وزیراعلیٰ سندھ کا منصب کانٹوں کی سیج پہلاحصہ
خبرگرم تھی کہ قائم علی شاہ کووزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جارہا ہے
خبرگرم تھی کہ قائم علی شاہ کووزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جارہا ہے اوران کی جگہ کسی اورکو اس منصب کی ذمے داری دی جائے گی۔اس سلسلے میں خاص طورپر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کافی دلچسپی لی ہے ،کیونکہ سندھ حکومت کے سامنے کچھ مسائل ایسے تھے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی اور ناموس کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس میں سب سے بڑی بدنامی یہ ہے کہ سندھ میں رشوت کا بازار اتنا گرم ہے کہ کوئی بھی کام لیے دیے بغیرنہیں ہورہا ہے۔ وزرا اور سندھ حکومت کے افسران کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی پاور نہیں ،انھیں صرف احکامات دیے جاتے ہیں جن کی تعمیل کرنی ہوتی ہے، بہرحال جب صوبے کا وزیر اعلیٰ ہی بے بس ہوتو باقی اقتدار میں رہنے والے کیا کرسکتے ہیں۔
اچانک سندھ حکومت میں تبدیلی آئی ہے، قائم علی شاہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ سید مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ کی کرسی سنبھال لی ہے۔ انھوں نے اپنی چھوٹی سی کیبنٹ کا اعلان کردیا ہے جس میں کچھ پرانے اورکچھ نئے چہروں نے وزارت کا حلف اٹھاکر اپنا کام شروع کردیا ہے۔
ان میں کچھ وزرا ہیں،کچھ مشیر ہیں اورکچھ اسپیشل اسسٹنٹ۔ باقی پرانے اور نئے ایم پی ایز اوردوسروں نے وزارت حاصل کرنے کے لیے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ، بہت سے دبئی کا چکر لگا رہے ہیں اورکچھ مراد علی شاہ کے آگے پیچھے گھوم پھر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کا نام اس لاٹری میں نکلتا ہے۔بعض کا نکلا بھی ہے، مزید 9 وزرا 11 معاونین خصوصی شامل کیے گئے ہیں، لیاری کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے آتے ہی بڑے جانداربیانات دینا شروع کیے ہیں اورعملی طور پر بھی کچھ کرنے کی کوشش کرنے کے لیے سرکاری دفاتر کا اچانک دورہ کرنا،آئی جی پولیس سندھ سے ملاقات کرنا اور سرکاری افسران کو وارننگ دینا، اور کراچی شہر میں بارش کے بعد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا شامل ہیں ۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے کالم میں بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعلیٰ کے لیے دو ناموں کا ذکر کیا تھا جس میں ایک سید مراد علی شاہ اور دوسرا سکندر میندھرو کا تھا۔ چلو اچھا ہے اس بڑی ذمے داری کے لیے مراد علی شاہ کو چنا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصب کو قبول کرنے سے پہلے انھوں نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اپنے لیے پاورزکے بارے میں کیا بات کی ہے۔
اگر انھیں آزادی سے کام کرنے کے لیے گرین سگنل مل چکا ہے تو پھر وہ درست انداز میں کام کرنے میں کافی حد تک کامیاب جائیں گے، لیکن اگر وہی مداخلت جاری رہی تو پھر صرف چہرہ تبدیل ہونے والی بات ہوجائے گی۔ اس منصب کو حاصل کرنے کے لیے ہر ایم پی اے زرداری کے پیچھے لگا رہا ہے۔ ان دوستوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وزیراعلیٰ کا منصب پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ یہ ذمے داری کانٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جیسے ہی یہ پتا لگا کہ سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں تو کرپشن کرنے والوں نے ان کے آگے پیچھے منڈلانا شروع کردیا جس میں بددیانت سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔
اگر مراد علی شاہ سندھ کوکرپشن اور Bad Governance سے آزادکرانا چاہتے ہیں اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے لگیں گے تو انھیں چاپلوس،کرپٹ اور بددیانت قسم کے ٹولوں کو اپنے آپ سے دور رکھنا ہوگا اور میرٹ کو اہمیت دینی پڑے گی ، ورنہ اس کے 18 مہینے اقتدار میں گزر بھی جائیں گے، مگر تاریخ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں انھیں اپنے والد عبداللہ شاہ کی محنت، خدمت اورکارکردگی کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ سب سے پہلے انھیں ماضی میں کارکردگی نہ دکھانے والوں کو فارغ کرنا ہوگا۔
سچے، محنتی اورعوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ایم پی ایزکو اپنی کیبنٹ میں لانا ہوگا۔اس کے علاوہ اسے Advisors کے لیے سیاست سے باہر اچھے،کام والے ایماندار لوگوں کو شامل کرنا ہوگا جن کا اچھا کردار اور ٹیلنٹ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان سرکاری افسران کو ڈھونڈنا ہوگا جو صوبے کے لیے اور عوام کی خدمت کرسکیں۔ ان افسران کے خلاف قانونی کارروائی ضرورکریں تاکہ انھیں پتا لگے کہ اب کرپٹ اور نااہل افسران کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اب وہ اپنے آپ کو صحیح کریں یا پھر استعفیٰ دے دیں۔ اس سے گڈگورننس میں مدد ملے گی اور پی پی پی کے ماتھے پر لگا ہوا کرپشن کا دھبہ بھی دھل جائے گا۔ وزارت کے لیے ان کو لایا جائے جنھیں محکمے کے بارے میں علم اور جانکاری ہو یا وہ اس کا ماہر ہو، اگرکوئی ماہر نہیں ملتا ہے تو پھر اس ادارے کے لیے ایڈوائزر رکھا جائے۔
اس سلسلے میں ایک اور بات یہ بھی ہے کہ جو اسپیشل اسسٹنٹ رکھے جاتے ہیں وہ تو17 گریڈ کے افسر کے طور پر ہوتے ہیں جنھیں وزیرکے طور پر کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور محکمے کا سیکریٹری جو 20 گریڈ کا افسر ہوتا ہے اور وہ اس کے ماتحت کام کرتا ہے جو قانونی طور پر صحیح نہیں ہے۔ وزیر یا سیکریٹری جن کا کام ہے کہ وہ صوبے کے اندر دی گئی ذمے داریوں کو اچھے طریقے سے نبھائیں اور عوام کی خدمت کریں ان کے مسائل حل کریں صوبے میں ترقی ہو، لوگوں کو سہولتیں ملیں اور خوشحالی ہے جس کے لیے انھیں تنخواہ اور دوسری سہولتیں ملتی ہیں جس میں انھیں ایئرکنڈیشن دفتر، گھر اورگاڑی ملتی ہے۔
فون کی مراعات، پٹرول، ٹی اے ڈی اے، نوکر چاکر اور بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اب یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ وہ دفتر میں صرف بیٹھے رہیں اور کارکردگی صفر ہو یا پھر اسمبلی میں سوتے ہوئے نظر آئیں۔ ان کے آگے پیچھے پولیس اور افسران کا پروٹوکول رہے اور عوام جب کام سے ملنے آئے تو بتایا جائے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں یا پھر ٹوئر پر گئے ہوئے ہیں۔ ان کی گاڑیاں ان کے بچوں کے حوالے ہیں، دفتر کے ملازم ان کے گھروں میں کام کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)
اچانک سندھ حکومت میں تبدیلی آئی ہے، قائم علی شاہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ سید مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ کی کرسی سنبھال لی ہے۔ انھوں نے اپنی چھوٹی سی کیبنٹ کا اعلان کردیا ہے جس میں کچھ پرانے اورکچھ نئے چہروں نے وزارت کا حلف اٹھاکر اپنا کام شروع کردیا ہے۔
ان میں کچھ وزرا ہیں،کچھ مشیر ہیں اورکچھ اسپیشل اسسٹنٹ۔ باقی پرانے اور نئے ایم پی ایز اوردوسروں نے وزارت حاصل کرنے کے لیے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ، بہت سے دبئی کا چکر لگا رہے ہیں اورکچھ مراد علی شاہ کے آگے پیچھے گھوم پھر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کا نام اس لاٹری میں نکلتا ہے۔بعض کا نکلا بھی ہے، مزید 9 وزرا 11 معاونین خصوصی شامل کیے گئے ہیں، لیاری کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے آتے ہی بڑے جانداربیانات دینا شروع کیے ہیں اورعملی طور پر بھی کچھ کرنے کی کوشش کرنے کے لیے سرکاری دفاتر کا اچانک دورہ کرنا،آئی جی پولیس سندھ سے ملاقات کرنا اور سرکاری افسران کو وارننگ دینا، اور کراچی شہر میں بارش کے بعد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا شامل ہیں ۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے کالم میں بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعلیٰ کے لیے دو ناموں کا ذکر کیا تھا جس میں ایک سید مراد علی شاہ اور دوسرا سکندر میندھرو کا تھا۔ چلو اچھا ہے اس بڑی ذمے داری کے لیے مراد علی شاہ کو چنا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصب کو قبول کرنے سے پہلے انھوں نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اپنے لیے پاورزکے بارے میں کیا بات کی ہے۔
اگر انھیں آزادی سے کام کرنے کے لیے گرین سگنل مل چکا ہے تو پھر وہ درست انداز میں کام کرنے میں کافی حد تک کامیاب جائیں گے، لیکن اگر وہی مداخلت جاری رہی تو پھر صرف چہرہ تبدیل ہونے والی بات ہوجائے گی۔ اس منصب کو حاصل کرنے کے لیے ہر ایم پی اے زرداری کے پیچھے لگا رہا ہے۔ ان دوستوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وزیراعلیٰ کا منصب پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ یہ ذمے داری کانٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جیسے ہی یہ پتا لگا کہ سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں تو کرپشن کرنے والوں نے ان کے آگے پیچھے منڈلانا شروع کردیا جس میں بددیانت سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔
اگر مراد علی شاہ سندھ کوکرپشن اور Bad Governance سے آزادکرانا چاہتے ہیں اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے لگیں گے تو انھیں چاپلوس،کرپٹ اور بددیانت قسم کے ٹولوں کو اپنے آپ سے دور رکھنا ہوگا اور میرٹ کو اہمیت دینی پڑے گی ، ورنہ اس کے 18 مہینے اقتدار میں گزر بھی جائیں گے، مگر تاریخ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں انھیں اپنے والد عبداللہ شاہ کی محنت، خدمت اورکارکردگی کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ سب سے پہلے انھیں ماضی میں کارکردگی نہ دکھانے والوں کو فارغ کرنا ہوگا۔
سچے، محنتی اورعوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ایم پی ایزکو اپنی کیبنٹ میں لانا ہوگا۔اس کے علاوہ اسے Advisors کے لیے سیاست سے باہر اچھے،کام والے ایماندار لوگوں کو شامل کرنا ہوگا جن کا اچھا کردار اور ٹیلنٹ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان سرکاری افسران کو ڈھونڈنا ہوگا جو صوبے کے لیے اور عوام کی خدمت کرسکیں۔ ان افسران کے خلاف قانونی کارروائی ضرورکریں تاکہ انھیں پتا لگے کہ اب کرپٹ اور نااہل افسران کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اب وہ اپنے آپ کو صحیح کریں یا پھر استعفیٰ دے دیں۔ اس سے گڈگورننس میں مدد ملے گی اور پی پی پی کے ماتھے پر لگا ہوا کرپشن کا دھبہ بھی دھل جائے گا۔ وزارت کے لیے ان کو لایا جائے جنھیں محکمے کے بارے میں علم اور جانکاری ہو یا وہ اس کا ماہر ہو، اگرکوئی ماہر نہیں ملتا ہے تو پھر اس ادارے کے لیے ایڈوائزر رکھا جائے۔
اس سلسلے میں ایک اور بات یہ بھی ہے کہ جو اسپیشل اسسٹنٹ رکھے جاتے ہیں وہ تو17 گریڈ کے افسر کے طور پر ہوتے ہیں جنھیں وزیرکے طور پر کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور محکمے کا سیکریٹری جو 20 گریڈ کا افسر ہوتا ہے اور وہ اس کے ماتحت کام کرتا ہے جو قانونی طور پر صحیح نہیں ہے۔ وزیر یا سیکریٹری جن کا کام ہے کہ وہ صوبے کے اندر دی گئی ذمے داریوں کو اچھے طریقے سے نبھائیں اور عوام کی خدمت کریں ان کے مسائل حل کریں صوبے میں ترقی ہو، لوگوں کو سہولتیں ملیں اور خوشحالی ہے جس کے لیے انھیں تنخواہ اور دوسری سہولتیں ملتی ہیں جس میں انھیں ایئرکنڈیشن دفتر، گھر اورگاڑی ملتی ہے۔
فون کی مراعات، پٹرول، ٹی اے ڈی اے، نوکر چاکر اور بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اب یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ وہ دفتر میں صرف بیٹھے رہیں اور کارکردگی صفر ہو یا پھر اسمبلی میں سوتے ہوئے نظر آئیں۔ ان کے آگے پیچھے پولیس اور افسران کا پروٹوکول رہے اور عوام جب کام سے ملنے آئے تو بتایا جائے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں یا پھر ٹوئر پر گئے ہوئے ہیں۔ ان کی گاڑیاں ان کے بچوں کے حوالے ہیں، دفتر کے ملازم ان کے گھروں میں کام کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)