میری آنکھیں سنبھال کر رکھنا
پتہ نہیں ان جیسے اور کتنے لوگ اپنے اعضا بعدازمرگ عطیہ کرنے کی خواہش لیے دنیا سے چلے گئے
عبدالستارایدھی نے جب اپنی آنکھیں بعدازمرگ عطیہ کیں اور دو لوگوں کو ان کی ایک ایک آنکھ لگائی گئی تو مجھے قاضی اختر جوناگڑھی کا یہ شعر بہت یاد آیا۔
میری آنکھوں میں خواب زندہ ہیں
میری آنکھیں سنبھال کر رکھنا
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے سوچا ہو کہ مرنے کے بعد ان کی آنکھیں اور گردے ضرورت مندوں کو عطیہ کر دیے جائیں۔ آپ کو یہ جان کر دکھ ہو گا کہ مندرجہ بالا شعر کے خالق کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ اپنی آنکھیں اور گردے اور اگر ضرورت پڑے تو جگر بھی بعد از مرگ عطیہ کر دیں، لیکن وقت نے مہلت نہ دی، ایک اچھا بھلا انسان جو چند منٹ پہلے تک بڑے اچھے موڈ میں باتیں کر رہا تھا۔ اچانک لحد میں جا سویا، صرف دو راتیں اور ایک دن گزار کر۔ سب کچھ اتنا اچانک اور آناً فاناً ہوا کہ یہ یاد ہی نہ رہا کہ مرحوم کی خواہش کیا تھی؟
پتہ نہیں ان جیسے اور کتنے لوگ اپنے اعضا بعدازمرگ عطیہ کرنے کی خواہش لیے دنیا سے چلے گئے۔ وجہ یہ کہ اس معاملے میں لوگوں میں زیادہ آگاہی نہیں ہے کہ کہاں اور کس ادارے میں فارم بھرنا ہے اور وفات کے بعد کتنے وقت کے اندر اندر ادارے کو اطلاع دینی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ شرعی معاملات میں پڑے بغیر میں یہ ضرور کہوں گی کہ مرنے کے بعد جو وجود مٹی میں ملنا ہے اور نیست و نابود ہونا ہے اس کے کچھ اعضا اگر زندہ انسانوں کے کام آ جائیں توکیا برا ہے؟ ایک بے نورکو بصارت مل جائے۔ کسی کوگردے مل جائیں تو کیا یہ صدقہ جاریہ نہیں ہے؟
آج اس موضوع پہ قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ عبدالستارایدھی کے آنکھیں عطیہ کرنے کے بعد لوگوں میں یہ شعور شدت سے بیدار ہوا کہ انھیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ یہ ہوتی ہے ہیرو ورشپ کہ لوگوں کو اپنے محسنوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ یعنی جو ہماری آئیڈیل ہستی کرے وہی ہم بھی کریں۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ پچاس سال سے ہماری قوم کی ترجیحات بالکل بدل گئی ہیں اور بیس سال سے قوم کی نفسیات بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ کیونکہ لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ناجائز طریقے سے مال بنانے والے، بے پناہ کرپشن کرنے والے، ریلوے کی، پارکوں اور اسپتالوں کی زمینوں پہ قبضہ کر کے ارب پتی بننے والے، اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، انگوٹھا چھاپ ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کو ملازم رکھنے پرقادر ہیں، جوہر قابل دربدر ہے اور لینڈ مافیا کے سرغنہ کالا دھن سفید کرنے کے لیے ہر موقعے پرلاکھوں روپے کی امداد کرنے میں پیش پیش ہیں، لیکن وہ بھی وہاں جہاں خودنمائی کا ہر پہلو اجاگر ہونے کے قوی امکانات ہوں۔
میڈیا موجود ہو، کیمرے فلیش کر رہے ہوں۔ بدنام زمانہ لوگ حکومت میں آ کرکرپشن کا میگا مال بنانے میں مصروف ہوں اور اپنا ضمیر فروشی کا کاروبار بڑے طمطراق سے اپنی اگلی نسلوں کو بڑی کامیابی سے منتقل کر رہے ہوں۔ کوئی عدالت، کوئی احتساب کا ادارہ، کوئی جج ان کی گرفت نہ کر سکتا ہو کہ عدالتوں اور اداروں میں بھی ان کا منحوس سایہ موجود ہوتا ہے اور پھر کیا عدالتیں اور کیا کرپشن کے اسکینڈل پکڑنے والے ادارے؟ سب ہی اسی دیمک زدہ کلچرکا حصہ ہوں تو ہمت کون کرے؟ جب درخت کی ہر شاخ پہ الوؤں کا بسیرا ہو تو فاختہ اور کوئل کہاں سے نغمہ سرا ہو گی؟ الوؤں سے جو جگہ بچ جائے گی وہاں خوفناک چمگادڑیں لٹک جائیں گی کہ انجام گلستاں بہرحال بہت خوفناک ہے۔ اسی لیے اب والدین اولاد کو نامور ادیبوں، سائنسدانوں، ماہرین طب اور عظیم فلسفیوں کی مثالیں نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ''سکہ رائج الوقت نہیں رہے''۔
لیکن جب ایدھی صاحبِ فراش ہوئے، ان کا انتقال ہوا اور ان کی آنکھیں ان دو لوگوں کو عطیہ کر دی گئیں تو لوگوں کو احساس ہوا کہ بظاہر سادہ ترین انسان اندر سے کتنا بڑا اور صاحب ظرف تھا۔ دراصل ہیرو وہی ہوتے ہیں جو لوگوں کو متاثرکرتے ہیں اور اپنے پیچھے چلنے کی تلقین صرف باتوں سے نہیں بلکہ اپنے اصولوں اور نیک دلی سے کرتے ہیں۔ لوگ ان جیسا بننا چاہتے ہیں۔
کئی احباب نے ذاتی طور پر مل کر اس خواہش کا اظہارکیا کہ وہ بعدازمرگ اپنی آنکھیں اور گردے عطیہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں کسی بھی طریقہ کار کا علم نہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا کریں؟ اور کس طرح کریں؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے ادارے SIUT سے رابطہ کرنا چاہیے؟ کسی نے لائنز کلب کا نام لیا لیکن حتمی طور پر ہم کچھ بھی طے نہ کر سکے۔
بہت سے خواتین و حضرات ایسے ہیں جو بعداز مرگ اپنی آنکھیں عطیہ کرنا چاہتے ہیں اور اس فہرست میں اپنا نام میں سب اوپر لکھنا چاہتی ہوں جو اپنی آنکھیں اورگردے عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔ میری ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے گزارش ہے کہ وہ عوام میں معلومات کے لیے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ یہ کام کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں موت اور گاہک کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہاں تو موت خود زندگی کی خریدار ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو اس بارے میں معاونت کی جائے۔
اگر دیگر حضرات اور ادارے بھی کوئی آگاہی رکھتے ہوں تو وہ معلومات فراہم کریں۔ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ اور وقت کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ گردوں اور آنکھوں کا عطیہ وصول کرنے والے ادارے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں کو یہ بتائیں کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے موبائل وین کے ذریعے مختلف دنوں میں مختلف علاقوں میں لوگوں سے رابطہ کیا جائے اور خواہش مندوں کو موقعے پر ہی فارم وغیرہ فراہم کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ اخبارات میں ان مطلوبہ اداروں کے فون نمبرز اور دیگر تفصیلات درج کی جائیں تا کہ جو لوگ مرنے کے بعد بھی انسانیت کے کام آنا چاہتے ہیں وہ استفادہ کر سکیں۔
زندگی اگر ایک نعمت ہے تو اس نعمت کے ثمرات دوسروں تک بھی پہنچنے چاہئیں۔ کچھ لوگ صرف اپنے لیے زندہ رہتے ہیں اور کچھ دوسروں کے لیے۔ جو صرف اپنے لیے زندہ رہتے ہیں وہ ہر چھل کپٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو دکھ دینا ان کی زندگی کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ لیکن جو انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں وہ اپنا دکھ درد بھلا کر دوسروں کے دکھ درد کی خبر رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی کے کام آ کر، کسی کے دکھ میں شریک ہو کر، کسی کی مصیبت میں کام آ کر جو دلی سکون ملتا ہے، اس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگ بعداز مرگ اپنے اعضا انسانیت کے لیے عطیہ کر دیتے ہیں۔ کیوں نہ ہم بھی اس نیک کام میں شریک ہوں اور اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے دیکھیں۔
ایک بار پھر اپنی درخواست دہراؤں گی کہ وہ ادارے جن کے پاس کوئی بھی انسان اپنے اعضا عطیہ کرنے کا فارم بھرنا چاہتا ہے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے فون نمبرز اور مختلف شہروں میں اپنے دفاتر کے پتے اخبارات میں نمایاں طور پر شایع کروائیں۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات بھی اس مہم میں ان کا ساتھ دیں اور ان اداروں کے اشتہارات بلامعاوضہ شایع کریں۔
میری آنکھوں میں خواب زندہ ہیں
میری آنکھیں سنبھال کر رکھنا
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے سوچا ہو کہ مرنے کے بعد ان کی آنکھیں اور گردے ضرورت مندوں کو عطیہ کر دیے جائیں۔ آپ کو یہ جان کر دکھ ہو گا کہ مندرجہ بالا شعر کے خالق کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ اپنی آنکھیں اور گردے اور اگر ضرورت پڑے تو جگر بھی بعد از مرگ عطیہ کر دیں، لیکن وقت نے مہلت نہ دی، ایک اچھا بھلا انسان جو چند منٹ پہلے تک بڑے اچھے موڈ میں باتیں کر رہا تھا۔ اچانک لحد میں جا سویا، صرف دو راتیں اور ایک دن گزار کر۔ سب کچھ اتنا اچانک اور آناً فاناً ہوا کہ یہ یاد ہی نہ رہا کہ مرحوم کی خواہش کیا تھی؟
پتہ نہیں ان جیسے اور کتنے لوگ اپنے اعضا بعدازمرگ عطیہ کرنے کی خواہش لیے دنیا سے چلے گئے۔ وجہ یہ کہ اس معاملے میں لوگوں میں زیادہ آگاہی نہیں ہے کہ کہاں اور کس ادارے میں فارم بھرنا ہے اور وفات کے بعد کتنے وقت کے اندر اندر ادارے کو اطلاع دینی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ شرعی معاملات میں پڑے بغیر میں یہ ضرور کہوں گی کہ مرنے کے بعد جو وجود مٹی میں ملنا ہے اور نیست و نابود ہونا ہے اس کے کچھ اعضا اگر زندہ انسانوں کے کام آ جائیں توکیا برا ہے؟ ایک بے نورکو بصارت مل جائے۔ کسی کوگردے مل جائیں تو کیا یہ صدقہ جاریہ نہیں ہے؟
آج اس موضوع پہ قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ عبدالستارایدھی کے آنکھیں عطیہ کرنے کے بعد لوگوں میں یہ شعور شدت سے بیدار ہوا کہ انھیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ یہ ہوتی ہے ہیرو ورشپ کہ لوگوں کو اپنے محسنوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ یعنی جو ہماری آئیڈیل ہستی کرے وہی ہم بھی کریں۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ پچاس سال سے ہماری قوم کی ترجیحات بالکل بدل گئی ہیں اور بیس سال سے قوم کی نفسیات بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ کیونکہ لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ناجائز طریقے سے مال بنانے والے، بے پناہ کرپشن کرنے والے، ریلوے کی، پارکوں اور اسپتالوں کی زمینوں پہ قبضہ کر کے ارب پتی بننے والے، اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، انگوٹھا چھاپ ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کو ملازم رکھنے پرقادر ہیں، جوہر قابل دربدر ہے اور لینڈ مافیا کے سرغنہ کالا دھن سفید کرنے کے لیے ہر موقعے پرلاکھوں روپے کی امداد کرنے میں پیش پیش ہیں، لیکن وہ بھی وہاں جہاں خودنمائی کا ہر پہلو اجاگر ہونے کے قوی امکانات ہوں۔
میڈیا موجود ہو، کیمرے فلیش کر رہے ہوں۔ بدنام زمانہ لوگ حکومت میں آ کرکرپشن کا میگا مال بنانے میں مصروف ہوں اور اپنا ضمیر فروشی کا کاروبار بڑے طمطراق سے اپنی اگلی نسلوں کو بڑی کامیابی سے منتقل کر رہے ہوں۔ کوئی عدالت، کوئی احتساب کا ادارہ، کوئی جج ان کی گرفت نہ کر سکتا ہو کہ عدالتوں اور اداروں میں بھی ان کا منحوس سایہ موجود ہوتا ہے اور پھر کیا عدالتیں اور کیا کرپشن کے اسکینڈل پکڑنے والے ادارے؟ سب ہی اسی دیمک زدہ کلچرکا حصہ ہوں تو ہمت کون کرے؟ جب درخت کی ہر شاخ پہ الوؤں کا بسیرا ہو تو فاختہ اور کوئل کہاں سے نغمہ سرا ہو گی؟ الوؤں سے جو جگہ بچ جائے گی وہاں خوفناک چمگادڑیں لٹک جائیں گی کہ انجام گلستاں بہرحال بہت خوفناک ہے۔ اسی لیے اب والدین اولاد کو نامور ادیبوں، سائنسدانوں، ماہرین طب اور عظیم فلسفیوں کی مثالیں نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ''سکہ رائج الوقت نہیں رہے''۔
لیکن جب ایدھی صاحبِ فراش ہوئے، ان کا انتقال ہوا اور ان کی آنکھیں ان دو لوگوں کو عطیہ کر دی گئیں تو لوگوں کو احساس ہوا کہ بظاہر سادہ ترین انسان اندر سے کتنا بڑا اور صاحب ظرف تھا۔ دراصل ہیرو وہی ہوتے ہیں جو لوگوں کو متاثرکرتے ہیں اور اپنے پیچھے چلنے کی تلقین صرف باتوں سے نہیں بلکہ اپنے اصولوں اور نیک دلی سے کرتے ہیں۔ لوگ ان جیسا بننا چاہتے ہیں۔
کئی احباب نے ذاتی طور پر مل کر اس خواہش کا اظہارکیا کہ وہ بعدازمرگ اپنی آنکھیں اور گردے عطیہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں کسی بھی طریقہ کار کا علم نہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا کریں؟ اور کس طرح کریں؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے ادارے SIUT سے رابطہ کرنا چاہیے؟ کسی نے لائنز کلب کا نام لیا لیکن حتمی طور پر ہم کچھ بھی طے نہ کر سکے۔
بہت سے خواتین و حضرات ایسے ہیں جو بعداز مرگ اپنی آنکھیں عطیہ کرنا چاہتے ہیں اور اس فہرست میں اپنا نام میں سب اوپر لکھنا چاہتی ہوں جو اپنی آنکھیں اورگردے عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔ میری ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے گزارش ہے کہ وہ عوام میں معلومات کے لیے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ یہ کام کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں موت اور گاہک کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہاں تو موت خود زندگی کی خریدار ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو اس بارے میں معاونت کی جائے۔
اگر دیگر حضرات اور ادارے بھی کوئی آگاہی رکھتے ہوں تو وہ معلومات فراہم کریں۔ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ اور وقت کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ گردوں اور آنکھوں کا عطیہ وصول کرنے والے ادارے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں کو یہ بتائیں کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے موبائل وین کے ذریعے مختلف دنوں میں مختلف علاقوں میں لوگوں سے رابطہ کیا جائے اور خواہش مندوں کو موقعے پر ہی فارم وغیرہ فراہم کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ اخبارات میں ان مطلوبہ اداروں کے فون نمبرز اور دیگر تفصیلات درج کی جائیں تا کہ جو لوگ مرنے کے بعد بھی انسانیت کے کام آنا چاہتے ہیں وہ استفادہ کر سکیں۔
زندگی اگر ایک نعمت ہے تو اس نعمت کے ثمرات دوسروں تک بھی پہنچنے چاہئیں۔ کچھ لوگ صرف اپنے لیے زندہ رہتے ہیں اور کچھ دوسروں کے لیے۔ جو صرف اپنے لیے زندہ رہتے ہیں وہ ہر چھل کپٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو دکھ دینا ان کی زندگی کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ لیکن جو انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں وہ اپنا دکھ درد بھلا کر دوسروں کے دکھ درد کی خبر رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی کے کام آ کر، کسی کے دکھ میں شریک ہو کر، کسی کی مصیبت میں کام آ کر جو دلی سکون ملتا ہے، اس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگ بعداز مرگ اپنے اعضا انسانیت کے لیے عطیہ کر دیتے ہیں۔ کیوں نہ ہم بھی اس نیک کام میں شریک ہوں اور اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے دیکھیں۔
ایک بار پھر اپنی درخواست دہراؤں گی کہ وہ ادارے جن کے پاس کوئی بھی انسان اپنے اعضا عطیہ کرنے کا فارم بھرنا چاہتا ہے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے فون نمبرز اور مختلف شہروں میں اپنے دفاتر کے پتے اخبارات میں نمایاں طور پر شایع کروائیں۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات بھی اس مہم میں ان کا ساتھ دیں اور ان اداروں کے اشتہارات بلامعاوضہ شایع کریں۔