’’وزیرداخلہ کی ناقص معلوماتاحسان اللہ احسان فرضی نام ہے‘‘
طالبان ترجمان کی تلاش کیلیے عوام سے مددمانگناخفیہ اداروں کی بے بسی کوظاہرکرتاہے
KARACHI:
وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کی طرف سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کے بارے معلومات فراہم کرنے والے کو20کروڑ روپے انعام دینے کے اعلان پرانکشاف ہواہے کہ احسان اللہ احسان ایک فرضی نام ہے۔
وزیرداخلہ نے اس سے پہلے سوات میںملالہ یوسف زئی پرحملے کی ذمے داری قبول کرنے پر بھی احسان اللہ احسان کے سرکی قیمت10لاکھ ڈالرمقررکی تھی ۔حالیہ بیان اس لحاظ سے بھی منفردہے کیونکہ وفاق وزیررحمن ملک کوئی عام وزیر نہیں بلکہ وہ وزارت داخلہ کے وزیرہیں جوملک کی سب سے اہم وزارت سمجھی جاتی ہے،اس عہدے پرمامورشخصیت کوملک کے دوسرے اہلکاروںکی نسبت ہر چیز کازیادہ علم ہوتاہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے خفیہ ادارے بھی ان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں لیکن جب انھیں اس بات کاعلم نہیں کہ دھماکوں کی ذمے داری قبول کرنے والا کون ہے توکسی عام شخص سے کیاتوقع کی جاسکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق بظاہرایسا لگ رہاہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے پاس معلومات کا شدید فقدان پایا جاتاہے اورشایدخفیہ ادارے بھی بے بس ہیں اس لیے عوام سے احسان اللہ احسان کی تلاش میں مددمانگ رہے ہیں۔دوسری طرف وفاقی وزیر رحمن ملک کی یہ بات کہ احسان اللہ احسان کاتحریک طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اگرسچ ہے تو پھر تحریک طالبان احسان اللہ احسان کی طرف سے قبول کی جانے والی ذمے داریوں کی تردید کیوں نہیں کرتی،تحریک طالبان پاکستان نے اب تک ان کے کسی بھی دعوے سے انکارنہیں کیا ۔
شدت پسندی پرتحقیق کرنے والے ماہرین کا کہناہے کہ احسان اللہ احسان کوئی ایک آدمی نہیں کہ ان کے سرکی قیمت مقرر کی جائے بلکہ یہ تو ایک نام ہے جو طالبان کی طرف سے رکھاگیاہے ، اگرموجودہ احسان اللہ احسان نہیں رہے توکوئی دوسرا اسی نام سے سامنے آجائے گا،طالبان پاکستان میں اندونی اختلافات ضرور پائے جاتے ہیں مگر وہ اتنے بڑے پیمانے پرنہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے وجودکوکوئی خطرہ ہوجائے۔
وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کی طرف سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کے بارے معلومات فراہم کرنے والے کو20کروڑ روپے انعام دینے کے اعلان پرانکشاف ہواہے کہ احسان اللہ احسان ایک فرضی نام ہے۔
وزیرداخلہ نے اس سے پہلے سوات میںملالہ یوسف زئی پرحملے کی ذمے داری قبول کرنے پر بھی احسان اللہ احسان کے سرکی قیمت10لاکھ ڈالرمقررکی تھی ۔حالیہ بیان اس لحاظ سے بھی منفردہے کیونکہ وفاق وزیررحمن ملک کوئی عام وزیر نہیں بلکہ وہ وزارت داخلہ کے وزیرہیں جوملک کی سب سے اہم وزارت سمجھی جاتی ہے،اس عہدے پرمامورشخصیت کوملک کے دوسرے اہلکاروںکی نسبت ہر چیز کازیادہ علم ہوتاہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے خفیہ ادارے بھی ان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں لیکن جب انھیں اس بات کاعلم نہیں کہ دھماکوں کی ذمے داری قبول کرنے والا کون ہے توکسی عام شخص سے کیاتوقع کی جاسکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق بظاہرایسا لگ رہاہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے پاس معلومات کا شدید فقدان پایا جاتاہے اورشایدخفیہ ادارے بھی بے بس ہیں اس لیے عوام سے احسان اللہ احسان کی تلاش میں مددمانگ رہے ہیں۔دوسری طرف وفاقی وزیر رحمن ملک کی یہ بات کہ احسان اللہ احسان کاتحریک طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اگرسچ ہے تو پھر تحریک طالبان احسان اللہ احسان کی طرف سے قبول کی جانے والی ذمے داریوں کی تردید کیوں نہیں کرتی،تحریک طالبان پاکستان نے اب تک ان کے کسی بھی دعوے سے انکارنہیں کیا ۔
شدت پسندی پرتحقیق کرنے والے ماہرین کا کہناہے کہ احسان اللہ احسان کوئی ایک آدمی نہیں کہ ان کے سرکی قیمت مقرر کی جائے بلکہ یہ تو ایک نام ہے جو طالبان کی طرف سے رکھاگیاہے ، اگرموجودہ احسان اللہ احسان نہیں رہے توکوئی دوسرا اسی نام سے سامنے آجائے گا،طالبان پاکستان میں اندونی اختلافات ضرور پائے جاتے ہیں مگر وہ اتنے بڑے پیمانے پرنہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے وجودکوکوئی خطرہ ہوجائے۔