آئی پی پیز کیخلاف کارروائی نہ کیجائے قانونی ماہرین

ادائیگیوں میں تاخیر کی صورت میں ثالثی سے معاملات طے کیے جائیں، وزارت پانی و بجلی کو مشورہ


Business Reporter December 03, 2012
آئی پی پیز کے نمائندے نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس وقت سپریم کورٹ بہترین فورم ہے. فوٹو: فائل

وزارت پانی و بجلی کو قانونی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ پاور پالیسی 2002 کے تحت بجلی پیدا کرنے والی آزاد کمپنیوں (آئی پی پیز) سے بجلی خریدنے کی سلسلے میں بقاجات کی ادائیگیوں میں تاخیر پرقانونی کارروائی کی بجائے ماہرانہ ثالثی کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں۔

پاور انڈسٹری کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزارت پانی و بجلی کی جانب سے ایک استفسار کے جواب میں وزارت قانون نے کہا ہے کہ ایک فریق یعنی آئی پی پیز کے لیے معاہدے کی پاسداری پر اصرار جب کہ NTDC اور حکومت پاکستان پاسداری نہ کرنے کے مرتکب ہوں۔

ذرائع کے مطابق NTDC نے بجلی پیدا کرنے میں ناکامی پر آئی پی پیز کی استعدادی انوائسز کی کٹوتی شروع کردی تھی جب کہ CPPA بجلی کی پیداوار کا خواہش مند تھا کیوں کہ آئی پی پیزکے پاس NTDC کی انوائسز کی عدم ادائیگی اورحکومت پاکستان کی خود مختار ضمانت کے مطالبے کیخلاف عدم ادائیگیوں کی وجہ سے ایندھن فرا ہم کرنے والو ں سے پیشگی ادائیگی کی بنیاد پر ایندھن خریدنے کیلیے رقم نہیں تھی۔ آئی پی پیز کے لیے مشاورتی کونسل کے نمائندے کا کہنا ہے کہ NTDC یہ سمجھنے میں ناکام ہو چکی ہے کہ اگر ہمیں ہمارے بقایا جات ادا نہیں کیے جائیں گے تو ہم بجلی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے جس کی وجہ ہماری جانب سے کوئی خلاف ورزی نہیں بلکہ مکمل طور پر خریدار کی جانب سے عدم ادائیگی ہے۔

وزارت قانون کی دستاویز نمبری F.1(267)/11-law-II میں کہا گیا ہے کہ NTDC/GoP نے آئی پی پیز کی پیدا کردہ بجلی خریدنی ہے اور انہیں استعدادی ادائیگیاں کرنی ہیں۔NTDC اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ وہ استعدادی ادائیگیاں نہیں کر رہی۔اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ PPA کی کچھ شقوں پر تبادلہ خیال کے بعد، ریفر کرنے والے ڈویژن نے ایک استفسار کیا ہے اور جواب کی خواہش ظاہر کی ہے۔ سوال یہ تھا ''کیا بجلی کے خریدار کی جانب سے توانائی کی ادائیگیوں میں تاخیر آئی پی پیز کو یہ استحقاق عطاکرتی ہے کہ ان کی جانب سے بجلی کی عدم پیداوار / عدم فراہمی کے صورت میں انہیں استعدادی ادائیگیاں کی جائیں؟''

اس کے جواب میں وزارت قانون نے جواب دیا ہے کہ ''ریفر کرنے والے ڈویژن کی توجہ خاص طور پر PPA کے آرٹیکل3.1(b)(i)(ii) کے جانب دلائی جاتی ہے۔NTDCاس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ وہ استعدادی ادائیگیاں نہیں کر رہی یا باقاعدگی سے نہیں کر رہی۔ریفر کرنے والے ڈویژن کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ماہرانہ ثالثی کا سہارا لیں جیسا کہ F.R (وزات پانی و بجلی) کے پیراگراف 2لائن 2 میں ظاہر کیا گیا ہے۔ وزارت قانون و انصاف کا مشورہ بہت واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وزارت پانی و بجلی کے جانب سے اپنائے گئے موقف کو پاور پرچیز ایگرمنٹ (PPA)اورPPA پر عمل در آمد کرنے والے ملکی قوانین کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔

لہٰذاعدالت میں اس کادفاع کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم، وزارت پانی و بجلی کو مکمل ناکامی سے بچانے کیلیے وزارت قانون و انصاف نے ''ماہرانہ ثالثی'' کے ذریعے اس صورت حال سے نکلنے کا مشورہ دیا ہے۔ آئی پی پیز کے نمائندے نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس وقت سپریم کورٹ بہترین فورم ہے کیوں کہ کسی ماہر کی سفارشات فریقین پر لازمی طور پر لاگو نہیں ہوتیں چنانچہ یہ کیس مزید طوالت اختیار کر جائے گا جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی (صنعت اور قوم کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا) اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اس شعبے میںمزید سرمایہ کاری نہیں ہو پائے گی۔

واضح رہے کہ آٹھ آئی پی پیز کے ایک گروپ نے حکومت کی خود مختار ضمانت کے باوجود اپنے 45ارب روپے کے بقایا جات ادا نہ کئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جن میں لبرٹی ٹیک، اورینٹ پاور، اٹلس پاور، نشاط پاور، نشاط چونیاں، سیف پاور،ہالمور پاور، اور سفائیر الیکٹرک شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں