کسی کا نام بختاور نہیں ہوگا
ہم غریب لوگ بڑ ے بڑے ناموں سے متاثر ہو کر سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بہار آجائے گی۔
ہم غریب لوگ بڑ ے بڑے ناموں سے متاثر ہو کر سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بہار آجائے گی۔ لیکن ماتھے پر لکھی قسمت کا کیا کریں؟ جو بدلنے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔ وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ جس مکان میں رہتی تھی وہاں تمام بھائی بہن اپنی ٹانگیں پھیلا کر لیٹ بھی نہیں سکتے تھے۔ مگر اس کے باپ نے اسے بختاور کا نام دیا تھا۔ وہ نام جو بے نظیر نے اپنی بیٹی کا رکھا تھا۔
وہ ساری زندگی یہ ہی سمجھتی رہی کہ اس کی قسمت بھی بختاور کی طرح ہوگی۔ وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں بھی خود کو شہزادی سمجھتی تھی۔ باپ ایک چھوٹی سی دکان میں درزی تھا۔ بچے زیادہ اور آمدن کم تھی، اس لیے اعلیٰ تعلیم تو بس ایک خواب ہی رہا۔ ابھی بلوغت کی عمر پر پہنچی ہی تو اس کے ہاتھ بھی پیلے کرنے کی تیاریاں شروع ہوگئی۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی، بس 15 سال۔
باپ چاہتا تھا ایک جگہ شادی کرنا اور ماں چاہتی تھی کہ کہی اور ہاتھ پیلے کیے جائیں۔ اس عذاب کا شکار بختاور بن گئی اور ایک جھگڑے کے بعد باپ نے 15 سال کی بختاور کو قینچی مار کر قتل کردیا۔ کیا ایک ہی بختاور ہے، جس کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ رشتے کے تنازعے میں اسی کی جان جاتی ہے۔ یہاں لڑکی کو انسان سمجھ کر اس کی رائے نہیں لی جاتی، اور خود پر بوجھ سمجھ کر اسے اتارا جاتا ہے۔ کوئی تو بتائے کہ ہمارے یہاں شادی کے تنازع پر لڑکی ہی کیوں مار دی جاتی ہے؟ کیا اب کوئی بختاور نہیں قتل ہوگی؟
ایک ہی ہفتے میں تین کہانیوں کو ایک ساتھ رکھیں تو سمجھ آجائے گا کہ ہمارے یہاں لڑکیوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ ایک طرف یہ بختاور ہے اور دوسری طرف رابعہ ہے۔ رابعہ نے خودکشی کی یا پھر اسے قتل کردیا گیا؟ مگر کہانی کو دیکھیں۔ ہمارے یہاں ایک لڑکی رشتے کے تنازعہ پر قتل کردی گئی اور دوسری اپنا گھر بسانے کی چاہ میں ماری گئی۔ آئیے دیکھیں ان کہانیوں کو۔ رابعہ کی کہانی دیکھیں۔ 29 جولائی کو لاہور کے علاقے مال روڈ میں قائم ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے ایک لڑکی کی لاش ملتی ہے۔
آئیے پہلے پولیس کی زبانی سنتے ہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ واقعہ خودکشی لگتا ہے۔ ابھی تک ملنے والی معلومات کے مطابق لڑکی ہوٹل میں اکیلی داخل ہوئی۔ وہ فون پر کسی سے بات کر رہی تھی اور اس کے بعد وہ ہوٹل کے واش روم میں گئی، جہاں سے گولی چلنے کی آواز آئی۔ پولیس کے مطابق لڑکی کی ہلاکت گولی لگنے سے ہوئی۔ لڑکی کے سر پر دائیں طرف سے گولی لگی جو بائیں جانب سے باہر نکل گئی۔ لڑکی کے ہاتھ پر نیل کے نشان تھے اور بارود کی بو بھی تھی، جس سے کافی حد تک یہ اشارہ ملتا ہے کہ رابعہ نے خودکشی کی۔ مگر سوال یہ ہے کہ رابعہ نے خودکشی کیوں کی؟
اس کے لیے بھی پولیس سے مدد لیتے ہیں۔ پولیس کے مطابق لڑکی نے آخری بار فون پر جس سے بات کی تھی اس کا نام عامر خٹک ہے۔ عامر نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کی رابعہ سے دوستی تھی اور رابعہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے شادی کرلے۔ لیکن وہ پہلے سے شادی شدہ تھا اس لیے رابعہ کو دلہن نہیں بناسکتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ رابعہ کو اس نے کئی بار سمجھایا تھا لیکن وہ مان نہیں رہی تھی۔ ایک طرف بختاور ہے جس کو اس لیے قتل کردیا گیا کہ اس کی شادی پر جھگڑا تھا کہ کہاں کی جائے۔ ایک طرف رابعہ ہے جس نے اس لیے خودکشی کی کہ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ کیوں؟ آخر کیوں یہ دو قتل ہوئے۔ اس لیے کہ ہمارا معاشرہ اب تک ہر صورت میں عورت سے ہی قربانی مانگتا ہے، یا اسی کو مرنا ہے؟
آئیے اب اپنے معاشرے کے تیسرے سچ کی طرف۔ برطانیہ سے آئی ہوئی پاکستانی سامعہ کو کیوں قتل کردیا گیا؟ پولیس کی رپورٹ کو ہی دیکھتے ہیں۔ پولیس کے مطابق برطانیہ کی پاکستانی شہری سامعہ کو 20 جولائی کو قتل کردیا گیا۔ جس کی ایف آئی آر تھانے میں 23 جولائی کو کاظم کی مدعیت میں درج کی گئی۔ جس کا کہنا یہ تھا کہ سامعہ اس کی بیوی ہے، جس کی طلاق چوہدری شکیل سے ہوئی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ قتل میں سامعہ کا باپ چوہدری شاہد، اس کا کزن مبین اور سابقہ شوہر ملوث ہے۔ پولیس کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سامعہ کی موت طبعی نہیں ہے، اس کو گلا دبا کر مارا گیا ہے۔
کہانی کا سچ یہ ہے کہ ایک لڑکی جو پاکستانی اور برطانیہ کی شہری ہے، اس کا قتل اس لیے کردیا گیا کہ اس نے طلاق لینے کے بعد شادی اپنی پسند سے کی تھی؟ اور ہمارا معاشرہ اس کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس پہلو کو بھی غور سے دیکھیں کہ اس معاملہ میں بھی جان لڑکی کو ہی دینی پڑی۔کیا ہم اپنے معاشرے کے اس سچ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ایک بختاور ہی نہیں بلکہ یہاں لاکھوں ایسی بختاور ہیں کہ جن کی شادی چھوٹی عمر میں کردی جاتی ہے اور اس پر کوئی روک تھام نہیں ہوسکی ہے۔
کیا یہ سچ ہے کہ اکثر لڑکیوں کو اپنی پسند ظاہر کیے بغیر صرف رشتے کے لیے ہاں کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات انھیں اپنی عمر سے کہیں زیادہ عمر کے مرد کے ساتھ اس لیے شادی کرنا پڑجاتی ہے کہ خاندان کی مجبوری ہوتی ہے۔ اور اگر خاندان کی آپس میں ہی کوئی لڑائی ہوجائے تو اس کی قیمت بھی لڑکی کو ہی دینی ہوتی ہے، جیسے کہ کراچی کی بختاور کو دینی پڑی۔ قوانین موجود ہیں، لیکن الماری کے کسی بڑے دراز کے اندر اسے لاک کرکے رکھ دیا گیا ہے؟
کیا ہم اس سچ کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں اکثر لڑکیاں شادی کے انتظار میں اپنی عمر گزار دیتی ہیں۔ وہ معاشی طور پر خودمختار نہیں ہوتی ہیں۔ کئی لڑکیاں جھوٹے سچے وعدوں میں اپنی عمر گزار دیتی ہیں، اور پھر انھیں اگر دھوکا ملے تو معاشرہ اسے تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس کے ایک طرف کھائی ہوتی ہے اور دوسری طرف پہاڑ۔ ایسے میں رابعہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ کیا اکیلا واقعہ ہے۔ آپ کے اور میرے اردگرد ایسے کوئی واقعات نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو اس کا حل کیا ہے؟
ہمارے یہاں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا کہ لڑکی اپنی مرضی سے دوسری شادی کرلے؟ سامعہ کا قتل اس کی ایک مثال ہے۔ ایسے کئی واقعات پولیس کے پاس درج ہوتے ہیں کہ عورت دوسری شادی کرنا چاہتی ہے لیکن اس کا پہلا شوہر اسے طلاق نہیں دیتا ہے۔ اگر نہیں دیتا تو اسے ایک لمبی قانونی جنگ لڑنا ہوتی ہے۔ اور اس دوران اس لڑکی کو قتل کردیا جاتا ہے۔
کیا یہ سب ہمارے معاشرے کے چبھتے ہوئے سچ نہیں ہیں؟ اس ہفتے پورے پاکستان میں 18 خواتین کو قتل کیا گیا؟ ان میں سے اکثر کی وجہ شادی ہے۔ صرف اسپتال سے حاصل ہونے والی معلومات یہ کہتی ہیں کہ سیکڑوں لڑکیوں نے خودکشی کی کوشش کی۔آپ سب لوگ بااختیار ہیں۔ آپ کی بیٹیاں ہیں اور آپ سے متاثر ہو کر ہی کئی لوگ اپنی بیٹیوں کا نام آپ کی بیٹی جیسارکھتے ہیں۔ کیا آپ لوگ ہماری بیٹیوں کو بھی آپ کی بیٹیوں جیسا تحفظ دے سکتے ہیں؟ یا پھر اب کسی اور کا نام بختاور نہیں ہوگا؟