معراج محمد خان کی یاد میں

ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے ترک تعلق کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دی اور سوشلزم کا نعرہ بلند کیا


Shakeel Farooqi August 09, 2016
[email protected]

UNITED STATES: جن کے دم سے تھی بزم کی رونق

ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں

لیجیے معراج محمد خان بھی رخصت ہوگئے ،جن کا شمار بائیں بازو کے سرکردہ سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی وفات سے کراچی شہر سونا سونا سا لگ رہا ہے۔ فضا سوگ وار ہے اورکیفیت یہ ہے کہ:

بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہرکو ویران کرگیا

کامریڈ ڈاکٹر رشید حسن خان کو اس جہان فانی سے کوچ کیے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ان کے پیچھے پیچھے ان کے دیرینہ ساتھی معراج محمد خان بھی ملک عدم روانہ ہوگئے۔ ان کے انتقال سے وطن عزیز کی سیاست میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ کبھی بھی پُر نہیں ہوگا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں بائیں بازوکے سیاست دانوں کی پرانی نسل رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ لفظ ''سوشلزم'' اب پاکستان کی سیاسی لغت سے خارج ہورہا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب انقلابی سیاست کا پوری دنیا پر بڑا زبردست غلبہ تھا اور پاکستان کی نوجوان نسل بھی اس کے زیر اثر تھی۔

انقلابی سیاست کے اس دور نے وطن عزیز میں بھی بڑے آتش فشاں قسم کے بائیں بازوکے لیڈر پیدا کیے جن میں معراج محمدخان سرفہرست تھے۔ ان کی پوری زندگی نظریاتی جنگ لڑتے ہوئے گزری اور پے درپے ناکامیوں کے باوجود انھوں نے ہارنہیں مانی اور نامساعد حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ آخری دم تک اپنی جدوجہد میں مصروف رہے اورامید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

معراج محمد خان کی شہرت اور مقبولیت 1968 میں جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف زبردست عوامی تحریک کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچی۔ رشید حسن خان اور معراج محمد خان دونوں ہی نے نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (NSF) نامی ترقی پسند طلبا کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ اور بات تھی کہ بعد میں ان دونوں کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوگئیں۔ پاکستان کے اسٹریٹ ایجی ٹیشن کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا رہے گا۔

معراج محمد خان کی سب سے بڑی اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ ایک سچے انقلابی اور Committed سیاستداں تھے۔ سیاسی مصلحت کوشی انھیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ بقول شاعر:

میں زہرِ ہلاہل کوکبھی کہہ نہ سکا قند

انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر میں سخت سے سخت سزائیں بھگتیں اور بڑی سے بڑی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنے نظریاتی مسلک کا سودا کبھی بھی نہیں کیا۔ بس یہی ان کا طرہ امتیاز تھا جو انھیں ان کے بہت سے ہم عصروں سے ممتازکرتا ہے۔ اس کی پاداش میں انھوں نے ناقابل بیان اذیتیں برداشت کیں اور اصول پسندی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی۔ معراج محمد خان نظریاتی سے زیادہ عملی سیاست داں تھے۔ سیاسی منافقت سے انھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کے قول اور فعل میں ذرہ برابر بھی تضاد نہیں تھا۔ وہ بالکل کھرے، سچے اور اپنی بات کے دھنی تھے۔ ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ سیاسی دوغلے پن سے انھیں سخت قسم کی چڑ تھی۔ برے سے برے حالات میں بھی انھوں نے اپنے سیاسی عقائد پرکوئی سمجھوتا کرنا گوارا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بڑی سے بڑی پیشکشوں کو نہایت جرأت مندی اور شان بے نیازی کے ساتھ ٹھکرادیا اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے پر عسرت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔

وضع داری معراج محمد خان کی ایک اور بڑی خوبی تھی جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کیا کرتے ہیں۔ اس کا آخری ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے پرانے سیاسی ساتھی ڈاکٹر رشید حسن خان کی وفات کے بعد ڈاکٹروں کی سخت ہدایت کے باوجود اپنی خرابی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خراج عقیدت و تعزیت ادا کرنے کے لیے سر کے بل چلتے ہوئے پہنچے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے ترک تعلق کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دی اور سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تو اس سے متاثر ہوکر معراج محمد خان نے اس نئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور اس طرح اس پارٹی کی بنیاد رکھنے والے ممبران میں شامل ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب اپنی پارٹی کو سوشلزم کے خطوط پر لے کر چلیں گے۔

بھٹو نے معراج محمد خان اور بعض دیگر بائیں بازو کے لوگوں کو 1970 کے انتخابات کے لیے پارٹی کے ٹکٹ بھی دیے اور معراج محمد خان کو اپنا جانشین بھی مقرر کردیا، لیکن معراج محمد خان ان لوگوں میں شامل تھے جو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کرنے کے مخالف تھے۔ بعدازاں جب سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے اپنی کابینہ میں معراج محمد خان کو وزیر مملکت کی حیثیت سے شامل کرلیا، لیکن یہ بیل زیادہ عرصے تک منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ 1972 میں کراچی کی ایک فیکٹری کی ہڑتال کو جب حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی تو نظریاتی کامریڈ معراج محمد خان سے یہ برداشت نہ ہوا اور انھوں نے وزیر مملکت کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے اندر کا انقلابی بھڑک اٹھا اور وہ اپنی ہی پارٹی کے خلاف علم احتجاج بلند کرتے ہوئے حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر میدان میں کود پڑے اور بھٹو کے خلاف صف آرا ہوگئے۔

بس پھر کیا تھا، حکومت وقت نے نہ صرف انھیں جیل میں ڈال دیا بلکہ ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کے نتیجے میں ان کی صحت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد ہوگئی اور جس کا خمیازہ وہ پوری زندگی بھگتتے رہے۔

جنرل ضیا الحق کی حکومت آئی تو دیگر سیاسی اسیروں کے ساتھ معراج محمد خان کو بھی جیل سے رہائی نصیب ہوئی مگر تب ان کی صحت جواب دے چکی تھی۔ جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے قومی محاذ آزادی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی مگر اس وقت تک ہوا کا رخ بدل چکا تھا اور بائیں بازوکی سیاست کا آفتاب پوری دنیا میں غروب ہونے لگا تھا۔ رہی سہی کسر سوویت یونین کے انہدام نے پوری کردی اور وطن عزیز میں فوجی آمریت نے کوئی گنجائش باقی نہ رہنے دی۔ اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے ملک میں جمہوریت کا دور آیا مگر ایک مرتبہ پھر فوجی آمریت کے ہاتھوں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترگئی۔ پھر جب ملک کے سیاسی حالات نے ایک نئی کروٹ لی تو معراج محمد خان نے اپنی سیاسی جماعت کو عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا مگر افسوس کہ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بقول شاعر:

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔