گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کے اثرات………کامران عزیز
گندم مہنگی ہونے سے آٹا مہنگا ہوگا جو ملک کی ایک بڑی غریب آبادی پر بوجھ میں اضافے کاباعث ہوگا .
حکومت نے ایک بار پھر گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کردیا ہے، یہ فیصلہ شاید کاشت کار برادری کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کیلیے کیاگیا مگر اس کا نتیجہ بھی مہنگائی ہی ہوگا، گندم پاکستان میں بنیادی خوراک ہے اور مارکیٹ بنچ مارک ہے، اس کی قیمت بڑھنے سے دیگر اشیائے خوراک کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا، اندازہ لگایا گیا ہے کہ حکومت کے امدادی قیمت 14 فیصد بڑھانے سے افراط زر کی شرح میں 3 فیصد اضافہ ہوگا جو معیشت کیلیے انتہائی مضر ہے۔
آئی ایم ایف نے حالیہ رپورٹ میں جہاں پاکستان پر بجٹ خسارے کو کنٹرول میں لانے پر زور دیا ہے وہاں افراط زر کی بلند شرح کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، اس عالمی ادارے نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے نوٹ چھاپنے کی وجہ سے پاکستان میں افراط زر کی شرح ایک بار پھر دہرے ہندسے میں چلی جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو معاشی بحالی کے جو نحیف اشارے ملنے لگے تھے وہ منظر سے غائب ہو جائیں گے اور پھر معیشت تنزلی کی جانب گامزن ہوجائے گی۔
پالیسی سازوں کو ایک سمت کا تعین کرنا چاہیے اور پھر سیاسی دبائو سے آزاد ہو کر فیصلے کرنے چاہئیں، گندم مہنگی ہونے سے آٹا مہنگا ہوگا جو ملک کی ایک بڑی غریب آبادی پر بوجھ میں اضافے کاباعث ہوگا بلکہ متوسط طبقہ بھی اس سے متاثر ہوگا اور ان کی آمدنی بھی متاثر ہوگی، پاکستانی اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ کھانے پینے کی اشیا پرخرچ کرتے ہیں اس لیے فوڈ انفلیشن میں اضافہ عوام کے معیار زندگی پر براہ راست اثر ڈالتا ہے، اس لیے حکومت کو ایسے فیصلے کرنے سے قبل اس کے اثرات پر نظرڈالنی چاہیے، حکومت کو گندم کی قیمت میں اضافے کے بجائے کاشت کار برادری کی پیداواری لاگت میں کمی لانے کیلیے اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔
کھاد، بیج، دوا، ڈیزل، بجلی اور دیگر اخراجات میں اضافے کو روکنا چاہیے تاکہ زرعی لاگت میں کمی واقع ہو، اشیا کی قیمتیں نمایاں طور پر بڑھا کر آمدنی میں اضافہ کرنا مسئلے کاحل نہیں بلکہ معشیت بطور مجموعی اور اس کے اسٹیک ہولڈرز کو نظر میں رکھ کر مستقل پالیسیاں اختیار کرنی چاہیں، اگرپاکستان کی فرٹیلائزر انڈسٹری پوری استعداد کے ساتھ سارے سال چلے تو پاکستان کومہنگی کھاد درآمدکرنی پڑے گی نہ اس پر سبسڈی دینا پڑے گی، اس سے دہرا فائدہ ہوگا یعنی نہ صرف حکومت کے اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ کاشت کار برادری کی لاگت بھی کم ہوگی۔
دوسری طرف گندم مہنگی کرنے سے زائد پیداوار کی صورت میں پاکستان اضافی اسٹاک زیادہ عرصے محفوظ بھی نہیں رکھ سکے گا کیونکہ ملک میں اسٹوریج سہولتیں ناکافی ہیں اور مہنگائی کے باعث اس کی بیرونی منڈیوں میں بھی کھپت نہیں ہو سکے گی بلکہ فلورملز کی طرف سے تو ابھی سے گندم کی درآمد کی اجازت کے مطالبے سامنے آنے لگے ہیں یعنی ملکی فلورملنگ انڈسٹری کو بیرونی پیداوار مقامی سے سستی پڑے گی، گزشتہ سال حکومت کا بجٹ خسارہ 8.5 فیصد تک پہنچ گیا تھا، حکومت کی مالی پوزیشن بھی ٹھیک نہیں، ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہیں، مقامی تجارتی سرگرمیوں کو بجلی کے بحران اور بدامنی کے عفریت سے خطرات لاحق ہیں۔
ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے بلکہ سرمائے کے انخلا میں تیزی آ رہی ہے، آئے روز اقتصادی محاذ پر نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ان تمام عوامل کے باوجود حکومت کا گندم کی امدادی قیمت میں اضافے سے اقدامات کرنا بجائے خودمسائل بڑھانے کے مترادف ہے، یہ آبادی کے ایک حصے کو بچانے کیلیے سب کو مشکلات میں ڈالنے جیسا ہے، اس سے مہنگائی، پیداواری لاگت اور بجٹ خسارے میںاضافے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑے گی، حکومت کو ایسے پالیسی اقدامات کرنے کے بجائے مہنگائی پر کنٹرول کیلیے سخت حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، گیس جیسی نعمتوں کا غیرپیداواری استعمال کم سے کم کرکے اسے پیداواری شعبے کیلیے مخصوص کر دینا چاہیے۔
جزوی کے بجائے مکمل خودانحصاری کیلیے اقدامات کرنے چاہئیں اور بیرونی منڈیوں پر انحصار کے بجائے مقامی صلاحیتوں کواستعمال میں لانا چاہیے، اس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہونگی، معاشی سرگرمیوں میں تیزی ملازمتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی، افرادی قوت کے بہتر استعمال، فی کس آمدنی اور ٹیکس ریونیو میںاضافے کے باعث ہوگی جس سے حکومت اپنے اخراجات کیلیے قیمتی وسائل بھی دستیاب ہوں گے۔
Kamran.aziz@express.com.pk
آئی ایم ایف نے حالیہ رپورٹ میں جہاں پاکستان پر بجٹ خسارے کو کنٹرول میں لانے پر زور دیا ہے وہاں افراط زر کی بلند شرح کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، اس عالمی ادارے نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے نوٹ چھاپنے کی وجہ سے پاکستان میں افراط زر کی شرح ایک بار پھر دہرے ہندسے میں چلی جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو معاشی بحالی کے جو نحیف اشارے ملنے لگے تھے وہ منظر سے غائب ہو جائیں گے اور پھر معیشت تنزلی کی جانب گامزن ہوجائے گی۔
پالیسی سازوں کو ایک سمت کا تعین کرنا چاہیے اور پھر سیاسی دبائو سے آزاد ہو کر فیصلے کرنے چاہئیں، گندم مہنگی ہونے سے آٹا مہنگا ہوگا جو ملک کی ایک بڑی غریب آبادی پر بوجھ میں اضافے کاباعث ہوگا بلکہ متوسط طبقہ بھی اس سے متاثر ہوگا اور ان کی آمدنی بھی متاثر ہوگی، پاکستانی اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ کھانے پینے کی اشیا پرخرچ کرتے ہیں اس لیے فوڈ انفلیشن میں اضافہ عوام کے معیار زندگی پر براہ راست اثر ڈالتا ہے، اس لیے حکومت کو ایسے فیصلے کرنے سے قبل اس کے اثرات پر نظرڈالنی چاہیے، حکومت کو گندم کی قیمت میں اضافے کے بجائے کاشت کار برادری کی پیداواری لاگت میں کمی لانے کیلیے اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔
کھاد، بیج، دوا، ڈیزل، بجلی اور دیگر اخراجات میں اضافے کو روکنا چاہیے تاکہ زرعی لاگت میں کمی واقع ہو، اشیا کی قیمتیں نمایاں طور پر بڑھا کر آمدنی میں اضافہ کرنا مسئلے کاحل نہیں بلکہ معشیت بطور مجموعی اور اس کے اسٹیک ہولڈرز کو نظر میں رکھ کر مستقل پالیسیاں اختیار کرنی چاہیں، اگرپاکستان کی فرٹیلائزر انڈسٹری پوری استعداد کے ساتھ سارے سال چلے تو پاکستان کومہنگی کھاد درآمدکرنی پڑے گی نہ اس پر سبسڈی دینا پڑے گی، اس سے دہرا فائدہ ہوگا یعنی نہ صرف حکومت کے اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ کاشت کار برادری کی لاگت بھی کم ہوگی۔
دوسری طرف گندم مہنگی کرنے سے زائد پیداوار کی صورت میں پاکستان اضافی اسٹاک زیادہ عرصے محفوظ بھی نہیں رکھ سکے گا کیونکہ ملک میں اسٹوریج سہولتیں ناکافی ہیں اور مہنگائی کے باعث اس کی بیرونی منڈیوں میں بھی کھپت نہیں ہو سکے گی بلکہ فلورملز کی طرف سے تو ابھی سے گندم کی درآمد کی اجازت کے مطالبے سامنے آنے لگے ہیں یعنی ملکی فلورملنگ انڈسٹری کو بیرونی پیداوار مقامی سے سستی پڑے گی، گزشتہ سال حکومت کا بجٹ خسارہ 8.5 فیصد تک پہنچ گیا تھا، حکومت کی مالی پوزیشن بھی ٹھیک نہیں، ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہیں، مقامی تجارتی سرگرمیوں کو بجلی کے بحران اور بدامنی کے عفریت سے خطرات لاحق ہیں۔
ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے بلکہ سرمائے کے انخلا میں تیزی آ رہی ہے، آئے روز اقتصادی محاذ پر نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ان تمام عوامل کے باوجود حکومت کا گندم کی امدادی قیمت میں اضافے سے اقدامات کرنا بجائے خودمسائل بڑھانے کے مترادف ہے، یہ آبادی کے ایک حصے کو بچانے کیلیے سب کو مشکلات میں ڈالنے جیسا ہے، اس سے مہنگائی، پیداواری لاگت اور بجٹ خسارے میںاضافے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑے گی، حکومت کو ایسے پالیسی اقدامات کرنے کے بجائے مہنگائی پر کنٹرول کیلیے سخت حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، گیس جیسی نعمتوں کا غیرپیداواری استعمال کم سے کم کرکے اسے پیداواری شعبے کیلیے مخصوص کر دینا چاہیے۔
جزوی کے بجائے مکمل خودانحصاری کیلیے اقدامات کرنے چاہئیں اور بیرونی منڈیوں پر انحصار کے بجائے مقامی صلاحیتوں کواستعمال میں لانا چاہیے، اس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہونگی، معاشی سرگرمیوں میں تیزی ملازمتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی، افرادی قوت کے بہتر استعمال، فی کس آمدنی اور ٹیکس ریونیو میںاضافے کے باعث ہوگی جس سے حکومت اپنے اخراجات کیلیے قیمتی وسائل بھی دستیاب ہوں گے۔
Kamran.aziz@express.com.pk