عدالتی مارشل لا نہ لگایا جائے متعصبانہ ریمارکس پر جج معافی مانگیں الطاف حسین

کس حلقے میںکس جماعت کی اکثریت ہوگی اس کافیصلہ جج حضرات نہ کریں،ہمارامینڈیٹ توڑنے کی سازش ہورہی ہے،خطاب


Staff Reporter December 03, 2012
کراچی:ایم کیو ایم کے تحت جناح گرائونڈ عزیز آباد میں منعقدہ عوامی اجتماع کے شرکاالطاف حسین کا ٹیلیفونک خطاب سن رہے ہیں۔ فوٹو: آئی این پی

DERA GHAZI KHAN: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ کس حلقے میں کس جماعت کی اکثریت ہوگی،کس کی نہیں ہوگی اس بات کافیصلہ جج حضرات نہ کریں بلکہ یہ فیصلہ عوام کوکرنے دیں۔

عوام سے ان کاجمہوری حق نہ چھیناجائے، پاکستان کوایک جمہوری ملک ہی رہنے دیاجائے اوریہاں جوڈیشل مارشل لاء نہ لگایاجائے،پورے ملک کوچھوڑ کر صرف کراچی میں مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں کرانے کاحکم غیرآئینی، غیرقانونی اورمتعصبانہ ہے،یہ جو کھیل کھیلاجارہاہے وہ ایم کیوایم کے مینڈیٹ کوتوڑنے اور اس کی نشستیں چھیننے کی سوچی سمجھی کوشش ہے مگرکراچی کے عوام اپنے جمہوری حق کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیںگے،متعصبانہ ریمارکس پرجج کراچی کے عوام معافی مانگیں۔

کراچی سمیت39شہروں میں عوامی اجتماعات سے ٹیلیفونک خطاب میں الطاف حسین نے کہاکہ ایم کیوایم جب سے وجودمیںآئی ہے اسے کچلنے اوراس کے عوامی مینڈیٹ کوختم کرنے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیں،ایم کیوایم کوکچلنے کیلیے کبھی پختون مہاجر فساد کرایاگیا، کبھی پنجابی مہاجراورکبھی سندھی مہاجرفسادکرایاگیا،اسے ریاستی آپریشن کانشانہ بنایاگیا،ایم کیوایم دشمن عناصرآج ایم کیوایم کے مینڈیٹ کو ختم کرنے اوراسے فناکرنے کیلیے عدالتوں کے بعض ججزکواستعمال کررہے ہیں۔

ایسے عناصر کویادرکھناچاہیے کہ 19جون 1992کوبھی جب ایم کیوایم کے خلاف ریاستی آپریشن شروع ہوا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز نے اپنے آپ کوخداسمجھتے ہوئے یہ بیان دیاتھاکہ الطاف حسین کاچیپٹر کلوزہوگیامگر ایسادعویٰ کرنے والے جنرل آصف نوازکانام ونشان مٹ چکاجبکہ اللہ کے فضل سے الطاف حسین آج بھی سلامت ہے۔الطا ف حسین نے کہاکہ سپریم کورٹ کے مخصوص بینچ کے فاضل جج نے دیگرجج حضرات کی موجودگی میں یہ ریمارکس دیے کہ کراچی میں بدامنی کے خاتمے کیلیے ایسی حلقہ بندیاں کی جائیںکہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ رہے،کراچی پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوںکاشہرہے جس کی آبادی2کروڑسے زائدہے ،فاضل جج نے یہ متعصبانہ ریمارکس دے کرلاکھوں ووٹروں سمیت کراچی کے کروڑوں عوام کی توہین کی ہے۔

02

انہیں چاہیے کہ وہ اپنے متعصبانہ الفاظ واپس لیں اوران متعصبانہ ریمارکس پر کراچی کے عوام سے معافی مانگیں،جولوگ بڑی کرسیوںپر بیٹھ کرخلق خداکانام ونشان مٹانے کی کوشش کررہے ہیں ان پرقہرخداوندی نا زل ہوگا،کراچی بدامنی ازخودکیس میںسپریم کورٹ نے اکتوبر2011میں اپنے فیصلے میں جہاں اوربہت سی باتیں کیں وہاں یہ بھی کہاگیاتھا کہ قانون کے مطابق حلقہ بندیاں کرائی جائیںمہم آئین وقانون اورعدلیہ کے احترام پریقین رکھنے والے لوگ ہیں اس لیے ہم نے اس وقت بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کوتسلیم کیاتھا،اس فیصلہ پر عمل درآمدکیلیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک3رکنی مخصوص بینچ تشکیل دیا گیا،اس بینچ نے 28نومبر 2012کواپنی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کویہ حکم دیاکہ ''کراچی میں حلقہ بندیاں ایسی کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو ـ ''

فاضل جج کے یہ ریمارکس نہ صرف نفرت و تعصب اور بدنیتی پرمبنی ہیں بلکہ آئین اورقانون کے بھی خلاف ہیں،یہ ریمارکس آئین کی دفعہ 25کی بھی صریحاً خلاف ورذی ہیں جس میں صاف اورواضح طور پر کہاگیاہے کہ قانون کی نظرمیں تمام شہری برابر ہیں ۔ الطاف حسین نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارچوہدری کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ ہزاروں مرتبہ سوموٹولے چکے،اب آپ انتظارکیوںکررہے ہیں ؟ آپ کے ایک فاضل جج نے متعصبانہ ریمارکس دے کر نہ صرف عدالت عظمیٰ کی عزت ووقار کومجروح کیابلکہ اپنے حلف اورقانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے لہٰذاآپ اس جج کے خلاف کارروائی کریں۔ الطاف حسین نے کہاکہ بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں عدالتیں مذاق بن چکی ہیں،مقدمات کی سماعت کے آغاز ہی میں ٹی وی چینلزپران کے ریمارکس کی پٹیاں چلنے لگتی ہیں۔

ہمارے فاضل جج صاحبان طنزیہ جملے اورریمارکس پاس کرتے ہیں اورمقدمات کی سماعت کے دوران ایسے ریمارکس دیتے ہیں کہ عام آدمی سمجھ جاتاہے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہونے جارہاہے جبکہ دنیاکے کسی مہذب ملک میں ایسانہیں ہوتا،کسی بھی عدالت کے کسی جج کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ الیکشن کمیشن کویہ کہے کہ ایسی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو۔الطاف حسین نے کہاکہ ملک کے تمام آئینی وقانونی ماہرین بتائیںکہ حلقہ بندیوںکے قانون میں یہ کہاں لکھاہے کہ حلقہ بندیاں اس طرح کی جائیںکہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو؟آئین کی کس شق میں اجارہ داری کالفظ ہے؟

اگرنہیں ہے توپھرسپریم کورٹ کی بینچ کے فاضل رکن نے کس طرح اجارہ داری کی بات کی ؟اگرکوئی جماعت کسی حلقہ یاکسی شہرسے بار بار عوام کامینڈیٹ حاصل کررہی ہے اورعوام اپنے ووٹوں کے ذ ریعے اس پرباربار اپنے اعتماد کا اظہار کررہے ہوںتوکیااس عوامی مینڈیٹ کواجارہ داری قرار دینادرست اورجائزہے؟کیایہ عوامی مینڈیٹ کی توہین نہیں؟پورے ملک کے ہرشہرمیں کسی نہ کسی پارٹی کووہاں کے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے،اگرکراچی کے بارے میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیا جانے والا حکم درست اورجائزہے توپھرپورے ملک کیلیے یہ فارمولا کیوں اختیارنہیں کیاگیاکہ ایسی حلقہ بندیاںکی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو؟۔

03

پاکستان میںفرسودہ جاگیردارانہ نظام رائج ہے اورجاگیرداروں نے ایسی حلقہ بندیاں کرائی ہوئی ہیںکہ کوئی دوسرافردوہاں سے منتخب نہیں ہوسکتاجس کانتیجہ یہ ہے کہ جاگیردارجدی پشتی وہاں سے کامیاب ہوتے ہیں،پورے پورے خاندان حکومت کرتے ہیں اورجاگیردارانہ نظام ختم نہیںہوسکا لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جاتی۔الطاف حسین نے کہاکہ حلقہ بندیوں کیلیے Delimitation Act 1974 کاسیکشن 9 یہ کہتاہے کہ حلقہ بندیوں کیلیے ضروری ہے کہ پہلے مردم شماری کرائی جائے پھرآبادی کے حساب سے حلقہ بندیاں کرائی جائیں لیکن سپریم کورٹ کی مخصوص بینچ کی جانب سے مردم شماری ہوئے بغیرصرف کراچی میں حلقہ بندیاں کرانے کاحکم جاری کیاگیاہے جو کہDelimitation Act 1974 کی صریحاًنفی ہے،کراچی کی نئی حلقہ بندیوں کے ایک جوازیہ بھی پیش کیاجارہاہے کہ اس سے امن وامان بہترہوجائے گا۔

یہ انتہائی غلط سوچ ہے کیونکہ امن وامان بہتر بنانا اورحلقہ بندیوں کی نئی نقشہ بندی کرناسراسردومختلف چیزیں ہیں، انتخابی معاملات پر فیصلے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ حلقہ بندیوں کی تشکیل عدالتوں کانہیں الیکشن کمیشن کاکام ہے اوراس کام میں کسی بھی عدالت کی بیجامداخلت سے چاہے وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کی جائے صورتحال بہترنہیں بلکہ مزیدپیچیدہ ہوجائے گی،ایسے اقدامات سے ملک جڑانہیںکرتے بلکہ ٹوٹ جایاکرتے ہیں۔الطاف حسین نے کہاکہ اگربدامنی ہے توکراچی سے زیادہ صورتحال توبلوچستان کی خراب ہے،کراچی میں توایسی کوئی صورتحال نہیں کہ یہاںپاکستان کاجھنڈانہیں لہرایاجاسکتا ہو،اسی طرح پوراخیبرپختونخوا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے،کل بھی پشاورمیں خودکش حملے ہوئے، وہاں کے بارے میں تو ایساکوئی حکم جاری نہیں کیاگیا،ہم عدلیہ کااحترام کرتے ہیں۔

ہمارا صرف یہ کہناہے کہ آپ قانون کے مطابق ملک میں مردم شماری کرائیں اورپھرآبادی کے تناسب سے نئی حلقہ بندیاں کرائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اگریہ کہاجائے کہ مردم شماری کو چھوڑو،بس صرف اورصرف کراچی میں نئی حلقہ بندیاںکرو اوراس طرح کروکہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو تواس کامطلب کیاہے؟آج عوام کی عدالت کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کے خلاف دیے جانے والے اس متعصبانہ حکم کومتفقہ طورپر مستردکرتی ہے۔اس موقع پر اجتماعات میں موجود لاکھو ں عوام نے ہاتھ اٹھاکراس متعصبانہ حکم کومسترد کرنے کی تائید کی۔الطاف حسین نے کہاکہ صدر زرداری، وفاق پاکستان،حکومت،چیف جسٹس افتخار چوہدری اوردیگرغیرجانبداراور غیرمتعصب ججزاس معاملے کا فوری نوٹس لیں،ڈیموں کی تعمیر کافیصلہ عدالتیں نہیں کرسکتیں لہٰذاآج کااجتماع کالاباغ ڈیم کے بارے میں عدالتی فیصلے کو نامنظور کرتاہے۔

عوام نے کالاباغ ڈیم کافیصلہ مستردکردیا لہٰذااب لاہورہائیکورٹ بھی اپنافیصلہ واپس لے۔متحدہ قومی مومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ارکان نے بھی کراچی میں نئی حلقہ بندیوںکے غیرپارلیمانی اورغیرآئینی فیصلے کیخلاف جدوجہد کااعلان کرتے ہوئے فیصلے کومستردکردیا۔اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی رکن یوسف شاہوانی نے کہاکہ سپریم کورٹ کی ایک بینچ کافیصلہ کراچی کے عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ گلفرازخان خٹک نے کہاکہ غیرمنصفانہ ہے فیصلے کوعوام ہرگز قبول نہیںکریںگے۔اشفاق منگی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے بینچ کے فیصلے سے یہ تاثرملاہے کہ ایم کیوایم اورکراچی میں رہنے والوںکیخلاف سازشیں ہورہی ہے۔وسیم آفتاب نے کہا کہ سپریم کورٹ کوملک کے دیگرشہرنظرکیوں نہیں آئے، صرف کراچی کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیاگیا،سوموٹو نوٹس اس وقت کیوں یادنہیں آتے جب یہاں لوگوںکاقتل کیا جاتا ہے؟۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں