ناڈر بل گیٹس اورعظیم پریم جی
ناڈر تامل ناڈو میں پیدا ہوا۔پرانے دوست اسے ’’مگس‘‘کہتے ہیں۔ یہ مقامی زبان کالفظ ہے جس کا مطلب جادوگر ہے
ناڈرعام شکل وصورت کاآدمی ہے۔ پختہ عمر، سیاہی مائل رنگ،سستاسا بغیر کالرکرتاپاجامہ۔چھوٹی چھوٹی داڑھی۔ حلیے سے کسی کاروباری کمپنی کامنشی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں توکسی کو علم ہی نہیں ہوگا کہ شیوناڈر کون ہے۔
ناڈر تامل ناڈو میں پیدا ہوا۔پرانے دوست اسے ''مگس''کہتے ہیں۔ یہ مقامی زبان کالفظ ہے جس کا مطلب جادوگر ہے۔ شیوناڈر کمپیوٹر کے حوالے سے ایک دیومالائی کرداربن چکا ہے۔1945ء میں مولائی پوزی گاؤں میں پیداہونے والا یہ بچہ برصغیر میں آئی ٹی کاروبارکا جادوگر ہے۔ 1976ء میں کاروبارشروع کیا تو اس کے پاس بہت کم سرمایہ تھا۔تھیلے میںکیلکولیٹربھرتا اور مارکیٹ میں فروخت کرتارہتاتھا۔
1976ء میں کل سرمایہ صرف ڈیڑھ لاکھ روپے تھا۔1980ء تک یہی حالات تھے۔شدیدمحنت اورتھوڑاسامنافع۔اسی سال ناڈرنے ایک ایساکاروباری فیصلہ کیاجس کی بدولت دولت اس کے گھر کی باندی بن گئی۔ سنگاپورکی ایک کمپنی کوکمپیوٹرکے مختلف آلات بنانے کے لیے انڈیا میں کاروباری شخص کی تلاش تھی۔ ناڈرنے کمپنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اورشراکت داربن گیا۔ پھر ناڈرنے پلٹ کرنہیں دیکھا۔دیکھتے ہی دیکھتے آئی ٹی کاروبارمیں اَرب پتی ہوگیا۔دس برس پہلے ناڈرنے اپنی زندگی کاسب سے بڑافیصلہ کیا۔بیوی بچوں کو بلاکرکہنے لگا کہ اپنی دولت کا بہت بڑاحصہ غریب لوگوں کے لیے وقف کرنا چاہتا ہے۔
اہل خانہ میں سے کسی نے اس کے عزم کی مخالفت نہیں کی۔ اہلیہ، بیٹی اوربیٹے اس نیک کام میں خود بھی شریک ہوگئے۔ بیٹی روشنی نے اپنی زندگی نادارلوگوں کے لیے وقف کرڈالی۔ ناڈرنے مصروف ترین اوقات کارمیں سے روزانہ ایک گھنٹہ سماجی کام کے لیے وقف کردیا۔لیکن اسے اندازہ ہواکہ ایک گھنٹہ ناکافی ہے۔اس نے اپنادفتراورکاروباراہل ترین لوگوں کے حوالے کردیااوردن کابیشترحصہ لوگوں کی بہتری کے لیے وقف کردیا۔ہفتہ میں صرف ایک یادوباراپنے آئی ٹی کے دفترجاتا۔ناڈرنے اپنی دولت میں سے پینتیس سو کروڑ مستحقین کے لیے وقف کردیاہے۔
ناڈرکے تجزیہ کے مطابق ہندوستان میں کوئی بھی حکومت بچوں اوربچیوں کی تعلیم پرمناسب پیسے نہیں خرچتی۔ اپنے ذاتی پیسوں سے ایک یونیورسٹی تعمیرکرڈالی۔یہ سائنس، انجینئرنگ اورآئی ٹی کی شانداردرس گاہ ہے۔یہاں پڑھنے کے لیے تمام اخراجات ناڈر برداشت کرتاہے۔اس کی قائم شدہ فاؤنڈیشن یونیورسٹی کوچلاتی ہے۔داخلہ کی صرف ایک شرط ہے کہ طالبعلم یاطالبہ میں اہلیت ہو۔وہاں کافارغ التحصیل طالبعلم امریکا کی بہترین یونیورسٹیوں میں مزیداعلیٰ تعلیم کے لیے بھیج دیاجاتاہے۔
سیکڑوں غریب بچے جوہارورڈ،ایم آی ٹی اورکورینل میں تعلیم حاصل کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے،آج ان درسگاہوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ناڈرکوجہاں بھی سرکاری اسکولوں اوردرسگاہوں کو بہترکرنے کاموقعہ ملتاہے،اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے ان اداروںکے تمام مالی مسائل حل کردیتاہے۔اب تک ہزاروں اسکولوں اورکالجوں کوبہتربناچکاہے۔
صرف ایک بات کہتاہے کہ انسان صرف اورصرف تعلیم سے اچھا بنتا ہے۔ ناڈرنے اپنے3500کروڑصرف تعلیم کے لیے مختص کردیے ہیں۔ پچھلے برس اس نے مزیدتین ہزار کروڑ خیرات کرنے کافیصلہ کیا۔ وہ تامل ناڈواورنواحی ریاستوں میں تعلیمی انقلاب لاچکا ہے۔ اس کی یونیورسٹی میں آپ ہرمضمون پڑھ سکتے ہیں۔ فزکس کے ساتھ قانون کی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
کیمسٹری کے ساتھ اقتصادیات کاعلم حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ کہتاہے کہ علم سے اگلے ستربرس میں وہ ہرچیزتبدیل کردے گا۔ شیوفاؤنڈیشن کسی مذہبی، لسانی اورنسلی تفریق کے بغیرمتعدد ادارے چلارہی ہے جہاں ہزاروں طالبعلم تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یونیورسٹی کے رقبے کااندازہ لگائیے۔یہ چھ سوایکٹرپرمحیط ہے۔اس میں تیرہ سواساتذہ ہیں۔فرید آباد، گڑگاؤں اورنواڈہ میں اس کے تعلیمی ادارے انتہائی معیاری تعلیم دے رہے ہیں۔ ناڈر تعلیم کوعبادت کادرجہ دیتاہے۔
بالکل اسی طرح،عظیم پریم جی نے اپنے معاشرہ کو بہتر کرنے کاحق اداکردیاہے۔وہ ہندوستان کاسب سے زیادہ سخی انسان قراردیاگیاہے۔اس کی فاؤنڈیشن نے تعلیم میں حیرت انگیزکام کیاہے۔عظیم پریم جی فاؤنڈیشن آٹھ ریاستوں میں سیکڑوں اسکول چلارہی ہے۔اسکولوں میں ساڑھے تین لاکھ طلباء اورطالبات زیرِتعلیم ہیں۔پریم جی نے اپنی دولت میں سے ستائیس ہزارکروڑروپے تعلیم کے لیے وقف کردیے ہیں۔ جب میں نے یہ ہندسے پڑھے تو لگاکہ شائدایک صفرزیادہ لگادیاگیاہے۔ مگرنہیں،ستائیس ہزارکروڑکاحساب بالکل صاف ہے۔
سفیدبالوں والایہ پارسی انسان پوری دنیاکے لیے روشن مثال بن چکا ہے۔عظیم پریم جی پیشے کے اعتبارسے تاجرہے۔اس کی کمپنی''واپرو''کے اثاثے سات بلین ڈالر کے برابر ہیں۔ کمپیوٹربنانے کے کاروبارنے اسے بے تحاشہ دولت دی مگر اس نے اپنی دولت سے لوگوں کو بہتر بنانے کابے مثال کام شروع کردیا۔
آپ کی توجہ دنیاکے مزیدایسے اشخاص کی طرف لے جاناچاہتاہوں،جنہوں نے بے حساب دولت کمائی مگر انھوں نے خداکی طرف سے دیے گئے اس فضل کوخلق خدا کی بہتری کے لیے استعمال کیا۔ وارن بوفٹ اوربل گیٹس کو کون نہیں جانتا۔دونوں نے بالترتیب تیس بلین اورانتیس بلین ڈالرخیرات کرڈالے ہیں۔ بل گیٹس کوکیا فرق پڑتاہے اگر پاکستان میں پولیو سے بچے اپاہج ہوتے رہیں۔
اس کا ہمارے مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں مگربل گیٹس پاکستان میں پولیوکوختم کرنے کے لیے مالی وسائل مہیا کر رہا ہے مگر ہم پولیوجیسے مرض کے قطروں میں بھی فرقہ پرستی، مذہبی عدم رواداری،بنیادپرستی اورجبرکوشامل کرچکے ہیں۔ہم پولیو ٹیم پرحملہ کرتے ہیں۔ بے گناہ اہلکاروں کوگولیاں مارتے ہیں اورشائد پھرمطمئن بھی ہوتے ہوں کہ ہم نے دین کی بہت خدمت کی ہے۔خطے سے باہرنظرڈالیے۔بل گیٹس اور راک فیلرفاؤنڈیشن افریقہ میں غربت ختم کرنے کے لیے بے مثال کام کررہی ہے۔وہاں ایک ادارہ''اگرہ'' (AGRA) کے نام سے تشکیل دیاگیاہے۔
''اگرہ'' غریب کسانوں کے لیے ہروہ کام کرتاہے جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ بل گیٹس نے افریقہ میں''سبزانقلاب''کی بنیاد رکھ دی ہے۔اس کے ادارے نے آٹھ سوپراجیکٹ شروع کیے ہیں جوغریب کسانوں کومعیاری بیج سے لے کرفصل کاٹنے اور فصل کومحفوظ رکھنے کے لیے(Storage)کے وسائل مہیا کرتے ہیں۔یہ ادارے صرف اورصرف ترقی پذیرملکوں میں غربت کوکم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔تمام فلاحی کام بلاتفریق مذہب، نسل اورعقیدہ ہیں۔
مسلم دنیاکی جانب آتاہوں۔ہمارے پاس سیکڑوں کھرب پتی لوگ موجود ہیں۔مگرمجھے دوردور تک کوئی ایسا شخص نظرنہیں آتاجوخاندان کوبلائے اور ناڈرکی طرح فیصلہ سنادے کہ اپنی دولت میں سے پینتیس سو کروڑروپیہ غریب انسانوں میں تعلیم کے لیے مختص کررہا ہوں۔اوراگرہوبھی جائے توعین ممکن ہے کہ اولاد اتنی کثیردولت کواپناحق قراردے کر والدکواس سماجی بہتری سے بازرکھنے کی کوشش کرے۔
مسلم ممالک میں خیرات کرنے کارجحان بالکل ہے مگراپنی مالی سلطنت کوغریبوں کے حوالے کرنے کار جحان بہت کم ہے۔ اپنے ملک کی بابت عرض کروںگاکہ جائز اور ناجائز طریقے سے دولت کمانا بدقسمتی سے ایمان کادرجہ اختیار کر چکا ہے۔ بہت سے ایسے رئیس اور متمول لوگوں کو جانتا ہوں جوغریب کے لیے ایک روپیہ تک خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ اپنی جائیداد کونادارلوگوں کے لیے وقف کرنے کی کوئی بڑی مثال میری نظرسے اب تک نہیں گزری۔
ہوسکتاہے کہ میں غلط ہوں۔یہ بھی ممکن ہے کہ میرے سوچنے کااندازبالکل غلط ہو۔مگرمیرا اپنے متمول طبقے سے سوال یہ ہے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی بل گیٹس، ناڈریاعظیم پریم جی پیدانھیں ہوتا۔وہ دولت کے انبارلگانے کے بعدبھی انتہاکے حریص ہیں۔ جو چھوٹاموٹا سماجی کام کربھی رہے ہیں،وہ اپنی نیکی کا ڈھول پیٹتے ہیں جس سے وہ شرمندہ نہیں ہوتے مگر بل گیٹس اورعظیم پریم جی سطح کے لوگ ضرورسوچ میں پڑجاتے ہیں کہ آخریہ لوگ کون ہیں اورکیوں اتنی خود نمائی کررہے ہیں۔
یہاں توآپ کسی کو قارون کاخزانہ بھی دے دیں،پھربھی وہ لوگوں کی شریانوں سے خون کشید کرکے اپنی دولت بڑھانے کی کوشش کرتا نظر آئے گا۔بدقسمتی سے یہاں ہرکام کسی نہ کسی حرص،لالچ معاوضہ یافائدے کے لیے کیاجاتاہے۔یہاں کوئی ادنیٰ سا بل گیٹس،ناڈریا پریم جی جنم نہیں لے سکتا!