی اہلکاروں کے پاس کیا اختیارات ہونگے؟

ملزم کے کمپیوٹر یا انٹرنیٹ ڈیوائسزسے معلومات جمع کرنے کا اختیار کہیں عدالت کو دیا جا رہا ہے تو کہیں تحقیقاتی افسر کو، اس لحاظ سے تو بل میں کافی خامیاں نظر آ رہی ہیں۔ اسلام، پاکستان، ملکی سلامتی و دفاع اور بین الاقوامی تعلقات کو بنیاد بنا کر (جن کی واضح تعریف یا حدود متعین نہیں) کسی بھی قسم کا مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے اختیارات ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے سپرد کرنا اور شیئر کنندہ کے خلاف ریاستی قانون کے تحت کارروائی معصوم شہریوں کو خونخوار درندوں کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔

اس قانون میں پاکستان اور ملکی سلامتی کی سرکاری تعریف سے انحراف کرنیوالوں کی زباں بندی کا ایک حربہ بننے کے تمام تر امکانات موجود ہیں، اگر اسکو نہ روکا گیا تو یہ قانون یقینا ہمارے سکیورٹی اداروں کے لیے ایک ایسا حربہ اور ہتھیار بنے گا جو ان کے نکتہ نظر کے خلاف بولنے والوں کی زباں بندی کے لیے بڑی بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا جائے گا، سو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ قانون پاکستان میں سائبر مارشل لاء کی راہ پر پہلا قدم ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ اس بل کے آنے سے قبل ہی فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس اَپ کے دوستوں نے اپنے نام اور ایڈریس نئے ناموں سے بنانا شروع کر دیے تھے۔

اب وہ حکمرانوں کا ایسا حشر کرینگے جو وہ تاحیات یاد رکھیں۔ حکمران بھی بے مقصد کاموں میں اُلجھنے کی بجائے عوام کو درپیش گھمبیر مسائل پر خلوص نیت سے توجہ دیتے تو عوام ہر موقع پر ان کا ہی ساتھ دیتے، حکمرانوں کو تو اپنی غربت مٹانے سے ہی فرصت نہیں ملتی اور اب انھوں نے مخالفین کو کچلنے کے لیے نیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہو گا بلکہ ان کے دشمن انکو تضحیک کا نشانہ بنانے کے لیے نت نئے حربے استعمال کرینگے، یہ پھر سزا کس کو دینگے، کوئی ملے گا تو تب ہے نا۔ قومی اسمبلی میں یہ بل وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے پیش کیا تھا۔

پارلیمان میں تو یہ بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا جب کہ سینیٹ میں مسلم لیگ نون کی اکثریت نہ ہونے کیوجہ سے اس بل کا موجودہ صورت میں پاس ہونا ایک مشکل عمل لگ رہا تھا تاہم بل میں50 سے زائد ترامیم کرنے کے بعد سینیٹ نے بھی اسے منظور کر لیا حالانکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری نے اس پر شدید تحفظات ظاہر کیے تھے اور متذکرہ بل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے منظور نہ کرنے کی سفارش کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹرز بھی اس بل کی متعدد شقوں سے متفق نہیں ہیں۔

سینیٹ کی طرف سے مسودۂ قانون میں شامل کی جانیوالی ترامیم کے تحت سائبر کرائم قانون کے تحت خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ مجوزہ قانون کے تحت انٹرنیٹ کے ذریعے منافرت پر مبنی تقاریر اور فرقہ واریت پھیلانے پر سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جب کہ دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم پر 14 سال تک قید اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ کسی کی رضامندی کے بغیر تصاویر شایع کرنے اور بچوں سے زیادتی سے متعلق مواد بھی انٹرنیٹ پر جاری کرنیوالوں کے خلاف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

تجویز کیا گیا ہے کہ مقدمہ درج کرنے سے قبل خصوصی عدالت الزامات کی سماعت کریگی، اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ جج عالمی سطح پر سائبر جرائم سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کے طریقہ کار سے آگاہ ہوں، دوسرا یہ کہ منافرت پر مبنی تقاریر کو اس بل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے ورنہ یہ بل اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا آلہ بھی بن جائے گا حالانکہ ظاہراً یہ قانون مبینہ طور پرسیاسی مخالفین کے خلاف ہی استعمال ہو گا۔

بظاہر تواس قانون کے تحت شکایت درج ہونے کے بعد پہلے عدالت کے سامنے انکوائری افسر جائے گا اور عدالت ہی نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جرم سر زد ہوا ہے یا نہیں، اس کے بعد ہی وارنٹ جاری کیے جائینگے تاہم یہ ضمانت کون دیگا کہ سائبر کورٹس کے جج سیاسی نہیں ہونگے یا وہ کرپشن نہیں کرینگے؟

قانون نافذ کرنیوالے ادارے کا کوئی بھی افسر بنا کسی ثبوت کے آپکو کسی بھی وقت اٹھا کر لے جا سکتا ہے، وہ کسی بھی وقت ایک کورٹ آرڈر کا استعمال کر کے بنا کچھ ثابت کیے آپکو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے، آپکا لیپ ٹاپ/ موبائل یا کوئی بھی ڈیوائس کسی بھی وقت قبضے میں لے سکتا ہے، اگر تفتیشی افسر اس بات پر مطمئن ہے کہ کسی تفتیش کے لیے کسی ڈیوائس میں موجود معلومات کیس کی تفتیش کے لیے کار آمد ہو سکتی ہیں یا اس بات کا خدشہ ہے کہ کسی بھی سسٹم میں موجود معلومات ضایع ہو سکتی ہیں یا ان میں ترمیم ہونے کا اندیشہ ہے تو تفتیشی افسر ایک تحریری نوٹس کے ساتھ اس سسٹم کے مالک کو اس بات کا پابند کر سکتا ہے کہ اس سسٹم میں موجود معلومات اپنی اصل حالت میں رکھی جائیں، اس تحریری نوٹس کا دورانیہ 90 روز ہو گا، بہ ایں ہمہ اگر تفتیشی افسر درخواست کرے تو مجسٹریٹ کے حکم پر اس نوٹس کا دورانیہ 90 دن سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

اگر پی ٹی اے کو لگے گا کہ آپکی ویب سائیٹ ٹھیک نہیں یا ان کے پاس اس ویب سائٹ کے ٹھیک نہ ہونے کی وجہ ہے تو پاکستان میں آپکی ویب سائٹ بین ہو سکتی ہے اور اس بین کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ پی ٹی اے کے پاس ایک قانون موجودہو گا جس کی رُو سے آپکی سائٹ بلاک کی ہو گی۔ قانونی اعتبار سے تو پی ٹی اے ٹیلی کام سیکٹر کو ریگولیٹ کرنے کا ادارہ ہے نا کہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر مواد سے متعلق فیصلہ کرے، اس سے شہریوں کا فیس بک یا ٹوئٹر پر اپنی مرضی سے مواد شیئر کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔

اگر آپ سپیمنگ میں ملوث ہیں تو آپکو دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ہزاروں ایسے ادارے موجود ہیں جو بارہا ہزاروں افراد کو مارکیٹنگ کی غرض سے ای میل کرتے ہیں، ایسا کرنا سپیمنگ کہلاتا ہے، اگر آپکا شمار ان افراد میں ہوتا ہے تو اس بِل کے منظور ہونے سے پہلے ایسی حرکات ترک کر دینا بہتر ہو گا۔ کامکس (مزاحیہ مواد) بنا کر شایع کرنا آپکو نہ صرف جیل میںسڑا سکتا ہے بلکہ 10 لاکھ تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس پر کئی حضرات ہیں جو مختلف افراد کے کامک بناتے ہیں، ایسے کسی بھی کام کے نتیجے میں وہ قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 16 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے جو تعداد میں 3 کروڑ سے بھی کہیں زیادہ ہے جب کہ موبائل صارفین کی تعداد 13 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جن کی اکثریت اپنے موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے، تھری جی اور فور جی کی آمد کے بعد تو یہ تعداد اور بھی تیزی سے بڑھی ہے، جولائی میں تھری جی کے مزید لائسنس فروخت ہونے کی خبر بھی آ چکی ہے، ایسی صورتحال میں اس بل کے اثرات ہر پاکستانی شہری پر پڑینگے۔ اگر کوئی اشتہار ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھیجتا ہے تو اسے بھی سزا ہو سکتی ہے جو غیرضروری ہے، اس پر آئی ٹی سیکٹر نے حکومت سے احتجاج کیا ہے کہ اس پر قید کی سزا رکھنے کے بجائے جرمانہ رکھا جائے مگر حکومت نے مشاورت کے بعد بھی اسے تبدیل نہیں کیا۔

یہ عمل انتہائی قابلِ مذمت ہے کہ ریاستی اختیارات سے لیس بیوروکریٹ خود کو مفتی اور جج سمجھ کر کسی مواد کو اسلام، دفاعِ پاکستان، ملکی سلامتی، خود مختاری، حب الوطنی، عدالتی نظام، اخلاقیات اور سیاسی نظام کے خلاف سمجھ کر بلاک کر دیں اور پھر آپ سے کہیں کہ آئیں عدالت میں ثابت کریں کہ آپ نے جو لکھا وہ خلاف ِ قانون نہیں، یہ تو بادشاہت سے بھی بدتر صورتحال ہوئی، قانون کی آڑ میں ریاستی و نظریاتی آمریت کو جواز نہیں مہیا کیا جا سکتا، ریاست، قانون اور اداروں کا اپنا اپنا مقام اور دائرہ کار ہے، یہ فرد اور معاشرہ کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نا کہ انھیں دباتے اور ان پر جبر مسلط کرتے ہیں، قانون شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے نا کہ ریاست کے مفادات کا۔ سائبر کرائم بل بذاتِ خود انسانی حقوق پر مبنی فلسفۂ قانون کی روح سے انحراف کرتا ہے۔

بل کا تنقیدی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بل اس وقت پاس ہوا ہے، جب پاناما لیکس کا مسئلہ گرم ہے، اس کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا پر قدغن لگانا ہے کیونکہ حکومت کو اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات منظرعام پر آنے سے مشکلات در پیش ہیں۔ یہ بل جن لوگوں نے بھی تیار کیا ہے، انکو ڈیجیٹل دنیا اور اس کے موجودہ تقاضوں کا کوئی علم نہیں، ایسا قانون بناتے ہوئے اہم ویب سائٹس اور آن لائن سمیت تمام اخبارات کے مالکان و مدیران کی تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای کی آراء کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا بلکہ ان سے مشورے لینے چاہیے تھے۔

وطن کی نظریاتی اساس پر کسی کی بھی اجارہ داری نہ تو قبول کی جا سکتی ہے اور نہ ہی من و عن تسلیم کی جا سکتی ہے، اسی طرح روایات یا مذہب کے نام پر کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا، دنیا کی تمام ترقی عام روش سے ہٹ کر نظریات، افکار اور روایات کو چیلنج کرنے یعنی اختلافِ رائے کی مرہونِ منت رہی ہے، اظہارِ رائے کے مواقع فراہم کرنا ہی معاشرے کی بقاء کی ضمانت ہے لہٰذا ایک جمہوری حکومت کے دور میں سائبر کرائم جیسا متنازعہ بل خود جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔

سائبر کرائمز بل غلطیوں اور تضادات کا مجموعہ، بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے متصادم، غیرجمہوری ہے اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، اس سے پاکستان میں گھٹن کا ماحول پیدا ہو گا اور عوام، جو پہلے ہی پریشان ہیں، کی مایوسی آخری حد تک پہنچ جائے گی۔ کئی عرب ممالک انٹرنیٹ پر غیرضروری پابندی کا خمیازہ بھگت چکے ہیں چنانچہ یہاںیہ تجربہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس قانون کی منظوری میں غیرضروری جلدی، شراکت داروں کی رائے کو نظرانداز کرنا، متفقہ فیصلوں کی پامالی اور خاموشی سے اس میں مختلف سنگدلانہ دفعات کی شمولیت عجلت کو ظاہر کرتا ہے۔

عوام کرپشن اور ظلم کی نشاندہی اور انصاف کے حصول کے لیے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں جو اس آخری ذریعے سے بھی محروم ہو جائینگے، اس قانون کے بعد انٹرنیٹ کے کروڑوں صارفین موجودہ ناکام اداروں کے رحم وکرم پر ہونگے، معمولی غلطی یا اتفاق کے نتیجے میں نوجوانوں پر بھاری جرمانے اور طویل قید قابلِ قبول نہیں۔ پاکستان میں بعض خفیہ ایجنسیاں کسی قانون کے تحت نہیں آتیں اور حکومت کو ان ہی سے سائبر جرائم کی تحقیق میں مدد کے لیے رجوع کرنا پڑیگا جو کہ درست فیصلہ نہیں لگتا اور نہ ہی یہ بل تشدد کے ذریعے تحقیقات کا راستہ روکتا ہے، اس میں تحقیقاتی افسر کی جانب سے قانون کے غلط استعمال کے الزام میں بھی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جواز بنا کر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو غیرمعمولی اختیارات نہیں دینے چاہییں، پولیس کو بھی ان کے اختیارات کے متعلق بلیک اینڈ وائٹ میں بتایا جانا چاہیے کیونکہ کوئی بھی ابہام، قانون کے غلط استعمال کی وجہ بن سکتا ہے۔ پولیس، ایف آئی اے، انصاف کی صورتحال اور دیگر اداروں کا حال سب کو معلوم ہے، اس وقت ملک کے کسی ادارے میں انٹرنیٹ کو صحیح معنوں میں مانیٹر کرنے کی استعداد نہیں، پہلے ان اداروں کی استعداد بڑھائی جائے یا کوئی نیا ادارہ قائم کیا جائے، اس کے بعد ہی سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔

یہ قانون سب سے پہلے اپنے بنانے والوں کو ہی ڈسے گا، اس میں اتنی شدت ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی تبصرہ، تنقید، ریاست کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا، بلاجواز گرفتاریاں، قیدوبند عوام کا مقدر بن جائینگی، اظہارِ رائے کی آزادی ایک جرم بن جائے گا، فکری آزادی ناپید ہو جائے گی اور آزادیٔ اظہار کا گلا گھٹنے پر پورا ملک خانہ جنگی میں تبدیل ہو جائے گا۔ سائبر کرائم کنٹرول بل کے نفاذ کے بعد انٹرنیٹ پر سیاسی تنقید کرنا اب جرم تصور کیا جائے گا جو بنیادی انسانی حقوق کے صریحاً منافی ہے، یہ بل انٹرنیٹ کے صارفین، آئی ٹی کی صنعت اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے بھیانک قانون ثابت ہو گا۔

پروٹیکشن آف سائبر کرائم بل2015ء بظاہر تو سائبر جرائم کی روک تھام کا قانون ہے مگر اصل میں یہ بل سوشل میڈیا پر ریاست کا کنٹرول ہے۔ جو ترامیم اس وقت تک اس بل میں شامل نہیں ہیں انھیں بھی اس بل کا حصہ بنایا جائے، بھلے ہی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی یہ یقین دلا رہی ہے کہ مسودئہ قانون میں اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مجوزہ سائبرکرائم بل در حقیقت سیاسی مخالفین کی سوشل میڈیا پر بے پناہ موجودگی کو ختم کرنے کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے جس میں دیگر شقوں کا دخول تو محض برائے نام ہی ہے جب کہ اس کا بنیادی مقصد حکومت کے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہے، چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ مجوزہ قانون دھرنے کا راستہ اپنانے والی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا پر متحرک جنونی جیالوں کے خلاف مؤثر ہتھیار کے طور پر سامنے آئیگا، ابھی وقت ہے پوری قوم اپنا اور اپنی آیندہ نسلوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لیے اس سفاک سائبرکرائم بل کے خلاف یک زبان ہو کر پوری تندہی سے آواز بلند کرے، اگر یہ قانون بن گیا تو پاکستان کا حال ایران اور سعودی عرب سے بھی برا ہو گا۔

ہم حکمرانوں کو مخلصانہ مشورہ دینگے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے بے مقصد کاموں میں نہ الجھیں۔ حکمران پانامہ لیکس سے عوام کی توجہ ہٹانے کے بجائے ان کی بہتری اور خوشحالی کے لیے کام کریں اور عوام کو پانامہ پیپرز کے حوالے سے مطمئن کرینگے تو ہی ان کی جان چھوٹے گی۔ آخر میں ہمارے ایک قاری وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ محمداسلم بھٹی کا خط، جو وہ ہمارے توسط سے اربابِ اختیار تک پہنچانا چاہتے ہیں، وہ رقمطراز ہیں: 3 جون 2016ء کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2016-17ء میں بزرگ پنشنرز پر جو احسانِ عظیم فرمایا ہے جس کی مثال شاید ہی دنیا کے مہذب اور باشعور ممالک میں ملتی ہوکہ 85 سال اور زائد عمر کے پنشنرز کے لیے25 فیصد اور 85 سال سے کم عمر کے پنشنرز کے لیے 10 فیصد اضافہ کر کے حیران کر کے رکھ دیا ہے۔

پورے پاکستان میں اوسط عمر 65 سے 70 سال سے تجاوز نہیں کرتی، پنشنر 85 سال کی عمر کی اسی حد تک پہنچنے والاجو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار نہ ہو گا۔ پنشنرز کو حکومت نے ایک بار پھر دھوکہ دیا ہے جب کہ مہنگائی 200 فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ میرے اندازے کے مطابق ایک یا دو فیصد پنشنرز 85 سال کے ہونگے جو کہ 25 فیصد اضافے سے فائدہ پائینگے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر ان کی ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے لہٰذا وزیر خزانہ سے التجا ہے کہ پنشنرز کی عمر 85 سال کے بجائے 70 سال اور زائد عمر پانے والوں کی پنشن میں 25 فیصد اضافہ کیا جائے۔

اپریل 2016ء میں وزیر خزانہ نے ایم این ایز اور سینیٹرز کی تنخواؤں و دیگر مراعات میں کئی گنا اضافے کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔ بنیادی تنخواہ 36423 سے بڑھا کر 2 لاکھ اور دیگر الاؤنسز میں بھی اضافہ کا اعلان کر دیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی جو اُصول پسند ثابت ہوتے ہیں، انھوں نے اس اضافہ کو اپنے لیے اور سنیٹرز حضرات کے لیے مسترد کر دیا ہے، اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر وزیرخزانہ کی دوغلی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ غریب ملازمین اور بزرگ پنشنرز کے لیے 85 سال سے کم عمر کو 10 فیصد اور 85 سال اور زائد عمر کے پنشنرز کو 25 فیصد اضافہ دیا ہے اور پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں اور مراعات ایک دم لاکھوں میں کرنا حیران کن ہے.

خدارا ایسا نہ کریں، ایک لمحے کے لیے سوچیں، وہ قادرِ مطلق سب دیکھ رہا ہے! وہی بہتر انصاف کرنیوالا ہے، اس کی عدالت میں سب نے پیش ہونا ہے، مخلوقِ خدا کے ساتھ ناانصافی کرنے کا حساب دینا ہو گا، خدارا پنشنرز پر ترس کھائیں اور 85 سال کی عمر کے بجائے 70 سال کے پنشنرز کو 25 فیصد کا آرڈر کریں، یہی قرینِ انصاف ہے تا کہ بزرگ پنشنرز کی زندگی کچھ بہتر ہو سکے۔

بجٹ سے پہلے اور 3 جون 2016ء کو بجٹ آنے پر پنشنرز اور ویلفیئرایسوسی ایشن برائے ریٹائرڈ ملازمین کی طرف سے صدرِ پاکستان، وزیراعظم، وزیرخزانہ، چیئرمین اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، ایم این ایز اور سینیٹرز کو خطوط لکھے گئے اور اخبارات میں بھی کہ پنشن میں اضافہ مہنگائی کے حساب سے کیا جائے مگر حکومت نے ان کی تجویز کردہ خواہشات کو نظرانداز کر کے پنشنرز کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ محمد اسلم بھٹی نے مندرجہ بالا حضرات کو بھی درخواستیں دیں جس میں اس نے اپنے دفتر سے ریٹائرڈ ملازمین کی لسٹ بھی ساتھ چسپاں کی تھی کہ اس کے دفتر میں صرف ایک پنشنر جسکا نام بخت خان، اسسٹنٹ سیکریٹری (ر) جس کی عمر 86 سال ہے جو کہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر ہے.

خدا جانے اب وہ زندہ ہے یا اللہ کو پیارا ہو گیا ہے، دوسرا، چوہدری نذیر احمد، عمر تقریباً 84 سال، ڈپٹی سیکریٹری (ر)، تیسرا، یارمحمد عمر تقریباً ساڑھے 83 سال، اسسٹنٹ سیکریٹری (ر)، چوتھا، محمد اسلم بھٹی، عمر تقریباً ساڑھے 82 سال، سپرنٹنڈنٹ (ر)، دیگر لسٹ میں جو ذکر کیاگیا ہے وہ 62 سال سے 78 سال کے درمیان آتے ہیں، دوسرے دفاتر کے ریٹائرڈ ملازمین کی کیا پوزیشن ہے، اللہ بہتر جانتا ہے، لہٰذا پنشنرز کی پنشن میں 85 سال کے بجائے 70 سال اور زائد عمر والوں کی پنشن میں25 فیصد اضافہ کیا جائے، انصاف کا تقاضا یہی ہے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں