شہر قائد میں قیام امن کا خواب

کہا یہ جارہا تھا کہ عیدکے بعد روشنیوں کے شہرکراچی میں آپریشن کی رفتارتیزہوجائے گی،

کتنی قیامتیں ہم پرٹوٹ چکیں، ساٹھ ہزار جنازے ہم اٹھاچکے، اتنے سانحے ہمارے ساتھ ہوئے کہ لفظ سانحہ کی تعریف ہی بدل چکی، اب ہر سانحہ ہمارے لیے محض ایک واقعہ ہے، وہ واقعہ جو دوچار گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ دوچار روز ہماری یادداشت کا حصہ رہتا ہے، پھر لاشعوری طور پر ہم نئے سانحے کا انتظارکرنے لگتے ہیں۔کبھی کوئی سبق سیکھا ہم نے؟

کہا یہ جارہا تھا کہ عیدکے بعد روشنیوں کے شہرکراچی میں آپریشن کی رفتارتیزہوجائے گی، دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انھیں نیست ونابود کردیا جائے گا، دہشتگردوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی، آپریشن کی شدت اتنی تیز ہوگی کہ لوگ لیاری گینگ وار کے خلاف آن دی اسپاٹ آپریشن کو بھول جائیں گے۔ گوکہ آپریشن کے مقاصد مثبت اورکراچی کے مفاد میں ہے لیکن آپریشن تیز ہونے سے قبل ہی اختیارات کی جنگ شروع ہوگئی۔

یہی وہ موقع تھا جب کراچی کے امن کو تباہ کرنیوالے ہاتھ ایک بار پھر ظاہر ہوئے اور نتیجہ،کراچی کے مصروف ترین علاقے صدر میں پارکنگ پلازہ کے قریب سیکیورٹی ادارے کی گاڑی پر فائرنگ کرکے لانس نائیک عبدالرزاق اور حوالدار خادم حسین کو شہید کردیا گیا۔ واقعے کے چند روز بعد اندرون سندھ لاڑکانہ میں ہیڈ کوارٹر سے معمول کے گشت پر نکلنے والی رینجرزکی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک اہلکار شاہد سیال شہید جب کہ 3 اہلکار زخمی ہوئے۔

ویسے تو پاک فوج نے دہشتگردی پر کاری ضرب لگاکر دہشتگردوں کو پچھلے قدموں پر جانے پر مجبورکردیا ہے لیکن ہمیں اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ یہ جنگ ختم ہوچکی، دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہونا ابھی باقی ہے اور یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا۔کراچی ولاڑکانہ میں ہونیوالے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جرائم پیشہ ودہشتگرد عناصرکراچی سمیت اندرون سندھ کے امن کوایک بار پھر تباہ کرنے کی سازش کررہے ہیں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم موجود ہیں اور جب چاہیں، جہاں چاہیں اپنی مذموم کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کی کارکردگی کی وجہ سے گزشتہ تین برس میں امن کے حوالے سے نمایاں بہتری آئی ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

کراچی گزشتہ کئی عشروں سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کی لعنت کا شکار ہے،اسے ایک دن یا کسی ایک مرحلے میں مکمل طور پر درست کردینا ممکن نہیں۔ کراچی میں امن کے قیام اور سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے میں رینجرز اور پولیس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ کراچی اور پورے ملک کے حالات تین سال پہلے کے مقابلے میں آج بہت بہتر ہیں اور دہشتگردی سمیت سنگین جرائم کی وارداتوں پربڑی حدتک قابو پالیا گیا ہے، مگر اب تک کی اس ساری کامیابی کی فی الحقیقت کوئی مضبوط بنیاد نہیں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں اور دہشتگردوں کا صفایا کرنیکی مہم کے نتیجے میں امن و امان یقینا بہتر ہوا ہے لیکن اسے پائیدار اصلاح نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مہم ذرا بھی ہلکی پڑتی ہے تو جرائم پیشہ عناصر نئے سرے سے سر اٹھانے لگتے ہیں، جس کا واضح مشاہدہ آج ہم کراچی میں کررہے ہیں۔


روشنیوں کے شہر کراچی میں قیام امن کی بات ہوگی تو وہاں رینجرز کے اختیارات بھی زیر بحث آنا لازمی ہے۔ سندھ میں رینجرز کے خصوصی اختیارات میں توسیع کا مسئلہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیدا ہوتا رہتا ہے۔ خصوصی اختیارات میں توسیع سندھ حکومت کرتی ہے لیکن سندھ حکومت کو رینجرزکی بعض کارروائیوں پر اعتراض ہوتا ہے تو وہ اگلی مدت کے لیے توسیع دینے سے انکارکردیتی ہے۔ اس پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، سندھ حکومت پرکچھ طاقتور حلقوں کا دباؤبھی ہوتا ہے، جس کے بعد اختیارات میں توسیع کردی جاتی ہے۔

گزشتہ ایک سال سے تقریباً یہی ہورہا ہے، اس سے نہ صرف حکومتی اداروں کے درمیان اختلافات کا تاثر پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ دہشتگرد اور شرپسند عناصر بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے خلاف آپریشن ہورہا ہے۔ اصل میں سندھ میں رینجرزکو قانونی پاور دلواکر کراچی میں دہشتگردوں کا خاتمہ شروع کیا گیا تو حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ ان کی امن کوششوں سے خوش نہیں تھے مگر جب بھتہ خوری، موبائل وغیرہ چھیننے کی وارداتیں اور دہشتگردی کم ہوئی تو اس کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے لگے مگر جیسے ہی رینجرز نے حکومت میں شامل کالی بھیڑوں پر ہاتھ ڈالا تو سندھ حکومت بلبلا اٹھی اور رینجرز کی پاور پر قدغن لگانی شروع کردی مگر رینجرز نے اپنا کام جاری رکھا اور بڑے بڑے ملوث افراد کو گرفتار کرکے کارروائیاں کیں تو پھرکراچی جو امن و امان کی طرف لوٹ چکا تھا اچانک اس کا امن خراب کرنے کے لیے چھپے ہوئے ہاتھ دوبارہ حرکت میں آگئے ہیں۔

ادھر رینجرز کی گرفت بھی قانونی مجبوریوں کی نذر ہوتی جارہی ہے، جس سے سندھ کے عوام اور کراچی کے شہری پریشان ہیں۔ رینجرز اختیارات میں توسیع پر اختلاف اس وقت جنم لیتا ہے جب رینجرز کی جانب سے حکومت سندھ کے دفاتر پرچھاپے مارے جاتے ہیں، ایسی شخصیات کوگرفتارکیا جاتا ہے جنھیں پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب تصور کیا جاتا ہے اور کراچی سے باہرکارروائیاں کی جاتی ہیں، جیسے کہ پچھلے دنوں لاڑکانہ میں اہم شخصیات کے فرنٹ مین اسد کھرل کی گرفتاری عمل میں آئی۔ رینجرز کا موقف ہے کہ دہشتگردوں کے ڈانڈے بہت دور تک جاکر ملتے ہیں اور انھیں دہشتگردوں کے معاونین، سہولت کاروں اور مالی امداد فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرنا پڑتی ہیں، جن کا انھیں مینڈیٹ حاصل ہے۔ حکومت سندھ کہتی ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں دوسرے صوبوں میں نہیں ہوتی ہیں۔

ارباب اختیار اور فیصلہ سازوں کو رینجرز اور سندھ حکومت کے موقف کو سنجیدگی سے سن کر مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہیے کیونکہ کراچی کی مجموعی ترقی،امن وخوشحالی سے آیندہ نسلوں کی تقدیر وابستہ ہے کیا اس خوبصورت تقدیرکو تخلیق کرنا ہم سب کی ذمے داری نہیں ہے؟ لہذا ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک بار پھر مل بیٹھ کرکراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی اصلاح کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس شہر میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران بے گناہ اور معصوم لوگوں کا جو خون بہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم سب ملکر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ مثبت انداز فکرکو اپناتے ہوئے کراچی کے لوگوں کے مسائل حل کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھیں تاکہ عوام کی پریشانیاں اور مصائب کم سے کم ہوسکیں۔

شہر قائد میں پائیدار قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ سماجی ومعاشی حالات بہتر بنائے جائیں، عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں، نوجوانوں کے لیے روزگارکے پرکشش مواقعے بڑی تعداد میں پیدا کیے جائیں اور معاشرے میں تیزی سے ختم ہوتی ہوئی اخلاقی اقدارکی بحالی کے لیے نتیجہ خیز تدابیرکی جائیں۔

ارباب اختیارکو بلدیاتی نظام کو بھی فعال بنانے پر غورکرنا چاہیے اگر بلدیاتی نظام فعال ہوجاتا ہے تو اس سے شہر کی سیاسی، معاشی و معاشرتی صورتحال کسی حد تک تبدیل ہوسکتی ہے، ویسے بھی موجودہ بلدیاتی نظام کو سندھ کی حکومت اپنی سوچ و سمجھ کے مطابق ایسی ہیئت میں تبدیل کردیا ہے کہ یہ حقیقی معنوں میں بلدیاتی نظام نہیں لیکن اس کے باوجود اسے فوراً بحال کرنا چاہیے۔کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کراچی امن مشن کو ہر حال میں مکمل کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں جب کہ دہشتگردی کے ناسور سے نجات حاصل کرنے کے لیے کراچی آپریشن کا دائرہ کار پورے سندھ تک پھیلانے کی اشد ضرورت ہے، اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا بھرپور اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
Load Next Story