شمیم آرا
دیکھا گیا ہے کہ اس طرز فکر کا سب سے زیادہ اطلاق شوبزنس پر اور بالخصوص ان لوگوں پر ہوتا ہے
کیسی عجیب اور خوفناک بات ہے کہ شمیم آرا کی موت سے ہمیں یاد آیا کہ وہ دو دن قبل تک زندہ تھیں اور یہ کہ دنیاوی شہرت کی اس ناپائیداری کے باوجود (مستثنیات سے قطع نظر) ساری دنیا اس کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے لوگ خوبصورت ترین انسانی جذبوں کو قدموں تلے روندتے چلے جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی سمیت یہاں ہر چیز مسلسل فنا پذیر ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ اس طرز فکر کا سب سے زیادہ اطلاق شوبزنس پر اور بالخصوص ان لوگوں پر ہوتا ہے جن کی شہرت کا غالب حصہ ان کی شکل و صورت یعنی حسن ظاہری سے متعلق ہوتا ہے۔ خود مجھے زندگی میں کئی بار یہ تجربہ ہوا ہے کہ ماضی کے کسی مشہور فن کار کو بڑھاپے یا بیماری کے عالم میں دیکھا تو یہ ماننے میں بہت دقت ہوئی کہ یہ وہی شخص ہے جس کی ایک نظر سے ہزاروں دل اوپر نیچے ہو جایا کرتے تھے۔
فیس بک پر بھی کبھی کبھار ایسی پوسٹیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں جن میں ہالی وڈ کے عظیم ایکٹروں اور انتہائی خوبرو ایکٹرسوں کی جوانی کی تصویروں کو کمپیوٹر کے ذریعے بتدریج تبدیل ہوتے اور پھر بڑھاپے میں داخل ہوتے دکھایا جاتا ہے اور دیکھنے والے کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ بعض آوازیں البتہ عمر کے ساتھ ساتھ کم بدلتی ہیں اور چہرے سے زیادہ یا اس سے پہلے کسی حسن گم گشتہ کا تعارف بن جاتی ہیں۔
شمیم آرا مرحومہ کے ساتھ چند برس قبل ایک ٹی وی کی تقریب پذیرائی میں ملاقات کے دوران میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا وہ اس وقت بھی بیمار تھیں اور انھیں بمشکل سہارا دے کر اسٹیج پر لایا گیا تھا جہاں سینئر ہدایت کار اور بہت خوبصورت انسان ایس سلیمان کی بھی پذیرائی کی جا رہی تھی۔ دونوں کے لیے چلنا اور بولنا مشکل ہو رہا تھا لیکن شمیم آراء کی صورت حال اس لیے مختلف تھی کہ ان کے چہرے کے ساتھ گزشتہ صدی کی چھٹی، ساتویں اور کسی حد تک آٹھویں دہائی کے اکثر و بیشتر فلم بینوں کے وہ رومانوی جذبات بھی وابستہ تھے جو رسالوں سے ان کی تصویریں کاٹ کاٹ کر اپنی کتابوں اور تکیوں کے نیچے چھپایا اور دوستوں کو دکھایا کرتے تھے۔ ان کی پہلی فلم غالباً ''کنواری بیوہ'' تھی لیکن انھیں ملک گیر شہرت ایس ایم یوسف کی فلم ''سہیلی'' سے ملی جس میں ان کی سہیلی مرحومہ نیئر سلطانہ تھیں۔
شمیم آرا کے حسن میں اس طرح کا گلیمر اور کشش تو نسبتاً کم تھے جو ان کی ہم عصر یا قدرے سینئر کچھ ہیروئنز مثلاً صبیحہ خانم، مسرت نذیر اور زیبا بیگم کو حاصل تھے مگر مقبولیت کے حوالے سے وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ بالخصوص گھریلو رومانٹک ٹائپ فلموں میں انھیں بہت پسند کیا گیا ان کی آواز میں ایک خاص طرح کی گہرائی اور دل کو چھو لینے والی کیفیت تھی جس کی وجہ سے ان کے مکالموں کی ادائیگی کانوں کو بہت بھلی لگتی تھی اور ان کی آواز کی یہ خصوصیت متذکرہ تقریب میں بھی قائم تھی۔ اس حوالے سے ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
کب یہ سوچا تھا کبھی دوست کہ یوں بھی ہوگا
تیری صورت، تیری آواز سے پہچانی ہے
پاکستان کی فلم انڈسٹری ہمارے بیشتر دیگر اداروں کی طرح خود اپنے ہی تجربات سے سیکھ سیکھ کر بڑی ہوئی کہ ان دنوں اس کے تینوں بڑے مراکز یعنی ممبئی، کلکتہ اور مدراس آج کے پاکستان سے تقریباً ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھے۔ آزادی کے بعد مختلف شعبوں سے متعلق جو چند تربیت یافتہ لوگ یہاں منتقل ہوئے ان میں بھی نورجہاں اور سورن لتا سے قطع نظر زیادہ تعداد مردوں ہی کی تھی (شریف نیئر، علاؤالدین، فیروز نظامی، نذیر صاحب، سنتوش، سعادت حسن منٹو، اے جے کاردار، تنویر نقوی، ایس ایم یوسف، کمار، خواجہ خورشید انور، غلام محمد کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں) ان لوگوں کی کوششوں اور محنت سے پچاس کی دہائی میں نہ صرف بہت سی اچھی فلمیں بنیں بلکہ اداکاری سمیت ہر شعبے میں بہت سے نئے اور باصلاحیت لوگ بھی سامنے آئے۔ صبیحہ خانم، مسرت نذیر، نیئرسلطانہ، بہار بیگم، جمیلہ رزاق، نیلو اور شمیم آرا کا شمار اسی دور میں سامنے آنے والی نئی، ہیروئنز میں ہوتا ہے۔ شمیم آرا کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ انھوں نے بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ انڈسٹری چھوڑنے یا ماؤں کے رول ادا کرنے کے بجائے بطور ہدایت کار اور فلم ساز اس تعلق کو قائم رکھا اور اپنی اس آخری اور جان لیوا بیماری سے قبل مسلسل باکس آفس پر کامیاب فلمیں بناتی رہیں۔
شمیم آرا کا دور وہ تھا جب ہیروئنز پورے کپڑے پہنا کرتی تھیں اور ان کی ڈانس کی موومنٹس بھی بہت محدود اور متوازن ہوا کرتی تھیں۔ اسکرپٹ عام طور پر زندگی کے حقیقی مسائل پر مبنی ہوتے تھے جن میں ہیروئن کے گلیمر سے زیادہ عورت کی مظلومیت کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ شمیم آرا کا زیادہ کمال بھی ہلکے پھلکے رومانوی سینوں اور عورت کی مظلومیت کی عکاسی والی سیچوئشنز میں ہوا۔
انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے بیشتر سپرہٹ اور ہمیشہ یاد رہ جانے والے گیت بھی ان ہی پر فلم بند ہوئے جن میں سے ایک فیض صاحب کی مشہور نظم ''مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ'' بھی ہے۔ 1965ء کی جنگ سے کم و بیش سات برس پہلے تک جب ابھی بھارتی فلمیں ہمارے یہاں بھی ریلیز ہوا کرتی تھیں ان کی کئی فلموں نے نہ صرف زیادہ بزنس کیا بلکہ ان کی اداکاری کو بھی سرحد کے دونوں طرف بہت سراہا گیا۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں تب سے لے کر اب تک نہ تو فلم کے حوالے سے اچھی اور باقاعدہ تربیت گاہیں بنائی گئیں اور نہ ہی سینئر اور تجربہ کار لوگوں کو کوئی ایسی سکیورٹی دی گئی کہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر اپنی بقیہ عمر گزارتے اور نئی نسلوں کو اپنے تجربات اور علم سے مستفید کرتے۔ اب اس نسل کے اکا دکا لوگ ہی باقی رہ گئے ہیں بلکہ ان کی بعد کی نسل کا بیشتر حصہ بھی بڑھاپے اور کام کی عدم موجودگی کے باعث طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔
شمیم آراء کی وفات سے ایک بار پھر اس سوال نے کروٹ لی ہے کہ ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی اس قدر احسان فراموش، ناقدر شناس اور بے حس کیوں ہے کہ ہم اپنے ان ہنر مندوں لوگوں کی بھی ٹھیک سے دیکھ بھال اور حفاظت نہیں کر پاتے جنھوںنے مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے ہمیں امیر اور دنیا کو منہ دکھانے کے قابل بنایا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی پر رخصت ہونے والے نامور فن کاروں کے لیے ''خراج تحسین'' نامی ایک پروگرام پیش کیا جاتا تھا جس سے ہم مرنے والوں کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلایا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے اب یہ توفیق بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب ہم مرحومہ شمیم آراء کے لیے دعائے مغفرت ہی کر سکتے ہیں۔ رب کریم ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرمائے اور ان کے لیے اپنی رحمت اور درگزر کے دروازے کھول دے۔