اپنی پولیس ہے مگر
سالوں پہلے میڈیا پر ایک اشتہار پولیس کے متعلق چلتا تھا کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
سالوں پہلے میڈیا پر ایک اشتہار پولیس کے متعلق چلتا تھا کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔ اب میڈیا پر پولیس سے متعلق ایک اوراشتہار دکھایا جا رہا ہے جس میں لکھا اورکہا جا رہا ہے کہ اپنی پولیس ہے آئیے اسے اپنا سمجھتے ہیں اوراگر پولیس رشوت لیتی ہے تو پولیس کو رشوت دیتا کون ہے روکنا ہے تو دونوں کو روکو اور پولیس کو اپنا سمجھا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پورے ملک کی پولیس نہ صرف اپنی ہے بلکہ اسی معاشرے کا حصہ اور پاکستانی ہے اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سندھ، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کی پولیس میں شامل ہیں۔ چاروں صوبوں کی پولیس کی وردی تقریباً ایک جیسی مگر صوبائی لحاظ سے بیجزکا فرق ہے۔ تین صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان پولیس صرف چند اضلاع تک محدود ہے جس کے متعلق شکایات بھی زیادہ نہیں اور وہاں باقی علاقوں میں لیویز ہے جس کے اپنے تھانے ہیں۔
چاروں صوبوں میں ظلم اور زیادتی میں پنجاب پولیس پہلے اور سندھ پولیس دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے اورکراچی پولیس اندرون سندھ کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس اورعوام کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے جس میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ دیہاتی علاقے میں جانے والی بس بھری ہوئی تھی وہ جب کسی اسٹاپ پر رکی تو کنڈیکٹر نے آواز دی کہ اندر جگہ نہیں صرف دو آدمی اندرآؤمگر ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد اندر آنے لگے توکنڈیکٹر بولا میں نے دو آدمیوں کا کہا ہے جس پر ایک آواز آئی کہ آدمی تو دو ہیں وہ تو پولیس والا ہے۔
کسی زمانے میں پولیس کا خوف اوررعب مشہور تھا اگر ایک سپاہی بھی کسی گاؤں میں آجاتا تھا تو پورا گاؤں گھبرا جاتا تھا جب کہ پولیس جیپ آجانے کی تو بات ہی اور تھی ایک سپاہی کئی ملزموں کو پکڑکر اکیلا تھانے لے آتا تھا اورکوئی چوں چرا نہیں کرتا تھا۔راقم کا گزشتہ 45 سالوں سے پولیس سے واسطہ رہا اور اپنے آبائی شہر میں سب سے بڑے اخبار کے رپورٹر کے طور پر پولیس کے اعلیٰ افسر سے ایک سپاہی تک اچھے تعلقات رہے اورشکارپور میں 22 سالہ رپورٹنگ کے دوران کبھی پولیس سے کوئی شکایت پیدا ہوئی نہ کبھی پولیس اور پریس کے تعلقات خراب دیکھے کیونکہ دونوں میں احترام کا رشتہ برقرار رہا اورخبروں کے لیے پولیس سے کوئی پیسہ نہیں لیا کرتا تھا۔
26 سال قبل کراچی آنے کے بعد کرائمزٹائم سے تعلق کے بعد پولیس سے واسطہ پڑا تو پتا چلا کہ اندرون سندھ اورکراچی کی پولیس میں بہت فرق ہے۔اندرون سندھ کے پولیس اہلکار ترقی اورکمائی کے لیے کراچی آتے تھے جب کہ ملک بھر سے اے ایس پی اور ایس ایس پی سطح کے افسران کی اکثریت جلد امیر ترین بننے کے لیے کراچی تبادلے کراتی تھی اور ان کا کراچی آنے کا مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ صرف اورصرف مال کمانا تھا۔کراچی ملک کی پولیس کے لیے دبئی ہے جہاں پولیس کے لیے دولت بکھری ہوئی ہے جسے سمیٹنا پولیس کے لیے سب سے زیادہ آسان ہیں۔
سندھ کم اورکراچی پولیس میں ایسے مقبول پولیس افسران بھی گزرے ہیں جنھیں عوام اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ان میں ایسے اعلیٰ افسر بھی تھے جو خودکوایماندار قرار دیتے تھے مگر انھوں نے پولیس فنڈ کو نہیں بخشا۔ حکومت جو رقم تھانوں، پولیس کی گاڑیوں، پولیس دفاتر، اسٹیشنری اور اہلکاروں کے لیے دیتی تھی وہ متعلقہ پولیس افسر کی مرضی سے فرضی اخراجات کے بل بناکر ہڑپ کرلی جاتی تھی۔
اچھی شہرت کا حامل اب شاذونادر ہی شاید کہیں اعلیٰ پولیس افسر مل جائے مگر جب سے پولیس کا فرض عوام کی خدمت کی بجائے صرف مال بنانا رہ جائے تو وہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے جیسی نہیں رہتی کراچی پولیس سندھ میں ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی اقدامات، لاقانونیت، جھوٹے مقدمات میں پھنسانے، رشوت وصولی کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے، نجی ٹارچر سیل چلانے، سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے اورکرانے، ریڑھیاں، پتھارے اور تجاوزات قائم کرانے، تعمیری کام کرانے والوں سے رشوت وصول کرنے کی شکایات کے علاوہ جرائم خود کرانے،گاڑیاں چھنوانے کے ساتھ لوگوں کو اغوا کرنے جیسی سنگین وارداتوں میں بھی حقیقی طور پر ملوث ہے۔ اور اغوا کے الزام میں پولیس افسران تک گرفتار ہوچکے ہیں۔
کراچی کے تھانوں میں اکثر ایس ایچ او بادشاہ بنے رہتے ہیں جن سے ملنا مشکل اور اعلیٰ پولیس افسروں سے ملنا آسان ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ کراچی میں تھانے فروخت ہوتے ہیں جب کہ سابق صدر فاروق لغاری بیس سال قبل کہہ چکے تھے کہ ایئرپورٹ تھانہ ایک کروڑ میں بکتا ہے۔ کراچی میں بااثر سپاہی اپنے ایس ایچ او کا اور بااثر ایس ایچ او اپنے ایس ایس پی کا تبادلہ کرانے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ قتل، اقدام قتل ، اغوا اور غیر قانونی قبضوں میں معمولی اہلکار سے لے کر ڈی آئی جی پولیس سطح کے افسران تک نہ صرف ملوث ہیں بلکہ ان کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں اور حیرت ہے کہ متعدد ڈیوٹی بھی کر رہے ہیں اور سیاسی بنیاد پر من پسند افسروں کو غیر قانونی طور پر نوازا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ سیاسی بنیاد پر پولیس میں آنے والے عوام کو اپنا سمجھیں گے کیونکہ ان کے نزدیک اپنے عوام نہیں بلکہ وہ ہیں جنھوں نے انھیں بھرتی اور کمائی کی جگہ پر سیاسی بنیاد پر رکھوایا ہوا ہے۔ اب پولیس میں بھرتی، تقرر و تبادلے بھاری رشوت پر ہوتے ہیں تو ایسا کون سا افسر یا اہلکار ہوگا جو رشوت لے کر اپنی رقم پوری نہیں کرے گا اور بے گناہ پکڑے گئے لوگوں کو مفت میں چھوڑ دے گا۔
پولیس عوام ساتھ ساتھ کے اشتہاروں میں کہا جا رہا ہے کہ رشوت دینے والے بھی عوام ہیں یہ بات درست تو ہے مگر پولیس واحد محکمہ ہے کہ جہاں پھنسنے والوں کی اکثریت جھوٹے سچے مقدمات سے نجات کے لیے پولیس کی دھمکی کے بعد مجبوری میں رشوت دیتے ہیں۔ پولیس مقدمات میں سنگین دفعات لگانے کی دھمکی دے کر مقابلے میں مار دینے کا خوف دلا کر رشوت وصول کرتی ہے اور بے گناہوں کو زیورات فروخت کرکے یا قرضے لے کر پولیس سے جان چھڑانا پڑتی ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے مخالفین کو پھنسانے یا معمولی مسئلے کو سنگین مسئلہ بنانے کی دفعات لگوانے کے لیے پولیس کو رشوت دیتے ہیں تو پولیس ایسے لوگوں سے رشوت کیوں لے لیتی ہے اور انھیں رشوت دینے کے الزام میں گرفتار کیوں نہیں کرتی تاکہ پولیس کی نیک نامی ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سب پولیس اہلکار اور افسر ایسے نہیں ہیں جن کی وجہ سے پولیس اور عوام کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہوچکی ہے کہ لوگ پولیس کو کسی کام کے بغیر سلام بھی نہیں کرتے حالانکہ اسلام میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کی تاکید کی گئی ہے مگر پولیس اور عوام کے درمیان بڑھتی دوریوں نے یہ محسوس کرادیا ہے کہ عام لوگ پولیس سے دور بھاگتے ہیں اور پولیس کو سلام سے بھی گریزکرتے ہیں۔ سلام نہ کرنے کی بھی حقیقی وجوہات ہیں۔ ایک سینئر کرائم رپورٹر کا کہنا تھا کہ جب پولیس آپ کو روکے تو انھیں سلام مت کرو وگرنہ وہ سمجھیں گے کہ ڈر گیا یا رعب میں آگیا لہٰذا دبالو۔پولیس کو عوام کو کیسے قریب لایا جاسکتا ہے یہ ناممکن نہیں مگر پہل خود پولیس کوکرنا ہوگی کیسے یہ آیندہ کالم میں پیش کروں گا۔